ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

عائشہ عزیز

لائبریرین
fahim بھیا
Aasar1_page_0205.jpg
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ ایک تالاب ہی پختہ مدوار اور نہایت خوبصورت اور بہت عمیق سرجیو متصیل موضع نیک پور سرحد موضع لکڑپور عملداری سرکارانگریزی میں غالب ہی کہ ایسا خوبصورت تالاب اور کہیں نہو چاروں طرف اس تالاب کے مدور سیڑھیاں بنائی ہیں اور ایک طرف جانوروں کے پانی پیتے کا گئو گاٹ بنایا ہے اور ایک طرف آدمیوں کی آمد ورفت کی سیڑھیاں رکھیں ہیں اور ایک طرف پہاڑوں کا پانی آنے کا راستہ رکھا ہے اور جانب شمال اس تالاب کے کنارے پر بطور محل کے ایک عمارت بنائی تھی اور تالاب میں سے اوس محل میں جانے کی نہایت خوبصورتی سے سیڑھیاں بنائی ہیں اگرچہ وہ محل بالکل منہدم ہوگیا ہے مگر وہ سیڑھیاں ابتک باقی ہیں اس تالاب کو کنور سورج پال راجہ انیکپال کے پانچوں بیٹے نے تخمینا ۶۸۶ء مطابق ۶۷ ہجری میں بنایا ہے بھادوں ُدسدی چھٹھہ کو ہرسال اس تالاب میں نہان ہوتا ہے اور اس تالاب کے کنارے پر سیڑھیوں کے اوپر پیپل کا ایک درخت ہے اور سپر پوجا کے بعد ناریل چڑھتے ہیں اور وہاں کا چڑھاوا انیک پور اور لکڑپور کے برہمن لیتے ہیں مگر بہت بڑا میلہ نہیں ہوتا۔​
بت خانہ دراے پتھورا​
قلعہ رائے پتھوراکے پاس یہ ایک بت خانہ تھا نہایت نامی چاروں طرف اس بت خانے کے دو گہے اور سہ گے اور چوگہے عالان بنے ہوئے تھے اور بیچ میں تو​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
5

چوتھی میرٹھ کے نواح میں پانچویں موضع نوہرہ میں ان پانچوں لاٹھوں کو راجہ اشوکا عرف بیاسی نے بنایا تھا چنانچہ اس لاٹھ پر دو کتبے کھودے ہوئے ہیں۔ پہلا کتبہ اسی راجہ کے نام کا ہے اس کتبے کی زبان پالی اور سنسکرت آمیز ہے اور حروف بھی بہت پرانے خط کے ہیں جو دیوناگری حرفوں سے پہلے تھا اور اس میں بدہ کے مذہب کی تعلیم اور جان دار کو دکھ نہ دینے اور مجرم پر سزائے قصاص اور سیاست بدنی جاری کرنے کے احکام لکھے ہیں لیکن یہ کتبہ کسی پہلے زمانے میں پڑھا نہیں گیا اور فیروز شاہ نے بھی بہت پنڈت جمع کیے الا ان سے بھی پڑھا نہین گیا مگر جمن پرنسب نے اس کتبے کو پڑھا وہ کہتے ہیں کہ راجہ اشوکا پوتا تھا چند رکتبہ کا اور صوبہ داراوجین کا تیس سو پچیس سال قبل حضرت مسیح وہ مسند نشین ہو اس نے ؁67 جلوس مطابق دو سو اٹھانوے سال قبل حضرت مسیح یہ لاٹھ بنائی۔ فارسی تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راجہ دراصل کشمیر کا راجہ تھا اور تمام ہندوستان میں قنوج اس کا عمل تھا۔ اس کے وقت میں مذہب کے بابت گفتگو ہوئی بلکہ اسی سبب ست تمام رعایا ناراض ہوگئی اور اس کو لاچار ریاست چھوڑنی پڑی ان لاٹھوں پر مذہب کی گفتگو کندہ ہونے سے یقین پڑتا ہے کہ یہی راجہ اشوکا ہے جس کی دارالسلطنت کشمیر تھی انہیں فارسی تاریخوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ راجہ اشوکا تخمیناََ ایک ہزار تین سو تھتر سال قبل حضرت مسیح مسند نشین ہوا تھا مگر ہم پہلی بات کو صحیح جانتے ہیں دوسرا کتبہ اس لاٹھ پر بلدیو چوہان کے نام کا ہے پہلے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم شہزاد خرم بھیا ایک اور پیج
میرا دل کررہا ہے لائبریری ویک سے پہلے ہم اس بک کو ختم کرلیں۔

Aasar1_page_0206.jpg
میں ایک بجے گجرنوالہ سے واپس آیا ہوں اور آتے ہی محفل پر حاضری دی تو میرے لیے ایک کام تھا کام کر کے سونے لگا تو بہنا نے ایک صفحہ تیار کر دیا تو اب میں وہ لکھ کر سونے لگا ہوں اور اگر اب کسی نے شور مچایا تو پھر خیر نہیں ہوگی :D



اس سبب سے کہ اس لاٹھ کے پہلے درجے کے پتھر کتبوں کے مقام سے ایسے معلوم ہتوتے ہیں جیسے پیچھے کرلگائے ہیں اور نیز اس وجہ سے کہ جسطرح اصل بت خانے میں زنجیروں میں گھنٹے لٹکنتے ہوئے پھتروں پو کھودے ہیں اور اسطرح اس پہلے کھنڈ پر زنجیروں میں گھنٹے ہوئے کھدے ہوئے ہیں اور نیز اس دلیل سے کہ جسطرح کتبہ فتح نامے کے بنام قطب الدین ایبک سپہ سالار اور دوسرا معزالدین کے نام کے اصل بت خانے پ ہی اوسیطرح اس لاٹھ پر ہے غالب ہے کہ پہلا کھنڈاس لاٹھ کا ہندوں کے وقت کا ہے کچھ عجیب نہیں کہ اس پہلے کھنڈمیں جہاں جہاں کتبہ کھداہوا ہے وہاں پہلے بتوں کی مورتیں ہوں ا س سبب سے وہ پتھر نکال کر یہ کتبہ جسمیں بادشاہوں کے نام اور قرآن کی آیتیں ہیں لگائی ہوں جسمیں بادشاہ کی تعریف ہے جو بات کہ مدت سے مشہور چلی آتی ہے کہ یہ لاٹھ اے پتھورانے اپنے قلعہ اور بت خانے کے ساتھ یعنی سمت 16 بکریا جیت مطابق 1143 عیسوی موافق 538 ہجری کے بنائی صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اوسکی بیٹی سورج مکھی مذہب کی تھی اور ہندوجمنا کو سورج کی پتری اعتقاد کرتے ہیں اسواسطے اس مذہب والے جمناکا درشن کرنا بھی بڑا دھرم جانتے ہیں اس سبب سے جمنا کے درشن کو اس لاٹھ کا پہلا کھنڈبنا 587 ہجری مطابق 1191 عیسوی میں جب یہ بت خانہ مسلمانوں نے فتح کیا تو اسپر اپنے نام کے کتبے لگائے اور فضل ابن ابوالمعالی کو متولی کیا اور اوسکا نام پتھر پر کھودکردروازے کے پاس لگا دیا جس زمانے میں سلطان شمس الدین التمس نے​
 

فہیم

لائبریرین
کے درجے کی ایک پخ مدد اور ایک کمر کی بنائی ہے اور دوسرے درجے کی سب پخین مدور ہیں اور تیسرے درجے کی سب پخیں کمر کی ہیں اور اوپر کے دونوں درجے گول ہیں تمام پتھر سنگ سرخ کا لگا ہوا ہے مگر چوتھے درجے میں سنگ مرر بھی ہے اور ہر جگہ منبت کاری اور گلکاری ایسی خوبصورتی سے کی ہے کہ اسکی ہر ایک بیل مسلسل پر ہزاروں معشوقوں کی زلف دوتا قربان ہے اور اسکے اونے سے اونے پھول پنکھڑی پر سیکڑوں گلر خون کے لب جان بخش نثار ہیں۔ مگر اس ناٹھ کی بنا میں بہت گفتگو ہے۔ مسلمالوں میں بہت ہی مشہور ہے کہ یہ لاٹھ سلطان شمس الدین التمش کی بنائی ہوئی ہے اور اکثر تاریخ کی کتابوں میں اور کتبہ عہد سکندر بہلول میں اس لاٹھ کو سلطان شمس الدین التمش کی لاٹھ کرکر لکھاہے اور بعض تاریخوں مین اس لاٹھ کو مسجد ماذ نہ لکھا ہے اور بعض کتابوں میں اس لاٹھ کو سلطان معزالدین کی لاٹھ لکھا ہے۔ مگر اس سبب سے سکہ اس لاٹھ کا پہلا دروازہ شمال رویہ ہے اور ہندؤں کے مندر کی عمارت کا دروازہ ہمیشہ شمال رویہ ہوتا ہے بر خلاف ماذنون کے انکے دروازے ہمیشہ شرق رویہ ہوتے ہیں۔ چناچہ سلطان علاؤالدین نے جو لاٹھ بنانی شروع کی اسکا شرق رویہ دروازہ رکھا اور نیز اس سبب سے کہ اکثر مسلمانوں کی عادت ہے کہ ایسی عمارت کو کرسی دیکر بناتے ہیں۔ جیسے کہ سلطان علاؤالدین نے اپنی لاٹھ کو کرسی دیکر بنانا شروع کیا تھا۔ برخلاف ہندؤں کے کہ وہ بدون کرسی بناتے ہیں۔ جیسے کہ یہ لاٹھ بنی ہوئی ہے اور نیز
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں ایک بجے گجرنوالہ سے واپس آیا ہوں اور آتے ہی محفل پر حاضری دی تو میرے لیے ایک کام تھا کام کر کے سونے لگا تو بہنا نے ایک صفحہ تیار کر دیا تو اب میں وہ لکھ کر سونے لگا ہوں اور اگر اب کسی نے شور مچایا تو پھر خیر نہیں ہوگی :D

:happy::happy:
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
میں ایک بجے گجرنوالہ سے واپس آیا ہوں اور آتے ہی محفل پر حاضری دی تو میرے لیے ایک کام تھا کام کر کے سونے لگا تو بہنا نے ایک صفحہ تیار کر دیا تو اب میں وہ لکھ کر سونے لگا ہوں اور اگر اب کسی نے شور مچایا تو پھر خیر نہیں ہوگی :D
تھینک یو بھیا
آپ سو جائیں جب آپ اٹھ کر واپس آئیں تو آپ کے لیے اور کام تیار ہوگا۔ :)
 

فہیم

لائبریرین
شکستہ ہوگئے تھے ۱۸۲۹ عیسوی مطابق ۱۲۴۵ ہجری کے سرکار دولتمند انگریز کے حکم سے مسترا سمٹ صاحب گڈھ گپتان نے اس لاٹھ کی اول سے آخر تک مرمت کی اور جس جگہ کہ گنگورے تھے وہاں سنگین کٹہرا بہت مستحکم لگادیا اور پانچویں درجے پر نجی کٹہرا بہت خوبصورت بنوایا اور چھٹے کھنڈ کی جگہ سنگین آٹھ دری برجی نہایت خوبصورت اور ساتویں کھنڈ کی جگہ کاٹ کی برجی لگائی تھی اور اس پر پھریرا کھڑا کیا تھا مگر افسوس ہے کہ وہ دونوں برجیاں قائم نہ رہ سکیں اس سبب سے سنگین برجی کو لاٹھ پر سے اتار کر نیچے کھڑا کردیا ہے اور کاٹ کی برجی ضائع ہوگئی۔ مگر نہایت افسوس ہے کہ مرمت کے وقت اس لاٹھ کے کتبوں کے حرف جو گر پڑے تھے بالکل صاف بنائے ہیں۔ اکثر جگہ صورت لفظوں کی بنادی ہے جب غور کر کے دیکھو تو وہ لفظ نہیں ہے صرف نقش ہیں اور بعض غلط لفظ بنادیے ہیں اور بعض جگہ اپنی طرف سے ایسی عبارت کھود دی ہے کہ اصلی کتبے کے مضمون سے بالکل علاقہ نہیں رکھتی۔ آج تک اس لاٹھ کے کتبے نہیں پڑھے گئے تھے ہم نے سارے کتبے دوربین کی استعانت سے پڑھے پہلا کھنڈ اس لاٹھ کا بتیسن گز کئی انچ اور دوسرا کھنڈ سترہ گز کئی انچ اور تیسرا کھنڈ تیرہ تز اور چوتھا کھنڈ سوا آٹھ گز اور پانچواں کھنڈ بھی مع اس تھوڑی سی اونچائی کے جہ کٹہرے کے اندر ہے سوا آٹھ گز اونچا ہے اس حساب سے کل اونچائی اس لاٹھ کے پانچوں کھںڈوں کی جو اب موجود ہیں قریب اسی گز کے ہوتی ہے اور سنگین برجی کی اونچائی جو
 

فہیم

لائبریرین

سرکار انگریز نے چڑھائی تھی اب اتار کر نیچے رکھ دی ہے۔ چھ گز ہے کہ چوبی برجی اور پھریری کی اونچائی مل کر یہ لاٹھ سو گز اونچی ہے اور مشہور بھی یہی کہ جب اس لاٹھ کے ساتوں کھنڈ قائم تھے تو یہ لاٹھ سو گز اونچی تھی اس لاٹھ کی جڑ کا پچاس گز محیط ہے اور سرے پر کا دس گز کا ہے۔ یہ لاٹھ اندر سے بالکل خالی ہے اور اس میں چکر دار سیڑھیاں ہوئی ہیں۔ پہلے درجے میں ایک سو چھپن اور دوسرے درجے میں اٹھتر اور تیسرے درجے میں باسٹھ اور چوتھے درجے میں اکتالیس اور پانچویں میں اکتالیس ہیں کہ کل سیڑھیاں اس لاٹھ کی تین سو اٹھتر ہوئیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلےی بھی اس قدر ہونگی کیونکہ اوپر کے دونوں درجوں میں چڑھنے کا راستہ تہ تھا۔
تعمیر سلطان علاؤالدین
لاٹھ کے پاس کا بڑا دروازہ
جبکہ سلطان علاؤلدین محمد شاہ خلجی بادشاہ ہوا اور اسکے ولمین عمارت کا شوق آیا اس نے ۷۱۰ ہجری مطابق ۱۳۱۰ عیسوی اسی مسجد کے لیے بہت بڑا دروازہ لاٹھ کے پاس بنوایا یہ دروازہ بالکل سنگ سرخ کا ہے اور کہیں کہیں سنگ مرمر بھی لگا ہوا ہے۔ اسکے چاروں طرف دروازے بنائے ہیں اور چھت کا بطور برج کے بہت اونچا لداؤلادا ہے۔ ہر ایک جگہ بہت تحفہ منبت کاری اور گلکاری کی ہے اور حدیٹین اور قرآن کی آیتیں کھدوادی ہیں اور عربی اور جنوبی شرقی دروازے پر اپنے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
22

ادھر بنی لاٹھ
اس بادشاہ کو اپنی نام آوری کا بہت شوق تھا اس سبب سے جب اس نے مسجد بڑھانے کا حکم دیا یعنی ؁711 ہجری مطابق ؁1311 عیسوی میں تو اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ اس مسجد کے صحن میں ایک مینار بھی بنائیں کہ پہلے مینار سے دوگنا ہو چنانچہ سو گز کے محیط سے مینار بننا شروع ہوا اور اس مینار کی بنیاد مسلمانوں کے طریق پر رکھی یعنی کرسی بھی دی اور پہلا دروازہ غرب کی جانب ہی رکھا اور یہ ارادہ کیا کہ دو سو گز اونچا بنایا جائے۔ ہر چند اس مینار کی بہت پائداری کی مگر عمر پوری ہوگئی اور یہ عجیب عمارت ادھوری رہ گئی۔ اس لاٹھ کا بھی پتھر سب اُکھڑ گیا ہے نرا چونے اور پتھر کا ڈھم کھڑا ہے۔ امیر خسرو قران السعدین میں اس منارے کی بھی تعریف لکھتے ہیں اور یہ اس میں کے دو شعر ہیں۔ شعر
شکل منارہ چوستونی سنگ ۔۔ از پی سقف فلک شیشہ رنگ
سقف سماگر کہنگی شد نگون ۔۔۔ درتہ او داشتہ سنگین ستون

تاریخ کی کتابوں میں اس مسجد کو مسجد آدینہ دہلی اور مسجد جامع دہلی کر کے لکھا ہے مگر مسجد قوۃ الاسلام اس کا نام کہیں ملا معلوم نہیں کہ یہ نام کب رکھا گیا۔ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ بت خانہ فتح ہوا اور مسجد بنائی گئی اس وقت اس کا نام قوۃ الاسلام رکھا ہو الا ایسی مسجدیں اصلی نام سے مشہور نہیں ہوتیں بلکہ
 

فہیم

لائبریرین
او او بھیا مجھے تو نظر آرہا ہے آپ اس ربط پر جا کر یہ پیج دیکھ لیں۔
نام کا کتبہ لگایا ہے مگر اس کتنے کے بہت پتھر گر پڑے ہیں اور بعض حرفوں کو شور بھی کھا گیا ہے ۔ اس دروازے کے بن چکنے کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ اس مسجد میں چوتھا درجہ اور بنایا جائے بیچ کا درجہ تو سلطان معز الدین کا بنایا ہوا تھا اور ادھر ادھر کے دو درجے سلطان شمس الدین التممش کے بنائے ہوئے تھے شمال کی طرف چوتھا درجہ سلطان علاؤالدن کے حکم سے بننا شروع ہوا۔ یہ درجہ ایک سو پچیس گز کا سہ فٹے گز سے بنایا تھا اور نودرون کی بنیاد رکھی تھی اور بیچ کا کا در سوالہ گز چوڑا رکھا تھا۔ ۷۱۱ ہجری مطابق ۱۳۱۱ عیسوی میں یہ عمارت بن رہی تھی افسوس کہ بادشاہ کی عمر نے وفا نہ کی کہ ۷۱۵ ہجری مطابق ۱۳۱۵ عیسوی بادشاہ مر گیا اور یہ مسجد نا تمام رہ گئی۔ اگر یہ عمار پوری ہوجاتی تو ساری مسجد ملکر ضلع شرقی غربی اسکا دو سو اکتالیس گز لمبا اور ضلع جنوبی شمالی ایک سو بتیس گز لمبا ہوتا اس جانب کو بادشاہ نے ایک دروازہ بنانا شروع کیا تھا مگر وہ بھی نا تمام رہ گیا ان نا تمام عمارتوں میں بھی نہایت منبت کاری کے پتھر لگائے تھے اور کتبے اور حدیٹیں کھدوائیں تھیں معلوم نہیں کہ یہ پتھر کون اکھیڑ لے گیا۔ کیونکہ صاف اکھڑے ہوئے پتھر معلوم ہوتے ہیں اور اب بجز چونے اور پتھر کی چنائی کے اور کچھ نہیں رہاا س مسجد کی تعریف قران السعدین میں امیر خسرو نے لکھی ہے اور یہ ایک شعر اس میں کا ہے۔
مسجد او جامع فیض آلہ
زمزمہ خظبہ او تا بماہ
 
Top