اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم، یہ لیجیے میر انیس بھائی

IbW-0030.gif
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 96
فصل ہشتم
نوبل صاحب ابن الوقت کو رفارمر بناتے ہیں
نوبل صاحب نے اس قصے کو بہت غوراور توجہ سے سنا۔ بیچ بیچ میں کبھی مسکرانے لگتےاور کبھی استکراہ ان کے چہرے سے ظاہر ہوتا مگر انہوں نے ابن الوقت کی بات کو نہیں کاٹا ۔ جب ابن الوقت نے بات پوری کی تو فرمانے لگےکہ ہمیشہ سے میری یہ رائے ہےکہ انگریز عمل داری میں ہی بڑا خطرناک نقص ہے کہ حاکم اور محکوم ارتباط نہیں۔ یہ اجنبیت اگرسبب غدر نہ ہوئی تو غدر کی ترقی کا موجب تو ضرور ہوئی اور جب تک ہندوستان کےلوگ انگریزوں کےساتھ مانوس نہیں ہوں گے'سلطنت ایک منٹ کے لیئے بھی قابل اعتبار نہیں۔ مگر اس میں دونوں کا قصور ہے۔ انگریزی حکومت ہندوستان کی طرف ملتفت نہیں ہوتے اور پندوستانی بوجہ نادانی انگریزوں سے پرہیز کرتے ہیں ۔ کیوں کر ایسے دو آدمیوں میں اتحاد ہوسکتا ہے جن کی زبان ایک'نہ مذہب ایک'نہ رسم عادات ایک؟پھر'اس اجنبیت کے نقصان بھی دونوں پر عائد ہیں۔ ہندوستانیوں کا تو صریح نقصان یہ ہے کہ خدا نے انگریزوں کو سلطنت کے ذریعے سے عزت اور دولت کا منبع بنادیا ہے اور اب اس غدر نے بخوبی ثابت کردیا کہ انگریزوں نہ بہ زور شمشیر حاصل کیا ہے'اس کو بہ
صفحہ97
زورشمشیر قائم رکھنے پر قادر ہیں۔ ہنستانی جسقدر انگریزوں سے بھاگتے ہی'اسی قدرعزت سے محروم اور دولت سے بے نصیب ہیں۔اس کے مقابلے میں انگریز کب نقصان سےمحفوظ ہیں 'ضعف سلطنت سےبڑھ کر اور کیا نقصان ہوگا؟آج ااگر رعایا دوست دار ہوتی تو تلنگوں کو اول تو بغاوت کرنے کی جراءت نہ ہوتی اور خیر نادانی کر ہی بیٹھے تھے تو بغاوت اس قدر جلد نہ پھیلتی کہ گویاچٹکی بجانے میں اس سرے سے اس سرے تک آگ لگ گئی'تلنگوں نے سلگائی رعایا نے بھڑکائی۔
ابن الوقت: پھر کس طرح یہ آپس کانفاق دفع ہو۔"
نوبل صاحب:دونوں ایک دوسرے کی طرف جھکیں'سو مییں سمجھتا ہوں خدا کاکوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ۔ شاید یہ غدر اسی غرض سے ہوا تھا کہ دونوں کو اپنی اپنی غلطیوں کا تنبّہ ہو۔ ابھی تو غدر کی یاداشت تازہ ہے 'چند سال بعد اور اس کی خوفناک حکایتیں سب قصے اور افسانے معلوم ہونے لگیں گے۔ایک با ر اچھی طرح پھٹ کر اس قصے کو انگور بندھے گا اور جس طرح آپ آج کے بعد کل اور کل کے بعد پرسوں کو دیکھ رہے ہیں' مجھ کو وہ دن نظر آرہا ہے اور خدا نے چاہا تو میں اس کو اپنی زندگی میں ان آنکھوں سے دیکھوں گا ۔ ہندوئوں کا کفر تو شاید مدتوں میں جاکر ٹوٹے گا کیوں کہ ان بےچاروں کے پاس رسم و رواج کے سوائے مذہب کوئی چیز نہیں ہےمگر ہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب پر بڑا ناز ہے اور جہاں تک معلوم ہوتا ہے ان کے مذہبی اصول اکثر اچھے بلکہ بہت اچھے ہیں'ان میں اور انگریزوں میں ارتباط اور اختلاط ہوجانا چنداں دشوار نہیں ہوتا۔"
ابن الوقت: بے شک ہونا تو یوں ہی چاہئے مگر میں سمجھتا ہوں یہاں کے مسلمان اس خصوص میں ہندوئوں سے زیادہ شدید ہیں۔
نوبل صاحب:شدید ہیں یا دونوں کی اجنبیت کی وجہ سے ارتباط کا موقع نہیں ملا اور اس بارے میں کسی نے کوشش نہیں کی؟
ابن الوقت: دونوں ہی باتیں ہیں۔"
 

میر انیس

لائبریرین
صفحہ 98
نوبل صاحب:
آپ اپنی فرمائیے'میرے جتنے دوست ہیں سب ہی تو آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں بلکہ بعض تو متقاضی ہیں۔اس بات کو تو میرا دل نہیں چاہتا کہ انگریزی سوسائٹی میں اس طرح آپ کی تقریب کروں کہ گویا آپ اہلِ غرض ہیں یا امیدوارِ خدمت۔ اس وقت ساری انگریزی سوسائٹی خیر خواہی کی وجہ سے آپ کو نظرِ وقعت سے دیکھتی ہےاور میں چاہتا ہوں کہ اسی وقعت کے ساتھ آپ کو انٹروڈیوس کروں یعنی صاحب لوگوں کے ساتھ آپ کی دوستانہ اور برابری کےملاقات کرادوں مگر میں آپ سے اس بات کے کہنے کی معافی مانگتا ہوں کہ اس کے لیے آپ کو اپنی حالت کچھ بدلنی پڑے گی اور اگر آپ کو اس میں کچھ تعذر ہو نہیں ملنا بہتر ہوگا'اگرچہ اس صورت میں مجھ کو بڑی مشکل پیش آئے گی اور میں اپنے دوستوں کو شاید کوئی معقول وجہ نہیں بتاسکوں گا۔"
ابن الوقت: میں آپ سے ذرا تفصیل سے سننس چاہتا ہوں کے آپ کس طرح کی تبدیلی کی مجھ سے توقع رکھتے ہیں؟"
نوبل صاحب:کم ازکم اس قدر کے انگریزی مذاق کے مطابق ایک مکان درست ہو۔آپ دیکھتے ہیں کہ ہم لوگ ہمیشہ بیرون شہر'کھلے مکانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ہم لوگوں کا طریقہ نشست برخاست اور طرز ماندوبود بھی مختلف ہے۔میرے دوست آپ سے ملنے کیلئے کہتے ہی رہتے ہیں۔ کئی بار دل میں آیا کےآپ کے پاس لے چلوں'پھر سوچاکہ آپ ان لوگوں سے ملنے کیلئے تیار نہیں ہیں'ناحق شرمندگی ہوگی۔اول تو آپ کا مکان ایسی گلیوں میں واقع ہے کہ وہاں تک بگھی جا نہیں سکتی'پھر گلیاں تنگ اور نا صاف کہ کوئی صاحب لوگ ایسی پیچ در پیچ جگہ جانا پسند نہیں کرسکتا۔ آپ کا مکاں اگرچہ چنداں برا نہیں مگر صاحب لوگ کی آسائش کے لئےمیز کرسی وغیرہ کوئی سامان نہیں ان وجوہ سے میں نے کسی دوست کو آپ کے پاس لے جانے کی جراءت نہیں کی۔ تو اس بارے میں جیسا کہ اپ کو منظور ہو بیان کیجئے کہ آپ کو انگریزوں کے ساتھ جس طرح کہ میں چاہتا ہوں ملنا پسند ہے کہ نہیں؟"
ابن الوقت: یہ معاملہ ٹیڑھا ہے۔ہمارے مسلمان بھائیوں کا تعصب(یہ ایک
صفحہ 99
دوسری بات ہے کہ بجا ہے یا بیجا) اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ آپ ہرگز اس کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے۔ جن لوگوں نے غدر میں آپ کا ہمارے ہاں رہنا سنا ہے ' مجھ کو ان کے تیور بھی بدلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور آج میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھانے کو تو کھالیا اور میں نے اپنے اذعان میں ہر گز خلاف مذہب اسلام نہیں کیا کیوں کہ آپ لوگ اہلِ کتاب ہیں اور ہمارے قرآن مجید میں اہل کتاب کے ساتھ کھانے کی صریح اجازت موجود ہے مگر شہر کے مسلمان اگر سن پائیں گے(اور کیوں نہ سنیں گے)کم بخت اس طرح کے جاہل ہیں کے شہر میں میرا رہنا دشوار کردیں گے اور میں ٹہرا کنبے اور جتھے کا آدمی ' عجب نہیں سب مل کر مجھ کو برادری سے خارج کردیں۔"
نوبل صاحب:" مگر آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ بے اصل تعصب کو عقل کی تائید اور مذہب کی سند محض شورشِ جاہلانہ بے ثبات ہے ۔ بے شک شروع شروع میں چند روز تک لوگ آپ کوقارت سے دیکھیں گے اور اس سے آپ کو ضرور کسی قدر ایذا بھی ہوگی مگر تابہ کہ آپ استقلال کے ساتھ ایک طرز کو اختیار کریں گے اور کچھ شک نہیں کے لوگوں پر اس اس نمونے کا مفید ہونا اویر سویر ثابت ہوگا پر ہوگا'تو مجھ کو پورا یقین ہے کہ لوگ اپنی غلطی پر متنبہ ہوجائیں گےاور نفرت کے عوض خود اسی طریقے کی تقلید کرنے لگیں گے۔ پس جس بات سے آپ ڈرتے ہیں 'ایذا ہے وعارضی اور تکلیف ہے چند روزہ۔آپ نے سرکاری خیر خواری کےلئے کیسی جان جوکھوں اٹھائی تو کیا پنی قوم'اپنے بھائی بندوں کے مفاد کے لئے تھوڑی سی خیال ایذا کا تحمل کرنا کچھ بڑی بات ہے؟
یہ بات اچھی طرح سمجھ رکھنے کی ہے کہ پہلے ہی سے مسلمان ہندوستان کے باشندوں میں سب سے زیادہ خستہ حال تھے'اب اس غدر نے ان کو رہا سہا اور تباہ کردیا ۔معدودے چند'شاید سارے ہندستان میں پورے ایک درجن بھی نہیں'برائے نام کچھ رئیس تھے؛ میں سمجھتا ہوں اس غدر کی آفت سے شاذو نادر کوئی بچا ہوتو بچا ہو۔ کارطوس کے کانٹے پر بگڑے ہندو اوراس اعتبار سے بغاوت کی ابتدا ہندوئوں نے کی مگر آخر کار تھپ گئی مسلمانوں پر۔اب بغاوت کا سارا نچوڑ مسلمانوں پر ہے اور ان احمقوں نے ہم وطنی کے لحاظ سے ہندوئوں کا ساتھ دے کر اپنا ایسانقصان کرلیا کہ
اگلے صفحات محمد امین آپ کردیں یا کسی اور کو آگے بڑھادیں
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 108​
بادا ہادما کشتی در آب اندا قسیم، لیکن آپ سے توقع کرتا ہوں کہ آپ میرے مددگار رہیں گے۔"​
نوبل صاحب: " نہ صرف میں بلکہ تمام انگلش کمیونٹی، اور سرکار اور خود آپ ہی کی قوم کے بہت سے اشخاص معقول پسند جن کے سروں میں یہ خیالات بھرے ہوئے ہیں اور ضعف ہمت کی وجہ سے سہارا ڈھونڈ رہے ہیں کہ کوئی مقدمتہ الجیش بنے تو ہم پیچھے ہو لیں۔ اور سنیے مجھ کو کامل یقین ہے کہ بہت جلد آپ کو اس ارادے میں کامیابی ہوگی۔ لوگوں کے مادے تیار ہیں، تھوڑے ہی دنوں میں میں آپ کو دیکھوں گا کہ ایک بڑا گروہ آپ کی رائے کی تحسین کرتا ہے، گویا وہ آپ کی امت ہیں اور آپ ان کے امام۔"​
اللہ اکبر! نوبل صاحب اور ابن الوقت کون وقتوں کے باتوں میں لگے ہیں۔ گیارہ بجے کے بیٹھے بیٹھے چار بجا دیے اور باتوں کا سلسلہ ہے کہ منقطع نہیں ہونے پاتا۔ چپراسی، خدمت گار ہیں کہ آئینوں میں سے جھانک جھانک کر چلے جاتے ہیں۔ جمعدار چپکے چپکے ایک چپراسی سے کہہ رہا ہے: " تمہی کہتے تھے نا کہ ان کو ملاقات سے پہلے کمرے میں کیوں بٹھایا، اب دیکھا اس لیے بٹھایا تھا۔ صاحب کی نظروں میں آج جو یہ ہیں دوسرا نہیں ہونے دیگا۔" اتنےمیں نوبل صاحب اور ابن الوقت دونوں باتیں کرتے ہوئے باہر نکلے۔ ابن الوقت کہتے ہوئے چلے آ رہے تھے کہ بیچ میں آپ کو ضرورت ہو تو بلوا بھیجئے گا ورنہ جس دن مجھ کو حاضر ہونا ہوگا ایک دن آپ کو پہلے اطلاع کردوں گا اور ہاں جان نثار خان کو اتنی اجازت دیجئے کہ یہاں کے کام سے فارغ ہو کر آج رات کو میرے پاس رہیں، علی الصباح توپ سے پہلے پھر اپنی نوکری پر آ موجود ہوں گے۔​
بری بات بھی کتنی جلد شہرت پکڑتی ہے۔ گیارہ بجے کے قریب ابن الوقت نے نوبل صاحب کے ساتھ کھانا کھایا اور ظہر کی اول جماعت کے بعد محلے کی مسجد کے نمازی آپس میں تذکرہ کر رہے تھے کہ کیوں جی، میاں ابن الوقت کی نسبت بازار میں یہ کیا چرچا ہو رہا ہے کہ کرسٹان ہو گئے؟​
ایک نمازی: " کرسٹان ہونے کی تو نہیں سنی، اتنا البتہ سنا ہے کہ وہی انگریز جو ان​
صفحہ 109​
کے یہاں غدر میں چھپا تھا، اس کو شہر میں کوئی بڑا بھاری کام ملا ہے، یہ اس کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، آج اس کے ساتھ کھانا کھا لیا۔"​
دوسرا:" میاں تم بھی عجیب آدمی ہو۔۔۔ چھی چھی، انگریز کے ساتھ کھانا کھایا تو وہ کرسٹان، اس کی ہفتاد پشت کرسٹان۔ کیا کرسٹان کے سر میں سینگ لگے ہوئے ہیں؟"​
تیسرا :" اس انگریز کے ساتھ انہوں نے آج کچھ نیا کھانا نہیں کھایا، سارے غدر وہ انگریز ان کے گھر رہا اور برابر ان کے ساتھ کھاتا رہا۔"​
دوسرا :" دیکھو تو اس ظالم نے کیا غضب کیا ہے! خیر، انگریز کو تو چھپایا تھا تو وہ جانے اس کا ایمان جانے مگر انگریز کے ساتھ کھا کر اس کو ہم لوگوں کے ساتھ کھانا پینا نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید روزے اور نماز سب کی قضا لازم آئے گی۔ دیکھو مولوی صاحب (امام مسجد) سلام پھیر لیں تو مسئلہ پوچھا جائے۔"​
پہلا :" شہر پر یہ کچھ تو آفتیں ٹوٹ رہی ہیں کہ کام والے کام سے گئے، نوکر نوکری سے، گھر والے گھر سے بے گھر ہونے اور ہنوز کسی کی جان کا بھروسا نہیں، تحقیقات بغاوت درپیش ہے۔ وہی کہاوت ہے کہ کر تو ڈر اور نہ کر تو خدا کے غضب سے ڈر۔ تم کو اگر اپنی جان دوبھر ہے تو مرنے کے سو حیلے، ہزار بہانے ہم غریبوں کو زبردستی اپنی آنچ کیوں دھکیلتے ہو؟ دیوار ہم گوش دارد، یہی بات اگر کوئی میاں ابن الوقت سے جا لگائے تو دم کے دم میں ساری مسیحت کرکری ہو جائے۔ نا بابا، ہمارا تو اس وقت سے جماعت کی نماز کو سلام ہے۔ کس کی شامت آئی ہے کہ بیٹھے بٹھائے کھنچا کھنچا پھرے۔"​
اتنے میں مولوی صاحب دعا سے فارغ ہو کر منہ پر ہاتھ پھیر رہے تھے کہ اس کٹے نمازی نے مسئلہ پوچھ ہی پوچھا۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ انگریز کے ساتھ کھانے سے آدمی عیسائی نہیں ہو جاتا مگر وعید "من تشبہ بقوم فھو منہم" اس پر متوجہ ہوتا ہے، مسلمان کو اس سے محتزر رہنا چاہیے لیکن، الخیر بمحتمل الصدق والکذب، افواہ کا کیا اعتبار اور لو فرضنا سچ بھی ہو تو، لا تزر وازرۃ وزرا اخریٰ، ایک شخص کا فعل اس کے اسلاف کی طرف کیوں متعدی ہونے لگا۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
تنخواہ ملتی ہے اور کیوں نہ ملے؟ ان کے سفر دور و دراز کو دیکھو، اختلاف آب و ہوا کی وجہ سے ان کی جان جوکھم پر نظر کرو، ان کی اجلی شاندار کثیر المصارف طرز زندگی اور ساتھ ہی ان کی دیانتداری کا بھی خیال کرو تو معلوم ہو کہ انگریزوں کی تنخواہیں بہ واجب بڑی ہیں یا نہ ناواجب۔ یہ بھی انگریزوں ہی کے جگر ہیں کہ ان تنخواہوں پر کیسے سخت امتحان دیتے ہیں اور اپنا دیس اور اپنے عزیز یگانے چھوڑ کر کالے کوسوں نوکری کو نکل آتے ہیں کیوں کہ یہ بات ان کے اصول زندگی میں داخل ہے کہ ہر انسان کو اپنی قوت بازو سے کمائی کرنی چاہیئے۔ جب کہ خاندان شاہی میں کا کوئی متنفس اس کلیے سے مستثنٰی نہیں اور خود ملکہ معظمہ کے بیٹے پوتے قاعدے کے مطابق چھوٹے چھوٹے عہدوں سے نوکری شروع کرتے ہیں تو دوسرے کس گنتی میں ہیں۔ یہ تنخواہیں اور یہی امتحان اور یہی پردیس اور یہی اختلاف آب و ہوا اور یہی تمام حالات ہندوستانیوں کے ہوں تو شاید گھر سے نکلنے کا نام نہ لیں۔ ولایت تو ولایت آج کسی کو برما جانے کا حکم دیا جاتا ہے تو سارے گھر میں رونا پیٹنا مچ جاتا ہے۔ اپنی ہمت کا تو یہ حال اور انگریزوں کی تنخواہوں پر حسد۔
بہرکیف یہی سہی کہ جتنے انگریز ہندوستان میں نوکر ہیں حتٰی کہ گورے سب کے سب یہاں کی تنخواہیں پا پا کر آسودہ حال ہو جاتے ہیں لیکن ان معدودے چند کے تمول سے اس ملک کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جس میں سے ان سے دو چند سہ چند ہر سال جزائر دور دست میں جا کر سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ علم طب اور صفائی میں جو ترقی ہوئی ہے تو عمروں کا اوسط بڑھ گیا ہے، بیماری اور موت میں بہت کمی ہو گئی ہے، توالد تناسل کثرت سے ہوتا ہے، ملک کی وسعت اس قدر کثیر التعداد باشندوں کو کافی نہیں اور اہل یورپ کے تمول کا اندازہ کسی قدر آپ اس بات سے کر سکیں گے کہ وہاں دو روپے روز کی آمدنی کا آدمی سوسائٹی میں اس سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا جیسے یہاں ڈیڑھ دو آنے کا مزدور اور دس ہزار روپیہ سالانہ کہ یہ سولین کی پنشن کی مقدار غایت ہے، سواری اور اپنے ذاتی ملازم رکھنے کے لئے مشکل سے کفالت کر سکتا ہے تو موٹی سے موٹی سمجھ کا آدمی بھی یہ بات نہیں کر سکتا کہ سلطنت کی وجہ سے یورپ میں یہ کچھ دولت پھٹ پڑی ہے۔
اصلی بات یہ ہے کہ خدا کو اہل یورپ کی ترقی، ان کی فلاح منظور تھی کہ ملک کے ملک کو واقعات نفس الامری اور موجودات خارجی میں غور کرنے کی دھن لگا دی۔ اس غور سے سینکڑوں، ہزاروں نئے نئے اصول دریافت ہوئے جن پر عمل کرنے سے انسان کی قدرت اس قدر بڑھ گئی کہ کچھ انتہا نہیں۔ غرض یورپ کی دولت مندی کے اصل لٹکے سٹیم اور الکٹریسٹی وغیرہ یعنی ان کے علوم جدیدہ ہیں۔ بالوے کا نام تو آپ نے سنا ہوگا، اس شخص کے یہاں مرہم اور گولیوں کا کارخانہ ہے مگر اس کی آمدنی کو آپ اس پر قیاس کر سکتے ہیں کہ چار لاکھ روپیہ سالانہ تو صرف اجرت اشتہار کا خرچ ہے اور پھر کچھ بڑے کارخانوں میں اس کا شمار نہیں۔ ولایت جا کر دیکھیے تو معلوم ہو کہ تجارت کے مقابلے میں سلطنت ایک محض بے حقیقت چیز ہے۔ اگر تاجروں کے تمول کا حال میں آپ سے بیان کروں تو آپ مبالغہ سمجھیں۔ پھر ہماری ولایت کوئی سیر حاصل ملک نہیں۔ پیدوار اور معدنیات کے اعتبار سے یورپ کسی طرح ہندوستان سے لگا نہیں کھا سکتا مگر چونکہ ہندوستان کے لوگ نئے علوم سے ناواقف ہیں، خداداد سرمائے سے فائدہ اٹھانے کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ ہندوستانیوں کی بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ مثلاً روئی ہندوستان سے ولایت جاتی اور وہ لوگ اپنی ہنرمندی سے اسی روئی کے انواع و اقسام کے کپڑے بنا کر پھر ہندوستانیوں کے ہاتھ چند در چند نفع پر فروخت کرتے۔ پس ہندوستانیوں کے پنپنے کی اگر کوئی تدبیر ہے تو یہی کہ ان میں علوم جدید کو پھیلایا جائے اور ان کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ اپنی تمام قوت عقلی واقعات میں صرف کریں۔
یہاں کے لوگ بالطبع ذہین ہوتے ہیں۔ ادھر طبعیتیں لڑانی شروع کریں اور اس کا ان کو چسکا پڑ جائے تو بس ساری شکایتیں رفع ہیں اور از بس کہ تمام علوم جدیدہ جن پر ملکی ترقی کا انحصار ہے انگریزی میں ہیں، سب سے پہلے زبان انگریزی کو رواج دینا ہوگا۔
بعض لوگوں نے یہ بھی خیال کیا ہے کہ علوم جدید کی کتابیں اردو میں ترجمہ کرائی جائیں مگر میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں۔ اول تو زبان اردو میں اتنی وسعت نہیں کہ علوم جدیدہ کی تمام مصطلحات کا اردو ترجمہ ہو سکے، ناچار اکثر مصطلحات
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجھے ٹیگ کرنا نہیں آتا اور صفحہ لکھنے کا طریقہ بھی نہیں آتا یہ وجہ ہے کہ میں نے پہلے جواب میں لکھ کر کاپی کر کے یہاں پیسٹ کر دیا ہے منتظمین سے التماس ہے کہ راہنمائی فرمائیں۔

السلام علیکم ، آپ لائبریری اراکین میں سے کسی کا نام یہاں لکھ دیں تو انہیں اسکین صفحہ فراہم کر دیا جائے گا ۔
 

فہیم

لائبریرین


اس بہتری کا یہی سامان ہو یا یہی نہ ہو تو من جملہ بہت سے اسباب کے یہ بھی ہو کہ ہم آ پ اس قسم کا تذکرہ کررہے ہیں اور خدا آپ کے دل میں ڈال دے اور آپ استقلال کے ساتھ اس کام کو شروع کریں اور آپ کی سعی مشکور ہو۔
تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ دنیا کے بڑے واقعات اکثر محض خفیف اسباب سے پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے بڑے عظیم الشان درخت چھوٹے چھوٹے بیجوں سے۔ دنیا کے حالات پر نظر کرنے سے ایسی امید کی جاسکتی ہے کہ شاید تمام روئے زمین پر ترقی کا دور شروع ہوگیا ہے۔ لوگ جو اس زمانے میں پیدا ہوتے ہیں خلقتہ متقدمین سے زیادی ذہین اور روشن دماغ اور آزاد مزاج اور وسیع خیال ہوتے ہیں۔ پس اس زمانے میں رفارم کوئی ایسا بڑا مشکل کام ہیں کیوں کہ طبیعتیں خود رفارم کی طرف متوجہ ہیں، جیسے بادبانی جہاز کا باد شرط کے رخ پر لے چلنا یا ایک بوجھ کا اوپر سے نیچے کو اتارنا۔ پھر اگلے زمانوں میں رفارمر کو اپنے خیالات کا دوسروں تک پہنچانا سخت مشکل ہوتا تھا، وہ انہی لوگوں کو اپنے خیالات سے آگہ کرسکتا تھا جن کے ساتھ اس کو بالمشافہ گفتگو کرنے کا موقع ملتا اور اس زمانے میں چھاپے اور ڈاک اور ریل نے ایسی سہولتیں بہم پہنچادی ہیں کہ ایک بات کو منشتر کرنا چاہو تو ساری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹنے کیے لیے شاید ایک مہینہ کافی ہے۔ بس ایک رفارمر کا صلہ یعنی شہرت اور شہرت بھی نیک نامی کے ساتھ اور خوشنودی سرکار انگریزی اور جو صنعتیں اس پر مترتب ہوں اور ثواب عاقبت، سب کچھ مفت ہے، اگر کسی کو خواہش ہو اور میں آپ کے لیے اس سے بہتر کوئی مشغلہ نہیں پاتا۔
ابن الوقت: ہمارے ملک میں تو یہ بالکل ایک انوکھا اور کٹھن کام ہے۔ آپ کے فرمانے سے جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے مگر بوجوہ چند در چند ہمت قصور کرتی ہے۔
نوبل صاحب: سنئے صاحب! ملک کی آب و ہوا، رفارم پکار رہی ہے اور مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عن قریب پردہ غیب سے رفارمر خروج کرنے والے ہیں۔ میرا جی چاہتا تھا کہ یہ نیک نامی آپ کے حصے میں آتی اور فرض کیجئے کہ آپ کو اس کوشش میں ناکامیابی ہو، جو کبھی ہونے والی نہیں اور میں اس کا ذمّہ لے سکتا ہوں۔ تاہم آپ کا نقصان ہی کیا ہے، یہ کیا کم ہے کہ اول آپ فلاح قوم کے محرک ہوئے!
ابن الوقت: تنہائی سے طبیعت الجھتی ہے۔ ساری قوم کنٹس واحدۃ میری مخالفت کرے گی۔ میں اکیلا چنا پھاڑ بھاڑ کر کیا کرلوں گا۔ ایسے بڑے کام کے انجام کو چاہتیں اعوان و انصار اور میں اپنے متعارفین میں کسی کو اس خیال کا نہیں پاتا۔
نوبل صاحب: میں ہندوستانی تو نہیں ہوں مگر جتنا میں ہندوستانیوں سے ملتا ہوں شاید کوئی انگریز نہ ملتا ہوگا۔ جہاں تک مجھ کو معلوم ہے جتنے انگریزی خواہاں ہیں، سب انہی خیالات کے ہیں اور ان کے دوست، آشنا، رشتہ دار ملا کر کم اسے کم اتنے ہی اور سمجھ لیجئے۔ پھر جو لوگ انگریزوں کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں، کسی وجہ سے کیوں نہ ہو، اکثر ان میں کے بھی اور پھر اس قسم کے لوگوں کا شمار روز افزوں ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ خیالات اگر نہیں ہیں تو مسلمانوں میں اور مسلمانوں میں بھی ممالک مغربی شمالی اور اودھ اور پنجاب کے مسلماوں میں سو اودھ عیاش اور پنجاب سپاہی، دونوں کو ہندوستانی عملداریوں نے مدتوں جاہل رکھ کر ہیولی صفت بنادیا ہے جو ہر صورت کو آسانی سے قبول کرسکتا ہے۔ عسیر الانقیاد اگر ہین تو ممالک شمالی مغربی کے مسلمان جن کو انگریزی عملداری کے امن و اطمینان نے اس بات کا موقع دیا ہے کہ اپنے علوم کی یاد کو جو فی زمانہ بالکل بے سود ہیں، تازہ رکھیں۔
آپ کو یورپ جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن اگر آپ گئے ہوتے تو آپ پر ثابت ہوجاتا کہ اہل یورپ کی عظمت سلطنت میں نہیں ہے بلکہ ان کی تمام عظمت ان علوم میں ہے جو جدید ایجاد ہوئے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں اور جن علوم کے ذریعے سے انہوں نے ریل اور تار برقی اور سٹیمر اور ہزار ہا قسم کی بکار آمد کلیس بنا ڈالی ہیں اور بناتے چلے جاتے ہیں اور ہر طرح کی کاری گری میں دوسرے ملکوں کے لوگوں پر سبقت لے جاکر روئے زمین کی دولت اپنے ملک مین گھسیٹ لے گئے اور گھسیٹے لیے چلے جارہے ہیں۔ جس جس طرح کے ہنر اور کمال اہل یورپ میں ہیں، ان کے ہوتے ممکن نہ تھا کہ ان کو سلطنت نہ ہو۔ سلطنت ان کے کمالات کی قیمت نہیں ہے بلکہ روکھن میں ہے اور ان کا حق لازمی ہے۔ سلطنت سے انگریزوں کو اگر کچھ مفاد ہے تو یہی کہ ان کے ملک کے چند آدمی یہاں آکر نوکری کرتے اور تنخواہ پاتے ہیں۔
اس سے بھی ہم کو انکار نہیں کہ ہندوستانیوں کے مقابلے میں انگریزوں کو بڑی
 

زلفی شاہ

لائبریرین
السلام علیکم ، آپ لائبریری اراکین میں سے کسی کا نام یہاں لکھ دیں تو انہیں اسکین صفحہ فراہم کر دیا جائے گا ۔
سیدہ شگفتہ بہن جی السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ! لائبری کے ممبران کی لسٹ کہاں دستیاب ہے اور سکین شدہ صفحے کو کیسے لکھا جائے۔ کیونکہ جب میں صفحہ لکھتا ہوں تو جیسے جیسے لائنوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے صفحہ غائب ہوتا چلا جاتا ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ لیجیے خرم شہزاد خرم بھائی

IbW-0037.gif
110​
غرض اس وقت تو نمازی متفرق ہوگئے مگر اتنوں کے کان پڑی ہوئی بات سارے محلے میں ایک غل سا پڑگیا۔​
ابن الوقت لوٹ کر گھر آیا تو ہر طرف سے انگلیاں اٹھتی تھیں اور جن لوگوں کا معمول صاحب سلامت میں تقدیم کرنے کا تھا، وہ بھی آنکھیں چراتے اور منہ چھپاتے تھے۔ جوں ابن اوقت نے مردانے میں پاؤں رکھا ہے کہ زنان خانے سے عورتوں نے ڈیوڑھی میں آ آ کر جھانکنا شروع کیا ۔ ابن الوقت لوگوں کی یہ مدارات دیکھ کر جی ہی جی میں کھٹکا تو سہی مگر نہ کسی نے منہ پھوڑ کر اس سے کچھ پوچھا اور نہ اس نے اپنی طرف سے ابتدا کا کرنا مناسب سمجھا۔ ابھی درباری لباس کے بوجھ سے بھی سبکدوش نہیں ہوا تھا کہ اندر سے پھوپھہ صاحب کی طلب آئی۔ ابن الوقت کے ساتھ چار آنکھیں ہوتے ہی وہ نیک بخت بی بی آپ ہی بولیں: "میں تو کچھ نہیں کہتی، بس جھوٹوں سے خدا ہی سمجھے۔ سدا سے لوگوں کو اسی گھر کی جلن رہی، پر انشاءاللہ لوگ جلیں گے اور ہم پھلیں گے۔ تیسرے پہر سے سنتے سنتے کان بہرے ہوگئے کہ دشمنوں کو انگریزوں نے اپنے مذہب میں ملا لیا، برا چاہنے والوں کو اپنا جھوٹا کھانا کھلا دیا۔ کہنے والوں کو اب گھر میں آنا ہی نہیں ملنے کا اور میں ایک ایک سے کہتی تھی کہ نوج! میرا بھتیجا اس قابل ہی نہیں، وہ تو انگریزوں کو عقل سیکھانے والا ہے۔ لاکھ جتن کریں گے ایک نہ ایک بات مغز سے ایسی اتار کر کہے گا کہ سب کے سب اس کا منہ دیکھنے لگیں گے۔ قربان جاؤں اس غفور رحیم کے کہ تم بھلے چنگے لوٹ کر آئے بیٹا۔ اگر سچ مچ انگریزوں کی نیت بدلی ہوئی دیکھ کر جیسا کہ لوگ پکارا کر رہے ہیں تو پھوپھی صدقے گئی، ایسی خیر خواہی پر لعنت بھیجوں۔ قلعہ غارت ہوا تو خیر خدا کی مرضی: جس نے جان دی ہے وہ کہیں نہ کہیں سے ان بزرگوں کے طفیل میں جن کے ہم نام لیوا ہیں، نان بھی ضرور دے گا۔"​
ابن الوقت: "یہ کیا بہیودہ بات آپ سے کسی نے آ کر کہہ دی ہے۔ حقیقت تو اسی قدر ہے کہ میں نوبل صاحب کے پاس گیا تھا۔ کھانے کا تھا وقت ، انھوں نے اصرار کر کے مجھ کو بھی میز پر بٹھا لیا۔"​
پھوپھی: "پھر تم نے کھایا تو نہیں۔"​
ابن الوقت: "کھایا تو کیا ہوا، وہی نوبل صاحب ہیں نا جو کامل تین مہنے ہمارے گھر مہمان تھے۔"​
پھوپھی: "خیر وہ الگ بات تھی۔"​
ابن الوقت: "آپ تو قرآن کا ترجمہ پڑھی ہوئی ہیں۔ سورہ مائدہ کے پہلے ہی رکوع میں دیکھ لیجئے وطدعلم الزین اوتوا الکتاب حل لکم و طعامکم حل لھم، کے کیا معنے لکھے ہیں۔ پھر ایک انگریز کے ساتھ کھانا کھالینے کے علاوہ آپ بے دینی کی کوئی اور بات بھی مجھ میں دیکھی ہے۔ میں بدستور نماز پڑھتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا عین رمضان کا مہنہ تھا کہ نوبل صاحب ہمارے یہاںآئے، میں دن بھر روزہ رکھتا تھا۔ خدا کے فضل سے ایک روزہ قضا نہیں کیا اور رات کو صاحب کے ساتھ کھانا بھی کھاتا تھا۔ صبح کی تلاوت جو میرا معمول تھا، میں نے اس کو ناغہ نہیں ہونے دیا۔ میں نہیں جانتا کہ مسلمان میں اور کیا سرخاب کا پر لگا ہوتا ہے۔ مذہب کیا چیز ہے، بندے کا معاملہ خدا کے ساتھ: پس کسی شخص کو دوسرے کے مذہبی معاملے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں اور فرض کیجئے کہ نعوذ باللہ من ذالک، اگر میں کرسٹان ہونا چاہوں تو کون مجھ کو روک سکتا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ دنیا کے اعتبار سے کنگالوں کے زمرے سے نکل کر امیروں کے گروہ میں جاملوں گا، محکوموں سے حاکیموں میں، احمقوں سے عقلمندوں میں، بے عزتوں سے عزت والوں میں، مگر وہ بھی کچھ مذہب ہے جس پر دنیا کا لالچ یا خوف اثر کر سکے!"​
خرم شہزاد خرم
 
Top