شام ِ غم شامِ الم شامِ غریباں ہے یہ شام
خون ِسادات سے گلزار بہ داماں ہے یہ شام
مرثیہ خوان ِشباب ِگل و ریحاں ہے یہ شام
چند خیمے ابھی جلتے ہیں چراغاں ہے یہ شام
اور سلگتا ہے ادھر زینب و کلثوم کا دل
امِ قاسم کا جگر مادرِ معصوم کا دل
فتح ظلمت کی ہوئی جشن منائے گی یہ رات
تیرگیِ دل اشرار بڑھائے گی یہ...
سلام
پاؤں کو جُنبش، تمنّا کو مچلنا چاہئے
شوقِ زوّاری رگ و پے سے ابلنا چاہئے
کربلا ہے آخری سجدہ گہہِ سبطِ رسول ع
کربلا میں سر بہ سجدہ ہوکے چلنا چاہئے
بہہ رہا ہوں آنکھ سے قطرہ بہ قطرہ یم بہ یم
اس ترائی پر تو مٹّی کو پگھلنا چاہئے
سانس لیتا ہوں جہاں بکھرا تھا قاسم ع کا بدن
حق تو یہ ہے سینۂ ہستی...
آہا۔
مقدمہٗ شعر و شاعری میں شعر کی تاثیر کے عنوان میں حالی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے اس میں یہ رباعی پڑھی تھی۔
اس واقعے کے شیخ صاحب یہ رباعی رقاصہ کی دلکش آواز میں سننے کے بعد بالکل ہوش کھو بیٹھے تھے۔
درونِ تُست اگر خلوتی و انجمنیست
بروں ز خویش کجا می روی؟ جہاں خالیست!
بیدل
اگر تمھارے باطن میں خلوتی و انجمنی موجود ہیں
سو اپنے آپ سے باہر کہاں چلے ہو؟ جہان خالی ہے