’قونصل خانے پر حملے میں امریکی سفیر ہلاک‘

ساجد

محفلین
امريکہ دوسروں کے مذہبی عقائد کی تحقير کے ليے کی جانے والی کسی بھی شعوری کوشش کی مذمت کرتا ہے۔
نہ جانے کیوں امریکیوں کو جھوٹ بولتے وقت شرم ہرگز نہیں آتی۔ ٹیری جونز اتنا کاکا تھا کہ اس نے مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حُرمتی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور ان کے اپنے امریکی اس رد عمل میں اپنے انجام کو پہنچے لیکن ابھی بھی یہ ان مذموم حرکات کو شعوری کوشش نہیں سمجھتے۔ ایک لاشعور امریکی کی حرکت سے یہ سب ہو گیا تو جب یہ ٹیری جونز اور اس کے چیلے چانٹے متعصب مذہبی دہشت گرد شعوری طور پر کچھ کریں گے تو دنیا خود ہی سمجھ لے کہ یہ کیا کریں گے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب و دھرم ان کے شر سے محفوظ نہیں رہے گا اور یہ سب کیا جائے گا آزادی اظہار کے نام پر۔


اس قسم کی تشدد آميز کاروائيوں کا کبھی بھی کوئ جواز نہيں ہوتا۔
جواز تو بہت ساری باتوں کا بھی نہیں تھا ۔ عراق اور افغانستان کو مکمل تباہ کرنے کا بھی جواز نہیں تھا۔ اس ملعون نام نہاد فسادی پادری کی مکروہ حرکتوں کا بھی کوئی جواز نہ تھا۔ جب اس کی حرکتوں پر توجہ نہ دی گئی تو ناروے کے دہشت گرد اور امریکہ میں سکھوں کے مذہبی مقام پر حملہ کرنے والوں کو تقویت ملی ۔ اب آپ کے اپنے سرکاری درباری لوگ اس آگ کا ایندھن بنے ہیں تو چلائیے مت بلکہ اپنے اندر موجود مذہبی دہشت گردوں کی خبر لیجئے ورنہ یہ آگ اب بڑی تیزی سے تمہاری طرف بڑھ رہی ہے۔ منافقانہ واویلا اب کچھ اثر نہیں کرنے والا۔

بعض لوگوں نے انٹرنيٹ پر ڈالے گئے اشتعال انگيز مواد کے خلاف پائے جانے والے ردعمل کو اس شيطانی رويے کے جواز کے طور پر پيش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ذرا غور فرمائیے کہ ان کی سوچ کس قدر سطحی ہے ۔ دل آزار فلم کو اشتعال انگیز کہہ رہے ہیں اور اس کے رد عمل کو شیطانی فعل۔ امریکیو صدقے تمہاری عقل اور کاریگری کے۔ شیطانی فعل تمہارے اپنے امریکی نے انجام دیا ہے اور اس کے رد عمل میں اشتعال پھیلا ہے ۔ ہم پاکستانی اشتعال و تشدد کی کبھی حمایت نہیں کرتے اور کسی قسم کے خون خرابے کو پسند نہیں کرتے لیکن جب جب تُم اپنی کاریگری سے مجرموں کو تحفظ دینے کا عمل جاری رکھو گے تب تب ہم اپنی آواز سے تمہارے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ميں نے فورمز پر ان رائے دہنگان کا نقطہ نظر پڑھا ہے جو ٹيری جونز کے اقدامات اور ايک متنازعہ فلم کی ريليز کا حوالہ دے کر يہ تاويل پيش کر رہے ہيں کہ امريکی حکومت ان واقعات کے تسلسل کی ذمہ دار ہے جو امريکی سفير کی دردناک موت کا سبب بنے۔

يہ دليل خاصی حيران کن ہے کيونکہ اکثر فورمز پر ايک سوچ جس کا بارہا اظہار کيا جاتا ہے وہ يہ تاثر ہے کہ جب کوئ مسلمان يا پاکستانی کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے يا اشتعال انگيز رويہ اختيار کرتا ہے تو مغرب عمومی طور پر اور امريکہ خاص طور پر اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پوری کميونٹی پر تنقيد کرتے ہيں اور سب کو ایک ہی زاويے سے ديکھتے ہیں۔
کيا اس ايشو کے حوالے سے رائے دہنگان دانستہ امريکہ کے اندر چند افراد کے اقدامات کو بنياد بنا کر وہی رويہ نہيں اپنا رہے اور امريکہ ميں ديگر متعدل آوازوں اور سوچ کے حامل افراد کے بيانات کو نظرانداز کر کے جذبات کو بھڑکانے کا موجب نہيں بن رہے؟

ميں يہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ ايک فرد کے ايسے ذاتی فعل کو جسے سينير امريکی حکومتی عہديداروں سميت امريکيوں کی اکثريت نے مذمت کے ساتھ مسترد کر ديا ہے، امريکی حکومت کی مذہب اسلام کے کو بدنام کرنے کی خواہش سے کيوں تعبير کر رہے ہيں جو ايسی آگ کو جلا دے گا جس کے نتيجے ميں خود امريکہ کے اپنے شہريوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔

کچھ برس قبل پاکستان ميں ايک تحريک چلائ گئ تھی جس کا عنوان تھا "يہ ہم نہيں"۔ اس تحريک کا بنيادی خيال اس دليل کی بنياد پر تھا کہ عالمی برادری محض چند افراد اور گروہوں کے طرزعمل کی بنياد پر پورے ملک کو مورد الزام قرار دے کر ناانصافی اور يکطرفہ سوچ کی مرتکب ہو رہی ہے۔ لاکھوں کی تعداد ميں پاکستانيوں نے اس تحريک کی حمايت کی اور پٹشن پر دستخط کر کے يہ باور کروايا کہ کچھ افراد کے اعمال پوری قوم کی ترجمانی نہيں کرتے۔ اسی اصول اور دليل کا اطلاق امريکہ ميں پيش آنے والے واقعے پر کيوں نہيں کيا جاتا؟

جہاں تک پادری جونز اور ان کے نظريات کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں امريکی حکومت کی خواہشات يا ترجيحات کو بحث کا موضوع بنانا ہی غلط ہے کيونکہ نا تو مذکورہ پادری کانگريس کے منتخب رکن ہیں اور نا ہی وہ امريکی حکومت کے کسی بھی ادارے سے وابستہ ہيں۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ انھيں تو اتنی عوامی حمايت بھی حاصل نہيں کہ امريکہ کے اہم نشرياتی ادارے انھيں کوريج دے سکيں۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ محض چند افراد کے اقدامات کی بدولت جسے امريکی ميڈيا نے بھی عمومی طور پر نظرانداز کيا ہے اور جسے کوئ اجتماعی عمومی حمايت بھی حاصل نہيں ہوئ، دنيا بھر ميں بے گناہ شہريوں، حکومتی عہديداروں اور تعنيات سفارت کاروں کو قتل کر دينا درست اقدام قرار ديا جا سکتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

نایاب

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جہاں تک پادری جونز اور اس کے نظريات کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں امريکی حکومت کی خواہشات يا ترجيحات کو بحث کا موضوع بنانا ہی غلط ہے کيونکہ نا تو مذکورہ پادری کانگريس کا منتخب رکن ہے اور نا ہی وہ امريکی حکومت کے کسی بھی ادارے سے وابستہ ہے۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ اسے تو اتنی عوامی حمايت بھی حاصل نہيں کہ امريکہ کے اہم نشرياتی ادارے انھيں کوريج دے سکيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
محترم فواد بھائی
کیا حکمت ہے کہ ایسے انسان کو عزت سے نوازنے کی
جس کی حرکات کے باعث امریکی مارا گیا ۔
اسے امریکہ میں حکومتی اور عوامی کس قدر اہمیت حاصل ہے کہ
اک مسلمان اس کا دفاع کرتے ہوئے اس کو " جمع و ادب " کے صیغے میں ذکر کر رہا ہے ۔
 

کامل خان

محفلین
فواد صاحب۔ آپ اپنا ٹائم برباد کر رہے ہیں۔ یہ "امن کے دین" کے پرچارک مسلمان ہیں۔ جو ان سے اختلاف کرے اسے آگ لگا کر جلا دیتے ہیں۔ کل جمعہ ہے اور اب عقلمند ملاؤں نے جمعے کی نماز کے بعد اپنے ہی ملک کے شہریوں کی املاک کو نذر آتش کرنا ہے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانا ہے۔ لگے رہو مسلمانوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

دوست

محفلین
یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوۡاؕ اِعْدِلُوۡا۟ ہُوَ اَ قْرَبُ لِلتَّقْوٰی۫ وَاتَّقُوا اللہَ۫ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۸﴾ (مائده- ۸ “اورایسا کبھی نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات کیلئے ابھاردے کہ (اس کے ساتھ) انصاف نہ کرو ۔انصاف کرو یہی تقوے سے لگتی ہوئی بات ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔۔۔"
اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَا عَبدُہُ وَ رَسُوُلُہُ و خاتم النبین
میرے لیے ٹیری جونز کی حیثیت اس کتے سے بھی بدتر ہے جو میرے محلے میں ہر صبح بلا وجہ بھونکنا شروع کر دینے والوں میں ہوتا ہے۔ اور میں ایسے کتوں کو پتھر مارنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، مجھے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ان ﷺ سے کتنی محبت ہے، اور نہ کسی کو میرے ایمان پر سوال اٹھانے کا حق ہے کہ یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے۔ لیکن جو غلط ہے میں اسے غلط کہوں گا۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ غلط ہوا، اسامہ بن لادن کو مقدمے کے بغیر قتل کرنا انصاف کا قتل تھا، عراق، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک پر امریکہ اور اس کے حواریوں کے حملے غلط تھے، مغربی ممالک میں مسلمان شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے والے قوانین اور رویے غلط ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دینے لگوں۔ یہ غلط ہے اور میں غلط کو غلط کہوں گا۔ کاش میری قوم بھی یہ بات سمجھ جائے۔
غلط کو غلط نہ کہنے کی روِش
 

ساجد

محفلین
یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوۡاؕ اِعْدِلُوۡا۟ ہُوَ اَ قْرَبُ لِلتَّقْوٰی۫ وَاتَّقُوا اللہَ۫ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۸﴾ (مائده- ۸ “اورایسا کبھی نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات کیلئے ابھاردے کہ (اس کے ساتھ) انصاف نہ کرو ۔انصاف کرو یہی تقوے سے لگتی ہوئی بات ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔۔۔ "

غلط کو غلط نہ کہنے کی روِش
شاکر عزیز بھائی ، آپ کے بلاگ کی تحریر فیس بُک پر لکھے گئے تاثرات کے جواب میں ہے اور اسی کا ایک اقتباس آپ نے پیش کیا ہے ۔ بلا شبہ جُرم کی سزا اسے ہی ملنا چاہئیے جس نے ارتکاب کیا ۔
اُردُو محفل پر بھی اس کی روایات کا پاس رکھتے ہوئے تشدد اور قتل کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ رائے زنی کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔ زیر مطالعہ دھاگے کے مراسلات میں تدوین اور اراکین کو جذبات سے دور رہنے کی تلقین اس کے واضح ثبوت ہیں۔ حتیٰ کہ معمولی تلخ الفاظ کو بھی حذف کیا گیا ۔ ہم صرف اُردُو محفل کی حد تک اخلاقیات کی پابندی کا اختیار رکھتے ہیں ۔ فیس بُک پر لوگ کیا لکھتے ہیں اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ۔
 

زبیر حسین

محفلین
یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوۡاؕ اِعْدِلُوۡا۟ ہُوَ اَ قْرَبُ لِلتَّقْوٰی۫ وَاتَّقُوا اللہَ۫ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۸﴾ (مائده- ۸ “اورایسا کبھی نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات کیلئے ابھاردے کہ (اس کے ساتھ) انصاف نہ کرو ۔انصاف کرو یہی تقوے سے لگتی ہوئی بات ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔۔۔ "

غلط کو غلط نہ کہنے کی روِش
شاکر بھائی ،ایک مسلمان کا ایسی صورت حال میں کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟
 

دوست

محفلین
بھائی جو مرضی کرو لیکن کسی بےگناہ کو قتل نہ کرو۔ اور نہ اپنے ہم وطنوں کی املاک کو آگ لگاؤ۔
 
شاکر بھائی ،ایک مسلمان کا ایسی صورت حال میں کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟
احتجاج کے علاوہ کچھ اور بھی کرنا پڑے گا
اپنی زندگی کا جائزہ لیں اورجہاں بھی یہ شبہ ہو کہ یہ کام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے اس کو چھوڑ دیں
قران مجید کو کسی عالم دین کی رہ نمائی میں ترجمہ کے ساتھ پڑھیں
کوئ نماز قضا نہ ہونے دیں
تعلیم کو عام کریں - اپنے بچوں کو اسلام کی تعلیم دیں
جو بھی برائی معاشرمیں ہوتے دیکھیں اس کو ہاتھ سے روک دیں ورنہ زبان سے ورنہ دل تو برا ہی سمجھیں
کسی ایسی محفل میں شریک نہ ہوں جہاں ہمارے مذہب کا مذاق اڑایا گیا ہو بشمول فیس بک یا یو ٹیوب
روز رو ور کر رات کو اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مسلمانوں کو عزت دیے
جو بھی کام کرتے ہیں اسے عبادت سمجھ کر دیانت سے ادا کریں
ہر وہ کام جو شرک خفی سےملوث ہو اس کو چھوڑ دیں
دن رات درود شریف کا ورد کریں
یہ کچھ کرنے کے کام ہیں۔ اور بھی ہیں۔
 

طالوت

محفلین
یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوۡاؕ اِعْدِلُوۡا۟ ہُوَ اَ قْرَبُ لِلتَّقْوٰی۫ وَاتَّقُوا اللہَ۫ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ ﴿۸﴾ (مائده- ۸ “اورایسا کبھی نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات کیلئے ابھاردے کہ (اس کے ساتھ) انصاف نہ کرو ۔انصاف کرو یہی تقوے سے لگتی ہوئی بات ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔۔۔ "

غلط کو غلط نہ کہنے کی روِش
درست کہا ۔ شکر ہے قرانی آیت تھی ورنہ غیر متفقی کا سامنا کرنا پڑتا :) ۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکی وزير خارجہ سيکرٹری کلنٹن کا متنازعہ فلم پر بيان

واشنگٹن ڈی سی – 13 ستمبر – ميں انٹرنيٹ پر پھيلنے والی ويڈيو کے بارے ميں بات کرنا چاہوں گی جس کے باعث دنيا کے کئ ملکوں ميں احتجاج ہو رہا ہے۔

دنيا بھر کے لوگوں پر واضح ہونا چاہیے کہ حکومت امريکہ کا اس ويڈيو سے کوئ تعلق نہيں ہے اور ہم اس ميں ديے گئے پيغام اور اس کے مواد کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہيں۔ امريکہ کی مذہبی رواداری سے وابستگی ہماری قوم کے آغاز کے زمانہ سے ہے۔ ہمارے ملک ميں تمام مذاہب کے پيروکار بستے ہيں بشمول لاکھوں مسلمانوں کے اور ہم اہل مذہب کی انتہائ قدر کرتے ہيں۔ ہمارے ليے، بالخصوص ميرے ليے يہ ويڈيو نفرت انگيز اور قابل مذمت ہے۔ يہ انتہائ سنکی پن سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ جس کا مقصد اعلی وارفع مذہب کی تحقير کرنا اور اشتعال اور تشدد پر اکسانا ہے۔

ليکن جيسا کہ ميں نے گزشتہ روز کہا کہ اس فلم پر تشدد آميز ردعمل کا کوئ جواز نہيں۔ امريکہ ميں اور دنيا بھر ميں بہت سے مسلمانوں نے اس پر اظہار خيال کيا ہے۔ اس قسم کے تشدد کی کسی بھی مذہب ميں کوئ جگہ نہيں ہے اور نہ ہی يہ کسی مذہب کے احترام کا طريقہ ہے۔ اسلام ديگر مذاہب کی مانند انسانوں کی بنيادی عظمت کا قائل ہے اور يہ اس بنيادی عظمت کی خلاف ورزی ہے کہ معصوم لوگوں پر حملے کيے جائيں۔ جب تک ايسے لوگ موجود ہيں جو خدا کے نام پر معصوم انسانوں کا خون بہاتے ہيں، اس دنيا ميں کبھی حقيقی اور پائيدار امن قائم نہيں ہو سکتا۔

اور يہ تو خاص طور پر غلط ہے کہ تشدد کا رخ سفارتی مشننز کی جانب ہو۔ يہ وہ مقامات ہيں جن کا بنيادی مقصد ہی پرامن ہے کہ ملکوں اور ثقافتوں کے درميان بہتر افہام و تفہيم پيدا کيا جائے۔ ايک سفارت خانہ پر حملہ دراصل اس سوچ پر حملہ ہے کہ ہم بہتر مستقبل کے ليے مل جل کر کام کر سکتے ہيں۔

ميں جانتی ہوں کہ دنيا ميں بعض لوگوں کے ليے يہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ امريکہ کيوں اس ويڈيو پر مکمل طور پر پابندی نہيں لگا سکتا۔ ميں يہ کہنا چاہوں گی کہ آج کی دنيا ميں جديد ٹيکنالوجی کے ہوتے ہوئے ايسا کرنا ناممکن ہے۔ ليکن اگر ايسا کرنا ممکن بھی ہوتا تو بھی ہمارے ملک ميں آزادی اظہار رائے کی ايک ديرينہ روايت ہے جس کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ہماری حکومت لوگوں کو انفرادی طور پر اپنی آراء کے اظہار کرنے سے نہيں روکتی اور نہ روک سکتی ہے چاہے وہ کتنی ہی قابل نفرت ہی کيوں نہ ہوں۔ ميں جانتی ہوں کہ دنيا بھر ميں تقرير اور اظہار رائے کی آزادی کی حدود وقيود کے بارے ميں مختلف آراء پائ جاتی ہيں، ليکن اس بارے ميں کوئ دو رائے نہيں کہ تقرير کے جواب ميں تشدد قابل قبول نہيں۔ ہم سب کو چاہے ہم سرکاری حکام ہوں، سول سوسائٹی کے رہنما ہوں يا پھر مذہبی قائدين ہوں، تشدد پر حد باندھنا ہو گی۔ اور ہر ذمہ دار رہنما کو اب تشدد کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا جيسا کہ وہ مذہبی رواداری کے ليے کھڑے ہوتے ہيں۔

ميری خواہش ہے کہ ميں يہ کہہ سکوں کہ کاش يہ آخری مرتبہ ہو کہ ہم اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہوں۔ ليکن بدقسمتی سے جہاں ہم رہتے ہيں يہ وہ دنيا نہيں۔ يہاں ہميشہ لوگوں کا ايک چھوٹا سا گروہ رہے گا جو اس قسم کے فضوليات کا پرچار کرتا رہے گا۔ اس ليے ہميں عہد کرنا چاہيے کہ ہم نہ صرف آج بلکہ آئندہ بھی مل جل کر کام کريں تا کہ تشدد کے خلاف اور مذہبی رواداری کی حمايت ميں کھڑے ہوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

آبی ٹوکول

محفلین
ایک بار پھر ثابت ہوا کہ امریکی حکومت اور اسکی ظاہری اور باطنی پالیسیاں موجب لعنت ہیں ۔ دنیا کہ سب سے بڑے قاتل اور دہشت گرد ملک امریکہ نے ایک بار پھر امت مسلمہ کہ خلاف دہشت گردی کا مظاہرہ کیا ہے کہ جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔
اور یہی حقیقت میں دہشت گردی ہے اس قسم کی فلمیں بنانے والے اور انکی خفیہ اور اعلانیہ پشت پناہی کرنے والے ملعونین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس کا کیا ری ایکشن ہوگا ا ور اس سے وہ کس قسم کہ نتائج حاصل کرپائیں گے ۔سو مسلم امہ کی روح کو مجروح کرکے یہ لوگ اسلامی نظریات ، احساسات و جذبات کہ ساتھ دہشت گردی کا عمل کرتے ہیں فرق بس اتنا ہے کہ کبھی انکی دہشت گردی عملی یعنی فزیکل ہوتی ہے اور کبھی نظریاتی ۔
جبکہ نظریاتی دہشت گردی میرے نزدیک عملی دہشت گردی سے کئی گناہ بڑھ کر ہے کیونکہ اس کے اثرات ایک تو دیر پا اور دوسرے مہلک ترین ہوتے ہیں کیونکہ عملی دہشت گردی سے متاثرہ افراد کا حلقہ محدود ہوتا جبکہ نظریاتی دہشت گردی لامحدود پیمانے پر اپنی تباہی پھیلاتے ہوئے اکثر اوقات عملی دہشت گردی کو جنم دینے والی بھی بن جاتی ہے سو میرے نزدیک یہ مدر آف ٹیررازم ہے ۔۔۔ والسلام
 

احمد علی

محفلین
دنيا بھر کے لوگوں پر واضح ہونا چاہیے کہ حکومت امريکہ کا اس ويڈيو سے کوئ تعلق نہيں ہے اور ہم اس ميں ديے گئے پيغام اور اس کے مواد کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہيں۔ امريکہ کی مذہبی رواداری سے وابستگی ہماری قوم کے آغاز کے زمانہ سے ہے۔ ہمارے ملک ميں تمام مذاہب کے پيروکار بستے ہيں بشمول لاکھوں مسلمانوں کے اور ہم اہل مذہب کی انتہائ قدر کرتے ہيں۔ ہمارے ليے، بالخصوص ميرے ليے يہ ويڈيو نفرت انگيز اور قابل مذمت ہے۔ يہ انتہائ سنکی پن سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ جس کا مقصد اعلی وارفع مذہب کی تحقير کرنا اور اشتعال اور تشدد پر اکسانا ہے۔



ميں جانتی ہوں کہ دنيا ميں بعض لوگوں کے ليے يہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ امريکہ کيوں اس ويڈيو پر مکمل طور پر پابندی نہيں لگا سکتا۔ ميں يہ کہنا چاہوں گی کہ آج کی دنيا ميں جديد ٹيکنالوجی کے ہوتے ہوئے ايسا کرنا ناممکن ہے۔ ليکن اگر ايسا کرنا ممکن بھی ہوتا تو بھی ہمارے ملک ميں آزادی اظہار رائے کی ايک ديرينہ روايت ہے جس کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ہماری حکومت لوگوں کو انفرادی طور پر اپنی آراء کے اظہار کرنے سے نہيں روکتی اور نہ روک سکتی ہے چاہے وہ کتنی ہی قابل نفرت ہی کيوں نہ ہوں۔ ميں جانتی ہوں کہ دنيا بھر ميں تقرير اور اظہار رائے کی آزادی کی حدود وقيود کے بارے ميں مختلف آراء پائ جاتی ہيں، ليکن اس بارے ميں کوئ دو رائے نہيں کہ تقرير کے جواب ميں تشدد قابل قبول نہيں۔ ہم سب کو چاہے ہم سرکاری حکام ہوں، سول سوسائٹی کے رہنما ہوں يا پھر مذہبی قائدين ہوں، تشدد پر حد باندھنا ہو گی۔ اور ہر ذمہ دار رہنما کو اب تشدد کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا جيسا کہ وہ مذہبی رواداری کے ليے کھڑے ہوتے ہيں۔



ہائے کتنی معصو میت ہےان باتوں میں۔۔۔۔۔۔۔

تو آپ لوگ یہ بھی جان لیں کہ کسی بھی مُسلم ملک میں امریکی سفارتخانے پر حملے کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔ یہ تو عوام اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔۔۔۔

حکومت تو انھیں ایس کرنے کا نہیں کہ رہی۔۔۔۔;)
 
ہائے کتنی معصو میت ہےان باتوں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔

تو آپ لوگ یہ بھی جان لیں کہ کسی بھی مُسلم ملک میں امریکی سفارتخانے پر حملے کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ ۔ یہ تو عوام اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔۔۔ ۔

حکومت تو انھیں ایس کرنے کا نہیں کہ رہی۔۔۔ ۔;)
کیا برجستہ جواب دیا ہے بھائی۔ساتھ میں یہ بھی لکھ لیں کہ عوام اظہارِ رائے کا حق استعمال کررہے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
بن غازی میں احتجاج کے دوران ایک صحافی لی گئی تصویر

296698_10151016630820685_1910857112_n.jpg


ماخذ
 
یار فواد اگر میری یاداشت دھوکہ نہیں دے رہی کہ امریکا کا ایک اتحادی ہے پاکستان، جنوب مشرقی ایشا کا ایک ملک ہے، تو ہوا یہ کہ کچھ دن پہلے نیٹو نے اس کی ایک چک پوسٹ پر حملہ کیا اور بس کچھ پاکستانی فوجی مر گے۔ یہ ایک شیطانی ارررررررر غلطی سے کیا ہوا حملہ تھا۔ پاکستانی حکومت بڑا رحمدل ملک ہے اس نے صرف یہ مطالبہ کیا کہ یار چھڈو کوئی بات نہیں بس معافی مانگ لو، تو امریکنز نے انکار کر دیا بہر کیف جو کچھ اس کے بعد ہوا وہ آپ کو پتہ لیکن اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ امریکنز بڑے معصوم ہوتے ہی اور غلطی ان کی حکومت کرے، افواج کریں، وہ ابو غریب میں بندے ننگے کردیں، گوانتانامو میں بندوں کی واٹ ماریں، وہ شادی بیاہ کی تقاریب پر حملے کردی، قیدیوں کے سامنے قرآن پاک کی بہرمتی کریں، یا ان کے پادری ان کے حامی موالی گستاخی کے مرتکب ہوں ، تو یہ سب کچھ غلطی سے ہوتا ہے اور امریکا ان سب باتوں کو مسترد کرتا ہے۔ کبھی کبھی غلطیاں تھوڑی سے بڑی ہوجاتی ہیں ان کو شبہ ہوجاتا ہے کہ عراق میں تباہی کے عظیم ہتھیار کے ذخائر ہیں، وہ غلطی سے بنا کسی ثبوت کے افغانسان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں، وہ غلطی سے پاکستان پر حملہ کردیتے ہیں اور فوجی پھڑکا دیتے ہیں، لیکن بہر کیف یہ سب غلطیاں ہیں اور قابل معافی غلطیاں ہیں۔

نائن الیون کے بعد جو کچھ دہشت گردوں نے کیا اس سے بش نامی ایک کروسیڈر کے جذبات غلطی سے بھڑک گئے اور پانچ ہزار مرنے والوں کے جواب میں غلطی سے امریکا نے دو چار لاکھ افرد مار دیئے لیکن یہ بھی غلطی سے ہوا اور ایسی غلطیوں کی اجازت صرف امریکیوں کو ہے اگر ایسے جذبات مسلم دنیا نے بھڑکائے تو یہ البتہ شیطانی عمل ہوگا۔ بش نامی امریکی اور اب اوبامہ نامی کالے امریکی کو صرف یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر قسم کے قوانیں کی دھجیاں اڑا دیں، اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کو قدموں تلے روند کر رکھ دیں اور دنیا کے کچھ لاکھ افراد کو مار دیں، کیوں کہ ان کے جذبات ہرٹ ہوئے تھے۔

اوپر جو کچھ یں نے کہا وہ صرف یہ بتانے کے لیے تھا کہ جب امریکنز کے جذبات ہرٹ ہوئے تو مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا ہوا۔ سو تمام بھاشن دینے سے پہلے فواد منے ذرا اپنی پالیسز پر غور کرو اور پھر انصاف کی بات کرو، یہ دنیا کوئی جنت، مقام امن یا یوٹوپیا نہیں ہے، جو کچھ امن و انصاف تھا وہ بھی گذشتہ کچھ سالوں کے دوران امریکی کھا گئے۔ اب تو بس صرف جنگ اور جنگ بچی ہے، تم مسلمانوں کو قتل کرو اور معصوم بنے رہو، سو اسی طرح اب تمہارے امریکی ہم وطن ہر جگہ مارے جائیں گے، یہ دنیا جتنی تیزی و زیادہ امریکی میدان جنگ بنے گی خود امریکنز کے لیے بھی کوئی جائے پناہ یا جائے قرار باقی نہیں بچے گی، کچھ اور ساعتیں ہیں کہ یہ جنگ، اس کے شعلے، اب بس امریکا پہنچا ہی چاہتے ہیں جو کچھ آئندہ ایام میں تمہارے ساتھ ہو گا وہ تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
 

طالوت

محفلین
بن غازی میں احتجاج کے دوران ایک صحافی لی گئی تصویر

296698_10151016630820685_1910857112_n.jpg


ماخذ
کمزور انگریزی سے قطع نظر ، اس لیبیائی نے اسلام اور مسلمانوں کی درست تصویر پیش کی ہے ۔

بد قسمتی سے گزشتہ دو دہائیوں خصوصا گزشتہ دہائی سے مغربی ممالک خصوصا امریکی حکومت نے یہ وطیرہ اپنا لیا ہے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری اور اپنے ممالک کی اکثریتی عوام کی سوچ کے برعکس عمل کرنے والے شیاطین کی ان مذموم حرکتوں کی لفظی مذمت کے بعد چپ سادھ لیتے ہیں ، نہ اس پر قانون سازی کی جاتی ہے اور نہ ان سے سختی سے نمٹا جاتا ہے ایسے میں اگر یہ بےوقوف سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی کھیل ہے تو ان عقلمندوں کو سمجھنا چاہیے کہ جس محفوظ دنیا کے یہ راگ الاپتے ہیں وہ مزید غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ اس کے اثرات مسلمانوں تک محدودر ہیں گے بلکہ مغربی معاشرے جہاں مشرقی مسلمانوں اور مقامی مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے میں لامحالہ ایسی نفرتیں جنم لیں گی جو اس جلتی دنیا کے شعلوں میں مزید اضافہ کریں گے۔

اسی طرح بدقسمتی کا شکار اسلامی ممالک کی عوام بھی ہیں جو ہر معاملے کو تشدد سے حل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اپنے بال نوچنے سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے ؟ عوامی دباؤ کا رخ اصولا اپنی حکومتوں کی طرف ہونا چاہیے تاکہ اسلامی ممالک کی حکومتیں اولا ان ممالک پر قانون سازی کے لئے دباؤ ڈالیں اور معاملہ حل نہ ہو تو اقوم متحدہ میں اس مسئلہ کو اٹھائیں اور بالآخر بطور آخری آپشن کے ان ممالک سے سفارتی و عوامی ہر طرح کے تعلقات منقطع کر لیں ۔ باوجود اس کے کہ علم و عمل کی ترقی میں ہم مغربی عوام سے دہائیوں کے فاصلے پر ہیں مگر ساڑھے پانچ ارب غیر مسلم دنیا کا ڈیڑھ ارب مسلم دنیا سے ناطہ توڑ کر رہنا ایسا آسان نہیں۔ اور ایسی قانون سازی کوئی دیوانے کا خواب نہیں کہ پورا نہ ہو اگر چند کروڑ یہودیوں کے لئے یہ ممالک قانون سازی کر سکتے ہیں تو ہم مسلم دنیا تعداد ، وسائل اور باہمی مفاد میں اس دنیا کے لئے یہودیوں سے زیادہ اہم ہیں۔

بہتر پوزیشن میں ہونے کے باوجود ہمارے نام نہاد قائدین محض اپنی سیاسی دکانیں چمکانے اور معاشرے میں زیادہ اہمیت حاصل کرنے کے لئے مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کرنے کی بجائے عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں۔
 
Top