غزل بلاشبہ ایک حد تک تازہ اور پختہ ہے ، یہ دو خوبیاں آج کی غزل کے رجحان میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سارہ غزل کا نام شاید ادبی جرہدوں میں کہیں دیکھا ہے بہرحال یہ غزل متاثر کن ہے۔ اگر چہ غزل میں جس قدر تازگی اور انفرادیت ہے شاعرہ اس سے کہیں زیادہ صلاحیت رکھتی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر...
مزمل صاحب اور نمرہ صاحبہ ،
آپ نے اپنا تخلیقی تجربہ بیان کر کے بات واضح کر دی ۔ لیکن میری رائے میں بحر کو منتخب کر کے کہنا معیوب نہیں ہے۔ اور اگر بحر پر گرفت ہو تو مشکل بھی نہیں۔ بلکہ اس کی مثالیں ہمیں اساتذہ سے ملتی ہے ۔ خصوصا جب انھوں نے کسی نئی بحر میں کچھ لکھا یا اپنے موضوع کی مناسبت سے...
ہم اور غذا ۔ ان میں کون اہم ؟ جب کہ غذا ہمارے لیے ہو ، نہ کہ ہم غذا کے لیے ۔ غذا ہمارے لیے ہے لیکن اتنی اہم ہے کہ ہماری زندگی کے لیے ہے ۔ سو یہی رشتہ شاعری اور تنقید کا ہے میرے خیال میں ۔ تنقید شاعری کی غذا ہے ، شاعری کے لیے ہے ، شاعری اس کے بغیر زندہ نہیں رہتی ۔
السلام علیکم، کچھ باتیں میرے کوائف نامے میں موجود ہیں ۔ مزید یہ کہ پڑھنے لکھنے کا شوق ہے ۔ شاعری اور تنقید سے خاص رشتہ ہے۔
باقی آپ کچھ پوچھنا چاہیں تو پوچھ سکتے ہیں ۔ شکریہ
غزل کی سب سے بڑی خوبی اس کا کسی حد تک تازہ ہونا ہے ۔ آج کے دور میں جہاں محض قافیہ بندی کا رجحان عروج پر ہے ، غزل کا ’’تخلیقی‘‘ ہونا خوش آئند بھی ہے اور فن کا تقاضا بھی۔ شاعری موجودات کو بیان کرنے اور دہرانے کے بجائے تازہ جہان پیدا کرنے کا نام ہے۔