سین خے

محفلین
پولیو کیا ہے؟

پولیو ایک وائرل بیماری ہے۔ یہ ایک وبائی مرض ہے جو شخص در شخص منتقل ہو سکتا ہے۔

پولیو ایک ایسی بیماری ہے جس نے کبھی ایک سال میں دسیوں ہزار بچوں کو فالج میں مبتلا کردیا تھا۔ اب یہ ایک بیماری کے خاتمہ کی ایک بین الاقوامی کوشش کا ہدف ہے۔ فی سال پولیو کیسز کی سب سے بڑی تعداد 1988 میں اس وقت واقع ہوئی تھی جب 350,000 لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے۔ 2015 میں، دنیا بھر میں صرف 74 وائلڈ پولیو کے کیسز کی اطلاع ملی تھی۔ اس وقت صرف دو ممالک، پاکستان اور افعانستان میں پولیو کی ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقلی جاری ہے۔

FlQkxarhs3XLm_EsErkm98n6XnweOLQyANvf4_qh868W2tBP1qljGJaBPvXHu86UIwT4L-C5OyEQxd0Vio_X9JX6aEuXzVKZAnXyEpvGmR0h8lyY2jrbzLwSiMUy2jdagjNXlEN1



پولیو وائرس کی تین (serotypes) اقسام ہیں اور ہر قسم کی متعدد strains ہیں۔

یہ وائرس انسانی جسم میں منہ کے راستے سے داخل ہوتا ہے۔ وائرس اپنی تعداد حلق اور معدے کی نالی اور آنتوں (gastrointestinal tract) میں کئی گنا بڑھا (replicate) لیتا ہے۔ یہاں سے وائرس خون (blood stream) میں شامل ہو جاتا ہے اور مرکزی اعصابی نظام (central nervous system) پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اعصابی نظام میں یہ اپنی تعداد کو اور کئی گنا بڑھا لیتا ہے اور موٹر نیورونز (motor neurons) کو تباہ کر دیتا ہے۔ موٹر نیورونز نگلنے، گردش خون، نظام تنفس، دھڑ، بازو اور ٹانگوں کے پٹھوں ( muscles for swallowing, circulation, respiration, and the trunk, arms, and legs.) کو کنٹرول کرتے ہیں۔

کچھ صورتوں میں ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضاء کے پٹھوں میں کمزوری کے علاوہ یہ محض چند گھنٹوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

NMAH | Polio: How the Poliovirus Works
ویکسینیشن یا حفاظتی ٹیکوں کی مختصر تاریخ
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
پولیو کیسے منتقل ہوتا ہے؟
پولیو وائرس کسی متاثرہ فرد کے پاخانے سے آلودہ ہو جانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔

اس کے ساتھ اگر آپ کے اپنے ہاتھوں پر پاخانہ لگ جائے تو بھی آپ کو پولیو وائرس متاثر کر سکتا ہے۔ یہ وائرس آپ کے اپنے منہ کو چھونے سے بھی آپ کی جلد پر آ جاتا ہے۔ جو آپ کے ساتھ ساتھ ہر چیز کو آلودہ کر دیتا ہے حتیٰ کہ آپ اگر بیت الخلاء سے ہاتھ دھوئے بغیر کسی کھلونے یا کسی اشیاء کو چھولیں اور وہ کھلونا یا اشیاء کسی طرح کوئی بچہ اپنے منہ میں ڈال لے تو اس سے بھی اسے پولیو ہو سکتا ہے۔

چند صورتوں میں یہ متاثرہ شخص کی کھانسی اور چھینک سے بھی منتقل ہو سکتا ہے۔

پولیو - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
CDC Global Health - Polio - What Is Polio?

کس کو پولیو کا شکار ہونے کا خطرہ زیادہ ہے؟
گو کہ ہر شخص کے لئے یہ خطرہ موجود ہے، لیکن پولیو زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے ایسے بچوں کو متاثر کرتا ہے جنہیں پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہ پلائے گئے ہوں۔

پولیو کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟
پولیو کے اثرات یہ ہیں:

.i پولیو سے متاثر ہونے والے ہر 200 افراد میں سے ایک ناقابل علاج فالج (عموماً ٹانگوں میں) کا شکار ہوجاتا ہے۔

.ii فا لج کا شکار ہونے والوں میں سے 5 فی صد سے 10 فی صد وائرس کی وجہ سے اپنے سانس کے پٹھوں کی حرکت بند ہو جانے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

یا

.iii پولیو ٹانگوں اور بازوؤں کو مفلوج کرنے کی وجہ بنتا ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اور یہ بچوں کو زندگی بھر کے لئے معذور بنا دیتا ہے۔ کچھ مریضوں میں جب وائرس سانس لینے کے عمل کو مفلوج کر دے تو پولیو موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

اکثر پوچھے جانے والے سوالات
 

سین خے

محفلین
پولیو کا علاج:

زیادہ تر وائرل بیماریوں کے لئے استعمال کی جانے والی ادویات، علامات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس دوران انسانی مدافعتی نظام (immune system) وائرس کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دیتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس وائرل بیماریوں کے لئے کام نہیں کرتی ہیں۔ کچھ وائرل بیماریوں کے لئے اینٹی وائرل ادویات موجود ہیں۔

زیادہ تر دستیاب شدہ اینٹی وائرل ادویات ہیپاٹائٹس بی، سی، ایچ آئی وی، انفلوینزا اے اور بی کے علاج میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ سائنسدان ایسی اینٹی وائرل ادویات بنانے میں مصروف ہیں جو دیگر اینٹی وائرل بیماریوں کے ممراض کے خلاف بھی کام کر سکیں۔

محفوظ اور پر اثر اینٹی وائرل ادویات بنانا مشکل کام ہے کیونکہ وائرس اپنی تعداد بڑھانے (replicate) کے لئے دوسرے جاندار کے خلیات کو استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اینٹی وائرل ادویات کے لئے انسانی خلیات کو نقصان پہنچائے بغیر وائرس کو ہدف بنانا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وائرل تنوع بھی ان ادویات کی تیاری میں دشواری پیدا کرتا ہے۔

وائرس سے بچاؤ کے لئے سب سے کارآمد ویکسین کا استعمال ہے۔

Antiviral drug - Wikipedia
Viral Infection | Viral Infection Symptoms | MedlinePlus

پولیو کے ایک بار لاحق ہو جانے کے بعد اس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ ویکسین ہے۔
 

سین خے

محفلین
ویکسین کا طریقہ کار (mechanism)

ویکسین کے طریقہ کار (mechanism) کو سمجھنے کے لئے انسانی جسم میں قوت مدافعت کے رد عمل (immune response) کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مدافعتی نظام (Immune system)

کسی بھی جاندار کے جسم میں وہ نظام جو ممراض (pathogens)، مثلاً جراثیم (bacteria)، وائرس (viruses) یا زہریلے مادوں (toxins) کے خلاف دفاع فراہم کرتا ہے، اس جاندار کا مدافعتی نظام کہلاتا ہے۔ یہ متعدد حیاتیاتی ڈھانچوں اور افعال پر مشتمل ہوتا ہے۔

یہ مدافعتی نظام، داخل ہونے والے ممراض کا ناصرف بخوبی پتہ لگاتا ہے بلکہ ان میں اور اپنے صحتمند خلیات میں فرق بھی کر سکتا ہے۔

Immune system - Wikipedia

مدافعتی نظام (Immune system) ایسا مواد پیدا کرتا ہے جو ان ممراض (pathogens) کا مقابلہ کر کے ان کو ختم کرتا ہے۔ ایک بار ایسا کرنے کے بعد مدافعتی نظام ان حملہ آور اجسام (germs) کو یاد رکھتا ہے اور ان کے دوبارہ داخل ہونے پر ان کا مقابلہ بخوبی کرتا ہے۔

ویکسینز میں مردہ یا کمزور خرد نامیے موجود ہوتے ہیں۔ جب کسی صحت مند شخص کو ویکسین دی جاتی ہے تو اس کا مدافعتی نظام ان خرد نامیوں کے خلاف فعال ہو جاتا ہے اور ان کے کمزور کر دیے جانے کی وجہ سے ان کے خلاف قوت مدافعت بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

ویکسینز کی ایجاد سے قبل لوگوں میں کسی مخصوص بیماری کے خلاف قوت مدافعت اسی وقت پیدا ہوتی تھی جب وہ اس مرض میں مبتلا ہو کر صحتیاب ہوتے تھے۔ ویکسین نے قوت مدافعت حاصل کرنے کے اس عمل کو کم خطرناک اور آسان بنا دیا۔

Immunization | Vaccine | Inoculation | MedlinePlus

حفاظتی ٹیکوں نے گذشتہ صدی میں کئی بیماریوں سے پہنچنے والے نقصان کو بڑی حد تک کم کیا۔ 1960 کی دہائی میں خسرے کی ویکسین آنے سے پہلے ہر سال اس مرض سے 26 لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے تھے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق سنہ 2000 سے 2017 کے عرصے میں عالمی پیمانے پر حفاظتی ٹیکوں کی مدد سے خسرے سے ہونے والی اموات میں 80 فی صد کمی واقع ہوئی۔

rdygRlD3fhQGZXlrO3ybfvND3XkD77jkuMwsuVhdrENubq5Eip38U1VBC2jEJ7lUMqEto6mqcwmZMCSMDcnm2SHj1DpaNrCgQAlKupudQpgRVF6-3O8hxGYcTxy-9FPKxd4kxnfG


ویکسینیشن یا حفاظتی ٹیکوں کی مختصر تاریخ
 

سین خے

محفلین
زیادہ تر انواع میں مدافعتی نظام کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

عمومی مدافعت (Innate or nonspecific immunity) اور خصوصی مدافعت (Adaptive or specific immunity)


عمومی مدافعت جسم میں پیدائشی طور پر پائی جاتی ہے اور یہ کسی بھی بیرونی مادہ (foreign substances such as antigens) کے خلاف کام کرتی ہے۔

خصوصی مدافعت، بیرونی مادے کے جسم میں داخل ہونے کے بعد وجود میں آتی ہے۔ یہ مخصوص متعدی بیماریوں (infectious diseases) کا خاتمہ کرتی ہے۔ یہ کسی مخصوص ممراض کے خلاف ٹارگٹ شدہ ردعمل (response) کو ممکن بناتی ہے۔

یہ دونوں حصے، قوت مدافعت کے دو طرح کے عناصر Humoral اور Cell mediated کا استعمال کرتے ہیں۔

Humoral immunity: یہ قوت مدافعت کا ایسا طریقہ کار ہے جس میں ضد (antibodies) حصہ لیتے ہیں۔ ضد یا اینٹی باڈیز، لحمیاتی سالمات (protein molecules) ہیں جن کو بی- خلیات (B-cells) پیدا کرتے ہیں۔ بی خلیات خون کے سفید خلیات (white blood cells) کے لمفوسائیٹ سب ٹائپ (lymphocyte subtype) ہیں۔

ہیومرل قوت مدافعت میں اینٹی باڈیز کے علاوہ اور بھی لحمیات (proteins) اور اینٹی مائیکروبئیل پیپٹائیڈز (antimicrobial peptides) حصہ لیتے ہیں۔ اس قوت مدافعت میں حصہ لینے والے مادے (substances) جسم کے سیال مادے (Humor) میں پائے جاتے ہیں، اسی لئے اس کا نام Humoral immunity رکھا گیا ہے۔

Cell mediated immunity: قوت مدافعت کے اس طریقہ کار میں ٹی سیلز (T-cells, یہ بھی سفید خلیات کی سب ٹائپ لمفوسائیٹ کی ایک قسم ہے) حصہ لیتے ہیں۔ اس میکانزم (mechanism) میں اینٹی باڈیز حصہ نہیں لیتے ہیں۔ ٹی سیلز کے علاوہ اور بھی خلیات حصہ لیتے ہیں۔ ( چونکہ ویکسین کے جسم میں طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے وہ ضروری نہیں ہیں تو ان کا ذکر نہیں کیا جا رہا ہے۔)

Innate immune system - Wikipedia

Adaptive immune system - Wikipedia

Humoral immunity - Wikipedia

Cell-mediated immunity - Wikipedia

Difference - Cell-mediated and Humoral Immunity | easybiologyclass

B cell - Wikipedia

T cell - Wikipedia

Difference between Innate and Adaptive Immunity

مستضد اور ضد (antigen & antibody)

مستضد کو انگریزی میں ایٹی جن (antigen) کہا جاتا ہے اور بعض اوقات اس کے لیے مستمنع کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے جس کی انگریزی immunogen یا امیونوجن استعمال ہوتی ہے۔ مستضد سے مراد کوئی بھی ایسا سالمہ (molecule) ہوتی ہے کہ جو اگر جسم میں داخل (یا پیدا) ہو جائے تو وہ جاندار کے جسم میں ایک غیر (nonself) ہونے کا احساس اجاگر کرتا ہے اور اس کو غیر اور خطرناک سمجھتے ہوئے جسم کا مدافعتی نظام متحرک ہو کر اس کے خلاف لڑنے اور اس کو ختم کرنے کے لیے ایسے اجسام بناتا ہے جنکو ضد (antibodies) کہتے ہیں۔

ضد (اینٹی باڈی, antibody)، خون یا جسم میں پائے جانے والے لحمیاتی سالمات (protein molecules) ہوتے ہیں جنکی شکل عام طور پر غلیل یا Y کی سی ہوتی ہے، یہ سالمات مدافعتی نظام کا ایک حصہ شمار کیے جاتے ہیں جو جسم میں داخل ہونے والے (یا جسم میں ہی پیدا ہوجانے والے) ایسے اجسام، سالمات یا جراثیم کے خلاف مدافعت پیدا کرتے ہیں جو مستضد (antigen) کی حیثیت رکھتے ہوں۔

ضد (سائنس) - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا

مستضد - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
 

سین خے

محفلین
دو قسم کے خون کے سفید خلیات جن کو لمفوسائٹس کہا جاتا ہے خصوصی مدافعتی ردعمل کے لئے ضروری ہیں۔ لمفوسائٹس بون میرو (bone marrow) میں پیدا ہوتے ہیں، اور پختہ ہو کر متعدد ذیلی قسموں میں سے ایک بن جاتے ہیں۔ دو سب سے عام ہیں ٹی سیلز اور بی سیلز (T-cells & B-cells)۔

ایک اینٹی جن ایک خارجی مادہ (foreign substance) ہوتا ہے جو ٹی اور بی سیلز کے رد عمل کو متحرک کرتا ہے۔ انسانی جسم میں بی اور ٹی سیلز ہیں جن کا تعلق لاکھوں مختلف اینٹی جن سے ہے۔ ہم عام طور پر اینٹی جن کو خوردبینی جرثومہ (microorganism) کا حصہ سمجھتے ہیں، لیکن اینٹی جن دیگر جگہوں میں بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ مثلا، اگر کسی فرد کو ایسا خون چڑھایا گیا ہے جو اس کے خون کی قسم سے میچ نہیں کرتا ہے تو اس کی وجہ سے ٹی اور بی سیلز کے ردعمل حرکت میں آسکتے ہیں۔

ٹی سیلز اور بی سلیز کے بارے میں سوچنے کا ایک مفید طریقہ مندرجہ ذیل ہے: بی سیلز میں ایک صفت ہوتی ہے جو ضروری ہوتی ہے۔ وہ پختہ ہوسکتے ہیں اور ایسے پلازمہ (plasma) خلیات میں بدل سکتے ہیں جو ایک ایسا پروٹین پیدا کرتے ہیں جس کو ایک اینٹی باڈی کہا جاتا ہے۔ ان پروٹین کے ذریعے خاص طور پر ایک مخصوص اینٹی جن کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاہم، اینٹی باڈی بنانے کے لئے تنہا بی سیلز کافی نہیں ہوتے ہیں اور ایک ایسا اشارہ (signal) فراہم کرنے کے لئے ٹی سیلز پر بھروسہ کرتے ہیں جس سے پتہ چلے کہ انہیں پختگی (activation) کا عمل (process) شروع کرنا چاہئے۔ جب کوئی ٹھیک سے با خبر (activated) بی سیل اینٹی جن کی پہچان کرتا ہے تو اس کا ردعمل کرنے کے لئے یہ کوڈیڈ (coded) ہو جاتا ہے، یہ بہت سے پلازمہ کے خلیات کو تقسیم کرتا ہے اور پیدا کرتا ہے۔ پلازمہ خلیات پھر بڑی تعداد میں اینٹی باڈیز خارج کرتے ہیں، جو خون میں گردش کرنے والے مخصوص اینٹی جن کا مقابلہ کرتی ہیں۔

ویکسین کی تاریخ | انسانی مدافعتی نظام اور متعدی بیماری

Mucosal immunity:

یہ قوت مدافعت کا وہ رد عمل ہے جو آنتوں، نظام تنفس وغیرہ کی لعابی جھلیوں میں واقع ہوتا ہے۔ یعنی جسم کی ایسی سطحیں جو بیرونی ماحول سے رابطے میں ہوتی ہیں۔

اس کی ایک مثال IgA اینٹی باڈی کا منہ اور آنتوں کی لعابی جھلیوں سے اخراج ہے۔ IgA کھانے میں شامل ہو کر جسم میں داخل ہونے والے ممکنہ اینٹی جنز کا خاتمہ کرتے ہیں۔

Mucosal immunology - Wikipedia

پولیو کا علاج اور ویکسین:

چونکہ پولیو کا کوئی علاج موجود نہیں ہے اس لئے پولیو کو صرف حفاظتی قطروں کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے محفوظ اور موثر ویکسین موجود ہے۔

پولیو ویکیسن، پولیو کے خلاف تحفظ دینے کے لئے ضروری ہے۔ پولیو ویکسین کی وجہ سے انسانی جسم میں ہیومرل (Humoral immunity, circulating antibody) اور میوکوزل قوت مدافعت (Mucosal immunity, secretory immunoglobulin) پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم پولیو وائرس کا کامیابی سے خاتمہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
 

سین خے

محفلین
OPV Oral Polio Vaccine:

یہ ویکسین منہ سے قطرے پلانے والی ویکسین ہے۔ یہ البرٹ سیبن (Albert Sabin) کی بنائی زندہ ویکسین (Live vaccine) ہے۔ او پی وی ویکسین کا عمل (action) دو شاخہ ہے۔

او پی وی مختصر عرصے (Short term) کے لئے میوکوزل قوت مدافعت پیدا کرتی ہے اور طویل مدتی (Long term) ہیومرل قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ او پی وی ہیومرل قوت مدافعت کے ذریعے تینوں پولیو وائرس کے سیروٹائپس (serotypes) کے خلاف خون میں تحفظ فراہم کرتی ہے جس کی بدولت انفیکشن کی صورت میں وائرس اعصابی نظام پر حملہ آور ہونے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میوکوزل قوت مدافعت کی وجہ سے آنتوں میں وائرس تعداد بڑھانے (replication) سے رک جاتا ہے۔ چونکہ وائرس آنتوں میں ریپلیکیٹ نہیں ہو پاتا ہے، اس لئے وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں فضلے (Feces) کے ذریعے منتقل نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پولیو وبا (endemic) رہا ہے، وہاں او پی وی کا استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ آنتوں کی قوت مدافعت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔ تمام ممالک جہاں سے پولیو ختم کیا جا چکا ہے، وہاں او پی وی کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا ہے۔

او پی وی ویکسین میں موجود وائرس کو وہی راستہ (Route) دیا جاتا ہے جو کہ حقیقت میں وائرس کا روٹ ہے تاکہ ویکسین ان تمام مقامات (sites) پر جہاں وائرس ریپلیکیٹ ہوتا ہے، قوت مدافعت کو بڑھا سکے۔

او پی وی پیدائش کے فوری بعد بچے کو جب دی جاتی ہے تو نتیجے میں جسم میں اینٹی باڈیز کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ اس خوراک (dose) اور اس کے بعد کی خوراکوں (doses) کی وجہ سے سیروکنورژن ریٹسSeroconversion (the development of antibodies in the blood in response to an infection or immunization) بڑھ جاتے ہیں۔

او پی وی میں پولیو وائرس کی تینوں سیروٹائپس کی زندہ لیکن کمزور سٹرینز (live attenuated strains) موجود ہوتی ہیں۔ یہ سٹرینز اس بنیاد پر منتخب کی جاتی ہیں کہ یہ پولیو کے انفیکشن کے خلاف مطلوبہ مدافعتی رد عمل جسم میں ظاہر کر سکیں لیکن ان میں اتنی طاقت نہ ہو کہ یہ اعصابی نظام (nervous system) پر حملہ آور ہو سکیں۔

اسی لئے تین یا تین سے زائد خوراکیں او پی وی ویکسین کی دی جاتی ہیں تاکہ مطلوبہ سیروکنورژن کی سطح جسم میں حاصل ہو جائے۔

WHO | Oral polio vaccine (OPV)

GPEI-OPV

CDC Global Health - Polio - What Is Polio?

The Polio Vaccine

او پی وی سے پیدا ہونے والے مسائل:

او پی وی حالانکہ بے انتہا محفوظ ہے اور صرف او پی وی ہی کی وجہ سے دنیا سے پولیو کا خاتمہ ممکن ہو سکا ہے لیکن او پی وی کی وجہ سے کچھ مسائل بھی سامنے آئے ہیں۔

VAPP (Vaccine associated Paralytic Polio)


لاکھوں میں سے کسی ایک کیس میں زندہ ویکسین کی وجہ سے کوئی شخص مفلوج ہو سکتا ہے۔ ویکسین کا کمزور وائرس آنتوں میں جنیاتی طور پر تبدیل ہو کر دوبارہ نیورو وریولینٹ Neurovirulent (a virus having the tendency or capacity of a microorganism to cause disease of the nervous system) ہو جاتا ہے۔ کچھ کیسیز میں دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ Immunodeficiency یعنی قوت مدافعت کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ کسی بچے کو صرف ایک خوراک دئے جانے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ یہ کسی ایسے شخص کو ہو سکتا ہے جو کہ کسی ایسے بچے سے رابطے میں آیا ہو جو جینیاتی تبدیل شدہ وائرس کا اخراج کر رہا ہو۔ اس کیس میں یہ کسی ایسے شخص کو ہوتا ہے جس کی قوت مدافعت کم ہو یا پھر اس کی ویکسین نہیں کی گئی ہو۔ یہ وائرس ویکسین حاصل کرنے والے بچے یا اس سے رابطے میں آنے والے کمزور مدافعت والے شخص کو تو منتقل ہوسکتا ہے پر اس کے علاوہ آج تک اس کے منتقل ہونے کے کیسیز سامنے نہیں آئے ہیں۔

ایسے کیس کا امکان لگ بھگ 2.7 ملین میں ایک ہے۔

Vaccine derived polio virus VDPV:


شاذ و نادر کچھ مخصوص حالات میں ویکسین میں موجود کمزور وائرس واپس اپنی نیورو وریولینٹ قسم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

Circulating vaccine derived polio virus cVDPV:


اگر VDPV وائرس اخراج کے بعد گردش برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے تو اس سے ہونے والا پولیو cVDPV کہلاتا ہے۔ یہ وائرس ایسے ماحول میں پنپتا ہے جہاں ویکسین نہیں کی گئی ہو۔ یہ بارہا اپنے آپ کو میوٹیٹ (mutate) کرتا ہے اورچھ مہینے یا ایک ڈیڑھ سال کے عرصے میں نیورو وریولینسی (neurovirulency) حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں اب تک اکیس ممالک میں سے 24 outbreaks سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے 750 کیسز ہوئے ہیں۔

cVDPV کی لہر وبائی (Endemic) بھی بن سکتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ کسی مخصوص علاقے میں کم ویکسینیشن (vaccination) ہے۔ اس کو روکنے کا وہی طریقہ ہے جو کہ وائلڈ پولیو وائرس (wild polio virus WPV) کو روکنے کا ہے اور وہ ہے مسلسل ہر کسی کی ویکسین کرنا۔

hYQ-djPhENblCpoS9oEkr3Y-ZLio8jzGRHIxbBw1kJHjQu0VIrYF6mmZoB-ecVWpSCkyHbylk26e5k9wYWUtmtq_MUVAER4b0lpJgCDv-EsU1p0Tu8ZnaMrfQaODs8plDf_vRbBz

https://www.who.int/immunization/di...lio_vaccine/VAPPandcVDPVFactSheet-Feb2015.pdf
 

سین خے

محفلین
او پی وی کی اقسام:

Monovalent oral polio vaccine mOPV

یہ ویکسینز کسی ایک سیروٹائپ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ پولیو وائرس کی تین سیروٹائپس کی بنیاد پر اس کی تین اقسام ہیں۔

mOPV1 یہ ٹائپ 1 پولیو وائرس سے بچاؤ کے لئے ہے

mOPV2 یہ ٹائپ 2 پولیو وائرس سے بچاؤ کے لئے ہے

mOPV3 یہ ٹائپ 3 پولیو وائرس سے بچاؤ کے لئے ہے

یہ ویکسینز 1950 کے اوئل میں بنائی گئی تھیں۔ ان کا استعمال tOPV کے اپنائے جانے کے بعد ترک کر دیا گیا تھا۔ یہ کسی ایک سیروٹائپ کے خلاف کامیابی سے قوت مدافعت تخلیق کرتی ہیں لیکن باقی دو سیروٹائپس کے لئے نہیں کرتی ہیں۔

مونوویلینٹ ویکسین 1 اور 3 GPEI کی کاوشوں سے 2005 میں دوبارہ لائنسنز کی گئی ہے۔ مستقبل میں ممکنہ cVDPV2 کی لہر کے خدشے کے پیش نظرمونوویلینٹ 2 کو ذخیرہ (stock) کر کے رکھا گیا ہے۔

Bivalent oral polio vaccine bOPV

1999 سے ٹائپ 2 پولیو وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ بائیویلینٹ ویکسین میں ٹائپ 1 اور 3 کے کمزور وائرس موجود ہوتے ہیں۔ یہ tOPV سے زیادہ بہتر کام کرتی ہے۔ 2016 سے بائیویلینٹ ویکسین کا استعمال دنیا بھر کی معمول کی ویکسینیشن میں ہو رہا ہے۔

Trivalent Polio Vaccine tOPV:

اس ویکسین میں تینوں سیرو ٹائپس موجود ہوتے ہیں۔ 2016 سے قبل معمول کی ویکسینیشن میں ہر جگہ اسی کا استعمال ہوتا تھا۔ یہ سستی اور تینوں وائلڈ پولیو کے سیروٹائپس کے خلاف موثر طویل مدتی قوت مدافعت فراہم کرتی ہے۔

2016 کے بعد سے اس کے استعمال کو ترک کرنے کی وجہ cVDPV2 کے ابھرنے کا کا خطرہ ہے۔

OPV ویکسین کی خوراکیں:


مطلوبہ قوت مدافعت حاصل کرنے کے لئے زیادہ تر 4 خوراکیں دی جاتی ہیں۔ ایسے علاقے جہاں زیادہ گرمی ہوتی ہے جیسے Tropics، وہاں بغیر کسی منفی اثرات کے 4 خوراکوں سے زائد بھی دی جاتی ہیں۔ متعدد خوارکیں دینا مکمل طور پر محفوظ ہے۔ کچھ علاقوں میں 10 خوراکیں بھی دی گئی ہیں تاکہ پولیو کے خلاف مکمل حفاظت حاصل کی جا سکے۔
 

سین خے

محفلین
IPV Inactivated Polio vaccine

اس ویکسین میں مردہ وائرس کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ ویکسین 1950 میں ڈاکٹر جونس سالک Dr Jonas Salk نے بنائی تھی۔ اس ویکسین میں تینوں سیروٹائپس کے مردہ وائر شامل ہوتے ہیں۔ یہ ویکسین منہ سے دینے کے بجائے انجیکشن سے دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ویکسین میں فارملین (Formalin) موجود ہوتا ہے جو کہ وائرس کو مارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ ویکسین اکیلے بھی دی جا سکتی ہے یا پھر دوسری ویکسینز (Hepatitis b, tetanus, haemophilus influenza, diphtheria, pertusis وغیرہ کی ویکسینز) کے ساتھ بھی دی جا سکتی ہے۔

سکینڈےنیوین ممالک اور نیدرلینڈز میں پولیو کا کامیابی سے خاتمہ آئی پی وی سے ہی ہوا ہے۔ اس سے پہلے تک زیادہ تر ممالک میں او پی وہی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ چونکہ آئی پی وی میں زندہ وائرس کے بجائے مردہ وائرس کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے VAPP ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔

آئی پی وی مکمل ہیومرل قوت مدافعت فراہم کرتی ہے لیکن مطلوبہ میوکوزل قوت مدافعت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ آئی پی وی کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ کوئی ایسا شخص جس کی آئی پی وی ویکسین ہوئی ہو اور اس کے جسم میں وائلڈ پولیو وائرس داخل ہو جائے تو وائرس آنتوں میں اپنی تعداد کئی گنا بڑھانے میں کامیاب رہتا ہے۔ اس کے بعد اس وائرس کا جسم سے اخراج بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ دوسروں کو منتقل (person to person transmission) ہو سکتا ہے۔

آئی پی وی ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا اور دیگر میں اب اس لئے استعمال کی جاتی ہے کیونکہ یہ ممالک مکمل طور پر پولیو کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ او پی وی کی وجہ سے VAPP & cVDPV ہونے کے خطرے سے کم خطرناک آئی پی وی کا استعمال ہے۔ امریکا میں آئی پی وی 2000 سے استعمال میں ہے۔

چونکہ آئی پی وی وائلڈ وائرس کی منتقلی روکنے میں ناکام رہتی ہے اس لئے وبائی علاقوں میں او پی وی کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ او پی وی کا استعمال پولیو کے مکمل خاتمے کے بعد ترک کر دیا جائے گا اور اس کی جگہ آئی پی وی ہی استعمال کی جائے گی۔

WHO | Inactivated polio vaccine (IPV)

GPEI-IPV

CDC Global Health - Polio - What Is Polio?
 

سین خے

محفلین
آئی پی وی اور او پی وی سے حاصل کردہ قوت مدافعت کا موازنہ - کونسی ویکسین زیادہ بہتر ہے:

آئی پی وی اور او پی وی کے فوائد اور نقصانات پر بحث جاری رہتی ہے۔ اس کے لئے کافی مطالعہ (Studies) کی گئی ہیں۔

ایک مطالعہ نیدرلینڈز میں کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ او پی وی میوکوزل قوت مدافعت بہتر طور پر فراہم کرتی ہے اور آئی پی وی میوکوزل قوت مدافعت صرف ان لوگوں کو فراہم کرتی ہے جو کہ پہلے وائلڈ پولیو وائرس سے متاثر ہو چکے ہوں۔

EUmZDjDlNpexlcX4yV3sZ_5IpNxppkj2lRaz2EVCJE3kfdkPFFf3g9ihukrI0PRspSR8CO-s5lvUUz6yPqaZthzWP7-dyvUqZ8b3naztdZjTKuiBAkPf5kUDdtsyvHinLGW4eJRP

ان نتائج سے صاف ظاہر ہے کہ آئی پی وی، او پی وی کے مقابلے میں کم IgA پیدا کرنے والے خلیات پیدا کرتی ہے۔

N_4b-EUwEhsGKmYK9eqpk3w4ssZ8o4qN7PKFyWIRD3LT3Tpb58JH9hg7NF2YqdkUluAU8QuDpleofKQ_ehcQsdtHKd-bmC5P30scK9vjlAlXZSc643x7i8uC-EMkNDGv9VeLHKmC


آئی پی وی کا بوسٹر ڈوز (booster dose) دینے کے بعد نتائج۔ یہ بوسٹر ڈوز آئی پی وی اور او پی وی ویکسین شدہ افراد کو دئے گئے تھے۔ نتائج سے صاف ظاہر ہے کہ آئی پی وی کی دو خوراکوں کے باوجود میوکوزل قوت مدافعت حاصل نہیں کی جاسکی۔

CatWZpd1etlr0-Cw5NiiN4ntqDe2ZN0EgXvtVxXpAyCcXiUE7mRnXjnq02U4wDeQZ37K3I6asbY6IWXDtH8ioiasb750x--n-FTJk-QSaD3u4UnWctsWgUNL50bgqbO-04agdD4z


یہ تینوں سیروٹائپس کے اینٹی جینز کے لئے حاصل کئے گئے نتائج ہیں۔ گلابی لائین او پی وی ویکسین شدہ افراد اور نیلی لائن آئی پی وی ویکسین شدہ افراد کے تھوک میں IgA کی سطح کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ دونوں طرح سے ویکسین شدہ افراد کو ایک اور آئی پی وی خوراک دینے کے بعد کے نتائج ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جن کی پہلے او پی وی ویکسین کی گئی ہے ان کے جسم میں IgA کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے۔

H41QGt-jg5P6NbirPzaO8KMPyvNo0CaaCm9l6GXnzg7Y_Qt_3b4YRulVbR-Yc8z_m4qT6Z1akGlytELpz6__pkHj5MWbdYBQ2aSmsqZpwuMFt4HTRNEWs3myviGioOGr4iw3pChv

یہ آئی پی وی بوسٹر خوراک کے 0، 3، 7، 28 دنوں پر آئی جی اے کی مقدار کے نتائج ہیں۔ نتائج سے صاف ظاہر ہے کہ آئی پی وی ویکسین شدہ افراد میں جو تھوڑی بہت میوکوزل قوت مدافعت حاصل ہوئی تھی وہ دن بہ دن کم ہوتی جاتی ہے۔ جبکہ او پی وی ویکسین شدہ افراد میں ایک تو بہتر میوکوزل قوت مدافعت دیکھنے میں آتی ہے اور اس کے علاوہ 28 دنوں بعد زیادہ کمی بھی واقع نہیں ہوتی ہے۔
tu2rsecxfAa3Fs46Su8Kbdj_gj4UnXKq4E7BuR5vaAD07ZtUbXLD1i1OtnrFGkvhpEk4rdbRml57nlirWmyA13boFGO4q0etXgVHUM_BGt-ti4QmAnT_aL0tKIGIJuKB194iKEI2


اس کے علاوہ اور آئی جی جی اور آئی جی ایم کی بھی خون میں پیمائش کی گئی تھی۔ اس کے نتائج رپورٹ میں شامل ہیں۔
اس موازنے پر مزید مطالعے کی غرض سے لے لئے کچھ لنکس شامل کئے جا رہے ہیں
Inactivated and live, attenuated poliovirus vaccines: mucosal immunity

Intestinal Immunity to Poliovirus Following Sequential Trivalent Inactivated Polio Vaccine/Bivalent Oral Polio Vaccine and Trivalent Inactivated Polio Vaccine–only Immunization Schedules: Analysis of an Open-label, Randomized, Controlled Trial in Chilean Infants
 

سین خے

محفلین
او پی وی کا خاتمہ کرنے کے لئے منصوبے اور اقدامات:

جن ممالک میں پولیو کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے اور وہاں صفائی کا بہتر انتظام موجود ہے، وہاں آئی پی وی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن کچھ ممالک جن میں اب بھی پولیو موجود ہے یا ایسے ممالک جن میں صفائی کی صورتحال مخدوش ہے، وہاں سے او پی وی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا ہے۔

پہلے ذکر کیا جا چکا ہے پولیو ٹائپ 2 کا دنیا سے خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ ٹرائیویلینٹ کے استعمال کی وجہ سے VAPP & cVDPV کے خطرے کے پیش نظر بائیویلینٹ ویکسین بنائی گئی ہے۔

tOPV سے ایکدم بائیویلینٹ یا پھر مکمل طور پر آئی پی وی کی طرف جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔

WHO نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے مرحلہ وار منصوبے متعارف کرائے ہیں۔ بائیویلنیٹ ویکسین جن ممالک میں متعارف کرائی گئی ہے WHO نے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ آئی پی وی کا ایک ڈوز ضرور دیں تاکہ خون میں ٹائپ 2 کے لئے قوت مدافعت موجود رہے۔

https://www.paho.org/hq/dmdocuments/2014/IPV-IntroductionFAQ-e.pdf

https://www.who.int/immunization/diseases/poliomyelitis/inactivated_polio_vaccine/Key_mess_FAQs.pdf

آئی پی وی کو آہستہ آہستہ ویکسینیشن معمولات (vaccination routines) میں متعارف کرانے کا مقصد پولیو کے خاتمے کے بعد او پی وی کا استعمال مکمل طور پر تمام ممالک میں ختم کرنا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کافی مشکالات درپیش ہیں۔ ایک سب سے بڑا مسئلہ آئی پی وی ویکسین کا مہنگا ہونا بھی ہے۔

https://www.who.int/immunization/di...ine/OPV-switch-short-version-FAQs-Aug2015.pdf

آئی پی وی کے موثر ہونے اور وبا کی صورت میں تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت سے متعلق کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مسلسل سٹڈیز کی جاتی ہیں۔ سٹڈیز سے صاف ظاہر ہے کہ منہ کے ذریعے منتقلی کو او پی وی اور آئی پی وی دونوں روکتی ہیں۔ فیکل منتقلی اور اخراج کے لئے او پی وی موثر ترین ہے۔

آئی پی وی کی وجہ سے فیکل اخراج کی تعداد اور اخراج کے وقت میں کمی آتی ہے۔ اگر کبھی پولیو کی وبا دوبارہ پھیلے گی تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ آئی پی وی وائرس کی منتقلی کم کرنے میں کارآمد ثابت ہوگی۔ اس سلسلے میں کافی سٹڈیز کی جاتی رہتی ہیں۔

The scientific rationale for IPV introduction and OPV withdrawal

بھارت میں کی گئی ایک ریسرچ بہت کارآمد ثابت ہوئی ہے۔

اس ریسرچ میں ایسے بچے جن کو متعدد او پی وی خوراکیں دی گئی تھیں ان کو ایک خوراک آئی پی وی کی دی گئی۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ آئی پی وی کی وجہ سے اخراج میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔

An unexpected benefit of inactivated poliovirus vaccine

The scientific rationale for IPV introduction and OPV withdrawal

For Polio, Two Vaccines Work Better Than One

اس کے علاوہ ایک اسٹڈی جس میں او پی وی اور آئی پی وی کے موازنے سے متعلق اسٹڈیز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا ہے، کا لنک دیا جا رہا ہے۔

Systematic Review of Mucosal Immunity Induced by Oral and Inactivated Poliovirus Vaccines against Virus Shedding following Oral Poliovirus Challenge
 

سین خے

محفلین
پولیو، پولیو کی مہم اور پاکستان:

پاکستان کبھی بھی پولیو سے پاک نہیں رہا، تاہم 2005 میں کیسز کی تعداد بہت ہی کم (28) تھی اور اس وقت سے اب تک یہ تعداد ہر سال بڑھتی رہی ہے اور 2014 میں زیادہ سے زیادہ (306) تک پہنچ گئی۔ جب کہ 2015 میں 38 کیسز رپورٹ ہوئے۔

پولیو پوری دنیا میں صرف دو ممالک (پاکستان اور افغانستان)کے چند حصوں میں ابھی تک موجود ہے، لیکن دنیا سے تقریباً اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ 1988 میں پولیو کے عالمی سطح پر خاتمے کا پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت سے اب تک، بڑی سطح پر حفاظتی قطروں کی مہموں کے طفیل، دنیا بھر میں پولیو کے کیسز 99 فی صد تک کم ہو چکے ہیں۔ پولیو کے قطروں کے ذریعے کم از کم 8 ملین بچوں کو مستقل طور پر معذور ہونے سے بچایا گیا ہے۔ پولیو کی تاریخ دیکھیں تو تقریباً 20 برس قبل، صرف ایکدن میں 1000 بچے پولیو کی وجہ سے مفلوج ہوجاتے تھے۔

2012 میں، پولیو کے عالمی سطح پر خاتمے کے پروگرام کے طفیل،یہ کیسز کم ہو کر پورے سال میں صرف 223 بچوں تک محدود رہ گئے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب ہم مکمل خاتمے کے انتہائی قریب پہنچ چکے تھے۔

NIDs

حکومت پاکستان پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں کے لئے ”قومی مہم برائے انسداد پولیو“(NIDs) کا انعقاد کررہی ہے۔ یونیسف، عالمی ادارہ صحت، روٹری، ریڈ کراس اور ہلال احمر اور انسانی ہمدردی رکھنے والے اور سول سوسائٹی کے دیگر گروپوں سمیت بہت سے غیرملکی اور مقامی ادارے ان مہموں کی منصوبہ بندی اوران پر عمل درآمد کے لئے مدد کر رہے ہیں۔

قومی پولیو مہم (NIDs) کے تحت تین مختص دنوں کے اندر اندر پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو پولیو کی ویکسین پلائی جاتی ہے۔ پولیو کی موثر روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ والدین اس بات کو یقینی بنائیں ہر بچہ ان دنوں میں ویکسین لے رہا ہے۔

"پولیو کے قطرے.... ہر بچہ ہر دفعہ"

پولیو ویکسین نہایت محفوظ ہے اور دنیا بھر کے اسلامی قائدین – الاظہر یونیورسٹی کے عظیم شیخ تنتاوی، سعودی عربیہ کے مستند مفتی اوراسلامی مشاورتی گروپ، قومی اسلامی مشاورتی گروپ اور دیگر معروف اسلامی اداروں سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد اسلامی علماءنے اس کو حلال قرار دے رکھا ہے۔

اکثر پوچھے جانے والے سوالات
 

سین خے

محفلین
IAG Islamic Advisory Group for Polio Eradication

http://www.iag-group.org/home/

http://www.iag-group.org/fatwa/

پاکستان، افغانستان اور نائجیریا سے پولیو کے مکمل خاتمہ کرنے کے لئے 2014 میں مسلم امہ کے علماء، تکنیکی اور تعلیمی ماہرین پر مشتمل ایک مشاورتی انجمن IAG (Islamic Advisory Group for Polio Eradication) قائم کی گئی۔ یہ کمیٹی OIC, اسلامک ڈیولیپمنٹ بینک IsDB, انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی اور مصر کی جامعہ الازھر الشریف کے تعاون سے عمل میں آئی ہے۔ اس کمیٹی کا مقصد مسلمان علماء اور تنطیموں، عطیہ کرنے والے ممالک اور انجمنان کی جانب سے اس ضمن میں معاونت اور حمایت حاصل کرنا ہے۔ اس کمیٹی کے کار نمایاں میں مسلم امہ کے نامور اور مستند علماء کی جانب سے فتاویٰ کو عوام تک پہنچانا ہے۔ یہ فتاویٰ کتابی شکل میں اردو اور پشتو میں IAG کی ویب سائیٹ سے ڈاؤنلوڈ کئے جا سکتے ہیں۔

http://www.iag-group.org/data/other/ulima_fatwa_pakistan.pdf

WHO کے مشرقی بحیرہ روم کے علاقائی دفتر کی ویب سائیٹ پر IAG کی سالانہ ملاقاتوں میں جاری کئے جانے والے بیانات شائع کئے جاتے ہیں۔ ان بیانات میں سے کچھ کے لنکس درج ذیل ہیں

اس کے علاوہ مختلف اسلامی تعلیمی اداروں کے علماء کے فتاویٰ بھی یہاں شائع کئے جاتے ہیں۔ جامعہ الازھر کی اسلامک ریسرچ اکیڈمی کا 2012 میں جاری کردہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شیخ الازھر ڈاکٹر احمد الطیب نے اس بیان میں تمام والدین سے اپیل کی تھی کہ وہ پولیو ویکسین کے بارے میں غلط فہمیوں اور افواہوں پر دھیان نہ دیں اور اپنے بچوں کی پولیو ویکسین ضرور کرائیں کیونکہ پولیو انسانی جان کے لئے خطرہ ہے اور ہم مسلمانوں کو نقصان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس بیان میں قرآن کی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 140 کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔

"یقینا وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنہوں نے حماقت میں بغیر جانے بوجھے اپنی اولاد کو قتل کردیا اور جو رزق خدا نے انہیں دیا ہے اسے اسی پر بہتان لگا کر اپنے اوپر حرام کرلیا -یہ سب بہک گئے ہیں اور ہدایت یافتہ نہیں ہیں۔"

WHO EMRO | The Grand Imam of Al-Azhar urges parents to ensure their children receive polio vaccination, 22 July 2012 | News | Media centre
 

سین خے

محفلین
پاکستان میں پائی جانے والی عام غلط فہمیاں اور افواہیں:

ڈان اخبار نے 2015 میں پولیو ویکسین کے بارے میں پائی جانے والی افواہوں کا تجزیہ کیا تھا۔

Lab tests show polio vaccine is not ‘Haram’ - Pakistan - DAWN.COM

ملک بھر میں یہ خیال عام ہے کہ پولیو ویکسین کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ یہ بات سچ نہیں ہے۔ وزارت صحت (NHS, National Health Services) کے سرکاری ترجمان کےمطابق پولیو ویکسینز DRAP (Drug Regulatory Authority of Pakistan) سے تصدیق اور جانچ پڑتال کے بعد ہی ملک میں استعمال کی جاتی ہیں۔

اس کے باوجود متعدد والدین اپنے بچوں کی پولیو ویکسین نہیں کراتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں 2004 سے جاری قدامت پسند عناصر کی جانب سے افواہوں کا پھیلاؤ ہے۔ ان افواہوں میں سب سے قابل ذکر پولیو ویکسین میں ہارمونز کا شامل ہونا ہے۔

حکام کے مطابق 2012 میں پولیو ورکرز کے خلاف ایک مربوط مہم کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں اب تک 94 پولیو ورکرز اور سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں۔

قطرے پلانے سے انکاری والدین

خوف زدہ والدین کا ردِ عمل پولیو ویکسین کے خلاف دہائیوں پر پھیلے ہوئے شکوک و شبہات کی بنا پر ہے۔

جب پاکستان کی قومی انسدادِ پولیو مہم پہلی بار سنہ 2000 میں شروع ہوئی تو صرف ایک سال یا کچھ عرصے بعد ایک نئے پاکستانی طالبان کمانڈر کا نام سامنے آیا۔

نہایت سنگدل شدت پسند کمانڈر ملّا فضل اللہ نے جب سنہ 2007 میں وادیِ سوات کا کنٹرول سنبھالا تو انہوں نے علاقے میں پولیو مہم پر پابندی عائد کر دی۔

فضل اللہ، جو کہ اب پاکستانی طالبان کے سربراہ ہیں، وہی شخص ہیں جنھوں نے سنہ 2012 میں ملالہ یوسفزئی کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔

اس سے پہلے سنہ 2007 میں انہیں ملّا ریڈیو کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ انھوں نے وادی بھر میں کئی درجن ایف ایم ٹرانسمیٹر نصب کیے ہوئے تھے جن کے ذریعے وہ اپنے خطبات نشر کیا کرتے۔ انہوں نے انسدادِ پولیو مہم کے خلاف یہ کہہ کر مہم چلائی کہ یہ مسلمانوں کو بانجھ کر دینے کی مغربی سازش ہے۔

اس بے بنیاد دعوے نے عوام میں وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات پھیلائے جنھیں سنہ 2011 میں ایک اور واقعے سے تقویت ملی۔

القاعدہ کے سربراہ اور امریکا پر 11 ستمبر کے حملوں کا حکم دینے والے اسامہ بن لادن کے پاکستان میں امریکی فوج کے حملے میں ہلاک ہونے کے چند دن بعد ہی ایک پاکستانی ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا گیا۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک بےضابطہ پولیو مہم کی آڑ میں در در جا کر سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کی تلاش کرنے میں مدد دی۔ اس واقعے نے پولیو کے خاتمے کی پاکستانی مہم کو مزید نقصان پہنچایا۔

سی آئی اے اور مذکورہ ڈاکٹر نے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ ایسی کوئی مہم چلائی گئی لیکن پاکستانی حکام مصر ہیں کہ ایسا ہوا تھا اور ڈاکٹر آفریدی بدستور جیل میں ہیں۔

اس کے ایک سال بعد سنہ 2012 میں امریکی ڈرونز نے افغانستان کی سرحد سے منسلک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو شمالی اور جنوبی وزیرستان کے طالبان کمانڈروں نے پولیو ورکرز پر امریکا کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پولیو ویکسین پلائے جانے پر پابندی عائد کر دی۔

جب پاکستان کی فوج نے طالبان کے زیرِ انتظام علاقوں کا کنٹرول واپس حاصل کیا تو یہ پابندی ختم ہو گئی مگر مقامی مولویوں کی جانب سے ویکسین کے خلاف منظم اور مسلسل مہم جاری رہی جو کہ عوام میں بداعتمادی پھیلانے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے رہے۔

انھوں نے فتوے جاری کیے کہ پولیو ویکسین میں حرام اجزاء مثلاً سور کی چربی شامل ہیں اور یہ ویکسین بچوں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کر سکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ [فتووں میں] یہ بھی کہا گیا کہ خواتین پولیو ورکرز "ناشائستگی" پھیلا رہی تھیں اور یہ کہ ان سے زبردستی شادی کرنا مسلمان مردوں کی ذمہ داری تھی۔

ایک باہمت پولیو ورکر گلناز کی کہانی بی بی سی کی اس رپورٹ میں پڑھی جا سکتی ہے۔ ان کی رشتے دار خواتین کے قتل کئے جانے کے باوجود انھوں نے اپنا پولیو ویکسین پلانے کا سفر جاری رکھا۔

مولانا حمیداللہ حمیدی نے پولیو ویکسین کے حق میں دئیے جانے والے فتاویٰ کی چھان بین کی ہے۔ ان کی کہانی بھی اسی رپورٹ میں پڑھی جا سکتی ہے۔

پولیو کے خلاف جنگ میں فتح کتنی دور ہے؟
 

سین خے

محفلین
Lab tests show polio vaccine is not ‘Haram’ - Pakistan - DAWN.COM

وزارت صحت کے حکام کے بقول ان سب افواہوں کے خاتمے کے لئے مختلف کمپنیوں کی بنائی گئی ویکسین میں ہارمونز کی موجودگی کو پرکھنے کے لئے National Control Laboratory for Biologicals (NCLB) بھیجی گئیں۔

ڈائیریکٹر NCLB ڈاکتر عبدالصمد خان نے تصدیق کی کہ ان نمونوں کی بہت ہی کم مقدار (دو قطروں جو کہ OPV پلانے کی مقدار ہے) کو ہارمونز کی موجودگی کے لئے جانچا گیا۔ اس کم مقدار حتیٰ کہ 0.005 ایم جی کے ارتکاز میں بھی ممکنہ چھ ہارمونز نہیں پائے گئے۔

جہاں تک پولیو ویکسین کے کینسر یا دیگر خطرناک وائرل بیماریوں کا باعث ہونے کا تعلق ہے تو WHO مکمل تحقیق کے ساتھ پولیو ویکسین کی پیداوار کے معیارات کو واضح کر چکا ہے۔ ان تحقیقات کے دوران WHO کوپولیو ویکسین میں کوئی اور وائرس نہیں مل سکے۔

ایک اور بارہا پوچھا جانے والا سوال ہوتا ہے کہ پولیو ویکسین پاکستان میں کیوں نہیں بنائی جاتی ہے۔ پاکستان میں 1980 سے 2003 تک چھ قطروں والی پرانی پولیو ویکسین درآمد شدہ concentrate سے بنائی جاتی رہی ہے۔ چھ قطروں والی ویکسین میں چونکہ منہ سے بہہ جانے کا خدشہ رہتا تھا اسلئے اسے دو قطروں والی ویکسین سے بدل دیا گیا ہے۔

پولیو ویکسین ابھی بھی پاکستان میں بنائی جا سکتی ہے لیکن مستقبل قریب میں چونکہ opv کی جگہ ipv کا استعمال کیا جائے گا اسلئے او پی وی درآمد کرنا زیادہ بہتر ہے۔

فی الحال انڈونیشیا، بیلجیم، بھارت، اطالیہ، اور فرانس opv ویکسین بنا رہے ہیں۔

پاکستان WHO کی تصدیق شدہ کمپنیوں سے ویکسین خریدتا ہے۔ عموماً اس ویکسین کو جانچنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن بعض اوقات حفاظت کے پیش نظر بوجہ ضرورت جانچی جاتی ہے۔

پمز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ ویکسین کا لیب ٹیسٹ کرنے کی ضرورت تھی ہی نہیں کیونکہ ویکسین جینیٹک انجنئیرنگ کے ذریعے بنائی جاتی ہے اسلئے ویکسین کے حرام اور حلال ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہی نہیں ہے۔

اس رپورٹ کے مرتب ہونے کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے اشتراک کے ساتھ مذہبی ناقدین کو پولیو ویکسین کے محفوظ ہونے پر قائل کرنے کے لئے تحریک چلائی گئی۔ اس کے باوجود مذہبی قدامت پسند عناصر اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ آخر ویکسین کیوں درآمد کی جاتی ہے۔ WHO پر بھی ان کا اعتماد بحال نہیں ہو سکا کیونکہ WHO پاکستانی ادارہ نہیں ہے۔
 

سین خے

محفلین
پولیو اور دیگر بیماریوں کی ریسرچ اور علاج پر خرچ کی جانے والی رقم کا موازنہ:

پولیو ویکسین سے متعلق سازشی نظریات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پولیو کے خاتمے کے لئے جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اتنی دوسری بیماریوں کے خاتمے کے لئے نہیں کی جاتی ہے۔

اگر ہم اس حوالے سے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری بیماریوں کے علاج تلاش کرنے کے لئے بھی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2017 میں ٹی بی کے علاج کی تحقیق کے لئے ریکارڈ 772 ملین ڈالرز خرچ کئے گئے لیکن یہ رقم 2 بلین ڈالرز سے پھر بھی بہت کم ہے جو کہ اس تحقیق کے لئے مختص کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں 2005 سے لے کر 2017 تک سالانہ خرچ کی گئی رقم کا موازنہ کیا گیا ہے۔ فنڈنگ میں عمومی طور پر بڑھتا ہوا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

pMTiCaHuVbHPjMEIjrW-VTiCSfwm8CKphdNcHDYVztRXV4-aTknf2vGkREpnesoTu8zkt6GPI3xtDlTIeQ5vrFZDkasSnjshf7W8iIQZh4F8v-P0vM2J8aDzD-4hDmJDY5Z_rLM


Global funding for tuberculosis research hits all-time high

اسی طرح کینسر کے علاج تلاش کرنے کے لئے بھی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق دنیا بھر میں 2004-2005 میں 14030 ملین یوروز خرچ کئے گئے۔

2002-2006 میں یوروپین کمیشن نے 485 ملین یوروز خرچ کئے۔ یورپ میں 50 فیصد فنڈنگ حکومت کرتی ہے جبکہ بقیہ 50 فیصد سماجی ادارے کرتے ہیں۔

fNRIxeJxn3fnQy1l816023EMg9sm6wO15463hyBdK5tyPeeCraj_wn1kQG-y1h0nqMg_SUMbTatP3GuKku9Uc27EnvOXQ3PUbBqkAqsreTr6l2-1Q_wJFW3p9t4J0Jstq3G7W60


یورپ کے برعکس امریکا میں 94 فیصد رقم حکومت خرچ کرتی ہے۔ 2004-2005 میں امریکی حکومت کی جانب سے 3.52 بلین یوروز خرچ کئے گئے۔

5pi0BTLmqr7XWdLU8P4B9-ETrGBQPu0XOhKrJtlrgsiIlreOiuKDZHEvW6PKNJG9uUhvKiOeqMNvGaoIMg8LHcti70UsnGobrxf7a_HQd6RawAPBx46d_S8X7A1EQAxwL00YKmU


https://www.sciencedirect.com/science/article/pii/S1574789108000409

1985-2019 GPEI ( Global Polio Eradication Initiative) کو 15.2 بلین ڈالرز کے عطیات موصول ہوئے۔ اس گراف میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان عطیات میں اضافہ 2004 سے دیکھنے میں آیا۔ اس اضافی فنڈنگ کی بدولت NID (National Immunization Days) میں پولیو کے خاتمے کے لئے مزید کوششیں کی جا سکیں۔

2013 میں GPEI نے پولیو کے مکمل خاتمے کے لئے ایک پر عزم منصوبہ Polio Eradication & Endgame Strategic Plan 2013-2018 تشکیل دیا ۔ اس منصوبے کے تحت 5.5 بلین ڈالرز کی ضرورت تھی۔ 2015 میں اس رقم کو 7 بلین ڈالرز تک بڑھا دیا گیا تھا۔ حالانکہ پولیو صرف پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں وبائی صورت میں موجود تھا، اس کے باوجود ہر بچے تک ویکسین پہنچانے کا عمل بہت زیادہ مہنگا ثابت ہوا۔ 2016 میں 925 ملین ڈالرز میں سے 536 ملین ڈالرز صرف ان تین ممالک پر خرچ ہوئے۔

Polio

امریکا میں پچھلے سال HIV کی ریسرچ پر 4 بلین ڈالرز خرچ کئے گئے۔

ہیپاٹائٹس بی وائرل بیماری ہے اور یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کا علاج موجود ہے لیکن اور موثر علاج کے لئے مسلسل تحقیق کی جاتی رہتی ہے۔ پچھلے سال 47 ملین ڈالرز خرج کئے گئے۔ WHO کے مطابق موثر علاج کے لئے 2025 تک 11 بلین ڈالرز کی ضرورت پیش آئے گی۔ مطلوبہ رقم جمع کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔

hepinion: Patients have an important role to play in the development of a hepatitis B cure | World Hepatitis Alliance

Cost of comprehensive global viral hepatitis prevention and treatment effort might peak at $11 billion in 2025 | World Hepatitis Alliance

******ختم شد******​
 

سین خے

محفلین
مجھے سب سے زیادہ حیرت IAG کے بارے میں پڑھ کر ہوئی۔ جب مسلم امہ کے اتنے زیادہ معروف علماء کے پولیو ویکسین کے حق میں فتاویٰ موجود ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کا مذہبی طبقہ اور عوام پولیو ویکسین کراتے ہوئے ہچکچاتے ہیں؟ کیا ان فتاویٰ تک رسائی نہیں ہو سکی؟
 
Top