پاوں ہم جس کے خیالوںمیںابھی چھو آئے
کاش وہ ماہ مدن آئے ، وہ خوش رُو آئے
تیری آمد کی دعا کی ہے پر اندیشہ ہے
میںخوشی سے ہی نہ مر جاوں اگر تو آئے
دل تڑپ اٹھا مچل اٹھا نہ قابو آئے
جب خیالوںمیںکبھی آپ کے گیسو آئے
کوئی بھی رات مری شوق سے خالی نہ گئی
تو نہ آیا تو تری یاد کے جگنو آئے
کب تلک...
وہ شخص ایک پل مرا مہماں بھی ہو تو کیا
مشکل جو حل نہ ہو سکے آساںبھی ہو تو کیا
دنیا سے ہم چھپاتے رہے عمر بھر جسے
اب اشک بن کے بر سرِِ مژگاںبھی ہو تو کیا
معشوق مل سکے نہ ملے عشق تو ملا
عاشق کا راہ عشق میں نقصاںبھی ہو تو کیا
راسخ ہو عزم، وصل کی خواہش ہو ، شوق ہو
ایسے میںکوئی بے سر و ساماں...