غزل برائے اصلاح : ہمیں تیری محبت کی ادائیں مار دیتی ہیں

جناب محترم الف عین اور دیگر اساتذہ اکرام سے اصلاح کی گذارش ہے۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

ہمیں تیری محبت کی ادائیں مار دیتی ہیں
ترے معصوم چہرے کی خطائیں مار دیتی ہیں
زمانے کے ستم ہم نے جوانمردی سے جھیلے ہیں
مگر تیری رقیبوں سے وفائیں مار دیتی ہیں
ہمیں خود پر تو قابو ہے مگر کوئی اسے روکے
نشیلی شرم سے بھیگی نگاہیں مار دیتی ہیں
کریں غیروں کا کیوں شکوہ ہمیں یاروں نے لوٹا ہے
محبت سے جو ملتی ہیں سزائیں مار دیتی ہیں
دکھی دل سے نکلتی ہیں جوآہیں بھی دعا بن کر
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے دعائیں مار دیتی ہیں
رہیں دل میں تو اچھا ہے وفائیں بن کے خاموشی
بچا لیتی ہے گمنامی صدائیں مار دیتی ہیں
ملی ہے جن کو محرومی انھیں معلوم کیسے ہو
یہ حسرت ایک نعمت ہے عطائیں مار دیتی ہیں
 
غزل تو زبر دست ہے پر آخری شعر کا مفہوم ہی مجھے سمجھ نہیں آیا!
بہت شکریہ حماد علی بھائی
محرومی اور حسرت کا استعمال سمجھ نہیں آ رہا !
اب قاری کی سمجھ میں نہیں آیا تو خطرہ ہے کہ اساتذہ کی طرف سے بھی اعتراض ہو گا :unsure: ۔ شاید ابلاغ نہیں کرپایا۔ کہنا یہ ہے کہ احساس محرومی (یعنی حسرت) بھی ایک نعمت ہوتی ہے کہ اکثر انسان طلب میں لگا رہتا ہے، فائدے نقصان سے بے نیاز ہو کر۔ لیکن اگر وہی شے جس کی اسے طلب ہو مل جائے اور وہ اس کے لیے نقصان دے ہو تو دہرا نقصان ہوتا ہے، کہ انسان خواہش، طلب اور دعا سے بھی گیا اور نقصان علیحدہ۔ اور اگر فائدہ مند ہوتب بھی دعا اور جستجو تو چھوڑہی بیٹھتا ہے۔
اب احتیاطاً اساتذہ کے رائے سے قبل متبادل سوچ کے رکھتا ہوں۔ بہت مہربانی۔
 

عظیم

محفلین
ہمیں تیری محبت کی ادائیں مار دیتی ہیں
ترے معصوم چہرے کی خطائیں مار دیتی ہیں

'چہرے کی خطائیں' سے آپ کی کیا مراد ہے یہ میں سمجھ نہیں پایا ۔

زمانے کے ستم ہم نے جوانمردی سے جھیلے ہیں
مگر تیری رقیبوں سے وفائیں مار دیتی ہیں

دوسرا مصرع مجھے یوں رواں محسوس ہو رہا ہے ۔
÷رقیبوں سے مگر تیری وفائیں مار دیتی ہیں ۔

ہمیں خود پر تو قابو ہے مگر کوئی اسے روکے
نشیلی شرم سے بھیگی نگاہیں مار دیتی ہیں

'ادائیں' اور 'خطائیں کے ساتھ آپ 'نگاہیں' قافیہ نہیں لا سکتے ۔

کریں غیروں کا کیوں شکوہ ہمیں یاروں نے لوٹا ہے
محبت سے جو ملتی ہیں سزائیں مار دیتی ہیں

تھوڑا سا دو لختی کا احساس ہو رہا ہے مجھے ۔

دکھی دل سے نکلتی ہیں جوآہیں بھی دعا بن کر
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے دعائیں مار دیتی ہیں

یہ شعر تھوڑا مبہم سا ہو گیا ہے ۔ شاید کہنا یہ چاہتے ہیں کہ دکھی دل سے اگر آہیں دعا بن کر نکلتی ہیں تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہی دعائیں یعنی 'آہیں' مار دیتی ہیں ۔ اگر اس مطلب کو راست ادا کر بھی لیا جائے تب بھی بے معنی سا ہی لگے گا یہ شعر ۔

رہیں دل میں تو اچھا ہے وفائیں بن کے خاموشی
بچا لیتی ہے گمنامی صدائیں مار دیتی ہیں

'صدائیں' یوں لگ رہا ہے جیسے صرف قافیہ ہی لایا گیا ہے ۔

ملی ہے جن کو محرومی انھیں معلوم کیسے ہو
یہ حسرت ایک نعمت ہے عطائیں مار دیتی ہیں

شاید یوں درست کیا جا سکتا ہے اس شعر کو ۔

ملی ہے جن کو محرومی انہیں معلوم ہے یہ بات
کہ حسرت ایک نعمت ہے عطائیں مار دیتی ہیں

لیکن یہاں بھی 'عطائیں' کا ستعمال کچھ کھٹک رہا ہے ۔
 
زمانے کے ستم ہم نے جوانمردی سے جھیلے ہیں
مگر تیری رقیبوں سے وفائیں مار دیتی ہیں

کریں غیروں کا کیوں شکوہ ہمیں یاروں نے لوٹا ہے
محبت سے جو ملتی ہیں سزائیں مار دیتی ہیں

ملی ہے جن کو محرومی انھیں معلوم کیسے ہو
یہ حسرت ایک نعمت ہے عطائیں مار دیتی ہیں
بہت زبردست ۔ مزہ آیا پڑھ کے ۔ ڈھیروں داد بھیا
 
بہت شکریہ جناب محترم الف عین صاحب اور جناب محترم عظیم صاحب
'چہرے کی خطائیں' سے آپ کی کیا مراد ہے یہ میں سمجھ نہیں پایا ۔
جناب چہرے کے مختلف اعضا یعنی آنکھ، ابرو وغیرہ سے جو اشارے ہیں ان کو خطا سے تعبیر کیا تھا، شاید بات واضح نہیں کرپایا۔ اگر مناسب نہیں تو دوسرا مصرع یوں بدل سکتے ہیں؟
نگاہوں میں بھری ہیں جو خطائیں مار دیتی ہیں
دوسرا مصرع مجھے یوں رواں محسوس ہو رہا ہے ۔
÷رقیبوں سے مگر تیری وفائیں مار دیتی ہیں ۔
جی بہتر ہے۔
'ادائیں' اور 'خطائیں کے ساتھ آپ 'نگاہیں' قافیہ نہیں لا سکتے ۔
یہ غلطی تلفظ کی وجہ سے کر گیا۔ نشاندہی کے لیے شکریہ۔ مصرع بدل کر یہ شعر یوں مناسب ہوگا؟
ہمیں خود پر تو قابو ہے مگر کوئی تجھے روکے
کہ بھیگی تیری خوشبو میں ہوائیں مار دیتی ہیں
کریں غیروں کا کیوں شکوہ ہمیں یاروں نے لوٹا ہے
محبت سے جو ملتی ہیں سزائیں مار دیتی ہیں
تھوڑا سا دو لختی کا احساس ہو رہا ہے مجھے ۔
تھوڑا رحم بھی کیا کریں عظیم بھائی :)، خیردوسرا مصرع یوں کیسا رہے گا؟
جو اپنوں سے ملی ہوں وہ سزائیں مار دیتی ہیں
دکھی دل سے نکلتی ہیں جوآہیں بھی دعا بن کر
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے دعائیں مار دیتی ہیں
یہ شعر تھوڑا مبہم سا ہو گیا ہے ۔ شاید کہنا یہ چاہتے ہیں کہ دکھی دل سے اگر آہیں دعا بن کر نکلتی ہیں تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہی دعائیں یعنی 'آہیں' مار دیتی ہیں ۔ اگر اس مطلب کو راست ادا کر بھی لیا جائے تب بھی بے معنی سا ہی لگے گا یہ شعر ۔
جناب معنی تو آپ صحیح سمجھے ہیں یعنی ابلاغ تو ہوگیا۔ بے معنی والی بات سمجھ نہیں آئی۔ خیراگر دوسرا مصرع یوں کہیں تو کچھ بہتری ہو پائے گی؟
جفائیں کرنے والوں کو دعائیں مار دیتی ہیں
رہیں دل میں تو اچھا ہے وفائیں بن کے خاموشی
بچا لیتی ہے گمنامی صدائیں مار دیتی ہیں
'صدائیں' یوں لگ رہا ہے جیسے صرف قافیہ ہی لایا گیا ہے ۔
ہائے ہائےکتنا آسان ہےیہ کہہ دینا :) (مذاق)۔ اگر شعر یوں بدل دیں تو مناسب رہے گا؟
رہے دل میں تو اچھا ہے محبت بن کے خاموشی
زمانے پر عیاں ہوں تو وفائیں مار دیتی ہیں
شاید یوں درست کیا جا سکتا ہے اس شعر کو ۔

ملی ہے جن کو محرومی انہیں معلوم ہے یہ بات
کہ حسرت ایک نعمت ہے عطائیں مار دیتی ہیں

لیکن یہاں بھی 'عطائیں' کا ستعمال کچھ کھٹک رہا ہے
نہ کھٹکائیں جناب، ہم تو پہلے ہی کھٹکے ہوئے ہیں، بلکہ کھڑکے ہوئے ہیں۔ :) یہ دیکھیے کیسا رہے گا؟
فقط محرومیوں کا ہی گلہ جن کی زباں پر ہو
انھیں معلوم کیسے ہو عطائیں مار دیتی ہیں
تسبیغ ہزج سالم میں جائز ہے اور نظائر بھی بے شمار مل سکتے ہیں مگر روانی کو عروضی سقم کے بعد جو چیز سب سے زیادہ مجروح کرتی ہے وہ یہی ہے۔
جناب محمد ریحان قریشی صاحب اب معلوم ہوا کہ آپ عام طور پر اپنی رائے کا اظہار ہم مبتدیوں کے لیے کیوں نہیں کرتے۔ یہ تو سرکے بہت ہی اوپر سے گزر گئی ہے۔ (n) کئی مرتبہ آپ کا جملہ پڑھا ہے کچھ کچھ سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔
 

حماد علی

محفلین
بہت شکریہ حماد علی بھائی

اب قاری کی سمجھ میں نہیں آیا تو خطرہ ہے کہ اساتذہ کی طرف سے بھی اعتراض ہو گا :unsure: ۔ شاید ابلاغ نہیں کرپایا۔ کہنا یہ ہے کہ احساس محرومی (یعنی حسرت) بھی ایک نعمت ہوتی ہے کہ اکثر انسان طلب میں لگا رہتا ہے، فائدے نقصان سے بے نیاز ہو کر۔ لیکن اگر وہی شے جس کی اسے طلب ہو مل جائے اور وہ اس کے لیے نقصان دے ہو تو دہرا نقصان ہوتا ہے، کہ انسان خواہش، طلب اور دعا سے بھی گیا اور نقصان علیحدہ۔ اور اگر فائدہ مند ہوتب بھی دعا اور جستجو تو چھوڑہی بیٹھتا ہے۔
اب احتیاطاً اساتذہ کے رائے سے قبل متبادل سوچ کے رکھتا ہوں۔ بہت مہربانی۔
وضاحت کا بہت شکریہ!
اب بات کچھ کچھ سمجھ آ گئی ہے!
 

عظیم

محفلین
جناب چہرے کے مختلف اعضا یعنی آنکھ، ابرو وغیرہ سے جو اشارے ہیں ان کو خطا سے تعبیر کیا تھا، شاید بات واضح نہیں کرپایا۔ اگر مناسب نہیں تو دوسرا مصرع یوں بدل سکتے ہیں؟
نگاہوں میں بھری ہیں جو خطائیں مار دیتی ہیں

÷یہاں بھی تقریباً وہی صورتحال ہے ۔ خطائیں کس طرح نگاہوں میں بھری ہو سکتی ہیں ؟
اور نگاہ سے تو کوئی اشارہ وغیرہ بھی ممکن نہیں ۔ جس کی صورت میں کوئی خطا سرزد ہو ۔


یہ غلطی تلفظ کی وجہ سے کر گیا۔ نشاندہی کے لیے شکریہ۔ مصرع بدل کر یہ شعر یوں مناسب ہوگا؟
ہمیں خود پر تو قابو ہے مگر کوئی تجھے روکے
کہ بھیگی تیری خوشبو میں ہوائیں مار دیتی ہیں

÷پہلے مصرع میں 'تجھے' کی بجائے' اسے' ہی بہتر تھا ۔ اور دوسرے مصرع میں بھی 'بھیگی' کی جگہ 'رچی بسی ہوئی' یا ' خوشبو سے مہکتی ہوئی ہوائیں' استعمال کیا جائے تو زیادہ خوبصورت لگے گا ۔ ایک بات اور کہ 'ہوائیں' کے ساتھ کسی طرح 'یہ' یا 'ہوئی' جیسے الفاظ لے آئیں ۔


تھوڑا رحم بھی کیا کریں عظیم بھائی :)، خیردوسرا مصرع یوں کیسا رہے گا؟
جو اپنوں سے ملی ہوں وہ سزائیں مار دیتی ہیں

÷مجھے لگتا ہے کہ اگر پہلے مصرع میں 'یاروں' کی جگہ 'اپنوں' کا استعمال کریں اور دوسرے میں 'سزائیں' کس بات کی ملتی ہیں اس کی وضاحت کر دیں تو شعر درست ہو سکتا ہے ۔

جناب معنی تو آپ صحیح سمجھے ہیں یعنی ابلاغ تو ہوگیا۔ بے معنی والی بات سمجھ نہیں آئی۔ خیراگر دوسرا مصرع یوں کہیں تو کچھ بہتری ہو پائے گی؟
جفائیں کرنے والوں کو دعائیں مار دیتی ہیں

÷ابھی بھی واضح نہیں لگ رہا ۔ دعاؤں کا اثر تو مثبت ہونا چاہیے نا ؟


ہائے ہائےکتنا آسان ہےیہ کہہ دینا :) (مذاق)۔ اگر شعر یوں بدل دیں تو مناسب رہے گا؟
رہے دل میں تو اچھا ہے محبت بن کے خاموشی
زمانے پر عیاں ہوں تو وفائیں مار دیتی ہیں

÷پہلا مصرع اچھا ہے لیکن دوسرا اس کے جوڑ کا نہیں ہو پا رہا ۔ یہاں بھی 'وفائیں' بھرتی کا محسوس ہو رہا ہے مجھے ۔

نہ کھٹکائیں جناب، ہم تو پہلے ہی کھٹکے ہوئے ہیں، بلکہ کھڑکے ہوئے ہیں۔ :) یہ دیکھیے کیسا رہے گا؟
فقط محرومیوں کا ہی گلہ جن کی زباں پر ہو
انھیں معلوم کیسے ہو عطائیں مار دیتی ہیں

÷'عطائیں' کے معاملے میں ابھی بھی میری رائے وہی ہے ۔ اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کہ کس طرح کی عطائیں اور کس کی جانب سے ۔
 

عظیم

محفلین
تسبیغ ہزج سالم میں جائز ہے اور نظائر بھی بے شمار مل سکتے ہیں مگر روانی کو عروضی سقم کے بعد جو چیز سب سے زیادہ مجروح کرتی ہے وہ یہی ہے۔
مجھے عروض نہیں آتی محمد ریحان قریشی بھائی ۔ کچھ بحروں کے افاعیل یاد ہیں اور یہ معلوم ہے کہ کسی بحر کے آخری رکن کو گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے ۔ اور 'رکن' کی تعریف بھی مبہم ہے میرے ذہن میں ۔
 
پہلی بات تو یہ ہے کہ جناب محترم الف عین صاحب آپ خود ہوم ورک چیک کیا کریں، یہ مانیٹر(عظیم) صاحب، بہت سختی کرتے ہیں۔ :cry2::cry2::cry2: (مذاق)
مذاق اپنی جگہ پر عظیم صاحب، آپ کی محنت اور شفقت کا ممنون ہوں۔ امید ہے آپ اسی طرح اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہیں گے۔ اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے۔
÷یہاں بھی تقریباً وہی صورتحال ہے ۔ خطائیں کس طرح نگاہوں میں بھری ہو سکتی ہیں ؟
اور نگاہ سے تو کوئی اشارہ وغیرہ بھی ممکن نہیں ۔ جس کی صورت میں کوئی خطا سرزد ہو ۔
جناب دوسرا مصرع یہ درست ہو گا؟
ادا کے نام پر تیری خطائیں مار دیتی ہیں
÷پہلے مصرع میں 'تجھے' کی بجائے' اسے' ہی بہتر تھا ۔ اور دوسرے مصرع میں بھی 'بھیگی' کی جگہ 'رچی بسی ہوئی' یا ' خوشبو سے مہکتی ہوئی ہوائیں' استعمال کیا جائے تو زیادہ خوبصورت لگے گا ۔ ایک بات اور کہ 'ہوائیں' کے ساتھ کسی طرح 'یہ' یا 'ہوئی' جیسے الفاظ لے آئیں ۔
یہ مشکل میں ڈال دیا ہے آپ نے، اب مجھ سے تو یہ ہی بن پایا ہے
تری بُو سے مہکتی یہ ہوائیں مار دیتی ہیں
یا پھر
مہکتی تیری خوشبو سے ہوائیں مار دیتی ہیں
÷مجھے لگتا ہے کہ اگر پہلے مصرع میں 'یاروں' کی جگہ 'اپنوں' کا استعمال کریں اور دوسرے میں 'سزائیں' کس بات کی ملتی ہیں اس کی وضاحت کر دیں تو شعر درست ہو سکتا ہے ۔
یہ دیکھیے جناب
کریں غیروں کا کیوں شکوہ ہمیں اپنوں نے لوٹا ہے
ہمیں رشتے نبھانے کی سزائیں مار دیتی ہیں
÷ابھی بھی واضح نہیں لگ رہا ۔ دعاؤں کا اثر تو مثبت ہونا چاہیے نا ؟
اچھا جی ہم نہیں دیتے دعائیں :sneaky:
دعاؤں کے صلے میں یہ جفائیں مار دیتی ہیں
÷پہلا مصرع اچھا ہے لیکن دوسرا اس کے جوڑ کا نہیں ہو پا رہا ۔ یہاں بھی 'وفائیں' بھرتی کا محسوس ہو رہا ہے مجھے ۔
دوسرا مصرع اگر یوں ہو تو؟
صدا بن کر یہ گونجے تو صدائیں مار دیتی ہیں
÷'عطائیں' کے معاملے میں ابھی بھی میری رائے وہی ہے ۔ اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کہ کس طرح کی عطائیں اور کس کی جانب سے ۔
شعر اگر یوں بدل دیں تو کیسا رہے گا؟
انھیں سے پوچھ کر دیکھو یہ محرومی بھی نعمت ہے
جنھیں محبوب کے در کی عطائیں مار دیتی ہیں
 

عظیم

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ جناب محترم الف عین صاحب آپ خود ہوم ورک چیک کیا کریں، یہ مانیٹر(عظیم) صاحب، بہت سختی کرتے ہیں۔ :cry2::cry2::cry2: (مذاق)

مذاق اپنی جگہ پر عظیم صاحب، آپ کی محنت اور شفقت کا ممنون ہوں۔ امید ہے آپ اسی طرح اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہیں گے۔ اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے۔

جناب دوسرا مصرع یہ درست ہو گا؟
ادا کے نام پر تیری خطائیں مار دیتی ہیں

÷مجھے لگتا ہے کہ آپ کو مطلع ہی دوسرا کہنا پڑے گا ۔ چہرے کے تاثرات کو خطاؤں سے تعبیر کرنا شاید بہت سے الفاظ کا متقاضی ہے ۔ اس خیال کے لیے الگ سے ایک شعر ہو سکتا ہے ۔

یہ مشکل میں ڈال دیا ہے آپ نے، اب مجھ سے تو یہ ہی بن پایا ہے
تری بُو سے مہکتی یہ ہوائیں مار دیتی ہیں
یا پھر
مہکتی تیری خوشبو سے ہوائیں مار دیتی ہیں

÷واقعی یہ مشکل ہے ۔ دراصل 'ہوائیں' بھرتی کا محسوس ہو رہا تھا اس لیے میں نے ان الفاظ کے استعمال کا مشورہ دیا تھا ۔ اگر کسی طرح 'فضائیں' بھی لے آ جائے تب بھی درست کیا جا سکتا ہے اس شعر کو ۔
÷تری بو سے مہکتی یہ ہوائیں مار دیتی ہیں ۔
بہتر لگ رہا ہے لیکن صرف 'بُو' اچھا نہیں لگ رہا ۔


یہ دیکھیے جناب
کریں غیروں کا کیوں شکوہ ہمیں اپنوں نے لوٹا ہے
ہمیں رشتے نبھانے کی سزائیں مار دیتی ہیں

÷ابلاغ کے اعتبار سے کچھ بہتر معلوم ہو رہا ہے ۔ لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رشتے نبھانے پر مجبور کون کر رہا ہے ۔ یعنی یہ سزائیں کس طرف سے ملیں ؟ پہلے مصرع کی ایک صورت یہ بھی ذہن میں آ رہی ہے ۔
÷کریں کیوں غیر کا شکوہ ہمیں لوٹا ہے اپنوں نے ۔

اچھا جی ہم نہیں دیتے دعائیں :sneaky:
دعاؤں کے صلے میں یہ جفائیں مار دیتی ہیں

÷'جفائیں' بھرتی کا لگ رہا ہے ۔ میرے خیال میں اس شعر کو نکال ہی دیجیے ۔

دوسرا مصرع اگر یوں ہو تو؟
صدا بن کر یہ گونجے تو صدائیں مار دیتی ہیں

÷نہیں بھائی 'صدائیں' فٹ نہیں ہو پا رہا ۔

شعر اگر یوں بدل دیں تو کیسا رہے گا؟
انھیں سے پوچھ کر دیکھو یہ محرومی بھی نعمت ہے
جنھیں محبوب کے در کی عطائیں مار دیتی ہیں

÷یہ بات تو واضح ہو گئی کہ کس جانب سے عطائیں ہیں لیکن کس طرح کی یہ معاملہ ویسا ہی ہے ۔
 
Top