نظم برائے اصلاح

الف عین صاحب و دیگر محفلین
یہ نظم مستفعلن مستفعلن فاعلن کے وزن پر ہے مگر یہ کوئی بحر نہیں ہے۔۔ اس کو فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کے وزن پر ۔۔ یا مستفعلن مستفعلن مستفعلن کے وزن پر کیسے ممکن ہے یا آپ کے نزدیک کیسے بہتر ہو سکتی ہے
ہے زندگی کوہ- گراں ساقیا
اب نا رہی تاب و تواں ساقیا

جب ہوا دل ناتواں ساقیا
آیا سنانے داستاں ساقیا

تنگ نا کرے حسن-بتاں ساقیا
حسن-ازل کر دے عیاں ساقیا

میں پینے آیا تھا شراب-کہن
نا دی چھپا دی ہے کہاں ساقیا

ہو بے قراری کس طرح سے بیاں
کر دی ادب نے بند زباں ساقیا

میں تو پریشاں کم نگاہی سے ہوں
بس اک نظر کا کر زیاں ساقیا

کچھ یوں پلا جام-شراب-الست
پاوں حیات-جاوداں ساقیا

بس فکر ہے اپنا مجھے رات دن
محدود سے کر بے کراں ساقیا

مجھ کو اڑا دے تو وہاں تک جہاں
نا ہو زماں نا ہو مکاں ساقیا

جو مستیاں مد ہوشیاں ہیں تری
کر دے مجھے بھی رازداں ساقیا

اس جیتے جی جذبات ہی مر چلے
پھر سے مجھے کر دے جواں ساقیا

رنگ دے مجھے بھی اپنے ہی رنگ میں
انگ انگ سے ہو تو ہی عیاں ساقیا

اس دھوپ میں غم کی مجھے چاہیے
زلف-کرم کا سائباں ساقیا

میں عقل کے صحرا میں ہی کھو گیا
الفت سے کر دل ضوفشاں ساقیا

یوں لا الہ کا پلا جام و سبو
تاب-یقیں ہو ضوفشاں ساقیا

ایسے پلا چھوٹے نا کبھی
مجھ سے ترا یہ آستاں ساقیا

عابد ہے کیا ؟اور اس کے ہیں شعر کیا
تو ہی بنا حسن- بیاں ساقیا
 

الف عین

لائبریرین
ساقیا ردیف لانے کی ضرورت؟ سارے اشعار میں رندی کی کیفیت تو موجود نہیں، یہاں کچھ بھی لا سکتے ہیں، ساقی مرے، پمدم مرے، اے چارہ گر وغیرہ
 

فلسفی

محفلین
ویسے پہلا مصرع اس طرح زیادہ رواں لگتا ہے، فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کے وزن پر۔

زندگی کوہِ گراں ہے ساقیا!
یا
زندگی کوہِ گراں ہے، ہم سفر!
 
Top