غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
کیا تُم کو نظر آئے گا اِس شہر کا منظر
ہے دھند میں لِپٹا ہوا یہ قہر کا منظر
ہے پیرِ فلک آپ ہی انگشت بدنداں
دیکھا ہے جو اِس قریہٗ بے مہر کا منظر
اِک سمت ہیں سوکھے ہوئے لب، خشک زبانیں
اور دوسری جانب ہے رواں نہر کا منظر
جو ڈوب رہا ہو وہ بیاں کیسے کرے گا
ساحِل کی طرف جاتی...
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
کیوں بھلا ایسے در بدر ہوتے
ہم کسی کام کے اگر ہوتے
جو گزرتے تمہارے ساتھ وہ دن
جیسے فردوس میں بسر ہوتے
کاش اِس راہ سے گزرتے تٰم
اور ہم گردِ رہ گزر ہوتے
زیر ہو بھی گئے تو کیا، کہ انہیں
دیر لگتی نہیں زبر ہوتے
سحر کو سامنے دعاؤں کے
ہم نے دیکھا ہے بے اثر ہوتے
خود اپنے گھر کے در و بام اجنبی سے لگے
تمام چہرے سرِ شام اجنبی سے لگے
جو آشنا نظر آتے تھے رات محفل میں
وہ لوگ صبح کے ہنگام اجنبی سے لگے
وہ بے دلی تھی کہ ہم میکدے سے لوٹ آئے
سُبو و ساقیٗ گلفام اجنبی سے لگے
لگا ہے چسکا جو غالب کی خوش بیانی کا
نظامی، حافظ و خیام اجنبی سے لگے
سنبھال کر جنھیں رکھا...
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
اپنے دامن سے ماہ و سال کی گرد
اے زمانے جھٹک رہا ہوں میں
قریۂ جاں میں چاندنی بن کر
دیکھ کیسے چٹک رہا ہوں میں
میں زمیں سے پھسل گیا کیسے
کیوں خلا میں لٹک رہا ہوں میں
کون ہیں لوگ جن کی آنکھوں میں
خار بن کر کھٹک رہا ہوں میں
اتنی سنگین ہے وہ سچائی
بات کرتے اٹک رہا ہوں میں...
( گذشتہ سے پیوستہ )
پریاں ڈر کے مارے بھاگنے لگیں تو وہ ڈانٹ کر بولا " ٹھہر جاؤ "
پریوں کے پیر بندھ گئے ۔ ستاروں کی چھاؤں میں اُن سب کے چہرے ماند پڑ گئے ۔
" ایک۔ دو ۔ تین "۔ پی کو اُن سب کو قطار میں کھڑا کر کے گنتی گن رہا تھا ۔ " چار ۔ پانچ ۔ چھ ۔ سات ۔ خوب "
پریاں مارے گھبراہٹ کے اپنے...
( گزشتہ سے پیوستہ )
اُس رات ناچ میں بڑی رونق تھی ۔ مینڈک بینڈ بجا رہے تھے اور چڑیاں راگ گا رہی تھیں ۔ ننھے ننھے بُھتنے پریڈ کر رہے تھے ۔ سفید داڑھیوں والے بونے تکونی ٹوپیاں پہنے موٹر سائیکل کے کرتب دکھا رہے تھے ۔رنگ برنگ پُھلجڑیوں کی روشنی میں پریاں ہاتھ پکڑےناچ رہی تھیں ۔
چاندنی نے جو...
محترم بھائی اسد معروف صاحب ۔ غزل کی پسندیدگی کا بےحد شکریہ ۔ مجے بہت خوشی ہے کہ آپ نے میری غزل کو اتنی توجہ سے دیکھا اور تصحیح بھی فرمائی ۔ آپ کی تصحیح سے واقعی مصرعوں میں زیادہ روانی آ گئی ۔ اس محبت کے لیئے آپ کا بےحد ممنون ہوں۔ امید ہے آئیندہ بھی توجہ فرماتے رہیں گے ۔ " بطورِ شاگرد رائے درکار...
اُستادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب ۔ سر غزل کی پسندیدگی کا شکریہ ۔ جہاں تک اس کے زوردار نہ ہونے کا تعلق ہے، تو انشا اللہ آئیندہ آپ کے معیار پر پورا اُترنے کی بھرپور کوششیں کرتا رہوں گا ۔ اُمید ہے آپ آیئندہ بھی میری غزلوں کو دیکھتے اور اسی طرح رہنمائی فرماتےرہیں گے ۔
احمد بھائی ۔ ریاض خیر آبادی کا کیا بنے گا ۔ اُن کا دوپ ٹیسٹ تو منفی آئے گا ۔ جبکہ اُنہوں نے ساری زندگی شراب پر شاعری کی ۔ مزے کی بات یہ کہ شاعرِ خمریات کہلانے والے اِس شاعر نے زندگی میں شراب کا ایک قطرہ بھی نہیں چکھا ۔ جہاں تک ساغر صدیقی کا تعلق ھے ہم اُنہیں یوں معاف کر سکتے ہیں کہ اُن کے ساتھ...
( گذشتہ سے پیوستہ )
رات بھر ریشم مزے مزے سے میلے میں ناچتی رہی ۔ نہ پاؤن تھکے ، نہ جُوتے گھِسے ۔ بس ناچتی رہی ۔ تھرکتی رہی ۔ اور مٹکتی ہی رہی ۔ سب پریاں حیران ہوتی رہیں ۔
آخرکار ستارہ پری سے صبر نہ ہو سکا ۔ اُس نے جھٹ ریشم کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ " سچ بتاؤ ۔ تُم اِتنی اچھی جُوتی کہاں سے لایئں "۔...
غزل
از: محمد حفیظ الرحمٰن
وقت پھر چال چل رہا ہو گا
حال ماضی میں ڈھل رہا ہو گا
اب کہاں اِتنا خوبصورت ہے
جِتنا دِلکش وہ کل رہا ہو گا
طے کوئی کر چُکا ہے نصف سفر
کوئی گھر سے نِکل رہا ہو گا
دیکھ کر اُس کو سامنے پھر سے
دِلِ...
( گذشتہ سے پیوستہ )
" فرسٹ کلاس ۔ بڑھیا کام ۔ بالکل مفت میں "۔
اپنے کندھے پر پڑے ہوئے جھاڑن سے صاف کر کے اُس نے چوہیا کے پیروں میں چھیلی ہوئی جامن کی گٹھلیاں پہنا دیں ۔
" ذرا چل کر دیکھیئے "۔
چوہیا مٹک مٹک کر دیوار میں لگے آئینے میں دیکھنے لگی ۔
" کیسی ہے "؟
" بو ۔ ہت ۔ آ ۔ چھی "۔...