سائے کی طرح نہ خود سے رم کر
دیوار کو اپنا ہم قدم کر
اپنے ہی لیے بہا نہ دریا
اوروں کے لیے بھی آنکھ نم کر
تکمیل طلب نہیں ہے منزل
طے راہ وفا قدم قدم کر
اے پچھلی رتوں کو رونے والے
آنے والے دنوں کا غم کر
ممکن ہو تو تیشہء ہنر سے
ہر پارہء سنگ کو صنم کر
ہے چشم براہ ایک دنیا
پتھر کی...
نہیں محترم آپ نے بجا فرمایا ہے اور آپ کی ہدایت اور کتاب سے موافقت کے بعد میں نے اسے درست کر دیا ہے ۔ وہ کیا ہے کہ روانی میں ٹائپنگ کے دوران اکثر کوئی لفظ رہ جاتا ہے ۔ یہ دوسرا واقعہ ہے ۔ امید ہے کہ آپ طبع پر یہ غلطی ناگوار نہ گزری ہو گی ۔ بہرحال معذرت خواہ ہوں۔
بجا فرمایا آپ نے جناب واقعی غلطی ہو گئی مجھے اسے دوبارہ ضرور پڑھنا چاہیئے تھا۔ معذرت خواہ ہوں جناب امید ہے آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی ۔
آپ کا غلطی کی نشاندہی کے لیے دل سے مشکور ہوں ۔
اتہاس = تاریخ
سنیاس ، بن باس =( ہم معنی لفظ ہیں دونوں) جوگ ، یا دنیا کو ترک کر دینا
وش = زہر
واس = گھر
وشواس = یقین
معذرت خواہ ہوں ، اس غزل میں جو نامانوس سنسکرت کے الفاظ ہیں ان کے معانی درج کر دیئے ہیں ۔ امید ہے کہ اب غزل سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔
فن میں یہ معجزہ بھی پیدا کر
پتھروں سے بشر تراشا کر
کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
اے خدا مجھ کو مجھ پر افشا کر
جس پہ اب انگلیاں اٹھاتا ہوں
اس کو مانگا تھا ہاتھ پھیلا کر
اے بچھڑ کر نہ لوٹنے والے!
دکھ کی راتوں میں یاد آیا کر
جل چکا شہر ، مر چکے باسی!
اب بجھی راکھ ہی کریدا کر
عمر...
صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی
تنہائی اتہاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
اب کے برس بھی دنیا چھینی جائے گی ہم سے
مجبوری سنیاس لکھے گی اب کے برس بھی
آس کے سورج کو لمحہ لمحہ ڈھونڈیں گے
اور تاریکی یاس لکھے گی اب کے...