علم قافیہ!

از جائے کہ ہمیں کسی علم میں مہارت حاصل نہیں اس مرتبہ بھی ہم ایک نئی وحشت میں گرفتار ہوئے جاتے ہیں۔۔ علم قافیہ۔۔ براہ کرم ہمارے علم میں اضافہ فرماتے یہاں ہمیں اس علم سے بھی آگاہ کریں۔۔
 

یوسف-2

محفلین
قافیہ پیمائی کا محض شوق ہے یا پھر محفلین کا قافیہ تنگ کرنے کا ارادہ ہے :D
ابن مریم ہوا کرے کوئی​
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی​
اس شعر میں ہوا اور دوا ہم قافیہ الفاظ ہیں۔ قافیہ کا ”ہم وزن“ ہونا ضروری ہے۔ قافیہ کے بعد آنے والے مکرر الفاظ )( کرے کوئی ) کو ردیف کہتے ہیں۔ اب یہ قافیہ و ردیف کیوں اور کیسے بنتے ہیں۔ ان کے وزن کو کیسے ”تولا“ جاتا ہے ؟؟ وغیرہ وغیرہ یہ سب جاننے کے لئے ماہرین کا انتطار کیجئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قافیہ پیمائی کا محض شوق ہے یا پھر محفلین کا قافیہ تنگ کرنے کا ارادہ ہے :D
ابن مریم ہوا کرے کوئی​
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی​
اس شعر میں ہوا اور دوا ہم قافیہ الفاظ ہیں۔ قافیہ کا ”ہم وزن“ ہونا ضروری ہے۔ قافیہ کے بعد آنے والے مکرر الفاظ )( کرے کوئی ) کو ردیف کہتے ہیں۔ اب یہ قافیہ و ردیف کیوں اور کیسے بنتے ہیں۔ ان کے وزن کو کیسے ”تولا“ جاتا ہے ؟؟ وغیرہ وغیرہ یہ سب جاننے کے لئے ماہرین کا انتطار کیجئے۔

قافیہ کا ہم وزن ہونا ضروری نہیں ہے، اسی غزل کے قوافی کیا، جا، رہنما، مطلع کے قوافی سے ہم وزن نہیں ہیں

ابنِ مریم ہُوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
 
اگر یہ کتاب کاپی رائیٹ سے آزاد ہے تو کیوں نہ اسکا عروض والا حصہ بھی لانے کی کوشش کی جائے یہاں۔ ؟ میں ایک بار دیکھ چکا ہوں اس کتاب کو۔ اور پروفیسر صاحب نے بہت محنت سے ایک بہت اہم حصہِ عروض کو کور کیا ہے اس میں۔
اگر کوئی اس کتاب کو صحیح معنوں میں پڑھ لے تو شاید کہیں اور بھٹکنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تو ساتھ ہی کچھ وضاحت بھی فرمادیجے محترم محمد وارث۔

نقوی صاحب آپ کسی کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے، ایک ربط تو اوپر آ ہی گیا۔

مختصراً یوں سمجھیے کہ قافیہ کلام میں آنے والے وہ الفاظ ہیں جن میں کچھ حروف یا آواز اور انکی حرکت مشترک ہوتی ہے اور یہ الفاظ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ غالب کی اوپر والی غزل کو دیکھیے جو الفاظ بدل بدل کر آ رہے ہیں لیکن ایک جیسے ہیں ان میں ایک آواز مشترک ہے اور وہ ہے آ کی آواز۔ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز، مثلاً ہوا، دوا، جا، کیا، رہنما میں کلمہ آ مشترک ہے اور یہی قافیہ ہے۔

اسی طرح غالب کی ایک اور غزل

عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

اس غزل میں قافیہ اِل ہے یعنی لام اور اس سے پہلے زیر کی آواز، قابِل کا بِل اور دل یعنی اِل، اس کے دیگر قوافی میں محفِل، قاتِل، بسمِل وغیرہ ہیں۔ غور فرمائیے کہ ان الفاظ کے ساتھ بادَل، آنچل، جنگل قافیہ نہیں آ سکتے کیونکہ آخری تینوں الفاظ میں قافیہ اَل ہے یعنی لام اور اس سے پہلے زبر کی آواز۔ سو حرکت بدل گئی تو قافیہ بھی بدل گیا، بادل آنچل جنگل آپس میں قوافی ہیں لیکن قابل دل محفل کے ساتھ نہیں۔

بس یہ فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
نقوی صاحب آپ کسی کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے، ایک ربط تو اوپر آ ہی گیا۔

مختصراً یوں سمجھیے کہ قافیہ کلام میں آنے والے وہ الفاظ ہیں جن میں کچھ حروف یا آواز اور انکی حرکت مشترک ہوتی ہے اور یہ الفاظ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ غالب کی اوپر والی غزل کو دیکھیے جو الفاظ بدل بدل کر آ رہے ہیں لیکن ایک جیسے ہیں ان میں ایک آواز مشترک ہے اور وہ ہے آ کی آواز۔ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز، مثلاً ہوا، دوا، جا، کیا، رہنما میں کلمہ آ مشترک ہے اور یہی قافیہ ہے۔

اسی طرح غالب کی ایک اور غزل

عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

اس غزل میں قافیہ اِل ہے یعنی لام اور اس سے پہلے زیر کی آواز، قابِل کا بِل اور دل یعنی اِل، اس کے دیگر قوافی میں محفِل، قاتِل، بسمِل وغیرہ ہیں۔ غور فرمائیے کہ ان الفاظ کے ساتھ بادَل، آنچل، جنگل قافیہ نہیں آ سکتے کیونکہ آخری تینوں الفاظ میں قافیہ اَل ہے یعنی لام اور اس سے پہلے زبر کی آواز۔ سو حرکت بدل گئی تو قافیہ بھی بدل گیا، بادل آنچل جنگل آپس میں قوافی ہیں لیکن قابل دل محفل کے ساتھ نہیں۔

بس یہ فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
ماشاءاللہ سبحان اللہ
بلاشبہ اس بہتر اور آسان تعریف " قافیہ " ممکن نہیں
جزاک اللہ خیراء محترم وارث بھائی
 
نقوی صاحب آپ کسی کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے، ایک ربط تو اوپر آ ہی گیا۔
ایک بات ابھی تک ہمارے سمجھ میں نہیں آتی اعجاز صاحب نے نشاندہی کی تھی پر سمجھ نہ آسکی وضاحت فرمادیں تو متشکر رہوں گا۔
قوافی اس لئے غلط کہہ رہا ہوں کہ ان میں ’نے‘ جو مشترک ہے، اسے نکال دیں تو دیکھ، اکھیڑ، بکھیر، لوٹ قوافی نہیں ہیں۔ بشیر بدر کی مشہور غزل، بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے‘ میں بھی یہی سقم ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
قافیہ کا ہم وزن ہونا ضروری نہیں ہے، اسی غزل کے قوافی کیا، جا، رہنما، مطلع کے قوافی سے ہم وزن نہیں ہیں

ابنِ مریم ہُوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
تصحیح کا بہت بہت شکریہ برادر۔
 
ایک بات ابھی تک ہمارے سمجھ میں نہیں آتی اعجاز صاحب نے نشاندہی کی تھی پر سمجھ نہ آسکی وضاحت فرمادیں تو متشکر رہوں گا۔



اجالے صبح کے خشیاں سمیٹنے آئے
مرے محبوب تجھے مجھ سے لوٹنے آئے
ابھی تو شہر محبت مرا بسا ہی نہ تھا
کہ قہر و یاس یہ بستی اجاڑنے آئے
اسی کہ گال پہ مہر رقیب دیکھی ہے
بچھائے نظریں جسے آپ دیکھنے آئے
کہ جن کا مان تھا دل میں وہ کچھ خطوں کے جواب
مری امید کے موتی بکھیرنے آئے
حجاز سخت تو تھا پر میں وہ درخت نہ تھا
کہ جس درخت کو طوفاں اکھیڑنے آئے

قوافی اس لئے غلط کہہ رہا ہوں کہ ان میں ’نے‘ جو مشترک ہے، اسے نکال دیں تو دیکھ، اکھیڑ، بکھیر، لوٹ قوافی نہیں ہیں۔ بشیر بدر کی مشہور غزل، بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے‘ میں بھی یہی سقم ہے۔

مہدی بھائی یہ دھاگہ اگر آپ اصلاحِ سخن میں کھولتے تو زیادہ بہتر تھا۔ میری درخواست ہے مدیران اور منتظمین صاحبان سے کے اسے اصلاحِ سخن میں منتقل کردیا جائے۔

جہاں تک غزل کا مسئلہ ہے تو قافیہ ہم آواز الفاظ کا نام ہے جو ردیف سے پہلے آتے ہیں۔ اوپر سرخ رنگ میں قافیہ اور نیلے میں غزل کی ردیف ہیں۔
ردیف وہ لفظ یا الفاظ جو ہر شعر کے دوسرے مصرعے جبکہ مطلع کے دونوں مصرعوں کے آخر میں بنا کسی بھی تبدیلی کے آئے۔
مذکورہ بالا غزل میں جو قافیہ ہے وہ مجرد قافیہ کہلاتا۔ یہ ایسا قافیہ ہوتا ہے جس کا دار و مدار صرف حرف روی یعنی قافیے کے الفاظ کے آخری حرف پر ہوتا ہے ورنہ الفاظ کی اصلی حالت میں کچھ بھی ہم آواز نہیں ہوتا۔ جیسے: لوٹ، اجاڑ، دیکھ، بکھیر، اکھیڑ وغیرہ۔
قافیہ کا دار و مدار صرف ”نے“ پر ہے جو کے خود کوئی لفظ نہیں ہے۔ اور ایسا قافیہ غیر فصیح مانا جاتا ہے۔
یہاں ایک بات یہ بھی ہے کے کچھ شعرا نے اسے استعمال کیا بھی ہے جیسے بشیر بدر کی مثال استاد جی الف عین نے دی ”بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے“
اس میں بھی آپ کی غزل کی طرح قافیے ہیں یعنی،
بھولتے، ڈھونڈتے، جھومتے، ڈوبتے، گھومتے اور پوجتے وغیرہ۔
اگر مجرد قافیے کو فصیح مانا جائے تو آاپ یہ قافیہ بھی استعمال کرلیں لیکن قافیہ بھر حال اصلی لفظ کا نام ہے۔
یہاں گھومتے کا قافیہ جھومتے ٹھیک ہے۔ کیونکہ ”جھومنا“ اور ”گھومنا“ ہم آواز ہے۔ لیکن ”بھولنا“ یا ”ڈھونڈنا“ ہرگز نہیں۔
امید ہے میں اپنی بات ایک عام طریقے سے سمجھانے میں کامیاب رہا ہوں۔ بے شک میرا طریقہ اصطلاحی نہ تھا۔
 

ساحر مرزا

محفلین
احباب کی محفل میں آداب۔۔۔۔
ھمیں "دُکھ" کے ھم قافیہ الفاظ کی تلاش جو قریب قریب ھم وزن بھی ہوں
اب دُکھ اور سُکھ مگر ان کے علاوہ کچھ سوجھ نہیں رہا
نوازش
 

محمد وارث

لائبریرین
ہمیں تو دکھ سکھ سے ہمیشہ محمد رفیع مرحوم کا شہرہ آفاق بھجن ہی یاد آتا ہے، "سکھ کے سب ساتھی، دکھ میں نہ کوئی"۔ :)

باقی ایک پنجابی قافیہ بھی ہے "رُکھ" بمعنی درخت۔
 
Top