اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

ذیشان ابن حیدر

لائبریرین
Zeeshan Haider

IbW-0045.gif

ص۔126​
ابھی تک غدر سے پوری پوری نجات حاصل نہیں ہوئی لیکن اس کی جڑ کٹ گئی ہے اور شاخ و برگ اگر کوشش نہ بھی کی جائے، آپ سے آپ خشک ہو کر اور گل سڑ کر خاک میں مل جائیں گے۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ نتیجے کے واقع ہونے کے بعد اس کے اسباب جستجو کی جاتی ہے لیکن مبارک ہیں وہ لوگ جو وقوع نتیجہ سے پہلے اسباب پر نظر کرتے ہیں۔ ع: مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست۔ خیر، اگر وہ موقع ہم سے فوت ہو گیا تاہم بعد الوقوع اسباب غدر کا خیال کرنا اس وقت دلچسپ اور آئندہ مفید ہو گا۔ اخبار والوں نے اس کی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ہے اور ہر شخص جو کچھ اس کے منہ میں آتا ہے کہتا ہے لیکن گورنمنٹ جس کو واقعی اسباب غدر کا جاننا سب سے زیادہ ضروری ہے، اخبار والوں کی رائے میں عمل کرے گی اور اخبار والے تو آخر اسی غرض سے خامہ فرسائی کر ہی رہے ہیں تو میں گورنمنٹ سے اور آپ سے صاحبوں سے معافی مانگ کر یہ بات کہتا ہوں کہ گورنمنٹ بڑا دھوکا کھائے گی اور گورنمنٹ کی خیر خواہی مجھ کو اس بات کے کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ شاید وہ ویسی ہی نا واقف اور بے خبر گورنمنٹ رہے گی جیسی غدر سے پہلے تھی۔​
سلطنت میں رعایا اور گورنمنٹ دونوں کی اغراض وابستہ یک و گر ہیں۔ اگر ہندوستانیوں کو انگریزی سلطنت سے امن اور آزادی کے گوناگوں فائدے پہنچے ہیں جو فی الواقع ان کو کسی زمانے میں نصیب نہیں ہوئے تو اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ انگلستان اسی سلطنت کی بدولت مالا مال ہو گیا ہے اور اسی سلطنت کے برتے پر اس نے تمام یورپ کی سلطنوں کی کنی وبائی ہے۔ ممکن ہے بعض احمق ہندوستانی اسی کو انگلستان کا بڑا مفاد سمجھتے ہوں کہ انگریز بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں، یہ تو ان فائدوں کا پاسنگ بھی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انگلستان ہنرمندی اور صناعی کا گھر ہے اور اس کے تمول کا بڑا ذریعہ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں تنہا ذریعہ تجارت ہے۔ سو ہندوستان کی سلطنت نے انگلستان کی تجارت کو ہزار ہا گونہ تو اب بڑھا رکھا ہے اور کوئی کہہ نہیں سکتا آئندہ اس میں کہاں تک افزائش ہو گی۔ پس اگر اغراض کا موازنہ کریں تو میرے نزدیک انگلستان کی اغراض کا پلہ جھکتا رہے گا۔ یہ سبب ہے کہ انگریزوں کو غدر کا زیادہ فکر ہونا چاہیے۔​
ص۔ 127​
میں اس انگریزوں کی اقبال مندی سمجھتا ہوں کہ حسن اتفاق سے اس وقت کوئی معاصر سلطنت ہندوستان کی دعوی دار نہیں ہوئی اور اہل ہند میں اس سرے سے اس سرے تک کسی فرد بشر میں سلطنت کی صلاحیت نہ تھی اور ہندوستان کی مختلف اقوام میں اتفاق کا رنگ پیدا ہونے نہیں پایا تھا۔ انگریزوں نے اس ملک کو بہ زور شمشیر فتح کیا اور بہ زور شمشیر اس پر قابض رہے اور بہ زور شمشیر غدر کو بھی فرو کر دیا مگر زور شمشیر رعایا کے جسموں کو مسخر کر سکتا ہے نہ دلوں کو۔ یہ ملک صدہا بلکہ ہزارہا برس سے شخصی سلطنوں کا محکوم رہا ہے اور یہاں کی رعایا نے ابھی تک انگریزی سلطنت کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور یہ لوگ حکام ضلع کو بادشاہ کا اوتار خیال کرتے ہیں، پس اس ملک کے عہدہ دار ان انگریزی کے ذمے دوسرے فرائض خدمت کے علاوہ ایک بڑا ضروری فرض مزید ہے کہ ہر وقت اپنے تئیں ملکہ کا قائم مقام سمجھ کر لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کریں جو ملکہ کے لئے زیبا ہے۔ اب آپ صاحبوں میں سے ہر شخص اپنے دل میں خیال کر سکتا ہے کہ اس نے اس فرض کو کہاں تک ادا کیا ہے۔ انگریز اِالَّا مَا شَاءَ اللہ اس ملک میں ایسا روکھا مزاج بنائے رکھتے ہیں اور ہندوستانیوں کو ایسی حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس نہیں بھٹکتا تا وقتیکہ اس کو ضروری مجبور نہ کرے۔ انگریزوں اور ہندوستانیوں میں محبت اور اخلاص کا ہونا ایسا شاذ ہے جیسے شیر اور بکری میں۔ میں ہندوستانیوں کے ڈفیس میں ایک لفظ نہیں کہنا چاہتا اور اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ کوئی انگریز جنٹلمین ان کی ملاقات سے کبھی محفوظ ہو نہیں سکتا لیکن اگر بروں سے پالا پڑ جائے تو تھوڑا بہت اپنی طبیعت پر بھی جبر کرنا چاہیے۔ ع:چہ تواں کد مردماں ایستد۔ اور جو شخص اس تکلیف کا متحمل نہیں ہونا چاہتا تو اس کو ان بروں سے بھلائی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ غدر کے بعد سے ہر انگریز کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ ہندوستانیوں نے اس کی مدد نہیں کی لیکن ذرا گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیے کہ وہ کس احسان، کس سلوک، کس مہربانی کے عوض میں اس مدد کا مستحق تھا۔ وہ شاید اپنا ایک حق بھی کسی ہندوستانی پر ثابت نہیں کر سکے گا۔ اس اصولِ منصفانہ کو پیشِ نظر رکھیں تو بغاوت کی لمبی فہرست صرف ایک فرد مختصر رہ جائے گی۔​
 

مقدس

لائبریرین
۱۲۸
اب رہ گئی بغاوت بہ مقابلہ سرکار' سو میںآپ صاحبان کی خدمت میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہندوستانیوں کے نزدیک سرکار کوئی چیز نہیں۔ احسان فرا موشی انسان کا نیچر یعنی تقاضائےطبعیت ہے۔ غدرجس کا لوگوں نے اتنا بڑا بتنگڑ بنا رکھا ہے' میرے نزدیک انساننی نیچر کے ظہور سے کچھ زیادہ نہ تھا۔ ہر چند انگریزی عمل داری سے ہندوستانیوں کو بہت سے فائدے پہنچے تھے مگر ان کو واقعی یا ادعائی واجب یا غیر واجب چند درجہ شکائتیں بھی تھیں، پس اگر انہوں نے شکایتوں کے جوش میں فائدوں پر نظر نہ کی تو اس ضعف بشریت اور انسان کے نیچر کے نقصان کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ انگریزی اور ایشائی حکومتوں کا طرز ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہے کہ ایک کو دوسرے سے کچھ مناسبت نہیں۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس سے ہندوستانی خوگر تھے اپنے ہم وطنوں کی حکومت کے' جن کے دربار میں ان کی رسائی بہ آسانی ہو سکتی تھی۔ ملک کی تمام آمدنی بادشاہ کی خاص ملکیت ہوتی تھی اور وہ اس کو بلا مزاحمت جس طرح چاہتا تھا خرچ کرتا تھا مگر اس بدنصیب ملک کی ساری دولت ایشائی حکومتوں میں سدا بیہودہ نمود و نمائش اور ممنوع عیاشی میں برباد ہوا کی اور اس سے متمتع ہوتے رہے خوشامدی'خود غرض۔
بہر کیف دولت کا دریا ایک رخ کو بہتا ہے اور ان لوگوں کو سیراب کرتا رہا جن کی قسمتوں میں اس سے فائدہ اٹھانا تھا، ہندوستانی عمل داری جا کر انگریزی عمل داری کا آنا اس سے تو کسی کم نہیں کہ وہ دریاے زخار ایک سمت کو بہتے بہتے یکایک لگا بالکل سمت مخالف مین دوسری جگہ بہنے' یعنی ایک ایسی سلطنت شروع ہوئی جس کی مثال اس ملک میں نہ دید ہے نہ شنید ہے۔ خلق خدا کی ملک وکٹوریہ بادشاہ زادی کا اور حکم کمپنی بہادر کا' خلقت ایک اور اکٹھے تین تین فرماں روا اور تینوں نظر سے پقشیدہ۔ آپ صاحب یہاں کے لوگوں کی حیرت پر تعجب کریں گے تو اس میں رتی برابر منالغہ نہیں۔ انگریزی سلطنت رعایائے ہندوستان کے حق میں ایک پہیلی ہے جس کو اس وقت تک اکثر عوام الناس نہیں بوجھ سکے۔ تبدل سلطنت یوں بھی کچھ آسان بات نہیں اور پھر ایسا تبدل کہ حاکم و محکوم دونوں میں کسی طرح کی مناسبت نہیں' نہ وطن ایک' نہ زبان ایک' نہ مذہب ایک۔ پس ہندوستانیوں کے حق میں سلطنت کیا

۱۲۹

بدلی گویا ساری خدائی بدل گئی' اگلے تمام ذریعے معطل' ساری لیاقتیں بے کار' کل تدبیریں بےاثر، پس شاہی متوسل اور متوسلوں کے متوسل اور متوسلوں کے متوسلوں کے متوسل کہ ان کا مجموعہ بجائے خود ایک جم غفیر ہو گا' محض بے آسرے اور بے سہارے ہو کر بیٹھ رہے۔ اب ہر ایک منصف مزاج آدمی خیال کر سکتا ہے کہ اس گروہ کو انگریزی عمل داری سے ناخوش ہونے اور رہنے کی وجہ معقول تھی یا نہیں۔ پھر انگریزی عمل داری اتنی پرانی ہو گئی تھی کہ جن لوگوں نے بادشاہی وقت دیکھے تھے' اکثر مر کھپ گئے تھے اور چاہیے تھا کہ اس زمانے کی باتیں بھی بھول بسر جاتیں مگر ہم دیکھتے ہیں تو ان کی یادگار ہر دم تازہ ہے' اس وجہ سے کہ اب بھی چھوٹی بڑی محکوم اور مختار بہتیری ہندوستانی ریاستیں جگہ جگہ موجود ہیں اور ان میں بلا کم و کاست ایشائی حکومت کے نمونے باقی ہیں۔۔
اگر سرکار انگریزی کو اپنی رعایا کا خوش دل رکھنا منظور ہے تو چار دانگ ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک ایک طرح کا انتظام ہونا چاہیے۔ مجھ کو بیرون شہر کسی ہندوستانی ریاست میں رہنے یا نوکری کرنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر لوگوں کے کہے سنے سے' اخبار سے بعض ریاستوں کے عام حالات معلوم ہیں اور دہلی کا قلعہ بجائے خود چھوٹی سی ریاست تھی اور میں پشت ہا پشت سے اسی شہر کا رہنے والا اور سرکار شاہی کا متوسل ہوں اور شہر اور قلعہ دونوں کا کوئی حال مجھ سے محفی نہیں۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اہل شہر اور اہل قلعہ کی زندگی ایک دوسرے سے اس قدر مختلف تھی کہ قلعی ایک دوسری دنیا معلوم ہوتا تھا۔ جب سلطنت میں غدر کی وجہ سے اتنا بڑا انقلاب ہوا ہے کہ ملکہ معظمہ نے زمام حکومت اپنے دست خاص مین لی اور کمپنی کا کچھ تعلق نہ رہا تو اس ملک کے حق میں فال نیک سمجھتا ہوں اور مجھ کو پورا بھروسا ہے کہ گورنمنٹ کے انتظامات میں یقینا بڑی بڑی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔
پس اگر کوئی مجھ سے اصلاح پوچھے تو میں پہلے اسی بات کی بڑے شد و مد کے ساٹح پیش کروں کہ گورنمنٹ اپنے تعلقات اندرونی ایشائی گورنمنٹوں کے ساتھ درست کرے۔ یہ ہندوستانی ریاستیں جن کا مجموعہ کیا رقبہ' کیا مردم شماری' کیا محاصل' کسی اعتبارسے انگریزی سلطنت سے کم نہیں' یہ استثنائے معدوے چند اس قدر پیٹ بھر کر
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بات کا کافی ثبوت رکھتے ہیں کہ مذہب کہاں تک رسم و راج سے متاثر ہوسکتا ہے۔​
ہندوستان میں ایک مدت سے ہندو مسلمان ملے جلے رہتے آئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں قوموں نے ایک دوسرے سے بہت باتیں اخذ کی ہیں اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ دونوں میں اختلافَ مذہب اور خاص کر مذہب ہنود کے روکھے پن کی وجہ سے جو منافرت ہونی چاہیے تھے، مدتوں کی یک جائی نے اس کو بہت کم کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی ہندو دھوتیاں اور کھڑاویں چھوڑ کر پاجامے اور جوتیاں پہننے، اپنی عورتوں کو پردے میں بٹھانے اور مسلمانوں کے علوم پڑھنے لگے۔ ہزارہا ہنود محرم میں جو مسلمانوں کا مشہور مذہبی تیوہار ہے، تعزیہ داری کرتے ہیں، مسلمانوں کی طرح مسلمان نزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں، ان سے منتیں مانتے ہیں کہ ایک قسم کی پرستش ہے۔ اسی طرح مسلمان ہندوؤں کی تقلید سے کھانے پینے کا پرہیز کرنے لگے ہیں، اپنی بیوہ عورتوں کا نکاح نہیں کرتے، اکثر نجوم کے معتقد ہیں، شادی بیاہ میں بہت سی رسمیں ہیں جن کی مذہب میں کچھ اصل نہیں، ہندوؤں سے لی گئی ہیں۔ غرض ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلاط کا یہ نتیجہ ضرور ہوا ہے کہ ایک دوسرے سے وحشت باقی نہیں رہی، لیکن یہ کیفیت کہیں صد ہا سال میں جا کر پیدا ہوئی ہے اور پھر بھی اس میں اس کو اتحاد کے درجے میں نہیں سمجھتا۔ دونوں کے دل بہ دستور ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ آج کوئی بھڑکانے والا کھڑا ہو تو مسلمانوں کے نزدیک ہندو ویسے ہی کافر اور مشرک ہیں اور ہندوؤں کی نظرمیں مسلمان ویسے ہی ہتیارے بھر شٹ اور یہ نااتفاقی انگریزی گورنمنٹ کے حق میں ایک فال مبارک اور شگون نیک ہے مگروہیں تک کہ باہم رعایا میں ہوں۔​
اب دیکھنا چاہیے کہ سرکار نے کہاں تک مزہبی نازضامندی کو اپنے مقابلے میں پیدا نہیں ہونے دیا۔ سو لوگوں میں تو یہی بات مشہور ہے کہ یہ تمام فساد چربی کے کارتوسوں کا تھا مگر میرے نزدیک یہ ایک نہایت سخیف رائے ہے۔ عوام کو ایسا مغالطہ واقع ہوسکتا ہے کیوں کہ ان کے نزدیک ہر انگریز سرکار ہے، اگرچہ وہ امریکہ کے کسی مشن کا پادری یا سودا گر یا سیاح یا بھکاری ہی کیوں نہ ہو۔ مگر جو لوگ انگریزی گورنمنٹ کے حالات سے کسی قدر بھی واقف ہیں، بہ خوبی جانتے ہیں کہ سرکار کیسی مذہب سے سرکار نہیں رکھتی اور سرکار نے ابتدائے عمل داری سے اپنے تیئس مذہیبی بکھیڑوں سے ایسا الگ تھلگ رکھا ہے کہ سرکار پر مذہبی طرف داری کا الزام، بہتان اور افترا ہے۔ لیکن رعایا کے خیالات نہ جاننے یا جان کر ان کی پروا نہ کرنے سے سرکاری عہدہ دار یعنی حاکم انگریزی سے اس طرح کی غلطی کو ہونا ممکن ہے جس سے لوگوں کو مذہبی ناخوشی پیدا ہو اور میں خیال کرتا ہوں کہ چربی کا کارتوس بھی اسی قسم کی غلطی تھی۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ ضرف کارتوس غدر کا سبب ہوا بلکہ میری رائے یہ ہے کہ غدر کا مادہ دلوں میں مدتوں سے جمع ہو رہا تھا، کارتوس اس کا محرک ہوگیا۔ غر کا اصلی سبب ہے رعایا کی نارضامندی اور اس کی بہت سی وجوہ ہیں، من جملہ ان کے کارتوس بھی ہے۔​
اب دیکھنا چاہیے کہ لوگوں کو صرف اسی ایک کارتوس سے شبہ ہوا کہ سرکار مذہب میں مداخلت کرنا چاہتی ہے یا سرکار کی کسی کاروائی سے لوگوں کو پہلے سے بھی بدگمانی کا موقع تھا۔ اگر سرکار انگریزی اس معنے میں مذہب سے الگ تھلگ رہی کہ اس نے ہندو اور مسلمانوں میں سے کسی کو اس کے فرائض مذہبی ادا کرنے سے نہیں روکا یا کسی کو زبردستی یا کسی طرح کا لالچ دکھا کر عیسائی نہیں کرنا چاہا تو یہ بالکل صحیح ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا لیکن مذہب کا اور خاص کر ہندوؤں کے مذہب کا بڑا ٹیٹرھا معاملہ ہے۔ ان کا مذہب ہی فی ۔۔۔۔ تارِ عنکبوت سے زیادہ بودا اور چھوئی موئی سے بڑھ کر نازک ہے۔ اس کا مدار نہ صرف دل کے خیالات پر ہے کہ ان پر کسی کا دسترس ہو نہیں سکتا بلکہ ایک ہندو بے قصدو ارادہ کھانے سے، پینے سے، چھونے سے، بے دین ہوجاسکتا ہے اور ان کے مذہب کا یہی ضعف دیکھ کر بؑض مسلمان بادشاہوں کو موقع ملا کہ ہزارہا ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کرڈالا۔ غرض مسلمانوں کی مدارات دیکھ کر ہندو پہلے سے سہمے ہوئے تھے، اب جو آئے انگریز تو انہوں نے دیکھا کہ یہ مسلمانوں سے بھی چند قدم آگے بڑھے ہوئے ہیں یعنی جن چیزوں سے مسلمانوں کو پرہیز ہے یہ ان کو بھی نہیں چھوڑتے۔ مذہب کے پھیلانے میں سرگرمی اس درجے کی ہے کہ گلی گلی پادری وعظ کہتے، مذہبی کتابیں مفت بانٹتے پڑے پھرتے ہیں۔ چمار ہو، بھنگی ہو، ان کو اپنی ذات میں ملا لینے سے انکر نہیں۔ یوں​
 

فہیم

لائبریرین

سے انکار نہیں ہوسکتا کہ باغیوں میں بہت سے مسلمان بھی ہیں مگر کون مسلمان؟ اکثر عوام الناس، پاجی، کمینے، رذیل جن کے پاس رسم و رواج کے سوائے مذہب کوئی چیز نہیں یا اگر کسی روادار مسلمان نے بغاوت کی ہے تو مذہب کو اس نے صرف آڑ بنایا ہے اور اصل میں غصہ یا لالچ کوئی اور سبب محرک ہوا ہے۔​
جس طرح ہماری قوم ہمیشہ سے بہادری میں نامور رہی ہے اسی طرح ہمارا سچا مذہب بردباری اور درگزر میں اور خدا کی مقدس مرضی نے ہم کو ان دو صفتوں میں آزمانا چاہا۔ ہم بہاردری کی آزمائش میں خدا کے فضل سے پورے اترے، اب ہم کو دوسری آزمائش میں پورے اترنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب تک ہم مغلوب تھے ہم نے بہادری سے کام لیا، اب ہم کو خدا نے غلبہ دیا ہے تو چاہیے کہ بردباری اور در گزر سے کام لیں۔ قدرت پاکر معاف کردینے سے ایشائی قومیں ہم کو ضعیف سمجھنے کے عوض بہت زیادہ طاقتور خیال کریں گی۔ سلطنت کی عمارت میں بہادری نے اگر گارے کا کام دیا ہے تو بردباری نے چونے گچ کا کام دے گی۔ (ابن الوقت کی طرف اشارہ کرکے) انہوں نے مجھ پر اپنا یہ ارادہ بھی ظاہر کیا ہے کہ آئندہ ہندوستانیوں یعنی کم سے کم اپنی ہم قوم مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر نہوں نے ایسا کیا اور مجھ کو پورا بھروسا ہے کہ ضرور کریں گے تو گورنمنٹ کو چاہیے کہ میری پناہ دہی سے بڑھ کر ان کی اس کوشش کی قدر کرے میری پناہ دہی کے صلے مٰن گورنمنٹ نے ان کو ڈھائی سو روپے ماہورا منافع کی زمیں داری عطار فرمائی ہے اور اکسٹرا اسٹنٰی کی خدمت جو ہندوستانی کے لیے اعلٰی درجے کی نوکری ہے۔ تمام زمانہ غدر میں ان کے پاس رہنے سے مجھ کو ان کے تفصیلی حالات معلوم ہیں، علوم مشرقی کے یہ بڑے عمدہ سکالر ہیں، انہوں نے دہلی کالج میں جغرافیہ اور تاریخ اور پولیٹیکل اکانمی اور ریاضی وغیرہ علوم بہ خوبی پڑھے ہیں۔ ان کی عام معلومات اونچے درجے کی اور قابل قدر ہیں، ان کو اخبار بینی کا بڑا شوق ہے، ان کے خیالات وسیع اور شگفتہ ہیں۔ غرض آپ لوگ اگر ان کے ساتھ ارتباط پیدا کرنا چاہیے گے تو مجھ کو امید ہے کہ آپ ان کی ملاقات سے ہمیشہ محفوظ ہوں گے۔ اب شاید آپ صاحبوں کو زیادہ دیر تک باتوں میں لگائے رکھنا موجب تصدیع ہوگا۔ اس واسطے شکر قدوم پر تقریر کو ختم کرتا ہوں۔​
فصل یا زدھم
انگریزی دستور کے مطابق ابن الوقت نے نوبل صاحب کی دعوت میں کھانے کے بعد تقریر کی​
نوبل صاحب بیٹھنے کو تھے کہ ابن الوقت اٹھے۔ مہمانوں میں سے کسی کو بلکہ خود نوبل صاحب کو بھی توقع نہ تھی کہ بھی کچھ کہیں گے مگر کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہنا شروع کیا کہ "صاحبو! مجھ کو اس طرح معزز جلسے مٰیں پہلے پہل حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے اور مجھ کو آپ صاحبوں کے رو برو بات کرنے کی عادت اور صلاحیت دونوں نہیں مگر نوبل صاحب نے ایسی مہربانی کے ساتھ میری تقریب آپ صاحبوں سے کی ہے کہ ان کی شکر گزاری کو میں اپنا فرض موقت خیال کرتا ہوں۔ میں نے پانے پندار میں کوئی کام ایسا نہیں کیا۔ جس کے واسطے نوبل صاحب یا گورنمنٹ میری احسان مند ہے۔ میں نے نوبل صاحب کو مردوں کے انبار سے اٹھایا اور اپنے گھر لے کر رکھا لیکن لیکن اگر ایسا نہ کرتا تو میں مسلمان بلکہ انسان نہ تھا۔ پس میں نے اپنا فرض مذہبی بلکہ فرض انسانیت ادا کیا اور میں نہیں سمجھتا کہ مجھ کو کسی طرح کی خاص مدح کا استحقاق حاصل ہے۔ یہ نوبل صاحب کی ذاتی شرافت اور گورنمنٹ کی فیاضی کہ نوبل صاحب میرا احسان مانتے ہیں اور گورنمنٹ نے کثیر المنفعت زمیں داری اور باوقعت بیش قرار ماہانے کی نوکری مجھ کو عطا فرمائی۔​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 134
ہندوؤں کے دلوں میں از خود سرکارِ انگریزی کی طرف سے مذہبی بدگمانی پیدا ہوئی۔ بدگمانی کی مثال اس درخت کی سی ہے کہ کائی کی طرح ذرا سا آسرا پا کر جم کھڑا ہوتا ہے اور کانس کی مانند جلانے سے لہلہاتا اور کاٹنے سے بڑھتا ہے۔
بدگمان آدمی کے ساتھ کیسا ہی سلوک، کیسی ہی بھلائی کرو، وہ ہمیشہ اس کا برا ہی پہلو سوچا کرتا ہے۔ سرکاری تعلیم سے شکرگزاری اور احسان مندی کے عوض الٹی
مذہبی بدگمانی کو ترقی ہوئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ انگریز احمق اور عقل سے خارج تو ہیں نہیں کہ کھلم کھلا ظلم کر کے اپنے کو بدنام اور سوا کر لیں۔ یہ ہیں میٹھی چھری زہر کی بجھی، سر سہلائیں بھیجا کھائیں۔ دیکھو تو لوگوں کو کرسٹان بنانے کی کیا تدبیر نکالی ہے۔ ع:
گڑ سے جو مرے تو زہر کیوں دو۔
پھر اس بدگمانی پر طرہ ہوا یہ کہ انگریزی خوانوں کو دیکھا تو عقیدے کے متزلزل، مذہب سے برگشتہ۔ اب بدگمانی بدگمانی نہ رہی بلکہ مرتبہ یقین کو جا پہنچی۔
یہ باتیں جو میں آپ صاحبوں کے روبرو بیان کر رہا ہوں، اگرچہ فرداً فرداً بعض ان میں کی آپ صاحبوں کی نظر میں بے وقعت بھی ہوں مگر جب آپ سب کو جمع کر کے دیکھیں گے تو آپ خود تسلیم کریں گے کہ مجموعی اسباب غدروبغاوت کے لیے کافی تھے۔
ہندوستانیوں کے معاہد کی تعظیم بھی انگریز ضرور پوری کرتے رہے ہیں۔ دہلی کی مسجد جامع ایک مشہور عمارت ہے۔ ایسا کون سا مردہ دل انگریز ہو گا کہ اس شہر کی کسی تقریب میں آنا ہو اور وہ اس مسجد کو دیکھنا نہ چاہے! یہاں تک کوئی حرج کی بات نہیں مگر جب مسلمان جوتیاں پہن کر مسجد میں جانا اپنے مذہب کی توہین کا موجب خیال کرتے ہیں تو اگرچ انگریز کے یہاں جوتی کا اتارنا خلاف تہذیب ہو مگر اس میں کیا حرج ہے کہ یا تو دروازے میں سے دوربین لگا کر دیکھ لیا کریں یا جوتی اتار کر اندر چلیں پھریں۔ پھر یہ تو مسلمانوں کا حال ہے، ندو تو خوشی سے کسی حالت میں دوسرے مذہب والے کا اپنے معابد میں جانا جائز نہیں رکھتے۔ مانا کہ عمدہ اور مشہور عمارتوں کا دیکھنا ایک طبعی شوق ہے مگر شوق کے لیے دوسروں کی دل آزاری کیا ضرور

ص 135
ہے۔ میں نے ایک مسلمان کے روبرو ایک بار یہ عذر پیش کیا تھا تو اس نے کیسا معقول جواب دیا کہ "کیوں صاحب آج کو تو عمارت دیکھنے کا شوق ہے، کل کو اگر کسی کو شوق ابھرا کہ دیکھیں ان کی عورتیں گھروں میں کیوں کر اٹھتی بیٹھتی ہیں تو کیا یہ لوگ ہمارے زنان خانوں میں گھسیں گے؟"
بات یہ ہے کہ معاملہ پڑا ہے نادانوں کے ساتھ۔ اگر ان کی دل جوئی مدنظر ہو تو ہزار تدبیریں ہیں اور اگر سرے سے ان کی کچھ حقیقیت ہی نہ سمجھو اور ان کی رضامندی نا رضامندی کا خیال ہی نہ کرو ، جیسا کہ ہوا، تو ھر غدر کی شکایت کیا؟ ہندوستانیوں کو حقیر سمجھنا اور ان کی خوشی نا خوشی کی مطلق پروا نہ کرنا، یہ رنگ نہ صرف عہدہ داران انگریزی کی مدارات بلکہ خود گورنمنٹ کے تمام کاموں میں بھی جھلکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ گورنمنٹ کی نیت بہ خبر ہے اور رعایا کو ہر طرح سے آسودہ اور خوش حال رکھنا چاہتی ہے مگر وہ دیکھتی ہے اپنے عہدہداروں کی آنکھوں سے اور سنتی ہے انھی عہدہداروں کے کانوں سے جن کو رعایا کے ساتھ ارتباط و اختلاط نہیں۔ بس رعایا کا دکھ درد، اس کی حاجتیں اور ضرورتیں یعنی رعایا کا بھی حال گورنمنٹ پر منکشف نہیں ہونے پاتا۔
میں اس بات کو مانتا ہوں کہ سارے ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک کوئی شخص ایسی معلومات اور لیاقت اور دیانت کا نظر نہیں آتا کہ گورنمنٹ اس کو رعیت کا وکیل سمجھ کر اس سے مشورہ لے اور اس کی بات پر اعتماد کرے۔ جن لوگوں پر وجاہت اور تمول کے اعتبار سے نظر پڑتی ہے مثلا ہندوستانی رئیس، اکثر مٹی کے تھوے، جن کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ دو اور دو کے ہوتے ہیں۔ پس ان کا عدم اور وجود دونوں برابر۔ اگر یہ لوگ گورنمنٹ انگریزی کو صلاح دینے کی قابلیت رکھتے ہوتے تو اپنی ہی ریاستوں کو نہ درست کرتے۔ زیادہ نہیں گنتی کے چند رئیس کچھ سمجھ دار بھی سنے جاتے ہیں۔ تو شاید کم فرصتی کا حیلہ کریں اور اصل بات یہ ہے کہ ان کو گورنمنٹ انگریزی کی مدد کا شوق کیوں ہونے لگا اور مانا کہ شوق ہو بھی تو کونسل کے خرانٹ تجربہ کار ممبروں کے ساتھ بحث کو بڑی لیاقت چاہئے۔ پس اگر کورنمنٹ ، وہی مثل ہے کہ "طفل بہ مکتب نمی رود ولے برندش" کسی ہندوستانی
 

قیصرانی

لائبریرین
فہیم، مقدس اور میں اس وقت تزک اردو پر مصروف ہیں۔ یہ ٹیگ شدہ صفحات اس کتاب سے فارغ ہو کر ہی کر پائیں گے۔ پیشگی معذرت
 

زین

لائبریرین
شگفتہ بہن۔ معافی چاہتا ہوں ہمارے ہاں چند دنوں سے نیٹ کا مسئلہ چل رہا ہے اس لئے کسی اور کو ٹیگ کرے۔ میں کچھ دنوں تک دستیاب نہیں ہوں۔
 

ذیشان ابن حیدر

لائبریرین

ص۔144​
تھوڑا بہت ساتھ رکھنا ہی پڑتا ہے۔ نیفے میں رکھو تو مشکل، ازار بند مین باندھو تو بدنما، جیب کا بھروسہ نہیں، بار بار کا کھولنا بند کرنا، کوئی چیز گر پڑے، کیا ضرور، ہر مرتبہ خریدنا نہیں۔ لاؤ بھئی گلے میں لٹکانے کا چمڑے کا تھا خرید لیں۔ مدتوں کے لیے چھٹی ہوئی۔ لیکن کم بخت حقے کی کیا تدبیر کرنی ہوگی؟ سنا ہے کہ ریل میں تو پینا نہیں ملتا، چلتی گاڑی میں لوگ چوری چھپے کوئلے میں سلگا کر اپنا کام کر لیتے ہیں۔ پر ایسے حقے میں مزہ کیا خاک ملتا ہو گا۔ سوکھا ہوا نیچہ، خالی حقہ، اس پر گھبراہٹ کہ ایسا نہ ہو سٹیشن آ جائے۔ چرٹ سب سے اچھا کہ خاصی طرح دندناتے ہوئے پیتے چلے جا رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ ہوں تو کہے اور ساتھ کے بیٹھنے والے بھی دیکھ کر جی میں ضرور کہتے ہوں گے کہ ہاں بھئی یہ بھی کوئی ہیں۔ پر چرٹ میں کڑک جانے کا بڑا عیب ہے اور پھر کم بخت دھواں نہیں دیتا، سارا بکس لیں تو حفاظت سے رہے۔ بنچ کے نیچے کہیں بھی ڈال دو، کچھ پروا نہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا دیسی چرٹوں کا بکس آٹھ آنے، دس آنے کو آئے گا۔ کیا بڑی بات ہے، راستہ تو آرام سے کٹے گا۔ ریل میں نکمے بیٹھے ہوئے اس سے بہتر دوسرا مشغلہ نہیں۔ حقے میں بڑا کھٹراگ ہے نیچہ، حقہ، چلم، توا، کوئلے، خدا کی پناہ! ایک آدمی کا بوجھ تو یہی ہو گا۔ آدمی اپنے تئیں سنبھالے یا اتنے بکھیڑے کو لادے لادے پھرے۔ چرٹ کے لیے صرف ایک ڈبیا دیا سلائی کی چاہئے ہو گی، سوحقے کی صورت میں بھی رکھنی پڑی۔ سڑک کے کنارے کنارے لڑکے بیٹھے ہوئے پکار رہے ہیں "دمڑی ٹکے کے تین بکس"۔ دمڑی تو اپنے منہ سے کہتا ہے ٹکے کے تین دے گا، ایک پیسے کا ڈیڑھ۔ یہ حساب تو ٹھیک نہیں بیٹھتا، ایک بکس لیں تو کوڑیاں باندھنی پڑیں گی۔ کام کی چیز ہے، سیل بھی جائے تو جہاں دھوپ دکھائی باروت کی طرح چھٹنے لگی۔ آؤ اکھٹے تین بکس لے لو۔ پڑے رہیں گے، پھر کام آئیں گے۔ یوں ضرورتوں کا سلسلہ ہے کہ چپکے چپکے یکے بعد دیگرے بڑھتا چلا جاتا ہے۔​
اسی طرح ڈاک کے انتظام نے باہمی خط و کتابت کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ کاتب اور مکتوب الیہ چاہے دونوں میں ایک بھی پڑھا ہوا نہ ہوا اور کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں، زیادہ نہیں تو خیر مہینے کے مہینے ایک دوسرے کی خیر صلاح کی خبر لینی تو ضرور ہے۔ یہ میرے ہوش کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں چھتری کو لازمہ امیری​
ص۔145​
سمجھا جاتا تھا۔ اب یہاں تک نوبت پہنچی ہے کہ کسی بڑے بازار میں دھوپ کے وقت کھڑے ہو کر دیکھئے تو اس سرے سے اس سرے تک چھتریوں کا ایک سایہ بان تنا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کیا اب ہمارے ملک میں موم کے آدمی پیدا ہوتے ہیں کہ دھوپ لگی اور پگھلے۔ یا مثلاً ایک کپڑے پر نظر کیجئے کہ اس کے ضروری ہونے میں کچھ کلام نہیں۔ ولایت سے قسم قسم کے وضع دار کپڑے بن بن کر چلے آتے ہیں کہ خواہ مخواہ آدمی کا دل ان کے پہنے کا چاہتا ہے اور چونکہ کلوں کی وجہ سے سستا بہت ہے۔ اکثر آدمی اس کی وضع داری پر فریفتہ ہو کر بلا ضرورت بھی بنا لیتے ہیں اور پھر اس کے استعمال میں بھی چنداں احتیاط نہیں کرتے۔​
میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ سولزیشن (شائستگی) اور اسراف لازم و ملزوم ہیں۔ پس جس قدر ہندوستانیوں میں سولزیشن کی ترقی ہو گی، ضرور ہے کہ ان کا خرچ بڑھے۔ اگر اسی نسبت سے ہندوستانی اپنی آمدنی بھی بڑھا سکتے تو کچھ پروا کی بات نہ تھی مگر آمدنی الٹی گھٹ رہی ہے تو خرچ کی زیادتی ان کو اکھرا ہی چاہے۔ عام لوگ جن کی معلومات کا دائرہ تنگ ہے اور جن کو سوچنے اور غور کرنے کی عقل نہیں، سب کے سب بالاتفاق کہتے ہیں کہ انگریزوں کی عملداری میں امن ہے، انصاف ہے، زور نہیں، ظلم نہیں مگر خدا جانے کیا بات ہے اگلے وقتوں کی سی خیر و برکت نہیں۔ روپیہ ہے کہ ٹھیکری کی طرح اٹھا چلا جاتا ہے اور اس پر پیٹ کو روٹی ہے تو تن کو کپڑا نہیں اور کپڑا ہے تو روٹی نہیں اور ہو تو کہاں سے ہو۔ وہ اگلے سے سمے ہی گئے گزرے ہوئے۔ بزرگوں کے عیش تو بزرگوں کے ساتھ گئے، یہ تو ہماری ہوش کی بات ہے کہ ایک روپے کا غلہ ایک آدمی کے اٹھائے نہیں اٹھتا تھا۔ بھلا سمے کا کچھ ٹھکانا ہے، روپے کے چھ دھڑی گیہوں داؤدی صاف ستھرے، ساڑھے تین سیر چار سیر کا دانہ دار خالص گھی، پانچ سیر کی سفید براق کھانڈ، بیس سیر کا گڑ تو دس من کے اپلے اور اعلیٰ ھذا التیاس۔ اب چیز کو دیکھو آگ لگ رہی ہے۔ روپیہ ادھر بھنا ادھر ندا رد۔​
سبب کے ٹھہرانے میں غلطی ہو مگر سمے کی شکایت بھی بے اصل نہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں۔ زمین ہے کہ جنگل اور باغات کٹ کٹ کر برابر مزروعہ ہوتی چلی جاتی ہے اور علمِ طبعی میں یہ مسئلہ حدِ تیقن کو پہنچ گیا ہے کہ​
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ ۱۳۶
رئیس کو زبردستی لے جاکر کونسل میں بٹھادے تو وہ بیچارہ سوائے کہ ٹکر ٹکر بیٹھا دیکھا کرے اور بے فائدہ لوگوں کی نظر میں خفیف ہو' کیا کرسکے گا۔ کونسل کے ممبر ہیں کہ باہم رد و قدح کر رہے ہیں اور یہ سمجھتا بوجھتا خاک نہیں' اسی سوچ میں ہے کہ لاٹ صاحب کس کو ملے ہیں۔آخر جب ادائے رسم کو طور پر اس سے پوچھنے کی نوبت آئی تو لاٹ صاحب کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنا پیچھا چھڑا الگ ہوگیا۔اب رہ گئے وہ لوگ جنہوں نے انگریزی کالجوں میں تعلیم پائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستانیوں میں سےاگر کسی میں مشیر گورنمنٹ ہونے کی صلاحیت ہےتو ان میں ہے۔ انگریز جانتے ہیں 'اپنے ملک کے حالات سے بھی واقف ہیں خیالات بھی روشن اور وسیع ہیں' آزادی اور قومی ہمدردی کے بھی لمبے چوڑے دعوے ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ انگریزی گورنمنٹ کی ماہیت اور اس کی منشاء کو خوب پہنچے ہوئے ہیں مگر نقص سے یہ گروہ بھی خالی نہیں۔ اول تو یہ لوگ' چھوٹا منہ بڑی بات' انگریزوں سے مساوات کا دم بھرتے ہیں اور اسی وجہ سے انگریزوں کی نظر میں کھٹکتے ہیں۔ دوسرےچونکہ خود انگریزوں کی قوم کے نہیں' انکے حقوق پر بالکل نظر نہیں کرتے اور ان سے منصفانہ صلاح کی توقع نہیں۔ لیکن باایں ہمہ غایت مافی الباب یہ کہ اس راہ میں چند مشکلات پر نظر کرکے وہ راستہ چھوڑدیا جائے گا جس میں چلنا ضرور ہے؟
اگر شروع سے گورنمنٹ نے اس کا خیال کیا ہوتا توآج کو یہی ہندوستانی رئیس جن کو میں ننگِ ہندوستان کہتا ہوں' یہاں کی کونسل توخیر'ولایت کی پارلیمنٹ کے قابل ہوتے۔ لیکن گورنمنٹ نے ان ہندوستانی ریاستوں کے بارے میں بڑی غلطی کی ان کو شتر بے مہار کی طرح مطلق العنان رہنے دیا کہ پیٹ بھر کر بگڑیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ گویا ان ریاستوں کی خرابی کو گورنمنٹ انگریزی اپنے استحکام کا موجب سمجھتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ ہم ان رئیسوں کو کونسل میں بٹھانے لگیں تو شروع شروع میں ان کی کاروائی ضرورویسی ہی ہوگی جیسے تھوڑی دیر ہوئی میں نے بیان کی' لیکن اگر ہم چندے صبر کریں تو آخر ان رئیسوں کو کبھی تو غیرت آئے گی' کبھی تو شرمائیں گے۔ میں تو کہتا ہوں کہاں کے کالج اور کیسے مدرسے' رئیسوں کے حق میں تو
صفحہ ۱۳۷

یہی کونسل کافی ہے۔علٰی سبیل البدلیت سب کو کونسل میں بٹھایاجائے اور پھر ایک ایسا چکر بندھے کہ مثلاََ ہر پانچویں برس کونسل میں حاضر ہونے پر مجبور کئے جائیں۔ پھر دوسری ہی نوبت دیکھئے کہ ان کی حالت میں کس قدر ترقی ہوتی ہے۔
غرض گورنمنٹ کا یہ رنگ کہ وہ ملک کا انتظام رعایا کی رائے پر کرنا چاہتی ہے' ہندوستان کی گورنمنٹ میں تو ہے نہیں۔ ہندوستانیوں کی قسمت کی ڈسپاٹک' گورنمنٹ سدا سے تھی'اب بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اپنی گورنمنٹ تھی'اب اجنبی مسلط ہیں۔
ہمیشہ سے ہندوستان سارے جہان میں بدنام رہا ہے کہ اس میں چاندی سونے کی ندیاں بہتی ہیں اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ ملک ذرخیز اور سیر حاصل ہونے میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔لیکن ایک ایشیائی شاعر نے ہندوستانیوں کے حسبِ حال کیا اچھا کہا ہے:
تہی دستان قسمت راچہ سود از رہبرِ کامل
کہ خضر از آب حیواں تشنہ می آرد سکندرا
اگر آپ صبر اور توجہ سے سننا چاہیں تو قبل اس کے کہ میں اپنی جگہ پر بیٹھوں' میں آپ صاحبوں کو اس کا یقین کرادوں گا کہ ہندوستان کی رعایا پہلے کی نسبت بہت سقیم الحال ہوگئی ہے اور یوماََ فیوماسقیم الحال ہوتی چلی جاتی ہے۔ذرائع معاش کے اعتبار سے ہندوستان کے لوگ چار طرح کے ہیں: اول کسان 'دوم اہلِ حرفہ'سوم نوکری پیشہ'چہارم تجارت پیشہ۔ کسان کی قسم میں تعلقہ دار سے بلوا ہے تک زمیندار 'کاشتکار بہ اقسامہم'سب داخل ہیں جو زمین سے معاش پیدا کرتے ہیں۔ انگریزی عمل داری سے پہلے نہ کوئی رقبے کی پیمائش کرتا تھا اور نہ اقسام زمین دیکھتا تھا۔ پچھلی جمع پر نظر کرکے یا بہت سیان پت کی تو سرسری طور پر صورت حال دیکھ کر گائوں پیچھے اٹکل جو ایک جمع ٹھرادی'چھٹی پائی۔ اس کے ہزاروں لاکھوں میں تحریری ثبوت موجود ہیں کہ ہندوستانی گورنمنٹوں میں طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے مر سرکاری مال گزاری کے بارے میں ہمیشہ الٹی سرکار ہی مظلوم تھی۔زمیندار لوگ کار پروازان سرکاری کے ساتھ سازش کرکے جمع کم کراتے چلے جاتے تھے اور پھر جمع کے وصول کا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ حال تھا کہ شاذ نادر کوئی بھلا مانس زمیندار وقت پر دیتا ہوگا۔ دو دو چار چار برس کی باقی داری تو ایک بات تھی۔ جب باقی بہت بڑھ جاتی تو آخر کو آدھی تہائی پر فیصلہ ہوتا تھا۔ رہے کاشتکار، ان کو تو یوں سمجھو کہ گویا سرکار کی رعیت ہی نہ تھی۔ ان کا نیک و بد، نفع و نقصان سب بہ اختیار زمیندار۔ مگر چونکہ زمینداروں کا اپنا مفاد تھا، ہر زمیندار کاشت کاروں کو اپنی دولت سمجھتا تھا، ضرورت پڑنے پر تخم و تقاوی سے اس کی مدد کرتا، خرید مویشی اور شادی بیاہ تک کے لیے اس کو قرض دیتا۔ پھر نقدی لگان کا دستور نہ تھا۔ فصل پک کر تیار ہوئی، زمیندار کا شتکار دونوں نے غلہ بانٹ لیا، کم ہوا تو کم، زیادہ ہوا تو زیادہ۔ نہ حجت نہ تکرار، اللہ اللہ خیر صلاح۔ یہ ہے خلاصہ ہندوستانی سرکاروں کا انتظام مالگزاری کا۔​
اب گورنمنٹ انگریزی کے انتظام کو دیکھنا چاہئے کہ اول تو مزروعہ، افتادہ، بنجر،چپے چپے زمین کی پیمائش کرائی، پھڑ مٹی کی ذات اور کھاو اور آب پاشی کے لحاظ سے کھیت کھیت کی حیثیت دریافت کی اور پھر کاغزات دہی اور لوگوں کی گواہی اور ذاتی تجربے سے یہاں تک تحقیق کیا کہ اس کھیت میں اس قدر پیداوار کی قابلیت ہے۔ اس طرح پر جزرسیکے ساتھ گاؤں کی نکاسی نکال کر ، کہنے کو آدھا اور واقع میں اچھا خاصا کسا ہوا دو تہائی۔ حق سرکار ٹھہرا دیا۔ اور اتنی کاوش پر بھی ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ غایت درجے صرف تیس برس کے لیے کہ اتنے میں زمیندار پھر کچھ پیپیں گے تو پھر نچوڑیں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سرکار اپنا ھق واجب نہ لے۔ اس نے پیمائش سے، اقسام زمین وغٰرہ کی تحقیقات سے، اپنے مطالبے کے ٹھہرانے میں اگر احتیات کی تو ٹھیک کیا، درست کیا مگر میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ رعایا اور سرکار کا تعلق من وجہ بندے اور خدا کا تعلق ہے۔ یہاں انصاف سے کام نہیں چلتا، بلکہ رحم و ریات سے ۔ سرکار کو قرار دادا جمع میں ایک سود خور بننے کی طرح دمڑی دمڑی کاحساب نہیں کرنا چاہئے تھا خصوصاََ ایسی رعیا کے ساتھ جو پچھلی سلطنتوں میں کارپروازان سلطنت کی نمک حرامی یا بددیانتی یا اپنی خود سری اور چالاکی سے چنگی کی طرح سرکاری مالکزاری ادا کرنے کی خوگررہی ہے۔ پھر بندوبست کا میعاری ہونا گروہ زمینداران کی سخت بے دلی کا موجب ہے اور اگر سچ پوچھئے تو ملکی ترقی کا مانع۔ کوئی رعایا کیسی ہی سرکار کی خیر خواہ اور اطلاعت گزار کیوں نہ ہو، کیوں پسند کرے گی کہ محنت کرے وہ، لاگت لگائے وہ اور جب زمین کی حیثیت درستی پر آئے تو سرکار محاصل میں سے آدھا تقسیم کرنے کو آموجود ہو۔​
پچھلی سلطنتوں میں ہر گاؤں بجا۔ خود ایک چھوٹی سی ریاست تھا۔ اب سرکار انگریزی کے انتظام مالگزاری نے زمینداروں کو ایسا مجبور اور بے دست و پا کر دیا ہے کہ اکثر صورتوں میں زمینداری ایک مصیبت ہوگئی ہے۔​
سرکار نے کاشتکاروں کے ایسے حقوق تسلیم کر لیے ہیں کہ زمیندار کا کاشتکاروں پر ذرا بھی دباؤ باقی نہیں رہا۔ زمیندار کے ایسے حقوق تسلیم کر لیے ہیں کہ زمیندار کا کاشتکار کو کھیت سے بے دخل کرنا چاہے کیا مقدرو، کھیت کی پیداوار کو اٹکانا چاہے کیا طاقت، سختی اور تنگ طلبی کے ساتھ لگان وصول کرنا چاہے کیا مجال۔ سرکار اپنا لینا عین وقت پر زمیندار سے لیتی ہے اور جو زمندار کو کاشتکار سے پانا ہے، اس کے لیے حکم ہے کے نالش کرو، ڈگری جاری کراؤ۔ خالصہ یہ ہے کہ سرکار کے انتظام مالگزاری نے زمینداروں اور کاشتکاروں میں ہم دردی اور معاونت کی جگہ عداوت اور کشمکش پیدا کردی ہے۔اب وہ اگلے دیہی جھتے ٹوٹ پھوٹ کر گھر گھر چودھری اور کھیت کھیت زمیندارو ہوگئے۔​
میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں میں اس طرح کی کوئی کہاوت ہے یا نہیں مگر میں یقین کرتا ہوں، ضرور ہوگی۔ عربی میں تو ایک مشہور مثل ہے۔ "الاتفاق توۃ"۔ پس ہر ہر گاؤں ار اگلی سی زمینداری ہو، اپنی اپنی بساط کے مطابق ایک قوت ہے اور ان کا مجموعہ ایک بلا کا زور ہے، ناممکن المقاومت۔ یہ زور اگر گورنمنٹ کا مساعد ہو سکے تو میں نہیں خیال کرسکتا کہ گورنمنٹ کو روپے کی، سپاہ کی، آلاتِ خرب کی، اعوان و انصارکی، کسی قسم کی دوسری قوت درکار ہو۔ لیکن گورنمنٹ نے بجائے اس کے کہ اس قدرتی، خدا داد زور سے فائدہ اٹھائے، اس کو ضائع اور معدوم کردینا آسان سمجھا اور ضائع اور معدوم کر دیا۔ اس بارے میں گورنمنٹ کی عقل، اس جوگی کی عقل سے کچھ زیادہ تعریف کی مستحق نہیں جو اپنے ہاتھ کو خشک کرڈالتاہے، اس خیال سے کہ شاید وہ اس ہاتھ سے کسی گناہ کا مرتکب ہو۔​
 
Top