ہم کہ سطحِ آب پہ لکھتے رہے

نمرہ

محفلین
ایک عجیب سی زمین میں طبع آزمائ کی ہے، براہِ مہربانی اپنی تنقیدانہ آراء سے نوازئیے۔۔


ہم کہ سطحِ آب پہ لکھتے رہے
اک ادھورے خواب پہ لکھتے رہے
برقی شمعوں سے وہ دھوکا کھا گئے
دن کی آب و تاب پہ لکھتے رہے
شوق ہرگز پار کرنے کا نہ تھا
کشتی ء غرقاب پہ لکھتے رہے
صبر شاید آ ہی جاتا ، بے خبر
پر دلِ بے تاب پہ لکھتے رہے
سادہ لوحی دیکھئے ، جب تھا گہن
ہم اسی مہتاب پہ لکھتے رہے
بیٹھ کے صحرا کی تپتی دھوپ میں
داستاں برفاب پہ لکھتے رہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قافیے کی 'ب' کے ساتھ ہی ردیف کی 'پ' آنے سے مصرعوں کی روانی میں کچھ کمی آ جاتی ہے۔ کیا یہ واقعی کوئ عیب ہے؟
 
ہم بھی اساتذہ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر لفظ پہ کو پر سے بدل دیا جائے تو کیا روانی میں بہتری نہیں آئے گی؟ مثلاً
ہم کہ سطحِ آب پر لکھتے رہے​
اک ادھورے خواب پر لکھتے رہے​
@نمرہ بہن خوبصورت غزل ہے۔ داد قبول کیجیے​
 

نایاب

لائبریرین
اوزان و بحر و ردیف کے مسائل تو اساتذہ جانیں
لیکن کلام مستقل و بامعنی سحر ناک ہے۔
بہت خوب محترم بہنا
 

یاسر اقبال

محفلین
السلام علیکم ، مَیں اردو محفل میں نو وارد ہوں ۔ ماحول سے واقف نہیں ، سو اگر بات نامناسب ہو جائے تو پیشگی معذرت قبول کیجئے گا۔
’’پہ‘‘ اور ’’پر‘‘ ان دو الفاظ کو اساتذہ نے ایک وزن پر کبھی استعمال نہیں کیا ۔ یعنی ’’پہ‘‘ کو ’’پر‘‘ کے وزن پر نہیں باندھا جا سکتا ۔ اصل میں ’’پہ‘‘ ، ’’کہ‘‘ ، ’’نہ‘‘ کی ’’ہ‘‘ کبھی شمار میں نہیں آتی ، سو اسے پورا نہیں پڑھا یا باندھا جاتا۔ یعنی ’’ہ‘‘ کو وزن میں شمار ہی نہیں کیا جاتا ۔
بات کی تصدیق کرنے کے لیے غالب و اقبال اور تقسیم کے بعد کے مستند شعرا ء کا کلام کافی ہے ۔
غزل میں ’’پہ‘‘ کو ’’پر‘‘ سے تبدیل کرنے سے یہ عیب دور ہو جائے گا۔
 

یاسر اقبال

محفلین
’’ب‘‘ کے ساتھ ’’پ‘‘ کے آنے سے روانی واقعی ذرا متاثر ہوتی ہے ۔لیکن یہ کوئی بڑا عیب نہیں کہ ہمیں اساتذہ کے ہاں بھی بکثرت ملتا ہے، البتہ حساس کانوں والے فنکار کو یہ کھٹکتا ہے۔ اصل میں صوتی اعتبار سے ’’ب‘‘ اور““پ‘‘ قریب المخرج ہیں۔ سو ایک صوت دوسری کے ساتھ بآسانی پڑھی نہیں جاتی ،۔ لیکن ایسا ہونا عین فطری ہوتا ہے سو بچنا محال ہوتا ہے اگرچہ شعر گوئی فطری و غیر فطرہی خامیوں سے گریز کر کے صوت و معنی کے اعتبار سے الفاظ کی بہترین تنظیم و ترتیب کا مطالبہ کرتی ہے ۔
 

یاسر اقبال

محفلین
غزل کی سب سے بڑی خوبی اس کا کسی حد تک تازہ ہونا ہے ۔ آج کے دور میں جہاں محض قافیہ بندی کا رجحان عروج پر ہے ، غزل کا ’’تخلیقی‘‘ ہونا خوش آئند بھی ہے اور فن کا تقاضا بھی۔ شاعری موجودات کو بیان کرنے اور دہرانے کے بجائے تازہ جہان پیدا کرنے کا نام ہے۔
 

یاسر اقبال

محفلین
اور بھی کچھ کمیاں ہیں جن کی نشان دہی ہو سکتی ہے۔ لیکن باقی احباب کو بھی گفتگو کا موقع ملنا چاہئے۔ شکریہ
 

نمرہ

محفلین
ہم بھی اساتذہ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر لفظ پہ کو پر سے بدل دیا جائے تو کیا روانی میں بہتری نہیں آئے گی؟ مثلاً
ہم کہ سطحِ آب پر لکھتے رہے​
اک ادھورے خواب پر لکھتے رہے​
@نمرہ بہن خوبصورت غزل ہے۔ داد قبول کیجیے​
بہت شکریہ حوصلہ افزائ کا استاد محترم۔۔
 

نمرہ

محفلین
غزل کی سب سے بڑی خوبی اس کا کسی حد تک تازہ ہونا ہے ۔ آج کے دور میں جہاں محض قافیہ بندی کا رجحان عروج پر ہے ، غزل کا ’’تخلیقی‘‘ ہونا خوش آئند بھی ہے اور فن کا تقاضا بھی۔ شاعری موجودات کو بیان کرنے اور دہرانے کے بجائے تازہ جہان پیدا کرنے کا نام ہے۔
بہت شکریہ جناب۔۔
 

نمرہ

محفلین
دیکھیے ہمارے تو اساتذہ میں ہی شمار ہوتا ہے آپ کا۔۔۔۔۔چاہے آپ اصلاح کا ایک الف اڑا دیں۔
 
Top