اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے(شکیل احمد خان)

دِل ہے متاعِ عیب کوئی پوچھتا نہیں
اب جا کسے دکھائیں ہمیں سوجھتا نہیں

تو ہے جدا تو حال ہوا چشمِ تر کا یہ
دریا سا اِک رواں ہے کہ جو سوکھتا نہیں

الفاظ روحِ معنی سے محروم ہوگئے
میں کہہ رہا ہوں یار مگر بوجھتا نہیں

انداز جو تھے پہلے زمانے کے اب کہاں
دیدہ وروں میں کوئی انہیں ڈھونڈتا نہیں

پھنس کر بھنور سے نکلے تو ساحل بھنور لگا
سر گشتگی میں کچھ بھی ہمیں سوجھتا نہیں

آدم کا اِک شرف ذرا یہ بھی تو دیکھیے
ہو جائے پاش پاش مگر ٹوٹتا نہیں
 
آخری تدوین:
جناب شکیل صاحب، آداب!
میری ناچیز رائے میں غزل کے قوافی محلِ نظر ہیں۔ پوچھ، سوجھ، ڈھونڈ، ٹوٹ وغیرہ قافیے کیسے ہوسکتے ہیں؟
محترم!
آپ کی نگہ التفات ہی نعمت سے کم نہیں ،آپ کی بیش قدر رائے کی روشنی میں اِس کاوش کو سنوارنے کی سعی کرتا ہوں۔آپ کی محبت کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ۔امید ہے آئندہ بھی مرے حال پر نظر کرم رہے گی،انشاء اللہ!
 
محترم!
آپ کی نگہ التفات ہی نعمت سے کم نہیں ،آپ کی بیش قدر رائے کی روشنی میں اِس کاوش کو سنوارنے کی سعی کرتا ہوں۔آپ کی محبت کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ۔امید ہے آئندہ بھی مرے حال پر نظر کرم رہے گی،انشاء اللہ!
بس یہ مختصر اصول یاد رکھیں کہ اگر قوافی مصادر سے بنائے جائیں، تو مصادر کے صیغہ ہائے امر کا بھی ہم قافیہ ہونا لازمی ہوتا ہے۔
اس غزل کے تناظر میں سوجھ اور بوجھ درست قافیہ ہوں گے۔ پوچھ بھی (کھینچ تان کر، ج اور چ کو قریب المخرج مانا جائے تو) شاید چل جائے۔ مگر ٹوٹ، اور ڈھونڈ اس اصول پر پورے نہیں اترتے۔
یہ ایطاء کہلاتا ہے، جو قافیہ کے عیوب میں سے ہے، جس سے احتراز کرنا بہتر ہے۔
ڈھونڈنے پر مشاہیر کے کلام میں ایسی مثالیں مل جائیں گی، جو ایطا کا شکار ہیں۔ جیسے امجد اسلام امجدؔ کی ایک مشہور غزل ہے
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
تاہم ایسی مثالوں سے سند پکڑنا درست نہیں۔
چونکہ، قافیہ سے ہٹ کر اشعار کا معیار اچھا ہے، آپ چاہیں تو بیاض میں یونہی برقرار بھی رکھ سکتے ہیں ۔۔۔ مگر پھر تنقید کے لئے خود کو تیار رکھنا پڑے گا :)
 
بس یہ مختصر اصول یاد رکھیں کہ اگر قوافی مصادر سے بنائے جائیں، تو مصادر کے صیغہ ہائے امر کا بھی ہم قافیہ ہونا لازمی ہوتا ہے۔
اس غزل کے تناظر میں سوجھ اور بوجھ درست قافیہ ہوں گے۔ پوچھ بھی (کھینچ تان کر، ج اور چ کو قریب المخرج مانا جائے تو) شاید چل جائے۔ مگر ٹوٹ، اور ڈھونڈ اس اصول پر پورے نہیں اترتے۔
یہ ایطاء کہلاتا ہے، جو قافیہ کے عیوب میں سے ہے، جس سے احتراز کرنا بہتر ہے۔
ڈھونڈنے پر مشاہیر کے کلام میں ایسی مثالیں مل جائیں گی، جو ایطا کا شکار ہیں۔ جیسے امجد اسلام امجدؔ کی ایک مشہور غزل ہے
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
تاہم ایسی مثالوں سے سند پکڑنا درست نہیں۔
چونکہ، قافیہ سے ہٹ کر اشعار کا معیار اچھا ہے، آپ چاہیں تو بیاض میں یونہی برقرار بھی رکھ سکتے ہیں ۔۔۔ مگر پھر تنقید کے لئے خود کو تیار رکھنا پڑے گا :)
محترم!
انشاء اللہ ، اِنہی نِکات کی روشنی میں اِنہی خیالات کو سنوار کر اور قوافی کے عیوب سے پاک کرکے جلد ہی پیش کروں گا ،رہنمائی کے لیے ایک بار پھر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ قبول فرمائیں اور پھر وہی استدعا کہ میری ٹوٹی پھوٹی ، کج مج اورہیچ کاوشوں کو اپنی بیش بہا آراء اور بیش قدر تجاویز سے ضرور نوازتے رہیں۔
 

akhtarwaseem

محفلین
صیغہ امر کا مطلب ہے فعل کا وہ صیغہ جس میں کسی کام کا حکم دیا جا رہا ہو۔ مثلا ۔۔۔ کر، پڑھ، بیٹھ، چل وغیرہ
ان سب کے مصادر بالترتیب کرنا، پڑھنا، بیٹھنا، چلنا ہیں۔
سو اصول یہ ہے کہ مصدر سے مشتق فعل امر اگر ہم قافیہ نہیں تو قافیہ قائم نہیں ہوگا
یعنی کرنا، پڑھنا، چلنا محض مشترکہ "نا" کی وجہ سے مطلع میں بطور قافیہ جمع نہیں کئے جاسکتے۔
 

akhtarwaseem

محفلین
صیغہ امر کا مطلب ہے فعل کا وہ صیغہ جس میں کسی کام کا حکم دیا جا رہا ہو۔ مثلا ۔۔۔ کر، پڑھ، بیٹھ، چل وغیرہ
ان سب کے مصادر بالترتیب کرنا، پڑھنا، بیٹھنا، چلنا ہیں۔
سو اصول یہ ہے کہ مصدر سے مشتق فعل امر اگر ہم قافیہ نہیں تو قافیہ قائم نہیں ہوگا
یعنی کرنا، پڑھنا، چلنا محض مشترکہ "نا" کی وجہ سے مطلع میں بطور قافیہ جمع نہیں کئے جاسکتے۔

احسن بھائی، جب پہلی بار میں نے یہ غزل دیکھی تو مجھے بہت پسند آئی،
پھر آپ کے نکات پہ غور کیا تو پتا چلا کہ اِس میں کیا خامی ہے، ورنہ
مجھے تو خبر نہ ہوتی کہ شاعری میں یہ بھی ایک عیب شمار ہوتا ہے۔
ماشاءاللہ آپ کا مشاہدہ اور علم بہت زبردست ہیں۔ اللہ پاک آپ کے
علم میں مزید اضافہ فرمائے۔

بس ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ جس نقص کی طرف آپ نے
اشارہ کیا ہے، وہ تو آج کل جابجا دیکھنے میں آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ
میرے جیسے نوواردوں کی واردات ہی ہو سکتی ہے، لیکن یہ نقطہ انتہائی باریک
ہے اور اِس خامی سے بچنے کے لیئے ایک لکھنے والے کو خاصا محتاط بھی
رہنا ہو گا۔ لیکن اِس نقطے کو مدِنظر رکھے بنا آج کل جو شاعری پڑھنے
کو ملتی ہے، اُس کا کیا کیا جائے؟
 
بھائی یہ محض آپ کا حسن ظن ہے، وگرنہ میں محض وہ نقل کر دیتا ہوں جو اساتذہ سے سنا۔ مکرمی و استاذی سرور عالم راز صاحب کا ارادت مند ہوں، جو کچھ بھی مجھے معلوم ہے اس کا 80 فیصد انہی کا فیض ہے۔

رہنا ہو گا۔ لیکن اِس نقطے کو مدِنظر رکھے بنا آج کل جو شاعری پڑھنے
کو ملتی ہے، اُس کا کیا کیا جائے؟
انا للہ پڑھ کر صبر کرنے کے علاوہ کیا بھی کیا جاسکتا ہے :)
 

akhtarwaseem

محفلین
صیغہ امر کا مطلب ہے فعل کا وہ صیغہ جس میں کسی کام کا حکم دیا جا رہا ہو۔ مثلا ۔۔۔ کر، پڑھ، بیٹھ، چل وغیرہ
ان سب کے مصادر بالترتیب کرنا، پڑھنا، بیٹھنا، چلنا ہیں۔
سو اصول یہ ہے کہ مصدر سے مشتق فعل امر اگر ہم قافیہ نہیں تو قافیہ قائم نہیں ہوگا
یعنی کرنا، پڑھنا، چلنا محض مشترکہ "نا" کی وجہ سے مطلع میں بطور قافیہ جمع نہیں کئے جاسکتے۔

ایک بار پھر سے آپ کے اس نقطے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں،
یقین جانئیے میرے اوسان خطا ہو رہے ہیں، سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں
کہ شاعری سے توبہ تائب کر لوں کیوںکہ اس میدان میں اب قوانین زیادہ
دیکھائی دے رہے ہیں جبکہ شاید اتنے پڑھنے والے بھی نا بچے ہوں۔

کیا شاعری کی کوئی ایسی صنف بھی ہے جیسے "غیرقانونی شاعری"؟
جہاں میرے جیسے لوگ جو بےجا قوانین سے عاجز ہیں، وہ اپنا شوق
پور کر سکیں؟ بجائے اَس کے کہ شاعری سے توبہ ہی کر لیں؟
 
محترم !
قافیوں کے عیوب اپنے خیال میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دور کرکے یہ غزل پھر آپ کے حضور پیش ہے اور اِصلاح کی خواستگار ہے:

دل ہے متاعِ عیب خریدار ہی نہیں
ہے مصر اپنی جا پہ وہ بازار ہی نہیں

یہ آنکھ عین آنکھ تھی پر اب ہے چشمِ تر
کچھ تو ہی جان اور اِسے آزار ہی نہیں

الفاظ روحِ معنی سے یکسر ہوئے تہی
یہ دکھ ہے وہ کہ قابلِ اظہار ہی نہیں

انداز ہائے گزرے زمانے کے ہیں ہوا
لاؤں کہاں سے کوئی طرح دار ہی نہیں

’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘
جب کار و بارِ شوق میں اِتوار ہی نہیں

نکلا بھنور سے بچ کے تو ساحل بھنور لگا
یوں سر پھِراؤں جیسے سمجھدار ہی نہیں

آدم کا اک مقام ذرا یہ بھی دیکھ تو
کرلے جو عزم پھر کوئی دیوار ہی نہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
دل ہے متاعِ عیب خریدار ہی نہیں
ہے مصر اپنی جا پہ وہ بازار ہی نہیں
.. دوسرا مصرع روانی چاہتا ہے، جو 'اپنی جا پہ' کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے
ہے مصر تو ضرور، وہ بازار ہی نہیں
بہتر ہو گا

یہ آنکھ عین آنکھ تھی پر اب ہے چشمِ تر
کچھ تو ہی جان اور اِسے آزار ہی نہیں
... عین بطور محاورہ یہاں درست نہیں افرچہ آنکھ کی مناسبت سے اچھا لگ رہا ہے
یہ آنکھ صرف آنکھ....
لیکن دوسرے مصرعے میں وضاحت نہیں ہو رہی۔ اور بطور خاص 'ہی نہیں' کی معنویت پیدا نہیں کی گئی، محض آزار نہیں سے ہی بات مکمل ہو جاتی ہے

الفاظ روحِ معنی سے یکسر ہوئے تہی
یہ دکھ ہے وہ کہ قابلِ اظہار ہی نہیں
.. درست

انداز ہائے گزرے زمانے کے ہیں ہوا
لاؤں کہاں سے کوئی طرح دار ہی نہیں
... اولی مصرع واضح نہیں

’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘
جب کار و بارِ شوق میں اِتوار ہی نہیں
... مزے کا شعر ہے لیکن *جب' کیوں؟ محض ایک statement ہی رہنے دیں
اس کاروبار.....

نکلا بھنور سے بچ کے تو ساحل بھنور لگا
یوں سر پھِراؤں جیسے سمجھدار ہی نہیں
.. ثانی مصرع سمجھ میں نہیں آیا

آدم کا اک مقام ذرا یہ بھی دیکھ تو
کرلے جو عزم پھر کوئی دیوار ہی نہیں
.. درست
 
یہ آنکھ صرف آنکھ....
لیکن دوسرے مصرعے میں وضاحت نہیں ہو رہی۔ اور بطور خاص 'ہی نہیں' کی معنویت پیدا نہیں کی گئی، محض آزار نہیں سے ہی بات مکمل ہو جاتی ہے

۱)۔۔۔۔۔دل ہے متاعِ عیب خریدار ہی نہیں
ہے مصر تو ضرور وہ بازار ہی نہیں​
۲)۔۔۔۔۔یہ آنکھ صرف آنکھ تھی پر اب ہے چشمِ تر
کچھ تُوسمجھ کہ اور اِسے آزار ہی نہیں۔۔۔۔یا ۔۔۔۔کچھ تَو سمجھ ۔۔الخ۔۔۔۔یا ۔۔۔تو جانتا ہے اور اِسے آزار ہی نہیں ؟؟؟​
۳)۔۔۔۔۔انداز اب وہ گزرے زمانے کے گم ہوئے
لاؤں کہاں سے کوئی طرح دار ہی نہیں
۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔
انداز دلربائی کے لوگوں سے اٹھ گئے
کہدو جہاں میں کوئی طرح دار ہی نہیں۔۔۔۔یا۔۔۔محفل میں تیری کوئی طرح دار ہی نہیں۔۔۔یا۔۔۔محفل میں آج کوئی طرح دار ہی نہیں؟؟؟​
۴)۔۔۔۔۔’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘
اِس کار وبارِ شوق میں اتوار ہی نہیں۔۔۔۔یا۔۔۔سب کچھ ہے زندگی میں اک اتوار ہی نہیں؟؟​
۵)۔۔۔۔۔نکلا بھنور سے بچ کے تو ساحل لگا بھنور
سرگشتگی میں دِل ہوا سرشار ہی نہیں۔۔۔سرگشتگی میں دل مرا مختار ہی نہیں۔۔۔۔سرگشتگی میں عقل کے آثار ہی نہیں۔۔۔۔سرگشتگی میں عقل ابھی تیار ہی نہیں۔۔یا ۔۔سرگشتگی میں عقل ابھی ہشیار ہی نہیں۔۔۔حیراں ہے عقل دِل ابھی تیار ہی نہیں​
 
آخری تدوین:
ایک بار پھر سے آپ کے اس نقطے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں،
یقین جانئیے میرے اوسان خطا ہو رہے ہیں، سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں
کہ شاعری سے توبہ تائب کر لوں کیوںکہ اس میدان میں اب قوانین زیادہ
دیکھائی دے رہے ہیں جبکہ شاید اتنے پڑھنے والے بھی نا بچے ہوں۔

کیا شاعری کی کوئی ایسی صنف بھی ہے جیسے "غیرقانونی شاعری"؟
جہاں میرے جیسے لوگ جو بےجا قوانین سے عاجز ہیں، وہ اپنا شوق
پور کر سکیں؟ بجائے اَس کے کہ شاعری سے توبہ ہی کر لیں؟
ہرفن کے کچھ نہ کچھ اصول تو ہوتے ہی ہیں جن کی آگہی حاصل کئے بغیر اچھا کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شاعری سے توبہ کا مشورہ تو میں نہیں دوں گا، ہاں مزید مطالعے اور علم عروض کی بنیادی شدھ بدھ کے حصول کی صلاح ضرور دوں گا۔
پڑھنے اور جانچنے والے اب بھی بہت ہیں ۔۔۔ آزمائش شرط ہے :)
 
ہرفن کے کچھ نہ کچھ اصول تو ہوتے ہی ہیں جن کی آگہی حاصل کئے بغیر اچھا کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شاعری سے توبہ کا مشورہ تو میں نہیں دوں گا، ہاں مزید مطالعے اور علم عروض کی بنیادی شدھ بدھ کے حصول کی صلاح ضرور دوں گا۔
پڑھنے اور جانچنے والے اب بھی بہت ہیں ۔۔۔ آزمائش شرط ہے :)
محترم احسن سمیع :راحل صاحب !
آپ نے دُرُست فرمایا:
تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں
اور یہ بات وسیع مطالعے،تجربے، مشاہدے اور غوروفکر سے ہی پیدا ہوتی ہے ۔ اُردُو زبان و ادب اِس فورم (اُردُو محفل) کا مشکور رہے گا کہ یہاں واقعی زبان و بیان کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کی کمی نہیں اور محبت اور شفقت سے سمجھانے والے حضرات تو جانانِ محفل ہیں ، جو ہمیشہ طلبائے ادب سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراجِ محبت و احترام پائیں گے۔
 

akhtarwaseem

محفلین
ہرفن کے کچھ نہ کچھ اصول تو ہوتے ہی ہیں جن کی آگہی حاصل کئے بغیر اچھا کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شاعری سے توبہ کا مشورہ تو میں نہیں دوں گا، ہاں مزید مطالعے اور علم عروض کی بنیادی شدھ بدھ کے حصول کی صلاح ضرور دوں گا۔
پڑھنے اور جانچنے والے اب بھی بہت ہیں ۔۔۔ آزمائش شرط ہے :)

یہ تو دُرست فرمایا آپ نے کہ ہر فن کے اُصول ہوتے ہیں اور اُنہیں جانے بنا
چارہ نہیں ہے، میرا گَلہ محض اتنا ہے کہ قوانین اَس قدر ہیں کہ سانس لینا
بھی محال دیکھائی دیتا ہے۔ خیر، آپ جیسے علمی لوگوں کی مہربانی
شاملَ حال رہی تو زندگی میں شاید کبھی ایک، آدھ دُرست غزل ہم سے
بھی سرزد ہو ہی جائے۔ آپ کے وقت کے لیئے بہت شکریہ
 
یہ تو دُرست فرمایا آپ نے کہ ہر فن کے اُصول ہوتے ہیں اور اُنہیں جانے بنا
چارہ نہیں ہے، میرا گَلہ محض اتنا ہے کہ قوانین اَس قدر ہیں کہ سانس لینا
بھی محال دیکھائی دیتا ہے۔ خیر، آپ جیسے علمی لوگوں کی مہربانی
شاملَ حال رہی تو زندگی میں شاید کبھی ایک، آدھ دُرست غزل ہم سے
بھی سرزد ہو ہی جائے۔ آپ کے وقت کے لیئے بہت شکریہ
محترم اختر وسیم صاحب !
اساتذۂ کرام کی رہنمائی اور احباب کی خیال آرائی کے سائے سائے جستجو کے اِس سفرکو خوب سے خوب تر کی منزل تک پہنچنے کا منظر بہر حال نظر میں رکھیں،یقیناًآپ کے قلم سے بھی شہ پارے ڈھلیں گے، انشاء اللہ!
 
آخری تدوین:
Top