متبادل الفاظ کا استعمال ۔۔۔

منصور آفاق

محفلین
اردو زبان میں متبادل الفاظ کی گفتگو مجھے بالکل ویسی ہی لگی جیسے برطانیہ کے اہل زبان اردو کے حوالے سے کرتے ہیں ۔یہاں ایک ڈاکٹر صفات علوی ہوتے ہیں انہوں نے بریڈفورڈ میں مرحوم ڈاکٹر قوی ضیائ کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں یہاں تک کہہ دیا تھا’’ایک تو ہمارے لئے مسئلہ یہ ہے کہ اردو پاکستانیوں کیلئے بھی ایک غیر ملکی زبان ہے پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں اردو مادری زبان ہو ‘‘اور میں نے ان کی خدمت میں جو کچھ عرض کیا تھاجی چاہ رہا ہے کہ وہی آپ کی نذربھی کروں۔ممکن ہے یہ سب آپ کو بہت برا لگے اور آپ سوچیں کہ متبادل الفاظ پر بات کرتے ہوئے یہ منصور آفاق نے کیا بے وقوفانہ باتیں کرنا شروع کر دی ہیں ۔ پہلے یہ سن لیجئے کہ میں نے انہیں کیاکہاتھا
''آئینہ دکھانے کا بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صفات علوی ۔۔بے شک آپ نے درست فرمایا ہے اردو یوپی سی پی کے علاقے کی زبان ہے اس کا تعلق دہلی اور لکھنئو کے ساتھ ہے ہم پاکستانیوں کے غیر مہذب اور جنگلی آبا واجدادیہ زبان نہیں بولتے تھے اس لئے اس زبان کے ساتھ ہمارا کوئی مادری رشتہ نہیں ہے ۔بے شک یہ بڑے تہذیب یافتہ اور مہذب لوگوں کی زبان ہے ہم نے تاریخ کی کتابوں میںپ ڑھا ہے کہ پرانے زمانے میں یہ تہذیب یافتہ لوگ اس زبان کی محبت سے اس قدر سرشار تھے کہ اسے سیکھنے کیلئے انہیں اپنے بچوں کے پائوںبالا خانوں کی سیڑھیوں کی طرف جاتے ہوئے بھی برے نہیں لگتے تھے۔ حالانکہ ہر زمانے کے شرفائ نے ان سیڑھیوں سے لڑھکتی ہوئی پستی کو خود سے دور رکھنے کیلئے ان سے صدیوں کے فاصلے پررہنے کی کوشش کی ۔ہم نے یہ بھی کتابوں میں پڑھا ہے کہ کسی زمانے میں لکھنئو میں جو مشاعرے ترتیب پاتے تھے ان میں شریک ہونے والے بڑے بڑے اساتذہ ئ فن عورتوں کا لباس پہن کر ، ہار سنگھار کر کے مشاعرہ گاہ میں رونق افروز ہوتے تھے ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دہلی اور لکھنئوکی تہذیب میں امرد پرستی عام تھی ، غالب کا یہ کہاکہاں بھول سکتا ہے
سبزہ ئ خط سے ترا کاکل ِ سرکش نہ دبایہ زمرد بھی حریفِ دم افعی نہ ہوا
اور میر کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے
میر بھی کیاسادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبباسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
بے شک ہمارے جنگلی آبا واجدادارود زبان کی اس عظیم تہذیب کے آشنا نہیں تھے۔ وہ پنجابی ، سندھی ، پشتو، بلوچی، بنگالی، کشمیری اور سرائیکی زبان بولتے تھے ان کی اپنی اپنی ثقافتیں تھیں، وہ اپنی اپنی قدیم تہذیبوں کے وارث تھے مگر جب برصغیر کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تو انہوں نے اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کا اعزاز دیا۔ایسا اس لئے کیا گیا کہ اردو اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کی زبان تھی۔ مغلیہ سلطنت نے برصغیر کے لوگوں کیلئے جو اچھے برے ورثے چھوڑے تھے ان میں ایک اردو زبان بھی تھی ۔آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفرخود اس زبان کا بہت بڑا شاعر تھا۔اس زبان میں برصغیر کے مسلمانوں نے بہت کچھ لکھا ہوا تھا ۔پنجابیوں نے اس زبان کو اقبال جیسا عظیم شاعر دیا تھا،سو پاکستانیوں نے اس فیصلے کے بعد اپنی ماں بولیوں کو پسِ پشت ڈال دیا اور اردو زبان کو صرف قومی ہی نہیں بلکہ اپنی مادری زبان بھی بنا لیا ۔ آج پاکستان میں لاکھوں خاندان ایسے موجود ہیں جن کے باپ داد اردو نہیں بولتے تھے مگر ان کے گھروں میں اس وقت صرف اردو زبان بولی جاتی ہے یعنی کہ ہم پاکستانیوں نے اسے پوری طرح اپنا لیا، دنیا کے تمام علوم اس زبان میں منتقل کئے ۔اردو سائنس بورڈ یا مقتدرہ قومی زبان میں جا کر دیکھئے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستانیوں کا اردو زبان کے ساتھ کیا سلوک ہے۔اپنی پیدائش سے لے کر قیام پاکستان تک اردو زبان نے جتنی ترقی کی تھی پچھلی چھ دھائیوں میں پاکستان میں اردو نے اس سے کہیں زیادہ ترقی کی ہے۔
ایک اوربات پر بھی میں نے بہت غور کیا ہے کہ کیا واقعی ہم’’ جنگلی‘‘ہیں ہماری زبانیں اردو زبان کے مقابلے میں کوئی بہت پست زبانیں ہیں؟ تو مجھے احساس ہوا کہ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے اردو ہماری زبانوں سے زیادہ ملائم اور نفیس زبان نہیں ہے۔ ہم لوگ صدیوں سے ’’اکھ ‘‘’’نک‘‘ اور ’’کن ‘‘ کہتے آرہے ہیں ۔اردو والوں نے اس میں ایک کھڑی آواز
ڈال کر اسے ’’آنکھ‘‘ ’’ناک‘‘ اور ’’کان‘‘ میں بدل دیا ہے مگر میرے خیال میں’’اکھ ‘‘،’’نک‘‘اور ’’کن‘‘ میں جو صوتی رچائو، موسیقیت اور روانی ہے وہ آنکھ ، کان اور ناک میں نہیں ۔ہماری زبانیں اردو کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہیں صرف پنجابی زبان میں گائے کیلئے بائیس لفظ موجود ہیں ۔ اردو زبان کے دامن میں توصرف اقبال، غالب اور میرجیسے نام سرِ فہرست ہیں جب کہ ہماری زبانوں میں ان سے کہیں بڑے بے شمار نام موجود ہیں مثال کے طور پرسلطان باہو ،خوشحال خان خٹک ، شاہ عبد الطیف بھٹائی ،خواجہ فرید ، بلھے شاہ ، وارث شاہ ،میاں محمد بخش ، شاہ حسین ، لِلھ عارفہ، ٹیگور ۔۔۔ یہ فہرست صرف یہاں ختم نہیں ہوتی ۔۔لیکن ان ساری باتوں کے باوجود اب اردو ہماری قومی زبان بھی ہے اور مادری زبان بھی ہے۔ ممکن ہے بہت سوں کی مادری زبان نہ ہو مگر ہمارے بچوں کی مادری زبان ضرور ہے۔سو اب اہل زبان ہم ہیںاب وہی زبان حرفٰ آخر ہوگی جو لاہور اسلام آباد یا کراچی میں لکھی جارہی ہے ۔بقول عطاالحق قاسمی اب اردو معلی کی نہیں اردوئے محلہ کی زبان چلے گی'' ڈاکٹر صفات علوی کا جو جواب میں نے دیا تھا اسے یہاں درج کرنے کی ضرورت صرف اسلئے محسوس ہوئی کہ دوستو اردو ہماری پاکستانی زبانوں سے نکلی ہوئی ایک زبان ہے اب اس میں اگر متبادل الفاظ تلاش کئے جائیں گے یا شامل ہونگے تو وہ صرف پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ہونگے یا پھر اس زبان کے جو بین الاقوامی زبان ہے جو معیشت کی زبان ہے ۔جس کے الفاظ کو اردو میں شامل ہونے سے روکا نہین جا سکتا یعنی انگریزی۔۔
 
بچپن سے جن کے کان اردو کے بجائے انگریزی الفاظ سے آشنا رہے ہوں اور جن کی تعلیم کا بیشتر عنصر انگریزی یا انگریزی گزیدہ زبان میں ہو ان کی اکثریت اس معاملہ میں موثر نہیں۔ ;)
 

فاتح

لائبریرین
اب تو اکثریت کی مان لیں ناں آپ بھی :bighug:
نہیں! یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ ہمارے شعیب بھائی کی دانست میں ان کی اور (بقول عثمان بھائی) اردو وکی پیڈیا کے اصطلاح گھڑانِ خاص گڈو، کامی، منا، وغیرہ کی آرا مولوی عبد الحق اور دیگر تمام اردو لسانیات کے مستند ترین اساتذہ کی آرا کی نسبت درست تر ہیں۔۔۔
میں نہ مانوں۔۔۔
مرغے کی ایک ٹانگ۔۔۔
کوا سفید ہے۔۔۔
 
نہیں! یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ ہمارے شعیب بھائی کی دانست میں ان کی اور (بقول عثمان بھائی) اردو وکی پیڈیا کے اصطلاح گھڑانِ خاص گڈو، کامی، منا، وغیرہ کی آرا مولوی عبد الحق اور دیگر تمام اردو لسانیات کے مستند ترین اساتذہ کی آرا کی نسبت درست تر ہیں۔۔۔
میں نہ مانوں۔۔۔
مرغے کی ایک ٹانگ۔۔۔
کوا سفید ہے۔۔۔
ذرا اردو کےاراکین خمسہ کوکھنگالیے تو۔
 

فاتح

لائبریرین
یہ تو آپ پرصادق آتا ہے جناب۔
ہم تو "اساتذہ" کی آرا کا احترام کرتے ہیں اور انھیں درست مانتے ہیں۔۔۔ ہاں گمنام لونڈوں بالوں کی گھڑی ہوئی بے ہودہ اور ماورائے عقل چیزوں کو باقی تمام عاقل و بالغ اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی طرح ہم بھی ہُودہ "اصطلاحات" ماننے پر تیار نہیں۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
سابقہ ریکارڈ میں تبدیلیٔ جنس کی کوئی مثال؟؟
وکی پیڈیا کے گینگ کی جانب سے اردو زبان کے ساتھ کی گئی اجتماعی زیادتیوں کا ریکارڈ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ :) اور اس میں اگر کسی نے محض اس کی تبدیلیِ جنس کا شوق پورا نہ بھی کیا ہو تب بھی کافی سے زیادہ دلدوز مناظر دیکھے جا سکتے ہیں جن کی مثالوں سے یہ آٹھ صفحات پُر ہیں۔ دیکھو اسے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
 
Top