اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

میر انیس

لائبریرین
میر انیس

IbW-0119.gif
صفحہ 274
سے ایک نیک' ایک سے ایک حق پسند' ایک سے ایک راست باز اور پھر اہلِ مذاہب میں اس بلا کا محاسدہ ہے کہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتا۔ جس کو دیکھو اپنے ہی تئیں بر سر حق جانتا ہے اور تمام دنیا گمراہ ۔ نہیں معلوم آپ نے مزہب کی طرف سے کیوں کر اپنا اطمینان کرلیا ہے۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ ہر شخص تقلیدی مذہب رکھتا ہے۔ ایک مسلمان اس واسطے مسلمان ہے کہ وہ اتفاق سے مسلمان گھرمیں پیدا ہوا۔
حجۃ الاسلام: دین کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے تو ہم سب کی ماشاللہ بڑی تباہ حالت ہے' ایسا کون سا بندہ بشر ہے جو مبتلائے گناہ نہیں ۔ ہماری ہمت اس طرح کی ضعیف واقع ہوئی ہے کہ ہم اس دام میں بے پھنسے رہ نہیں سکتے۔ ہماری مجال نہیں کہ دنیاوی حکومتوں کے آگے ذرا بھی سر اٹھاسکیں مگر خدائے بر حق' قادر مطلق' شہنشاہِ دو جہاں کی کی حکومت کے استخاف کو ہم نے کھیل سمجھ رکھا ہے:ع
کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ
غرض تو یوں ہر فرد بشر سے دن رات میں ہزار نالائقیاں سرزرد ہوتی ہیں مگر یہ سب سے بڑی نالائقی کی ہے کہ وہ دین کے پیرائے میں اپنی طبیعت پاجی پن کو ظاہر کرے ۔ دوسروں کو کیا الزام دے سکتا ہوںکہ میں آپ سے بدتر اور نکھتر ہوں لیکن ان مذہبی مباحثات کو تو میں نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ شاید میری رائے غلط ہو' مجھ کو تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام کشاکش آپس کی ضد اور تعلی اور سخن پروری اور بے جا تعصب کی وجہ سے ہے۔خیر اول! تو شامتِ نفس سے میں دینیات میں بہت ہی تھوڑا وقت صرف کرسکتا ہوں اور جس قدر کرسکتا ہوں اور وہ میرے اپنے ہی نفس کے احتساب کو کافی نہیں ۔ میں مذہبی مباشات کو ذہن میں آنے نہیں دیتا' اگر کبھی ایسا خیال ہوا تو میں یہ کہ کر ٹال دیا کرتا ہوں : ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اور یہی مضمون ایک جگہ قران مجید میں بھی آیا ہے : یا ایہا الذین آمنوا علیکم انفسکم لا یضر کم من ضل انا اھدیتم الی اللہ مرجعکم جمیعاَ فینبئکم بما کنتم تعملون ۔ دوسرے پر حملہ کرنے کی مصیبت سے تو یوں بچے کہ اپنی کرنی اپنی بھرنی ' وہ
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 275
جانے اپں کا کام جانے ' نہ میں کسی کا محتسب ' نہ دین کا ٹھیکہ دار' نہ منصب ہدایت پر مامور ' مجھ کو کیا پڑی کہ دوسروں کے معاملات میں دخل دیتا پھروں ۔ "لا تزر وازرہ وزر اُخریٰ" رہ گئی اپنے معتقدات کی حما یت' سو میرے معتقدات میرے دل کی تسلی کے لیے ہیں' دوسروں کو ان سے تسلی نہ ہو' نہ ہو۔ الغرض میری سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ لوگوں میں مذہبی لڑائی کیوں ہوتی ہے اور کیا اس سے مفاد ہے؟ اگر تم میری صلاح مانو تو علم کلام کی کتاب کو تو بھول کر بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا ۔ ایک بڑا نقصان جو طلب گار دین کو اس فن کی کتابوں کو پہنچتا ہے' یہ ہے کہ اس سےطبیعت دینیات میں متشکی ہوجاتی ہے ۔ جس ترتیب کے ساتھ میں نے تم کو دینیات پر عمل کرنے کو بتایا تو اس کا لحاظ بھی حیرت اختلاف سے بچنے کے لئے مفید ہے ۔ جب انسان اس بات کو نصب العین کر لے گا کہ میں ایک فانی اور بے حقیقت مخلوق ہوں اور معلوم نہیں کہ بعد مرگ کیا پیش آئے' میں نہیں سمجھتا کہ ایسا آدمی ان جھگڑوں کی طرف متوجہ ہونے کے لئے اپنی طبیعت کو حاضر پائے۔ بعض باتوں سے تو وہ بہ ایں خیال اعراض کرے گا کہ میں ان سے زیادہ اہم کام میں مصروف ہوں:
کیا جانیں ہم زمانے کو حادث ہے یا قدیم
کچھ ہو کہ بلا سے اپنی کہ ہیں فانیوں میں ہم
اور بعض کی نسبت وہ شاید خیال کرے کہ اگر میری سمجھ میں بھی نہیں آتا تو میری ہی فہم کا قصور ہے۔
میں مناظرے اور مباحثے کی نظر سے تو کبھی کسی مذہب کی تفتیش و تلاش کی نہیں مگر ہاں یوں ہندو' عیسائی ' پارسی' یہودی جو مذہب ہمارے ملک میں مروج ہیں' ان کے معتقدات کا حال معلوم ہے' غایب مافی الباب یہ کہ بالتفصیل نہ سہی' سو جن دلائل سے مجھ کو اس بات کا اذعان ہے کہ خدا ہے' انہی دلیلوں سے ان کا بھی تیقن ہے کہ کوئی اس کا شریک نہیں ۔ ہندوئوں اور پارسیوں سے تو یوں سستے چھوٹے' رہ گئے عیسائی اور یہودی' اس میں کچھ نہیں کہ ہیں اہلِ کتاب' دین بھی ہمارا ان کا ایک ' اختلاف اگر ہے تو شرائع کا ہے مگر وحدانیت کو انہوں نے بھی ڈگمگا رکھا ہے- پس ہم کو تو اسلام کے سوائے اپنا ٹھکانہ کہیں نظر نہیں آتا ۔ جس بات نے مجھ کو زیادہ تر مذہب
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہے۔ لوگ زعمم، ملک کے مفاد میں کوشش کرتے ہیں اور میرے نزدیک چلتی گاڑی میں روزے انکارہے ہیں، ع
بن مانگے موتی ملیں اور مانگیں ملیں نہ بھیک
میں جدھر خیال دوڑاتا ہوں تقدیر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ ہم میں سے بعض آدمی جو زمانہ حال کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم پا کر کچھ لیاقت پیدا کرتے ہیں"قلیل ماہم" ان کی مت یوں ماری جاتی ہے کہ مدرسے سے نکلے اور ان کو نوکری کی سوجھی۔ نوکریوں کا حال یہ ہے کہ "یک انارو صد بیمار " جس کو نوکری نہ ملی وہی گورنمنٹ سے ناراض، منہ پھیلائے ہوئے، روٹھا ہوا، بڑا بڑاتا پھرتا ہے۔ اور ایک عذاب ہے اپنے حق میں، سوسائٹی کے حق میں، اور گورنمنٹ کے حق میں۔ ان ہی کو اگر خدا تو فیق دے اور تعلیم سے فراغ حاصل کرنے کے بعد معاش کے لئے گورنمنٹ کے حق میں۔ ان ہی کو اگر خدا توفیق دے اور تعلیم سے فراغ حاصل کرنے کے بعد معاش کے لئے گورنمنٹ کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ، امیداواران دھکے نہ کھائیں اور نوکری کے علاوہ دوسرے ذریعوں سے متوکلین علی اللہ معاش کی کوشش کریں تو معاش کے لئے کتنے تو نئے ذریعے پیدا ہو جائیں اور جو ذریعے بالگعل مروج ہیں ان کی لیاقتوں کے انضمام سے ان میں ان میں بہت کچھ رونق ہو۔ باتیں جتنی چاہو پیو جس کے جی میں آئے رفار مربن لے قومی خیر خواہی کا مدعی ہو، ملکی ہمدردی کا حیلہ کرے، اصل مطلب ہے نوکری۔ اور فرض کیا کہ سرکار نے اس غل شور کے فرد کرنے کے لئے نوکری کو عام بھی کردیا "دھن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ" مگر اس کا نتیجہ کیا ہوگا یہی نہ کہ ہزار، دوہزار یا مثلا دس ہزار آدمیوں کی توٹی کا سہارا نکل آیا، لیکن کیا اتنی بات سے ملک میں فلاح ہوتی پڑی ہے؟ استغفراللہ، اونٹ کے منہ میں زیرا!
اگر فی الوقع تمہارے دل میں قوم کی سچی خیر خواہی ہے تو سرکار کا کیا پیچھا لیا ہے قوم ہی کو کیوں نہیں درست کرتے۔ یورپ میں جو آج تمام روئے زمین کی دولت پھٹ پڑی ہے کہ طوفان نوح کی طرح اوپر سے بھی برس رہی ہے اور زمین سے بھی ایل رہی ہے، نوکری تو نوکری ، سلطنت کو بھی تو اس میں دخل نہیں۔ ماشاءاللہ، چشم بد دور! ایسے ایسے ہزاروں سوداگر ہیں جو تمول کے اعتبار سے ایسی ویسی سلطنتوں کو بھی کچھ مال نہیں سمجھتے۔ خیال کرنے کی بات ہے مثلا یہی ایک ہمارے ملک کی ریل ہے کہ روئے زمانے پر کوئی سلطنت ایسی نہیں دکھائی دیتی جو اتنے بڑے مصارف کی متحمل ہوسکے اور یہ انگلستان کی رعایا کا ادنی سا کام ہے۔ پس اگر حقیقت میں ملک کی بہبود مد نظر ہے تو اس کا یہ رستہ نہیں ہے جو تم نے یا اس زمانے کے تعلیم یافتہ لوگوں نے اختیار کیا ہے۔ "ایں رہ کہ تو مے رودی بہ ترکستان است" اس کا راستہ اگر ہے تو میرے نزدیک یہی ہے کہ پہلے قوم کے خیالات کی اصلاح کرو۔ یہ بات کسی طرح ان کے زہن میں بٹھ جانی چاہیے کہ ہماری سرزمین سونے کی سرزمین ہے مگر ہم میں سے کسی کو کیما کا وہ الٹکا معلوم نہی جس سے مٹی کو سونا بنایا جاتا ہے۔ وہ لغکا خدا نے اہل یورپ کو بتا دیا ہے۔ آؤ ہم بھی ان سے سیکھیں اور ہمالیہ اور بندھیاچل اور ارولی پربت اور گھاٹ جتنے پہاڑ ہیں سب کو سونے کا بنا لیں۔ ہم بھی اہل یورپ کی طرح مخلوق ہیں جن تدبیروں سے انہوں نے اپین حالات کو درست کر لیا ہے انہیں کی دیکھا دیکھی، ویسی ہی تدبیریں عمل میں لا کر ، ہم بھی کرارے ہوجائیں۔ کیوں گورنمنٹ کے دوست نگر ہوں؟ کس لیے سرکار کی خوشامد کریں۔ کاہے کو حکام پاس حاجت لے جائیں۔ کرنے پر آئیں تو ہم بھی سب کچھ کر سکتے ہیں۔ اہل یورپ خدا کی رحمتوں اور زمین کی برکتوں کے ٹھیکے دار نہیں۔؎
مگر یوں کہوں کہ ہم سے کچھ ہو نہیں سکتا۔ ہاں ! گورنمنٹ میں ہزاروں کپڑے ڈالنے کو موجود۔ وہ تو گورمنٹ ہی کچھ ایسی متحمل مزاج مل گئی ہے کہ جلی کئی ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے نکال دی، جیسے ایک پہاڑ کہ آندھیان چل رہی ہیں اور وہ جس شان سے کھڑا تھا، اسی شان سے کھڑا ہے۔ 1857 کو غدر کیا کچھ ہلی بات تھی؟ مگر بڑے لوگوں کے بڑے ظرف! پہلے تو بہ تقاضائے سیاست باغیوں کا خوب ہی سرکچلا اور جب دیکھا کہ بغاوت مستاصل ہوچکی، امن عام کی مناوی پھیردی۔ اے جزاک اللہ۔۔۔۔۔
ایں کار ازتوں آید و مرداں چنیں کنند
بر عٍو و انتقام تو صد آفریں کنند
تعلیم، ڈاک، ریل، تار، قاعدے، قانون، پولیس، ایک چیز ہو تو اس کا نام بھی لیا جائے میں تو جس جس پہلو سے دیکھتا ہوں انگریزی عمل عاری رحمت الہی معلوم ہوتی
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 286 اور 287)

وقت بچا ، ہاتھ پاؤں کی محنت بچی اور کام دیکھو تو دگنا چوگنا بھی نہیں ہزار گنا اور اس افراط پر بہتر سے بہتر۔ دوسری باتوں کا کیا مذکور ہے ، پیداوار کی ذات اور جانوروں کی نسلیں تک پلٹ گئیں۔

معاش کا دوسرا ذریعہ تجارت ہے سو اس کا واقعی حال یہ ہے کہ گودا تو اہل یورپ چٹ کرتے ہیں ، رہ گئیں خالی ہڈیاں ، ان کو چاہے میمن اور بوہرے پڑے چچوڑا کریں یا پنجابی یا مارواڑی ، یا میں چاہوں تو میں اور تم چاہو تو تم۔ خلاصہ یہ ہے کہ عقل معاش کے اعتبار سے اہل یورپ کے مقابلے میں ہمارے ملک کے لوگ ایسے ہی کودن اور کندہ ناتراش ہیں جیسے ہمارے مقابلے میں ایک بھیل یا کوئی اور جنگلی وحشی آدمی۔ ہم میں اور اہل انگلستان میں بڑی وجہ فارق تو یہ ہے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کے ہم قوم نہیں ، ہم مذہب نہیں ، ہم وطن نہیں۔ انہوں نے ہم کو تلوار کے زور سے مطیع کیا ہے ، جیسے کبھی ہمارے بزرگوں نے ہندوؤں پر اپنی سلطنت بٹھائی تھی۔ انگریز ہماری طرف سے کبھی مطمئن ہو نہیں سکتے اور احتیاط بھی اس کی مُقتضی ہے۔
"الحزم سوء الظن۔" تم کو تو کسی زمانے میں تاریخ دانی کا بڑا دعویٰ تھا ، خیال کرو کہ ہم لوگوں نے ہندوؤں پر کس قدر اعتبار کیا تھا۔ کہیں سینکڑوں برس سلطنت کے بعد ، وہ بھی اس وقت کی بدقسمتی جو سر پر سوار ہوئی تو ہمارے بزرگ یہیں رہ پڑے اور ہندوؤں سے اختلاط کرکے انھی کی طرح آرام طلب اور کاہم اور مبتلائے اوہم ہوگئے اور آخر کار سلطنت کھو بیٹھے غرض کہیں سینکڑوں برس کی سلطنت کے بعد ہندُؤں کو یہ بات نصیب ہوئی تھی کہ مسلمان بادشاہوں کے دربار تک پہنچے اور اعتباری کی خدمتوں پر مامور ہوئے اور جو کچھ ذرا ظہور اعتبار پیدا ہوچلا تھا ، وہ اس کمبخت 57ء کے غدر نے ملیا میٹ کردیا ۔ اب کم سے کم سو برس اطمینان کے اور گزریں ، تب بات سو بات۔ لیکن ایک بغاوت تو خدا خدا کرکے فرو ہوئی ، تم نے ابھی سے دوسری بغاوت کی چھیڑ چھاڑ شروع کردی ۔

ابن الوقت : یک نہ شد دو شد۔ گورنمنٹ سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی آپ کے نزدیک داخل بغاوت ہے۔ بس غنیمت ہوا کہ میری طرح آپ بغاوت کے محکمے کے افسر نہیں ہوئے۔
حجتہ الاسلام : قوم مفتوح کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں؟
ابن الوقت : حقوق کیوں نہیں ہوتے؟ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی وحشی اور ظالم گورنمنٹ ان کو تسلیم نہ کرے ، لیکن برٹش گورنمنٹ تو بڑی مہذّب اور عادل گورنمنٹ ہے اس سے ہر ایک طرح کا دعویٰ ہے۔
حجتہ الاسلام : اچھا ، اگر دعویٰ ہے تو اس کا فیصلہ کون کرے گا؟
ابن الوقت : وہی گورنمنٹ اور اسی کے انصاف پر تو ساری لڑائی ہے۔
حجتہ الاسلام : بس بس ، یہی تو میں کہتا ہوں کہ گورنمنٹ کے انصاف پر اعتماد کرتے ہو اور اس کو عادل مانتے ہو تو اس پر پورا پورا اعتماد کرو۔ عادل گورنمنٹ رعایا کی حاجتوں اور ضرورتوں سے غافل ہو نہیں سکتی۔ گورنمنٹ کے تمام عہدہ دار ، گورنر جنرل سے لے کر ایک اسسٹنٹ تک ، اعلیٰ قدر مراتب ، سب رعایا کی خوشنودی ، رعایا کی آسائش کے فکر میں لگے ہیں۔
ابن الوقت : تو اگر ہم نے اپنی ضرورتوں کو ظاہر کر دیا تو کیا غضب ہوگیا؟ یہ من وجہ سرکار کی اعانت ہوئی یا بغاوت؟

حجتہ الاسلام : ظاہر کردیا ، ظاہر کردیا ! ذرا بنگلے کے دیسی اخبار تو دیکھو تو معلوم ہوکہ رعیّت ہونے کی حیثیت سے اپنی ضرورتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کر رہے ہیں یا بیہودگی اور بے تمیزی کے ساتھ گورنمنٹ سے بٹیاریوں کی سی لڑائی لڑتے ہیں۔ سنو صاحب ! بات صاف صاف تو یہ ہے کہ رعایائے انگلستان کے سے حقوق چاہو تو یہ طلب محال ہے۔ نہ ان کی طرح کی ہم رعایا ہیں اور نہ ہی ویسے حقوق ہم کو مل سکتے ہیں اول تو ہم کو کسی حق کی طلب گاری کی ضرورت نہیں۔ طلب گاری تو ہم اس صورت میں کریں کہ گورنمنٹ کو غافل اور بے انصاف سمجھیں اور خیر "اہل الغرض مجنون" ایسی ہی بے صبری ہے کہ بیٹا بن کر سب کو کھاتا ہے ، باپ بن کر کسی نے نہیں کھایا۔ یہ سچ ہے کہ حکام انگریزی خود گورنمنٹ نہیں ہے بلکہ گورنمنٹ کے ملازم ہیں مگر گورنمنٹ انہی کی آنکھوں سے دیکھتی ہے اور انہی کے کانوں سے سنتی ہے۔ ان کے دلوں میں ہماری طرف سے کسی طرح کے محاسدے اور سوء مظنّہ کا پیدا ہونا ہمارے حق نہیں نہایت مضر
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 290
ہے اور جب سے فارس اور روم کے انتظام کے نمونے دیکھ کر آیا ہوں' میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ انگریزی عملداری کو دنیا کی بہشت سمجھتا ہوں - روم اور فارس کی عمل تو خیر دور ہے' اسی ہندوستان میں کسی مسلمان نواب یا ہندو راجا کی عملداری میں جاکر رہو تو قدرِ عافیت معلوم ہواور پھر بھی ان ریاستوں میں انگریزوں کی نگرانی اور سرپرستی کی وجہ سے بڑا امن ہے-
میں یہ نہیں کہتا کہ انگریزی انتظام میں نقص نہیں- ہیں اور ہونے چاہئیں' کیونکہ انگریز بھی بشر ہیں اور ع
کہ ہیچ نفس بشر خلی از خطانہ بود
پھر سلطنت کے انتظام اور سلطنت بھی ہندوستان کی سلطنت' بڑے پیچیدہ اور نازک کام ہیں- ملک کی وسعت کو دیکھو' پھر اس بات پر بھی نظر کرو کہ کیسے کیسے مختلف الطبائع' مختلف العقائد' مختلف الحالات لوگ اس ملک میں بستے ہیں اور اس پر اجنبی محض لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنا ہے' ایسی صورت میں انتظام میں نقصکیا نقصانات کا ہونا کیا کچھ تعجب کی بات ہے؟ مگر میں دیکھتا ہوں تو حکام وقت کی نیت بہ خیر ہے ' ہمہ تن اصلاح حال رعایا میں مصروف ہیں- ہم جو چلتے بیل کی آر ماریں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دولتی کھانے کو جی چاہا ہے-
ابن الوقت : آپ نے تو میرے سارے منصوبے ہی غلط کردیے-
حجۃ الاسلام: میں نے غلط کردیے یا وہ تھے ہی غلط- میں جانتا ہوں کہ نیت تمہاری بھی خدا نا خواستہ کچھ بری نہ تھی' تم نے خیال کیا اور ٹھیک خیال کیا 'اور جس کو خدا نے ذری سی بھی عقل دی ہے'خیال کرسکتا ہے کہ انگریزی عمل داری میں ہم مسلمانوں کے ساتھ ہر چند کسی خاص طرح کی رعایت نہیں کی جاتی(یہ بات دوسری ہے کہ ہماری حالت خاص رعایت کی مستحق ہے یا نہیں) مگر سرکار ہمارے ساتھ کسی طرح کی ضد اور مخالفت بھی تو نہیں کرتی' جو حال رعایا کا وہ ہمارا' مگر مسلمانوں میں خستہ حالی'مفلسی اور نکہت یوماَ فیوماَ بڑھتی چلی جاتی ہے-پھر تم نے خیال کیا اور ٹھیک خیال کیاکہ مسلمان اکثر بلکہ قریب کل نوکری پیشہ ہیں- کچھ آج سے نہیں بلکہ جب
صفحہ 291:
گھرکی سلطنت تھی' تب بھی ان کا یہی حال تھا- اب نوکری سے بھی ان کو دوسری قوموں نے گویا کہ بے دخل کردیا' الا ماشاللہ۔ تم نے سبب کی تفتیش کی اور سمجھا اور ٹھیک سمجھا کہ نوکریوں میں سرکار انگریزی دانی کی قید لگاتی چلی جاتی ہے اور اگرچہ مسلمانوں کو انگریزوں سے مذہباَ مغایریت نہیں ہونی چاہئیے کیوں کہ انگریز بھی اہلِ کتاب ہیں اور ان کے ساتھ مناکحت اور مواکلت کی صاف اجازت قران میں موجود ہے : " و طعام الذین اُوتوالکتاب حل لکم و طعامکم حِل لہم و المحصنات مَن المومنات و المحصنات من الذین اوتواالکتاب من قبلکم انا اتیتمو ھن اجورھن محصنین غیر مسافحی ولا متخذی اخدان" لیکن از بس کہ انگریز اجنبی محض ہیں اور ان کے ساتھ ہند کے مسالمانوں کو کبھی اختلاط بھی نہیں رہا اور پشت ہا پشت سے ہندوئوں میں رہ کر وہمی سے بھی ہوگئے ہیں' غرض کچھ اجنبیت اور کچھ واہمہ' لگے انگریزی لباس' انگریزی طرز تمدن یعنی انگریزوں کی تمام چیزوں سے حتٰی کہ زبان انگریزی سے بھی پرپیز کرنے- معاش کے لیے وہی ایک نوکری کا دروازہ تھا' سو تیغہ ہوکر اس میں ایک ذرا سا موکھا رہ گیا-
یہاں تک مجھ کو تمہارے ساتھ بالکل اتفاق ہے' اس کے بعد کی تمنہاری ساری کاروائی غلط ہے- اول سرے سے توتم نے یہی غلط سمجھا کہ سرکاری نوکریوں سے مسلمانوں میں خوش حالی آجائے گی- اول تو سرکار کے انتظام ایسی جزرسی اور کفایت شعاری کے ساتھ ہیں کہ جہاں ایک روپیہ خرچ ہے' سرکار وہاں آٹھ ہی آنے میں کام نکلوانا چاہتی ہے' وہ بھی بڑے مضایقے کے ساتھ- اس کا ضروری نتیجہ ہے نوکریاں کم 'تنخواہیں تھوڑی ایک دنیا ہے کہ ستو باندھ کر نوکریوں کے پیچھے پڑی ہے' بنئے 'بقال'لٹھیرے'کسیرے'کنجڑے'بھٹیارے' انگریزوں کے کل شاگرد پیشہ' یہاں تک کے سائس'گراسکٹ جن کی ہفتاد پشت میں کبھی کوئی اہلِ قلم ہوا ہی نہیں' نوکری کی دھن میں سب کے بچے مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں- پس نوکریوں سے کیا فلاح ہونی ہے؟ پھر دوسری غلطی تم سے یہ ہوئی کہ مسلمانوں اور انگریزوں میں اختلاط پیدا کرنے کے لیے تم نے انگریزی وضع اختیار کی اور تمہاری دیکھا دیکھی اور بہتریوں نے اور تمہاری غرض بھی یہی تھی- سمجھے کچھ اور ہوگیا کچھ! ہندوستانیوں میں جیسی کچھ
 

میر انیس

لائبریرین
آج ہی اورصفحات دیدیں کل سے مصروف ہوجائوں گا۔ویسے مجھے یاد ہے پہلے یہ صفحات ہم کھیل کے طور پر کر رہے تھے اور ایک صفحہ مکمل کرنے کے بعد کوئی بھی رکن کسی بھی دوسرے کو ٹیگ کرسکتا تھا پر اب تو میں نے دیکھا ہے سیدہ شگفتہ اور عائشہ عزیز ہی ٹیگ کرتی ہیں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
284

کے ساتھ ایک طرح کا برتاؤ نہ کیا جائے۔​
حجتہ السلام: اللہ اللہ! اس خبط کا کیا ٹھکانہ ہے ! کہیں تم نے متوالی کو دوں تو نہیں کھا لی، "ایاز قدس خود شناس " انگلستان کی رعایا سی قابلیت بہم پہنچائی ہوتی، ملک پر اپنا اعتبار ثابت کیا ہوتا تو ایسی بلند پروازیاں تم کو پھبتیں بھی، "حلوا خورودن را روئے باید۔" نالیاقتی کا تو یہ حال ہے کہ نہ ہمت ہے، نہ جرات ہے، نہ اتدفاق ہے، نہ تہذیب ہے، نہ شائستگی ہے، نہ سچائی ہے، نہ سچائی کی تلاش ہے، نہ معلومات ہے ، نہ معلومات بہم پہنچانے کا شوق ہے، نہ ہنر ہے نہ تجارت ہے، نہ دولت ہے ، نہ ایجاد ہے ، نہ صناعت ہے ، غرض صلاحیت تو اگر پوچھو ، خانہ داری کی بھی نہیں اور حوصلے دیکھو تو ملک گیری کے اور ہندوستانیوں پر کیا مو قوف ہے، میں تو سمجھتا ہوں کہ تمام ایشیا کی آب وہوا میں کچھ اس طرح کی روائت آگئی ہے کہ اس سرزمین میں کوئی شخص ، جسکو ضابط اور منتظم سمجھا جائے ، پیدا ہوتا ہی نہیں ۔ بلکہ میں جب حج سے واپس آ کر بمبئی میں اترا اور یہاں کے عذر کے تفصیلی حالات سنے تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ناحق انگریزوں نے اتنی زحمت اٹھائی ، جیسے لوگوں نے بغاوت کی تھی ، زیادہ نہیں تو ایک ہی ضلع تھوڑے دنوں کے لئے بالکل چھور بیٹھے ہوتے کہ ہماری عملداری سے ناخوش ہو تو خود کر کے دکھاؤ۔ یقین ہے کہ ایک برس بھی پورا نا گزرنے پاتا کہ لوگ بدعملی سے عاجز آ کر بہ منت انگریزوں کو منا کر لے جاتے اور کبھی بھول کر بغاوت کانام بھی نا لیتے ۔​
میں خیال کرتا ہوں تو انگریزی عملداری تمھاری ہی نہیں بلکہ ہم لوگوں کی بھی شرط زندگی ہو گئی ہے۔ چاقو، مقراض۔ سوئی تاگا، دیا سلائی ، انواع اقسام کے کپڑے، غرض ضرورت و آسائش کی اکثر چیزیں انگریزی ہی انگریزی دکھائی دیتی ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انگریزوں سے محض بے تعلقی ہو جائے توہمارا کیا حال ہو۔ بھلا خیر، فرض کیا کہ خدا کے فضل سے گو رنری تک کے لئے بھی بہت سے بنگالی یا دوسرے انگریز خواں ملیں گے بلکہ دور کیوں جائیں تم ہی ماشااللہ کس بات میں کم ہو ، مگر یہ تو فرماؤ ضرورت کی چیزیں بنانے ، بہم پہنچانے والا بھی کوئی ہے؟ انگریزی تعلیم کے فیضان سے گورنری ، کونسلر ، لیفٹینٹ گورنر، بورڈ کے ممبر، کمشنر، کلکٹر، جسٹس ، مجسٹریٹ،​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آج ہی اورصفحات دیدیں کل سے مصروف ہوجائوں گا۔ویسے مجھے یاد ہے پہلے یہ صفحات ہم کھیل کے طور پر کر رہے تھے اور ایک صفحہ مکمل کرنے کے بعد کوئی بھی رکن کسی بھی دوسرے کو ٹیگ کرسکتا تھا پر اب تو میں نے دیکھا ہے سیدہ شگفتہ اور عائشہ عزیز ہی ٹیگ کرتی ہیں

تمام اراکین نے اس کھیل کے قواعد فالو نہیں کیے اور اراکین کو یاد دہانی کروانے میں مزید وقت صرف ہو جاتا ہے اس لیے جو وقت یاد دہانی میں صرف ہو اسی وقت کو خود ہی ٹیک کر نے میں استعمال کر لیا گیا ہے ۔ آئندہ امید ہے اراکین اس کھیل اور اس کے قواعد سے مانوس ہونا شروع ہو جائیں گے ۔
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 294
لطف حق با تو مواساہا کند
چوں کہ از حد بگرزد رسوا کند
اقورت فرض کیا مذہب سے انکار کرنے والے بڑے عاقلسہی' اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اپنی عقل سے جو مدار تکلیف ہے' کام نہ لیں اور خود سوچیں -نمیں نے پچھلی ملاقات میں تم سے مفصلاَ اور مشروحاَ بیان کیا تھا کہ کہاں تک مذہب میں عقل کو دخل دینا چاہئے مگر شاید تمہارے خیال سے اتر گیا یا تم نے میرے ساتھ یہ بھی ایک چھیڑ خانی نکالی ہے تو مشغلے کے لئے اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ میں پسند نہیں کرتا کہ مذہب کے ساتھ تمسخرواستہزائ کیا جائے۔
ابن الوقت : کیا آپ برا مان گئے؟
حجۃ الاسلام: اگر تحقیق حق کے طور پر بحث کرو تو میں یہاں سے تمہارے اعتراضات کے سننے اور جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے تمہاری تشفی کرنے کو موجود ہوں مگر مخاصمانہ گفتگو کرنے سے کوئی فائدہ نہیں- تم بچے نہیں اور مذہب دوا نہیں کے پچھاڑ کر تمہارے گلے میں اتار دی جائے- طلبِ صادق پیدا کرو تو تب مذہبی مناظرے کا نام لو- یاد ہے'میں تم سے کہ چکا ہوں فکر و تدبر انسان کو مذہب کے اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔
ابن الوقت: اس کا تو میں آپ کو ہر طرح سے یقین دلا سکتا ہوں کہ استہزائ کا تو خیال میرے دل میں نہیں آیا؛ ہاں مخاصمانہ کوئی بات میرے منہ سے نکلی ہوگی تو آپ معاف کیجئے ۔غور کرنے کا مجھے موقع نہیں ملا مگر اب کروں گا- پرسوں یا اترسوں' ذرا کی ذرا سوچنا چاہا تو ذہن اس بات کی طرف منتقل ہوگیا اگر مزہب امر ناگزیر ہو اور فرض کرلیا جائے کہ اسلام کے سوائے اور سب مذاہب بطل ہیں تو سار دنیا میں مسلمان اور پھر ان میں بھی سچے مسلمان کتنے ہیں- کسی طرح عقل قبول نہیں کرتی کہ معدودے چند مقبول ہوں۔ باقی تمام جمِ غفیر مردود-
حجۃالاسلام : تم تو پرواز کرتے ہی خدائی کی سرحد پر جا پہنچے۔ اول دنیا کی پہیلی کو تو بوجھ چکو' تب ہی آخرت کی چیستان میں عقل آزمائی کرنا - یہ بھی من جملہ انہی اسرار
صفحہ 295
کے ہے جن کے ادراک سے عقل بشر عاجز ہے- اگر واقع میں تم کو دین کی طلب گاری ہے تو سیدھا راستہ کیوں نہیں اختیارکرتے کہ دنیا کی ہستی اور اس کا انتظام اس بات کا مقتضی ہے کہ کوئی اسکا خالق اور صانع ضرور ہے- موجودات عالم پر نظر کرتے ہیں تو انسان کو اشرف المخلوقات پاتے ہیں کیونکہ وہ صاحب عقل و ادراک ہے کہ اس صفت میں کوئی اس کا مشارک نہیں' با ایں مہ وہ ایک عاجز و ناچیز مخلوق ہے- نتیجہ یہ ہے کہ خدائے تعالٰی کو نہ ہم دیکھ سکتے ہیں اور نہ عقل کے زور سے اس کی ذات و صفات کو پورے طور پر دریافت کرسکتے ہیں- مگر جس طرح مخلوقات سے خالق کو پہنچانتے ہیں اسی طرح انہیں مخلوقات سے اتنی باتیں اور سمجھ میں آتی ہیں کہ جس نے انہیں بنایا اور پیدا کیا ہے ' تمام صفات کمالیہ کے ساتھ متصف ہے- بس یہ اصل دین ہے' باقی اسی کے فروع اور متمات ہیں- میں تم کو بتائوں' دین کے دو حصے کرو اولاَ نفس اسلام پھر اسلام کے فرقوں میں کوئی ایک فرقہ خاص' جس کے معتقدات تم کو پسند ہوں- میں امید کرتا ہوں کہ مذہب کے متعلق جو کچھ میں نے تم سے اب تک کہا پہلے حصے یعنی نفس اسلام کی نسبت تمہاری تشفی کرسکتا ہےبشرطیکہ تم کو تشفی درکار ہو اور جب اسلام کی اصلی اور حقیقی عمدگی تمہارے ذہن میں اچھی طرح بیٹھ جائے گی' جس کی شناخت یہ ہے کہ اعمال اضطراراَ سرزرد ہونے لگیں تو میری یہ بات لکھ لو کہ انگریزی وضع خود تم ہی کو بہ تقاضائے مذہب وبال معلوم ہونے لگے گی- رہا دوسرا حصہ یعنی اسلام کے فرقوں میں سے کسی فرقہ خاص کی تعین اس کو کسی دوسرے وقت پر رکھو-
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
آج ہی اورصفحات دیدیں کل سے مصروف ہوجائوں گا۔ویسے مجھے یاد ہے پہلے یہ صفحات ہم کھیل کے طور پر کر رہے تھے اور ایک صفحہ مکمل کرنے کے بعد کوئی بھی رکن کسی بھی دوسرے کو ٹیگ کرسکتا تھا پر اب تو میں نے دیکھا ہے سیدہ شگفتہ اور عائشہ عزیز ہی ٹیگ کرتی ہیں
تمام اراکین نے اس کھیل کے قواعد فالو نہیں کیے اور اراکین کو یاد دہانی کروانے میں مزید وقت صرف ہو جاتا ہے اس لیے جو وقت یاد دہانی میں صرف ہو اسی وقت کو خود ہی ٹیک کر نے میں استعمال کر لیا گیا ہے ۔ آئندہ امید ہے اراکین اس کھیل اور اس کے قواعد سے مانوس ہونا شروع ہو جائیں گے ۔
میری طرف سے سوری اپیا اور بھائی ۔۔میں کافی لیٹ آئی تب فہیم بھیا مقدس اپیا جو شروع سے کام کررہے تھے وہ بھی نہیں تھے امین بھیا بھی مصروف تھے اور مجھے صحیح سے معلوم بھی نہیں تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میری طرف سے سوری اپیا اور بھائی ۔۔میں کافی لیٹ آئی تب فہیم بھیا مقدس اپیا جو شروع سے کام کررہے تھے وہ بھی نہیں تھے امین بھیا بھی مصروف تھے اور مجھے صحیح سے معلوم بھی نہیں تھا۔

ارے ےے ، عائشہ یہ سوری کس بات کے لیے لکھا ہے سوئٹ سس ، ایک تو آپ نے کام کیا اور سوری بھی آپ ہی کر رہی ہیں ، یہ کیا بات ہوئی بھلا
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ارے ےے ، عائشہ یہ سوری کس بات کے لیے لکھا ہے سوئٹ سس ، ایک تو آپ نے کام کیا اور سوری بھی آپ ہی کر رہی ہیں ، یہ کیا بات ہوئی بھلا
آپ بہت اچھی ہیں اور بہت مختلف ہیں عائشہ باقی لوگوں سے ورنہ اس طرح نہ لکھتیں اور آئندہ آپ بالکل نہیں لکھیں گی ایسے ، اچھا !
جی اپیا وہ ناں میں نے رولز کو فالو نہیں کیا تھا ناں اس لیے ۔۔
اوکے اچھی اپیا :)
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اپیا کے حصے کا دوسرا پیج ۔۔

ص285

اس قسم کے لوگ تو ہمارے بنگالے میں بہتیرے نکل پڑیں گے مگر کوئی ایسا بھی ہوا کہ انگریزوں کی طرح کلیں نکالتا یا زیادہ نہ سہی تو ان ہی کے کیل پرزوں کو جما بٹھا کر ان سے کام لیتا۔ غیرت ہو تو چلو بھر پانی لے کر ڈوب مریں کہ ہمارے ملک کی پیداوار ولایت جائے اور وہاں سے بن سنور کر پھر آئے اور ہمارے ہی ہاتھوں چوگنے پچگنے داموں بکے۔
ہندوستان کا خطہ معدنیات ، بناتات ، حیوانات ، غرض جملہ اعتبارات سے تمام روئے زمین کا لب لباب ہے مگر ہم کو ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا سلیقہ نہیں تو ہماری طرف سے ہو تو بلا سے اور نہ ہو تو بلا سے۔ سب کچھ کھو کھوا کر معاش کے دو ذریعے رہ گئے تھے ، کاشتکاری اور تجارت۔ سو کاشتکاری کی برکتیں روز بروز سلب ہوتی چلی جاتی ہیں ، زمین کو مہلت تو ملتی نہیں ، اس کی قوت گئی گھٹ۔ ہم کو اس کا بھید معلوم نہیں کہ زمین میں سے کیا چیز نکل گئی ہے اور کیونکر اس کی تلافی کی جاتی ہے۔ پس اگلے وقتوں کے سے اللے تللے کی پیداوار ہوں تو کہاں سے ہوں؟
تمہاری دلی کے سواد میں رائے پتھور کا اب سے دو سوا دو ہزار پہلے کا بنا ہوا محل کھڑا ہے۔ پتھر پر ان وقتوں کے ہل ، ان وقتوں کے چھکڑے بنے ہیں۔ مدت ہوئی جب میں نے اس کو اول بار دیکھا تو خیال آیا : اللہ اکبر ! زمانے میں اتنے انقلاب ہوئے ، کتنی عملداریاں بدل گئیں ، قومیں بدل گئیں ، غرض دنیا بدل گئی ، او ر نہ بدلے تو ہل اور چھکڑے کہ جیسے تب تھے بجنسہ ویسے ہی اب بھی موجود ہیں۔ کاشتکاری ایسا تو ضروری پیشہ کہ سب کا مدار رزق اور ہمہ وقت لاکھوں آدمی اس میں مصروف ؛ یہ خدا کا حکم نہیں تو کیاہے کہ کسی کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوتا ہ لاؤ اس میں کوئی کام کی بات نکالیں۔
ایک کاشتکار ولایت گئے ہیں کہ مرضی کے مطابق نہ آب و ہوا ہے ، نہ موسم ہے ، نہ زمین ہے مگر کاشتکاری میں اس قدر ترقی کی ہے کہ ہمارے ہاں رو کر ، جھینک کر بیگھے میں پیدا ہو دس سیر ، تو ان کے یہاں پیدا ہو من بھر۔ بات تھی بکار آمد ایسے پیچھے لپٹے ، ایسے پیچھے لپٹے ، آخر کار سوچتے گویا پیداوار کو اپنے بس میں کر لیا۔ سیکڑوں توکلیں بنا ڈالیں کہ کھیتی کے جتنے کام ہیں ان ہی کلیوں سے پڑے ہورہے ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 292 اور 293)

تمہاری رسوائی ہوئی سو ہوئی۔ بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ انگریز رہے سہے ہتے سے اکھڑ گئے۔ گئے تھے نماز معاف کروانے الٹے روزے گلے پڑے۔ "ازیں سو راندہ وزاں سو درماندہ "یہ تو چند دنیاوی قباحتیں ہیں جو تمہاری سُو تدبیر پر متفرع ہوئیں۔ رہا دین ، اس کا تم نے اور تمہارے اتباع نے مل کر ایسا استخفاف کیا کہ "باریش بابا ہم بازی" کی بھی کچھ حقیقت باقی نہیں رہی۔ ایک ایک لونڈا جس کو دین سے مس نہیں ، مناسبت نہیں ، دین کی اس کی ذہن میں قدر نہیں ، وقعت نہیں ، دین کی باتوں میں غور کرنے کی اس کی عمر نہیں ، حالت نہیں ، دین کی اس کو طلب نہیں ، تلاش نہیں ، ناواقف ، بے خبر ، برخود غلط ، چلا اسلام کا مجدد اور رفارمر بننے اور لگا اصول میں رائے زنی کرنے۔ امورِ دین میں مساہلت تو سبھی سے ہوتی ہے لیکن جو دین کا ادب رکھتے ہیں ، اپنے مساہلے پر نادم اور قصور کے معترف ہوتے ہیں :
بندہ ہماں بہ کہ تقصیر خویش عذر بدرگاہ خدا آورد​
ورنہ سزاوار خداوندیش کس نہ توانہ کہ بجا آورد​

لیکن اب اس زمانے میں لوگوں کے خیالات دین کی طرف سے کچھ ایسے برگشتہ ہوئے ہیں کہ دینیات میں مساہلہ کرتے ہیں ہیکڑی کے ساتھ ، چوری اور سرزوری۔ اور آپ کرتے ہیں سو کرتے ہیں ، قومی خیرخواہی اور رفارمر بن کر دوسروں کی بات مارتے ہیں ، سو الگ اور اتنا نہیں سمجھتے کہ جب قوم کا مذہب نہ رہا ، لباس نہ رہا ، طرز تمدن نہ رہا ، علم نہ رہا ، زبان نہ رہی ، تو امتیازی قومی بھی گیا گزرا ہوا۔ پھر کیسے رفارمر اور کس کی خیرخواہی؟ اگر ہم ایک گھر کی رفارم کرنا چاہیں تو اس کہ یہ معنے نہیں کہ اس کو جڑ بنیاد سے کھود کر پھنک دیں اور از سرنو دوسرا مکان بنا کھڑا کریں۔ اسی طرح مسلمانوں کی رفارم کو تو اُسی وقت رفارم کہا جائے گا کہ مسلمان مسلمان رہیں ، یعنی باپ دادا کے مذہب کے ، وضع کے پابند ہوں۔ دور سے الگ پہچان پڑیں کہ مسلمان ہیں اور پھر ان کے دلوں میں زمانہ حال کے مطابق ترقی کی گدگدی پیدا کی جائے۔
ابن الوقت : آخر آپ کے نزدیک اس کی اور کیا تدبیر ہے؟
حجتہ الاسلام : اس کی جو تدبیر ہے خود بہ خود ہو رہی ہے : "الدبر احسن المودبین" اب مسلمانوں میں اگلی سی وحشت کا کہیں پتا بھی نہیں۔
ابن الوقت : یہ ہماری ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
حجتہ الاسلام : خیر ، تم یوں ہی سمجھو لیکن اگر ایک طرف تو نے مسلمانوں کو وحشت کو دور کیا تو دوسری طرف ان کو بے دین بنا دیا۔ یہ کیا چیند بازی ہے کہ دفع وحشت کی داد چاہو اور بے دینی کا الزام اپنے اوپر نہ آنے دو "میٹھا میٹھا ہپ ہپ ، کڑوا کڑوا تھو تھو"۔
ابن الوقت : اجی حضرت ! وہ بھولے بھالے زمانے گئے کہ لوگ جلدی سے مذہبی ڈھکوسلوں کیا یقین کر لیا کرتے تھے ، اب عقل کا دور دورہ ہے۔ شاید آپ کو بھی اس سے انکار نہ ہوگا کہ آج کل کے لڑکے اگلے وقتوں کے بُڈھوں کو چٹکیوں میں اڑاتے ہیں اور عقل کے آگے تو مذہب کی دال کا گلنا ذرا مشکل ہی ہے۔ فلاسفہ یونان جس کی عقل کا لوہا ساری دنیا نے مانا ، سب کے سب لامذہب۔ علی ہذا القیاس یورپ کے شاید سو میں بمشکل پانچ ایسے نکلیں گے جو سچے دل سے مذہب کے معتقد ہوں۔
حجتہ الاسلام : مجھ کو تمہاری یہ بات تسلیم نہیں۔ میرے نزدیک ہر زمانے اور ہر ملک میں مذہب کے ماننے والے بہت زیادہ رہے ہیں بہ نسبت نہ ماننے والوں کے ، اور جہاں تک میں خیال کرتا ہوں دنیا کا اب بھی یہی رنگ ہے۔ تم کو لامذہبوں کی شہرت سے دھوکا ہوا ہوگا ، سو ایسے لوگوں شہرت نہ کثرت کی وجہ سے ہے بلکہ صرف اس سبب سے کہ انہوں نے دنیا سے نرالی ، انوکھی بات اختیار کی ، نکو اور انگشت نما ہوگئے۔ پھر تمہاری ہی نظر میں لامذہبوں کی عقل کی کچھ قدر اور وقعت ہوگی ، میں تو ان کو سیانے کوئے سے بڑھ کر نہیں سمجھتا۔ ضرور نہیں کہ جس کی عقل دنیا تیز ہو ، دین میں بھی اس کا فہم رسا ہو۔ خاص خاص عقلیں ، خاص خاص چیزوں ے زیادہ مناسب ہوتی ہیں۔ ایک شخص شطرنج خوب کھیلتا ہے مگر حساب کا ادنیٰ سوال حل نہیں کرسکتا۔ عقل فی حد ذانہ ممدوح ہے لیکن وہیں تک درجہ اعتدال میں ہو۔ "ٌخیر الامور اوسطہا" ورنہ افراط کرپزی ہے اور تفریط حمق اور دنوں مذموم ، اور یہی حال ہے کل فضائل کا بلکہ خدا کی تمام نعمتوں اور رحمتوں کا :
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 276
اسلام کی گرویدہ کیا ' یہ کہ اسلام میں تصنع نہیں - پغمبرِاسلام نے حد بشریت سے بڑھ چڑھ کر اپنے لیےکسی تقدس یا کسی استحقاق کا دعوٰی کیا ہی نہیں - آپ پکارے کہتے تھے۔"اِنما انا بشر مثلِکم وما ادریٰ ماَ یفعل بی ولا بکمَ" لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ماشاءاللہ۔ ولو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر وما مسنی السوء"-پس آپ سے جب لوگوں نے معجزات دکھانے کو کہا تو آپ نے صاف انکار کیا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں: ویقولون لولا انزل علیہ یتہ من دیہ قل انما الآیات عنداللہََ وقالو لن نومن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعاََاوتکون لک جنت من نخیل و عنب فتفجر الاانہار خلالہا تلجیراََ اوتستط السماء کما زعمت علینا کسفا او تاتی باللہ والملئکتہ قبیلاََ اویکون لک بیت من زخوف او ترقی فی السماء ولن نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباَ نقر وہ قُل سبحان ربی ھل الا بشرارسولاََ اکثر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ پیغمبر کو معجزات کا دکھانا ضرور ہے تاکہ لوگ اس کا پیغمبر ہونا تسلیم کریں لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں میری نظر میں معجزات کی کچھ بھی وقعت نہیں۔ میرے نزدیک پیغمبر آپ ہی سب سے بڑا معجزہ ہے:ع
آفتاب آمد دلیل آفتاب
مثلاَ یوسف علیہ السلام کا وہ مقولہ " معاذاللہ انہ ربی احسن مثوٰی" میرے قلب پر ایسا اثر کرتا ہے کہ اگر یوسفّ میرے سامنے اگر مردے کو جلا کھڑا کرتے تاہم مجھ کو ان کی خدمت میں ایسی عقیدت نہیں ہوتی۔ اس طرح اسلام کی ساری باتیں ایسی آسانی کے ساتھ میں آتی ہیں کہ خود بخود ان کو قبول کرلیتا ہے۔ مثلاَ توبہ'ظاہر بات ہے کہ اگر ہم سے کوئی قصورعمدا" یا خطا" سرزرد ہوجائےسوائے افسوس اور ندامت کے ہم اس کی کچھ تلافی کر ہی نہیں سکتے۔ توبہ کو عیسائیوں کے کفارے کے ساتھ مقابلہ کرکے دیکھو توتم کو اس کی خوبی معلوم ہو- پھر اسلام میں یہ کتنی بڑی عمدہ بات ہے کہ تکلیف مالایطاق نہیں- یہود اور عیسائیوں کے احکام عشرہ میں یہ باتیں بھی ہیں کہ کل کے واسطے ذخیرہ مت کرو' اگر کوئی تمہارے داہنے کلے نے پر کوئی تھپڑ کھینچ مارے' بایاں کلہ بھی اس کے سامنے کردو کہ لے اور مار اپنے جانی دشمن کے لیے اسی طرح کی دعا کرو جس طرح اپنے اکلوتے بیٹے کے حق میں کرتے ہو-
صفحہ 277
اس طرح کی ان ہوئی باتوں کی جگہ اسلام تعلیم کرتا ہے: کلو و اشربو ولا تسر فوانہ لا یحب المسرفین- من حرم زینت التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزاق ط قل ھی للزین آمنوافی الحیوۃ الدنیا خالصتہ یوم القیامتہ- وجزا مشیتہ مثلہا فن عقا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظالمین - اب تم انے دل میں انصاف کرلو کہ دونوں طریقوں میں سے کونسا ممکن التعمیل ہے اور کون ناممکن التعمیل -
مباحثہ اور مناظرہ تو مجھ کو پسند نہیں' جیسا کہ میں نے تم سے باربار کہا مگر یوں اپنے طور پر میں نے مذہب کے معاملے میں برسوں کو غور کیا ہے اور اب بھی اکثر غور کرتا رہتا ہوں- اور جن وجوہ سے میں نے اسلام کو حق سمجھا اور جن دلائل سے میرے دل کو تسلی ہوئی ان کو میں نے اپنے بچوں کے گوش زد کرنے کی غرض سے جمع کر رکھا - اگر تم دیکھنا چاہو تو میں بڑی خوشی سے تم کو دوں گا- یہ مباحث دو چار' دس پندرہ ملاقاتوں کے طے ہونے میں نہیں ہیں- میں یہ دعوٰ نہیں کرسکتا کہ تمہاری یا دوسروں کی بھی تشفی کرسکتا ہوں- تشفی بدون دینِ الہٰی ہو نہیں سکتی:"فمن یر داللہ ان یہلیہ یشرح صبرہ لل سلام ومن یردان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا" حرضا" کانما یصعد فی السماء" ور میں پھر ایک بار تم سے کہتا ہوں کہ طلب گار دین کو عموما اور تم کو خصوصا" نہ کسی کتاب کے دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے پوچھنے کی حاجت- دنیا میں جدھر کو آنکھ اٹھا کر دیکھو' دین کے دفتر کے دفتر کھلی پڑے ہیں بشرطیکہ چشمِ بصیرت وا ہو -تم ہی میں سب کچھ ہےمگر سوجھتا نہیں: وہ فی انفسکم فلا تبصرون" ایک بات کے کہنے کی اور ضرورت باقٖی ہے کہ اگر تمہارا نفس دین کی کسی بات سے مطمئن ہوجائے تو مجرد اس سے کہ تمہارے دل کو اس بات میں کسی طرح کا خلجان نہیں'نفس کے فریب میں مت آجانا- کامل کی شناخت یہ ہے کہ اعمال میں افعال 'میں 'اقوال میں اس کا اثر ظاہر ہو۔ دنیا میں کسی ملک 'کسی مذہب کا ایک متنفس بھی نہ ہے نہ ہوگا۔ جس کو مرنے کا اذعان نہ ہو مگر کتنے ہیں جن کے برتائو سے اس اذعا ن کا ثبوت ہوتا ہو؟ پکی پکی حویلیاں بن رہی ہیں' باغ نصب ہورہے ہیں ' معاملات میں ڈیوڑھی'ڈیوڑھی' دونی دونی عمر طبعی کے وعدے کئے جارہے ہیں' روز مرہ کے استعمال کی جتنی چیزیں ہیں یہاں تک کہ جوتی میں پائیداری کی نظر ہے۔ غرض
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 282 اور 283)

اکسا رہے تھے۔ حجتہ الاسلام تو اس طرح کے سیدھے سادے بے تکلف سے آدمی تھے کہ اگر ابن الوقت جھوٹوں بھی کہلا بھیجتے تو سچوں دوڑے چلے آئیں مگر اس کو بلوانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی ، کچھ رشتے یا عمر کی بڑائی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی باتوں نے ان کی بڑی وقعت اس کے ذہن میں جما دی تھی۔ آخر تیسرے دن کوئی چار چھ گھڑی رات گئے ، کبھی کے پڑے ہوئے ہندوستانی کپڑے یاد آئے ، جلدی سے بدل ، سوار ہو ، جا موجود ہوا۔

تبدیل وضع کے بعد سے یہ اس کا پہلا پھیرا تھا۔ کنبے کے لوگوں کو ، رشتہ داروں کو اور خاص کر اس کی پھوپھی کو جس قدر خوشی ہوئی بیان سے باہر ہے۔ سب نے ریجھ ریجھ کر اس سے باتیں کیں۔ ہر چند ان باتوں کا لکھنا خالی از لطف نہ تھا مگر یہ مذکور ہمارے مطلب سے خارج ہے۔ اس نے حجتہ الاسلام سے کہا : "حضرت ، لوگوں نے میری جان کھا رکھی ہے کہ صاحب کلکٹر کو ڈنر دو ، ڈنر دو۔"
حجتہ الاسلام : اس وضع سے اگر تم صاحب کلکٹر سے ملنا چاہو تو میں اب ملوا لاؤں مگر مجھ سے انہوں نے کھل کر کہہ دیا کہ میں کسی ہندوستانی کو انگریزی لباس پہنے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ تم ناحق کیوں ان کے سر ہوتے ہو؟
ابن الوقت : پھر صفائی کیا خاک ہوئی؟
حجتہ الاسلام : نہیں ہوئی نہ سہی ، جو تم سے بن پڑے سو کرو۔ تم بھی عجیب طرح کے ناشکر آدمی ہو۔ تمہارا کام تم کو پھر ملا ، صاحب کلکٹر نے سچ پوچھو تو ایک طرح پر معذرت کی ،کیوں کی غلطی کا اقرار کرنا بھی معذرت ہے۔ لوگوں کی نظر میں جو تمہاری بے وقری ہو رہی تھی بالکل دھل گئی۔ جہاں تک تم کو صاحب کلکٹر کے ساتھ سرکاری تعلق ہے ، بس پوری پوری صفائی ہوگئی۔ رہ گئی یہ بات کہ وہ تمہاری انگریزی وضع کو ناپسند کرتے ہیں ، یہ ان کا ذاتی خیال ہے اور انہی کا نہیں بلکہ تمام انگریزوں کا۔ کسی کی آنکھ میں مروت زیادہ ہوئی اس نے منہ سے نہ کہا مگر دل مین وہ بھی ضرور برا مانتا ہوگا۔

ابن الوقت : میں نہیں سمجھتا کہ صاحب کلکٹر یا کسی یورپین کو ، اگرچہ وائسرائے ہی کیوں نہ ہو ، ہمارے لباس اور طرز تمدن میں دخل دینے کا انصافاََ کیا استحقاق ہے؟ اور آج کو تو لباس ہے کل کو رعایا کے مذہب میں مداخلت شروع کریں گے۔ یہ بالکل برٹش گورنمنٹ کے اصول کے خلاف ہے اور دیکھیے گا کہ آخر کار شارپ صاحب اس معاملے میں بڑی زک اٹھائیں گے۔

حجتہ الاسلام : اگر انگریزوں کی اس ملک پر حکمرانی کا استحقاق ہے تو ضرور اس بات کا بھی استحقاق ہے کہ جو چیزیں ضعف حکومت کی طرف منجر ہوں ، ان کا انسداد کریں اور تمہارا طرز لباس اور طرز تمدن ان چیزوں میں ہے جن سے ضعف کا اندیشہ ہے۔ کوئی ہندوستانی جو اپنی مانوس ، قدیمی قومی وضع چھوڑ کر تمہاری طرح انگریزی وضع اختیار کرے گا ، اس کی غرض سوائے اس کے اور کیا ہوگی کہ وہ حکام وقت کے ساتھ برابری کا دعوے رکھتا ہے اور حاکم و محکوم میں مساوات کا ہوتا ضعف حکومت نہیں تو کیا ہے؟
ابن الوقت : تو آپ نے نزدیک رعایا کی آزادی جس پر برٹش گورنمنٹ کو بڑا فخر اور ناز ہے ، صرف دھوکا ہی دھوکا ہے۔
حجتہ الاسلام : رعایا کی آزادی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انگریز حکومت سے دست کش ہوجائیں اور نہ کوئی معقول پسند آدمی انگریزوں سے اس طرح کی توقع رکھ سکتا ہے۔

ابن الوقت : یہ آپ ان انگریزوں کے خیالات بیان کر رہے ہیں جو ہندوستان میں برسر حکومت ہیں مگر ولایت والوں کا یہ حال نہیں۔ وہ ہندوستان کی اور انگلستان کی رعایا میں سرمو فرق نہیں کرتے۔ آپ شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ یہیں کے انگریز جو چاہتے ہیں سو کرتے ہیں ، وہ زمانہ گیا۔ شارپ صاحب کیا میری ایک متنفس کی وضع کے پیچھے پڑے ہیں ، ابھی تو ان کو بہت کچھ خلاف مزاج دیکھنا اور سننا ہوگا۔ وہ وقت قریب آ لگا ہے کہ اسی ملک میں سول سروس کا امتحان ہوا کرے گا۔ کسی ملکی خدمت کے لیے انگریزوں کی تخصیص باقی نہ رہے گی جیسی کہ اب ہے۔ وایسرائے کی کونسل میں برابر کے ہندوستانی ہوں گے اور کوئی قانون بدون ان کے صلاح و مشورے کے جاری نہ ہو سکے گا۔ غرض انتظام ملک میں ہندوستانی ویسے ہی دخیل ہوں گے جیسے انگلستان میں وہاں کی رعایا اور جب بادشاہ ایک ہے ، کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا کہ دونوں ملکوں کی رعیت
 
Top