اسلاموفوبیا کے ازالے کے لیے ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کا انگریزی چینل کھولنے کا فیصلہ

جاسم محمد

محفلین
اسلاموفوبیا کے ازالے کے لیے ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کا انگریزی چینل کھولنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک 26 ستمبر 2019
Trilateral-meetinf-750x369.jpg

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹ کے ذریعے کہا ہے کہ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان مشترکہ طور پر انگریزی چینل کھولیں گے۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ آج ان کی رجب طیب اردوان اور مہاتیر محمد سے اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ مشترکہ طور پر ایک انگریزی چینل شروع کیا جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا انگریزی زبان کے چینل کا مقصد اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنا ہے، اور دنیا کو اسلام کے بارے میں آگاہی دینا ہے، چینل کا مقصد عظیم مذہب اسلام کے بارے میں غلط تاثر کا خاتمہ ہے۔

انھوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ اس چینل کے ذریعے مسلمانوں کے بارے میں غلط تاثرات ٹھیک کیے جائیں گے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا چینل کے ذریعے توہین رسالت کے معاملے پر دنیا کو آگاہی، مسلمانوں کی تاریخ پر مبنی فلموں کے ذریعے دنیا کو تعلیم دی جائے گی۔

انھوں نے لکھا چینل کے ذریعے مسلمانوں کو میڈیا پر مکمل نمایندگی ملے گی۔

واضح رہے آج پاکستان، ملائیشیا اور ترکی نے مشترکہ طور پر اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرز میں ’نفرت انگیز تقاریر‘ کی روک تھام کے سلسلے میں ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔

کانفرنس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا مذہب کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، مذہبی دہشت گردی کے پیچھے حقیقت کی بہ جائے سیاست ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔
 

زیک

مسافر
ہاہاہا

ویسے تو یہ چینل کھلنا ہی نہیں۔ اگر کھل بھی گیا تو کیا چانس ہے کہ پاکستان کے بلاسفیمی قانون کی زد میں خود ہی آ جائے گا
 
ہاہاہا

ویسے تو یہ چینل کھلنا ہی نہیں۔ اگر کھل بھی گیا تو کیا چانس ہے کہ پاکستان کے بلاسفیمی قانون کی زد میں خود ہی آ جائے گا
اس چینل کے ذریعے ان لوگوں کی نشاندھی کی جائے گی جو اسلاموفوبیا پھیلاتے ہیں۔ باقی پاکستانی خود سمجھدار ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلاموفوبیا چینل، ڈاکٹر شاہد مسعود، صابر شاکر اور اوریا مقبول جان
26/09/2019 عدنان خان کاکڑ



ہمارے محبوب وزیراعظم جناب عمران احمد خان نیازی نے ٹویٹر پر تمام دنیا کو مطلع کیا کہ انہوں نے عالم اسلام کے دیگر دو مقبول، بیدار مغز اور ذی شعور حکمرانوں سیدی رجب طیب ایردوان اور مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ تینوں ممالک ملک کر ایک ایسا انگریزی چینل شروع کریں گے جو اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرے گا اور اسلامی دنیا کی تاریخ سے غیر اسلامی دنیا کو روشناس کروائے گا۔

یہ اعلان پڑھ کر دل خوش ہو گیا ہے۔ انگریزی زبان میں ابھی تک کوئی ایسا چینل موجود نہیں تھا جو حق بیان کرتا۔ لیکن وزیراعظم کو چینل کے ماڈل پر تفکر کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس دو بہترین ماڈل موجود ہیں۔ پہلا تو مدنی چینل کا ہے۔

اگر اس کی نشریات کو انگریزی زبان میں دنیا تک پہنچانے کا بندوبست کر لیا جائے تو دنیا ہمارے عطاری صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے سوا اور کیا کرے گی؟ جب انہیں پتہ چلے گا کہ بدکاری سے بچنے والا مدنی چشمہ ایجاد ہو چکا ہے، موٹر سائیکل کی سواری کے وقت جذبات کو بے قابو ہونے سے بچانے کے لئے مدنی تکیہ استعمال کرنا تیر بہدف نتائج دیتا ہے، اور کھیرے کو کاٹنے کا درست طریقہ کیا ہے جس سے اس کی مثبت تاثیر بڑھ جاتی ہے اور منفی تاثیر و استعمالات کا تدارک ہو جاتا ہے، تو اہل مغرب اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر مسلمانوں سے نفرت نہیں کریں گے۔ وہ جان جائیں گے کہ یہ امن پسند لوگ ہیں جو مفید اور دل خوش کر دینے والے ریسرچ کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ایک سیگمنٹ عبقری کا بھی رکھ لیا جائے تو اہل مغرب اپنی روح میں بسی بے چینی، بے وفا زن و شو، گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے کلچر اور فواحش و خمر سے بھی بچ جائیں گے اور ایک پرسکون اور خوشیوں بھری زندگی گزارنے کا راز اور وظائف جان لیں گے۔ اس ماڈل سے ان کے دل میں بسی یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ مولوی حضرات بم بارود کے شائق ہیں اور وہ یہ حقیقت جان لیں گے کہ دم درود کا اثر ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک وظیفہ کسی دشمن کو دوست بھی بنا سکتا ہے اور دوسرا اسے خاک چٹا سکتا ہے۔

دوسرا ماڈل یہ ہے کہ اہل مغرب کو حالات حاضرہ کا سچا رخ دکھایا جائے۔ اس کے لئے ڈاکٹر شاہد مسعود، صابر شاکر، عارف حمید بھٹی اور اوریا مقبول جان جیسے نابغوں کو اس اسلاموفوبیا ٹی وی پر اینکر بھرتی کیا جائے۔

رخش تصور کو دوڑائیں۔ سوچیں کہ جب صابر شاکر اور عارف حمید بھٹی اس انداز میں نیتن یاہو اور ڈانلڈ ٹرمپ کے لتے لیں گے جیسے وہ نواز شریف اور آصف زرداری کے لیا کرتے ہیں، تو ان نابکاروں کو دنیا میں کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ دنیا ان کے بارے میں سچ جان جائے گی۔ اب یا تو وہ راہ راست پر آ جائیں گے ورنہ ان کے ملکوں کی نیب انہیں پکڑ کر اندر کر دے گی۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے ذریعے انہیں پتہ چلے گا کہ ان کے ملکوں میں ڈارک ویب پر کیا کیا قبیح حرکات کی جا رہی ہیں۔ پیسے کے پجاری کس طرح غریب ملکوں میں اپنا نیٹ ورک بنا کر اپنا مذموم بزنس کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ قیامت آنے میں کتنا عرصہ باقی ہے اور اس سے پہلے وہ کس طرح مسلمان ممالک کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں گے۔

ہمیں امید ہے کہ اسلامی دنیا کی تاریخ سے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود ہی آگاہ کریں گے۔ جب وہ انگریزی میں بتائیں گے کہ کس طرح اسلامی عساکر نے مغرب کو بری طرح مارا تھا اور کام ایک ہزار سال تک اسے میدانِ جنگ میں شکست دیتے رہے تھے، تو وہ اپنی موجودہ برتری پر شرمسار ہوں گے اور اہل مغرب جان جائیں گے کہ خلیفہ عصر سیدی رجب طیب ایردوان نے بہ امر مجبوری امن کی بجائے جنگ کا راستہ اختیار کیا تو ان کا کیا حشر ہو گا۔

اوریا مقبول جان اہل مغرب کے لئے سب سے بڑی قیامت ہوں گے۔ ہماری رائے میں تو ڈاکٹر شاہد مسعود کو سب سے پہلے ان ہی کے بارے میں اہل مغرب کو خبردار کرنا چاہیے۔ سوچیں کہ جب اوریا مقبول جان امریکہ کی سیاست پر تبصرہ کر رہے ہوں گے اور ٹرمپ کو ڈانٹیں پھٹکاریں گے کہ ملینیا کیسا فحش و نامعقول لباس پہن کر غیر ملکی مہمانوں سے مل رہی ہے تو بچارہ ٹرمپ منہ چھپاتا پھرے گا۔ پھر جب اسے پتہ چلے گا کہ ملینیا کے اس لباس کی وجہ سے ہی امریکہ میں زلزلے اور طوفان آ رہے ہیں اور افغانستان میں اسے ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے تو اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ اوریا صاحب اس کی امریکی طرز معاشرت، ٹی وی اور فلم، اور اشتہارات پر ڈیڑھ ڈیڑھ سیکنڈ کی راہنمائی کریں گے۔

ہمیں امید ہے کہ یہ سب پروگرام دیکھ کر اہل مغرب اسلاموفوبیا ترک کر دیں گے۔ انہیں یقین ہو جائے گا کہ انہیں ڈرنے اور خوفزدہ ہونے کی ہرگز بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو یہ چینل دیکھ کر اتنا زیادہ خوش ہوں گے کہ ٹی وی آن کرتے ہی ہنسنے لگیں گے۔

آپ کو اگر ہماری بات پر یقین نہیں ہے تو مدنی چینل یا ان اینکر حضرات کی انگریزی میں ڈبنگ کر کے اپنے کسی جاننے والے انگریز کو دکھا دیں اور اس کا ردعمل دیکھ لیں کہ وہ اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر نفرت کر رہا ہے یا ایسا خوش ہوا ہے کہ بے اختیار ہنسنے لگا ہے۔
 
اسلاموفوبیا چینل، ڈاکٹر شاہد مسعود، صابر شاکر اور اوریا مقبول جان
26/09/2019 عدنان خان کاکڑ



ہمارے محبوب وزیراعظم جناب عمران احمد خان نیازی نے ٹویٹر پر تمام دنیا کو مطلع کیا کہ انہوں نے عالم اسلام کے دیگر دو مقبول، بیدار مغز اور ذی شعور حکمرانوں سیدی رجب طیب ایردوان اور مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ تینوں ممالک ملک کر ایک ایسا انگریزی چینل شروع کریں گے جو اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرے گا اور اسلامی دنیا کی تاریخ سے غیر اسلامی دنیا کو روشناس کروائے گا۔

یہ اعلان پڑھ کر دل خوش ہو گیا ہے۔ انگریزی زبان میں ابھی تک کوئی ایسا چینل موجود نہیں تھا جو حق بیان کرتا۔ لیکن وزیراعظم کو چینل کے ماڈل پر تفکر کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس دو بہترین ماڈل موجود ہیں۔ پہلا تو مدنی چینل کا ہے۔

اگر اس کی نشریات کو انگریزی زبان میں دنیا تک پہنچانے کا بندوبست کر لیا جائے تو دنیا ہمارے عطاری صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے سوا اور کیا کرے گی؟ جب انہیں پتہ چلے گا کہ بدکاری سے بچنے والا مدنی چشمہ ایجاد ہو چکا ہے، موٹر سائیکل کی سواری کے وقت جذبات کو بے قابو ہونے سے بچانے کے لئے مدنی تکیہ استعمال کرنا تیر بہدف نتائج دیتا ہے، اور کھیرے کو کاٹنے کا درست طریقہ کیا ہے جس سے اس کی مثبت تاثیر بڑھ جاتی ہے اور منفی تاثیر و استعمالات کا تدارک ہو جاتا ہے، تو اہل مغرب اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر مسلمانوں سے نفرت نہیں کریں گے۔ وہ جان جائیں گے کہ یہ امن پسند لوگ ہیں جو مفید اور دل خوش کر دینے والے ریسرچ کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ایک سیگمنٹ عبقری کا بھی رکھ لیا جائے تو اہل مغرب اپنی روح میں بسی بے چینی، بے وفا زن و شو، گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے کلچر اور فواحش و خمر سے بھی بچ جائیں گے اور ایک پرسکون اور خوشیوں بھری زندگی گزارنے کا راز اور وظائف جان لیں گے۔ اس ماڈل سے ان کے دل میں بسی یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ مولوی حضرات بم بارود کے شائق ہیں اور وہ یہ حقیقت جان لیں گے کہ دم درود کا اثر ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک وظیفہ کسی دشمن کو دوست بھی بنا سکتا ہے اور دوسرا اسے خاک چٹا سکتا ہے۔

دوسرا ماڈل یہ ہے کہ اہل مغرب کو حالات حاضرہ کا سچا رخ دکھایا جائے۔ اس کے لئے ڈاکٹر شاہد مسعود، صابر شاکر، عارف حمید بھٹی اور اوریا مقبول جان جیسے نابغوں کو اس اسلاموفوبیا ٹی وی پر اینکر بھرتی کیا جائے۔

رخش تصور کو دوڑائیں۔ سوچیں کہ جب صابر شاکر اور عارف حمید بھٹی اس انداز میں نیتن یاہو اور ڈانلڈ ٹرمپ کے لتے لیں گے جیسے وہ نواز شریف اور آصف زرداری کے لیا کرتے ہیں، تو ان نابکاروں کو دنیا میں کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ دنیا ان کے بارے میں سچ جان جائے گی۔ اب یا تو وہ راہ راست پر آ جائیں گے ورنہ ان کے ملکوں کی نیب انہیں پکڑ کر اندر کر دے گی۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے ذریعے انہیں پتہ چلے گا کہ ان کے ملکوں میں ڈارک ویب پر کیا کیا قبیح حرکات کی جا رہی ہیں۔ پیسے کے پجاری کس طرح غریب ملکوں میں اپنا نیٹ ورک بنا کر اپنا مذموم بزنس کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ قیامت آنے میں کتنا عرصہ باقی ہے اور اس سے پہلے وہ کس طرح مسلمان ممالک کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں گے۔

ہمیں امید ہے کہ اسلامی دنیا کی تاریخ سے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود ہی آگاہ کریں گے۔ جب وہ انگریزی میں بتائیں گے کہ کس طرح اسلامی عساکر نے مغرب کو بری طرح مارا تھا اور کام ایک ہزار سال تک اسے میدانِ جنگ میں شکست دیتے رہے تھے، تو وہ اپنی موجودہ برتری پر شرمسار ہوں گے اور اہل مغرب جان جائیں گے کہ خلیفہ عصر سیدی رجب طیب ایردوان نے بہ امر مجبوری امن کی بجائے جنگ کا راستہ اختیار کیا تو ان کا کیا حشر ہو گا۔

اوریا مقبول جان اہل مغرب کے لئے سب سے بڑی قیامت ہوں گے۔ ہماری رائے میں تو ڈاکٹر شاہد مسعود کو سب سے پہلے ان ہی کے بارے میں اہل مغرب کو خبردار کرنا چاہیے۔ سوچیں کہ جب اوریا مقبول جان امریکہ کی سیاست پر تبصرہ کر رہے ہوں گے اور ٹرمپ کو ڈانٹیں پھٹکاریں گے کہ ملینیا کیسا فحش و نامعقول لباس پہن کر غیر ملکی مہمانوں سے مل رہی ہے تو بچارہ ٹرمپ منہ چھپاتا پھرے گا۔ پھر جب اسے پتہ چلے گا کہ ملینیا کے اس لباس کی وجہ سے ہی امریکہ میں زلزلے اور طوفان آ رہے ہیں اور افغانستان میں اسے ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے تو اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ اوریا صاحب اس کی امریکی طرز معاشرت، ٹی وی اور فلم، اور اشتہارات پر ڈیڑھ ڈیڑھ سیکنڈ کی راہنمائی کریں گے۔

ہمیں امید ہے کہ یہ سب پروگرام دیکھ کر اہل مغرب اسلاموفوبیا ترک کر دیں گے۔ انہیں یقین ہو جائے گا کہ انہیں ڈرنے اور خوفزدہ ہونے کی ہرگز بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو یہ چینل دیکھ کر اتنا زیادہ خوش ہوں گے کہ ٹی وی آن کرتے ہی ہنسنے لگیں گے۔

آپ کو اگر ہماری بات پر یقین نہیں ہے تو مدنی چینل یا ان اینکر حضرات کی انگریزی میں ڈبنگ کر کے اپنے کسی جاننے والے انگریز کو دکھا دیں اور اس کا ردعمل دیکھ لیں کہ وہ اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر نفرت کر رہا ہے یا ایسا خوش ہوا ہے کہ بے اختیار ہنسنے لگا ہے۔

اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی ترجمانی کرنے کے لئے ہمارے پاس صرف یہی حضرات ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پہلے ہی دنیا بھر میں اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کی یا ان کے قابلِ اعتماد نمائندوں کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں۔ مولانا طارق جمیل صاحب بھی ایک متفقہ نام ہو سکتے ہیں۔ یہ دو حضرات وہ ہیں جو پہلے سے ہی منظرِ عام پر موجود ہیں، ان کے علاوہ بھی پاکستان سے ماڈریٹ اور سلجھے ہوئے اہلِ علم حضرات مل سکتے ہیں جو دلکش پیرائے میں اسلامی معلومات پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں (بشرطیکہ خلوصِ دل سے مثبت اغراض کے لئے تلاش کئے جائے، نہ کہ مذہب کو بدنام کرنے، یا اختلافات کو ہوا دینے کی نیت سے)۔
اسی طرح دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک میں سے بھی، زیادہ نہیں تو اکا دکا ہر ملک سے، ایسے افراد مل جائیں گے جو اسلام کی حقیقی معتدل روح لوگوں کے سامنے لاسکیں۔ انڈیا کے ’’پیس ٹی وی‘‘ کی مثال لے لیں، اگرچہ وہ تمام مسالکِ فکر کی ترجمانی نہیں کرتے، لیکن چینل مجموعی اعتبار سے بہر حال کامیابی سے اور بغیر کسی قسم کی مضحکہ خیز کیفیت کے چل رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر یوٹیوب وغیرہ پر دینی مدارس کی طرف سے بہت سے چینلز اور پیجز کامیاب انداز میں چلائے جا رہے ہیں، ایسے افراد سے رابطہ کر کے انہیں ٹیم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایسا چینل بنانے میں ابتدائی طور پر مشکلات ضرور ہو سکتی ہیں، مگر یہ کوئی بہت بڑا معمہ نہیں ہے۔ شرط صرف اتنی سے ہے، کہ نیت صاف ہو، حقیقی اسلام کی ترجمانی مقصود ہو، سیاسی مفادات یا کسی خاص طبقے کی ترجمانی مقصود نہ ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
امُہ مانگے مور
27/09/2019 محمد حنیف

بچپن میں ہی ہمیں علامہ اقبال کے اس شعر کا رٹا لگوا دیا گیا تھا جس میں انھوں نے اپنا دوسرا خواب بیان کیا تھا۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

قائدِ اعظم کو اللہ تعالیٰ نے مہلت نہ دی اور وہ خواب نمبر 1 یعنی پاکستان کی ہی تعبیر دیکھ پائے۔ باقی ہمارے کسی رہنما کو علامہ اقبال کا دوسرا خواب سمجھ ہی نہیں آیا۔ ایوب، ضیا، مشرف امریکہ کی چاکری کرتے رہے۔ بھٹو نے ایک دفعہ سارے مسلمان بادشاہوں کو لاہور کی بادشاہی مسجد میں اکٹھا کیا لیکن خود بھٹو کا اور بادشاہی مسجد میں ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے زیادہ تر رہنماؤں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ اس کے بعد امت تتر بتر ہو گئی۔

جس حرم کی پاسبانی ہم نے کرنی تھی اس کے پاسبانوں نے امریکہ اور یورپ سے ہر سال کھربوں کا اسلحہ خریدنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ہمسائے میں بیٹھے غریب یمنی امتیوں پر آزمانا شروع کر دیا۔

اس سارے قصے میں امت امُہ کب بنی ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ لیکن اس امُہ کے تین بڑے یعنی مہاتر محمد، اردگان اور عمران خان سر جوڑ کر بیٹھے یہ سوچنے کے لیے کہ امُہ کا مسئلہ کیا ہے۔ امُہ چاہتی کیا ہے۔ جواب آیا کہ ایک ٹی وی چینل۔ چونکہ دنیا امُہ کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ مسلمانوں کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں ، کیونکہ اسلام سے نفرت ایک وبا بنتی جا رہی اس لیے اس کا تدارک کرنے کے لیے کیا کیا جائے۔ ایک ٹی وی چینل کھولا جائے تاکہ دنیا کو اسلام کا اصلی چہرہ دکھایا جائے۔ سوچا تو یہ بھی جا سکتا ہے کہ اپنے کرتوت وغیرہ ٹھیک کر کے کوشش کی جائے۔ اگر وہ تھوڑا مشکل لگتا ہے تو کم از کم ایک مشترکہ بیان یہ ہی دے دیا جائے کہ حرم شریف پر ہماری جان بھی قربان ہے لیکن اگر اس حرم کا پاسبان شہزادہ ایک صحافی کو استنبول کے سفارتخانے میں بلوا کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کٹوا کر لاش ہی غائب کر دے تو اس سے اسلام کی کوئی نیک نامی ہوئی۔

108999904_gettyimages-1170491070.jpg

Getty Images
پاکستان، ترکی اور ملایشیا مل کر ایک ٹی وی چینل بنانا چاہتے ہیں کہ دنیا میں اسلاموفوبیا کا مقابلہ کیا جا سکے
لیکن اگر امُہ کے تین بڑوں نے فیصلہ کیا ہے تو چینل تو بن کر رہے گا۔ اس پر ہمارا مثبت امیج بنانے کے لیے خبریں پتہ نہیں کس طرح کی چلیں گی۔ کیا یمن کے بے یارومددگار امتی ’اسلام امن کا دین ہے‘ قسم کا پیغام دیں گے۔ ترکی کی جیلوں میں قید سینکڑوں صحافیوں اور ہزاروں سیاسی کارکنوں سے پوچھا جائے گا کہ نیل کے ساحل چلو گے یا تمہیں کاشغر میں سیاسی پناہ دلوائی جائے۔ کیا پاکستان سے جان بچا کر بھاگنے والے ہزارے جو اب ملائشیا میں میں پناہ کی تلاش میں ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ ملائشیا کے امتیوں کی میزبانی کا مزہ آ رہا ہے؟ کم از کم یہ تو دکھایا ہی جا سکے گا کہ ڈی ایچ اے کوئٹہ امت کی تاریخ میں ایک تاریخ ساز واقعہ ہے اور اس کے اشتہارات اور نقشے دیکھ کر کسی کو کچھ شک ہو سکتا ہے کہ امت کا مستقبل تابناک ہے۔

ملائشیا کا مجھے زیادہ پتہ نہیں لیکن پاکستان اور ترکی میں بہت سے صحافی بے روز گار ہیں بلکہ ترکی میں تو بے روزگار صحافیوں کے طعام و قیام کا بندوبست جیلوں ہی میں کر دیا گیا ہے۔ (جن پاکستانی صحافیوں کا ہیرو اردگان ہے انھیں یاد کرانا پڑتا ہے کہ آپ جیسے ہزاروں ہیرو صحافی ترکی کی جیلوں میں ہیں اور جو وہاں کے جنگ، جیو، ڈان، نوائے وقت تھے وہ وفات فرما چکے ہیں)۔

تو امُہ کے نئے چینل کے لیے صحافی تو ٹکے ٹوکری مل جائیں گے لیکن چینل کو کامیاب بنانے کے لیے جو وژن چاہیئے وہ صرف اور صرف سر غفور کے پاس ہے۔ میں ان کا نام صرف اس لیے تجویز نہیں کر رہا کہ وہ پاکستانی ہیں بلکہ اس لیے کہ اپنے کام سے انکی لگن اور مہارت بے مثال ہے۔ ویسے بھی امُہ کا سافٹ امیج بنانے کے لیے سر غفور کے سوفٹ ٹچ کی ضرورت ہے۔ ترکی میں جو صحافی حکومت کو پسند نہیں آتا اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے، سر غفور کسی صحافی سے نظریں پھیر لیں تو وہ خود ہی گھر جا کر بیٹھ جاتا ہے اور یو ٹیوب چینل کھولنے کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔

ویسے جتنے چینل سر ایک وقت میں بند کر دیتے ہیں مہاتر اور اردگان کو اس کے لیے ایک چھوٹی موٹی فوج درکار ہوتی ہے۔

پاک فوج پاکستان کا فخر ہے اور پاک فوج کا فخر کون ہے۔ میں بار بار ان کا نام لے کر شرمندہ نہیں کرنا چاہتا لیکن یقین کریں کہ وقت آ گیا ہے کہ ان کی خدمات امُہ کے حوالے کی جائیں۔ انھیں 24 گھنٹے والا نیوز سائیکل سنبھالنے کے ساتھ ساتھ شو بزنس، میوزک، فلم اور ڈرامہ پروڈکشن کا بھی وسیع تجربہ ہے۔ انکی خدمات اگر امُہ کو مل جائیں تو حرم کی پاسبانی بھی ہوتی رہے گی اور پارٹی بھی چلتی رہے گی۔
 
Top