تلاطم خیز ہے سیلِ روانِ آب، اے ساقی!
تجھے معلوم ہے میری شرابِ ناب، اے ساقی!
جہاں میں بے یقیں مارے ہیں پھرتے آب و گِل اپنے
ملے مجھ کو متاعِ دانشِ نایاب ، اے ساقی!
دلِ پژمردہ و بے حال ہے محتاجِ آبِ زر
خبر اِس کو نہیں، زر ہے فصیلِ تاب،اے ساقی!
نہیں عہدِ کہن کے بربط و تار...
سر اسی کلام کے آخری شعر میں ترمیم کر کے پیش کر رہا ہوں۔ ایک نظر آپ بھی دیکھ کر اصلاح فرماٸیں:
گو خاک بناتی ہے تجھے دوریِ ادراک
پر دانشِ خاکی تجھے زیبا نہیں اے خاک!
خوش آتا نہیں مجھ کو ترا تیشہِ افکار
سر گشتہِ آفت ہے یا سر گشتہِ تریاک
تو حکمتِ اخفی کو کبھی چن نہیں سکتا
گوہر ہے یہ ایسا کہ نہ...
سر! میں نے یہاں ادراک کی کمزوری کو بیان نہیں کیا۔ بلکہ میرا مطلب ہے کہ انسان کے پاس واحد چیز ہے جو باقی مخلوق کے پاس نہیں۔ وہ ہے عقل۔ عقل کے بغیر انسان بھی محض ایک مٹی کا پتلا ہے۔
سر! میں نے یہاں ادراک کی کمزوری کو بیان نہیں کیا۔ بلکہ میرا مطلب ہے کہ انسان کے پاس واحد چیز ہے جو باقی مخلوق کے پاس نہیں۔ وہ ہے عقل۔ عقل کے بغیر انسان بھی محض ایک مٹی کا پتلا ہے۔
گو خاک بناتی ہے تجھے دوریِ ادراک۔
اس مصرعے کو اس معنی میں لیا گیا ہے کہ " اگرچہ ادراک کی دوری تجھے خاک بناتی ہے"
اگر پھر بھی معنویت واضح نہیں تو تبدیل کر لیا جائے گا۔
دوسرا نکتہ یہ کہ علامہ اقبال کی کتاب ضربِ کلیم کی ایک نظم "قوت اور دین" میں تریاک مستعمل ملتا ہے۔ اس پر ایک نظر فرماٸیے گا۔
گو خاک بناتی ہے تجھے دوریِ ادراک
پر دانشِ خاکی تجھے زیبا نہیں اے خاک!
خوش آتا نہیں مجھ کو ترا تیشہِ افکار
سر گشتہِ آفت ہے یا سر گشتہِ تریاک
تو حکمتِ اخفی کو کبھی چن نہیں سکتا
گوہر ہے یہ ایسا کہ نہ کنکر ہے نہ خاشاک
تو شاد نہ ہو دیکھ کے آٸینہِ بے داغ
اس چہرہِ روشن میں ہے اک...
یہ نکتہِٕ انگبیں ہے جسے سمجھے تو کہرام
قدرت نے سکھاٸی ہے تجھے قدرتِ پرواز
تو شیشہِٕ فطرت میں عیاں ہو، کہ خودی کا
دنیائے ازل سے ہے یہی آخر و آغاز
درویش ، خدا مست ، نگہ تیز و بلند پَر
یہ چار عناصر ہوں تو بن جاتا ہے شہباز
ان خیز عناصر میں بھی خصلت ہے یہ اس کی
رکھتا نہیں سینے...