رہ کر بھی دور مجھ سے دل کے قریب ہو تم

الف عین
عظیم
تابش صدیقی
@خلیل الر حمن
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
------------
رہ کر بھی دور مجھ سے دل کے قریب ہو تم
میں جانتا ہوں اتنا میرا نصیب ہو تم
---------------
مجھ سے وفا کرو گے وعدہ تھا یہ تمہارا
آتے نہیں ہو ملنے کتنے عجیب ہو تم
---------------
رکھتے ہو پاس دولت دیتے نہیں کسی کو
ہو گے امیر لیکن دل کے غریب ہو تم
---------------------
اپنے لئے ہی سوچو اوروں کا حق بُھلا کر
ایسی ہے بات یہ تو خود کے رقیب ہو تم
---------------
لکھتے ہو ہر طرح کی تحریر میں بُرائی
ڈرتے نہیں خدا سے کیسے ادیب ہو تم
-------------
باتوں میں سب تمہاری نفرت بھری ہوئی ہے
حامی ہو نفرتوں کے ایسے خطیب ہو تم
--------------
تیرے ہے پاس میرے غم کا علاج ارشد
دکھ جانتے ہو میرا میرے طبیب ہو تم
-------------
 

الف عین

لائبریرین
رہ کر بھی دور مجھ سے دل کے قریب ہو تم
میں جانتا ہوں اتنا میرا نصیب ہو تم
--------------- نصیب کیوں کہا جا رہا ہے، یہ واضح نہیں

مجھ سے وفا کرو گے وعدہ تھا یہ تمہارا
آتے نہیں ہو ملنے کتنے عجیب ہو تم
--------------- درست

رکھتے ہو پاس دولت دیتے نہیں کسی کو
ہو گے امیر لیکن دل کے غریب ہو تم
--------------------- درست

اپنے لئے ہی سوچو اوروں کا حق بُھلا کر
ایسی ہے بات یہ تو خود کے رقیب ہو تم
--------------- سوچو امر کے لیے نہیں لگتا، شاید مراد یہ ہے کہ تم صرف اپنے لیے ہی سوچتے ہو، دوسرے مصرعے میں بھی روانی اچھی نہیں

لکھتے ہو ہر طرح کی تحریر میں بُرائی
ڈرتے نہیں خدا سے کیسے ادیب ہو تم
------------- پہلا مصرع واضح نہیں

باتوں میں سب تمہاری نفرت بھری ہوئی ہے
حامی ہو نفرتوں کے ایسے خطیب ہو تم
-------------- نفرت دونوں مصرعوں میں استعمال کرنے کی بجائے کچھ اور استعمال کریں، جیسے زہر سا بھرا ہے

تیرے ہے پاس میرے غم کا علاج ارشد
دکھ جانتے ہو میرا میرے طبیب ہو تم
------------- شتر گربہ
 
الف عین
(اصلاح )
رہ کر بھی دور مجھ سے دل کے قریب ہو تم
میں جانتا ہوں اتنا میرے حبیب ہو تم
------------
بس سوچتے ہو اپنا اوروں کا حق بُھلا کر
ایسی ہے سوچ ناقص اپنے رقیب ہو تم
-------------
تحریر میں جو اپنی لکھتے ہو فُحش باتیں
ڈرتے نہیں خدا سے کیسے ادیب ہو تم
-------------
تقریر میں جو اپنی کیچر اُچھالتے ہو
------
ہے بُغض تیرے دل میں کیوں دوسروں سے اتنا
حامی ہو نفرتوں کے کیسے خطیب ہو تم
------------
اپنے غموں کا خود ہی کر لو علاج ارشد
دکھ جانتے ہو اپنے ، خود کے طبیب ہو تم
------------یا
کرتے ہیں بات سچی کچھ دوسرے بھی ارشد
سمجھا ہے تم نے خود کو سچ کے نقیب ہو تم
------------
 
آخری تدوین:
تیرے ہے پاس تیرے غم کا علاج ارشد
دکھ جانتے ہو اپنا ، اپنے طبیب ہو تم

حضرت! برا نہ مانیں تو کہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ پر شُتر گُربہ کا راز ابھی نہیں کھُل پایا ہے۔ دراصل غزل کے کسی ایک شعر میں تو، تم یا آپ اکٹھے استعمال نہیں کرسکتے۔ اگر تو تڑاق سے بات کررہے ہیں تو دونوں مصرعوں میں ہی تو تڑاق ہونی چاہیے ، یہ نہیں کہ پہلے مصرع میں تو تڑاق اور دوسرے مصرع میں آپ جناب۔ آپ کے پہلے مصرع میں آپ نے تیرے پاس ، تیرے غم استعمال کیا ہے تو دوسرے مصرع میں بھی ’’تم ہو‘‘ کی جگہ ’’تو ہے‘‘ استعمال کرنا چاہیے، لیکن ردیف و قافیے کی بندش کی وجہ سے دوسے مصرع میں تم ہو آنا چاہیے لہٰذا پہلے مصرع میں بھی تم استعمال ہونا چاہیے ، تو ہے یا آپ ہیں استعمال نہیں ہوسکتا۔
چونکہ یہ غلطی آپ باربار دہرا رہے ہیں اس لیے یہ تمہید باندھی کہ اگر ذہن میں شتر گربہ کا تصور واضح نہ ہوتو ہماری اس بے وقت کی راگنی پر توجہ کرلیجیے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر تو تڑاق سے بات کررہے ہیں ۔
خلیل بھائی ! تو "تڑاق" کے لیے تو بیس نمبر کا چھوٹا والا ہلکا پھلکا "کاف ہی کافی" تھا ۔اس کے لیے ق کو کیوں زحمت دی اس کی تو "ڑ سے ازلی لڑائی" ہے ۔
مزید یہ کہ اس سو نمبر کے بھاری ق کو دو نقطے بھی ساتھ گھسیٹ کر لانے پڑتے ہیں ۔ :)
 
خلیل بھائی ! تو "تڑاق" کے لیے تو بیس نمبر کا چھوٹا والا ہلکا پھلکا "کاف ہی کافی" تھا ۔اس کے لیے ق کو کیوں زحمت دی اس کی تو "ڑ سے ازلی لڑائی" ہے ۔
مزید یہ کہ اس سو نمبر کے بھاری ق کو دو نقطے بھی ساتھ گھسیٹ کر لانے پڑتے ہیں ۔ :)
معاف فرمائیے! ہم جذبات میں "تو تڑاخ" کو قلقلےوالی قاف سے لکھ گئے۔
 
حضرت! برا نہ مانیں تو کہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ پر شُتر گُربہ کا راز ابھی نہیں کھُل پایا ہے۔ دراصل غزل کے کسی ایک شعر میں تو، تم یا آپ اکٹھے استعمال نہیں کرسکتے۔ اگر تو تڑاق سے بات کررہے ہیں تو دونوں مصرعوں میں ہی تو تڑاق ہونی چاہیے ، یہ نہیں کہ پہلے مصرع میں تو تڑاق اور دوسرے مصرع میں آپ جناب۔ آپ کے پہلے مصرع میں آپ نے تیرے پاس ، تیرے غم استعمال کیا ہے تو دوسرے مصرع میں بھی ’’تم ہو‘‘ کی جگہ ’’تو ہے‘‘ استعمال کرنا چاہیے، لیکن ردیف و قافیے کی بندش کی وجہ سے دوسے مصرع میں تم ہو آنا چاہیے لہٰذا پہلے مصرع میں بھی تم استعمال ہونا چاہیے ، تو ہے یا آپ ہیں استعمال نہیں ہوسکتا۔
چونکہ یہ غلطی آپ باربار دہرا رہے ہیں اس لیے یہ تمہید باندھی کہ اگر ذہن میں شتر گربہ کا تصور واضح نہ ہوتو ہماری اس بے وقت کی راگنی پر توجہ کرلیجیے ۔
خلیل بھائی آپ میری راہنمائی کرتے ہیں ،میں کیوں بُرا محسوس کروں گا۔ ہاں شتر گربہ کی اب بھی غلطی ہو جاتی ہے کوشش کروں گا بار بار چیک کر لیا کروں
 

الف عین

لائبریرین
کچھ وقت دیا کریں اپنی غزلوں کو تو ایسی غلطیاں بار بار نہیں ہوں گی
رہ کر بھی دور مجھ سے دل کے قریب ہو تم
میں جانتا ہوں اتنا میرے حبیب ہو تم
------------ یہ قافیہ بہتر ہے، لیکن 'میں اتنا جانتا ہوں' زیادہ رواں ہو گا

بس سوچتے ہو اپنا اوروں کا حق بُھلا کر
ایسی ہے سوچ ناقص اپنے رقیب ہو تم
------------- پہلے مصرع کی روانی ہہتر ہے لیکن تنافر پیدا ہو گیا ہے، الفاظ کی ترتیب بدکو
بس اپنا سوچتے ہو
دوسرے مصرعے میں 'گویا' لانا ضروری محسوس ہوتا ہے
جیسے: یہ سوچ یوں ہے گویا. ... '

تحریر میں جو اپنی لکھتے ہو فُحش باتیں
ڈرتے نہیں خدا سے کیسے ادیب ہو تم
------------- ٹھیک

تقریر میں جو اپنی کیچر اُچھالتے ہو
------
ہے بُغض تیرے دل میں کیوں دوسروں سے اتنا
حامی ہو نفرتوں کے کیسے خطیب ہو تم
------------ ہے بغض دوسروں سے دل میں تمہارے اتنا
کیا جا سکتا ہے

اپنے غموں کا خود ہی کر لو علاج ارشد
دکھ جانتے ہو اپنے ، خود کے طبیب ہو تم
------------یا
کرتے ہیں بات سچی کچھ دوسرے بھی ارشد
سمجھا ہے تم نے خود کو سچ کے نقیب ہو تم
------------ پہلا متبادل مقطع تو ٹھیک نہیں لگتا
دوسرا مصرع بھی یوں بہتر ہو گا
سمجھے ہو کیا اکیلے........ آخر میں سوالیہ نشان ضرور دیں۔ اکیلے لفظ کے بغیر بات بنتی نہیں
 
کچھ وقت دیا کریں اپنی غزلوں کو تو ایسی غلطیاں بار بار نہیں ہوں گی
رہ کر بھی دور مجھ سے دل کے قریب ہو تم
میں جانتا ہوں اتنا میرے حبیب ہو تم
------------ یہ قافیہ بہتر ہے، لیکن 'میں اتنا جانتا ہوں' زیادہ رواں ہو گا

بس سوچتے ہو اپنا اوروں کا حق بُھلا کر
ایسی ہے سوچ ناقص اپنے رقیب ہو تم
------------- پہلے مصرع کی روانی ہہتر ہے لیکن تنافر پیدا ہو گیا ہے، الفاظ کی ترتیب بدکو
بس اپنا سوچتے ہو
دوسرے مصرعے میں 'گویا' لانا ضروری محسوس ہوتا ہے
جیسے: یہ سوچ یوں ہے گویا. ... '

تحریر میں جو اپنی لکھتے ہو فُحش باتیں
ڈرتے نہیں خدا سے کیسے ادیب ہو تم
------------- ٹھیک

تقریر میں جو اپنی کیچر اُچھالتے ہو
------
ہے بُغض تیرے دل میں کیوں دوسروں سے اتنا
حامی ہو نفرتوں کے کیسے خطیب ہو تم
------------ ہے بغض دوسروں سے دل میں تمہارے اتنا
کیا جا سکتا ہے

اپنے غموں کا خود ہی کر لو علاج ارشد
دکھ جانتے ہو اپنے ، خود کے طبیب ہو تم
------------یا
کرتے ہیں بات سچی کچھ دوسرے بھی ارشد
سمجھا ہے تم نے خود کو سچ کے نقیب ہو تم
------------ پہلا متبادل مقطع تو ٹھیک نہیں لگتا
دوسرا مصرع بھی یوں بہتر ہو گا
سمجھے ہو کیا اکیلے........ آخر میں سوالیہ نشان ضرور دیں۔ اکیلے لفظ کے بغیر بات بنتی نہیں
شکریہ محترم
 
Top