اصولِ شاعری کے حوالے سے چند سوال۔۔۔؟

متلاشی

محفلین
یہاں اس پوسٹ پر آپ اساتذانِ سخن سے شاعری کے اصول و قواعد کے حوالے سے کسی بھی قسم کے سوال پوچھ سکتے ہیں ۔۔۔ سو ابتداء میں ہی کرتا ہوں ۔۔۔
اساتذانِ سخن یہ بتائیں کہ جس طرح کسی بھی بحر میں کسی بھی مصرع کے آخر میں ایک ساکن حرف کی اضافت کی گنجائش موجود ہوتی ہے کیا اسی طرح ہر بحر میں کسی بھی مصرع کے شروع میں اکیلے متحرک لفظ لگانے کی اجازت ہے یا نہیں ؟
مثلا اگر بحر فعلن والی ہے تو کیا کوئی شعر ’’جلا ہے ‘‘ سے شروع کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔! از راہِ کرم جواب مرحمت فرما کر مشکور فرمائیں ۔ شکریہ۔۔۔!
 

فاتح

لائبریرین
آپ نے جس کسی سے بھی یہ سنا ہے سراسر غلط سنا ہے کہ ہر مصرع کے آغاز میں ایک متحرک حرف شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
کیا مشد لفظ کی ضرورت کے تحت شد گرائی جا سکتی ہے۔جیسا کہ علامہ اقبال نے بچوں کی شد کو ایک جگہ پر گرایا ہے اور جس پر دوسرے دھاگے میں تبصرہ بھی کیا جا چکا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
اساتذانِ سخن یہ بتائیں کہ جس طرح کسی بھی بحر میں کسی بھی مصرع کے آخر میں ایک ساکن حرف کی اضافت کی گنجائش موجود ہوتی ہے کیا اسی طرح ہر بحر میں کسی بھی مصرع کے شروع میں اکیلے متحرک لفظ لگانے کی اجازت ہے یا نہیں ؟
مثلا اگر بحر فعلن والی ہے تو کیا کوئی شعر ’’جلا ہے ‘‘ سے شروع کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ ۔! از راہِ کرم جواب مرحمت فرما کر مشکور فرمائیں ۔ شکریہ۔۔۔ !

کسی بحر کے شروع میں ایک متحرک حرف کا ہرگز اضافہ نہیں ہو سکتا۔

لیکن جہاں تک آپ کی مثال ًجلا ہےً سے میں سمجھا ہوں، آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا سببَ خفیف کی جگہ رکن سببَ ثقیل سے شروع ہو سکتا ہے یا نہیں تو عرض ہے کہ کچھ بحروں میں پہلے رکن کے سببِ خفیف کو توڑنے کی اجازت ہے اور سببِ خفیف کی جگہ سببِ ثقیل کا آدھا یعنی 1 سکتا ہے، مثلاً بحر خفیف جس کے افاعیل فاعلاتن مفاعلن فعلن ہیں اس میں فاعلاتن کی فا کی جگہ صرف فَ آ سکتا ہے یعنی وزن فعلاتن مفاعلن فعلن آ سکتے ہیں مثلاً فیض

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے ﴿فاعلاتن مفاعلن فعلن﴾

اور اسی غزل کا ایک مصرع

نہ گئی تیرے غم کی سرداری ﴿فعلاتن مفاعلن فعلن﴾

اسی طرح بحر رمل کی ایک مزاحف شکل ہے فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن اس میں بھی فاعلاتن کی جگہ فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن آ سکتا ہے۔مثلاً مومن

ناوک انداز جدھر دیدہٴ جاناں ہونگے ﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن﴾

اور اسی غزل کا ایک مصرع

وہی ہم ہونگے وہی دشت و بیاباں ہونگے ﴿فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن﴾
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا مشد لفظ کی ضرورت کے تحت شد گرائی جا سکتی ہے۔جیسا کہ علامہ اقبال نے بچوں کی شد کو ایک جگہ پر گرایا ہے اور جس پر دوسرے دھاگے میں تبصرہ بھی کیا جا چکا ہے

مشدد الفاظ کی تشدید میں سے ایک حرف گرانے کی اجازت نہیں ہے۔

آپ نے جو مثال دی ہے اس میں سے حرف نہیں گرایا گیا بلکہ اردو میں کئی ایک الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ دو طرح سے ہے، تشدید کے ساتھ اور تشدید کے بغیر، انہی میں سے ایک لفظ بچوں یا بچے ہے یہ بچوں یا بچے بغیر تشدید بروزن فعِل یا فعو اور بچّوں یا بچّے تشدید کے ساتھ بروزن فعلن مستعمل ہے۔ اسی طرح کا ایک اور لفظ امید ہے، یعنی اُمید بغیر تشدید کے بر وزن فعول اور اُمّید میم کی تشدید کے ساتھ بروزن مفعول۔
 

متلاشی

محفلین
محترمی محمد وارث صاحب ایک اور سوال جس طرح فعلن کا زحاف فَعِلن استعمال ہوتا ہے یعنی 22 کی جگہ 211۔ کیا اسی طرح فعلن کا زحاف 112 یعنی فعلَنُ کے وزن پر ہو سکتا ہے ۔۔۔؟
محترمی وارث صاحب کے علاوہ کوئی اور بھی اس کا جواب دے سکتا ہے ۔۔۔۔!
 

محمد وارث

لائبریرین
محترمی محمد وارث صاحب ایک اور سوال جس طرح فعلن کا زحاف فَعِلن استعمال ہوتا ہے یعنی 22 کی جگہ 211۔ کیا اسی طرح فعلن کا زحاف 112 یعنی فعلَنُ کے وزن پر ہو سکتا ہے ۔۔۔ ؟
محترمی وارث صاحب کے علاوہ کوئی اور بھی اس کا جواب دے سکتا ہے ۔۔۔ ۔!

جی مخصوص بحروں میں بالکل ہو سکتا ہے۔

ایک تو بحر خفیف ہے جس کے پہلے رکن میں فاعلاتن کو فعلاتن اور آخری رکن میں فعلن، فَعِلن، فعلان اور فَعِلان چاروں میں سے کوئی بھی آ سکتا ہے۔ اس بحر کے اوزان پر میرا تفصیلی مضمون مثالوں کے ساتھ دیکھیے۔

اسی طرح بحر رمل کی ایک شکل اوپر گزری ہے اس میں بھی آخری رکن فعلن 22 کی جگہ فَعِلن 211 آ سکتا ہے مثلاً مومن کی ایک غزل کے مصرعے میں نے اوپر لکھے ہیں، اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہونگے

اس میں پہلا مصرعے کا وزن فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فَعِلن ہے

ایک ہم ہیں - فاعلاتن
کہ ہُ ئے اے - فعلاتن
سِ پشیما - فعلاتن
ن کہ بس - فَعِلن

جب کہ دوسرے مصرعے کا وزن فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ﴿ع ساکن کے ساتھ﴾ ہے یعنی

ایک وہ ہیں - فاعلاتن
کہ جنھیں چا - فعلاتن
ہ کِ ارما - فعلاتن
ہونگے - فعلن

پس ثابت ہوا کہ فعلن کی جگہ فعِلن آ سکتا ہے۔

مزید برآں یہ کہ اس بحر میں بھی آخری رکن فعلن، فَعِلن، فعلان اورفَعِلان ہو سکتا ہے۔

آپ کے سوال کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہونگا کہ کچھ بحروں میں رکن کے شروع میں فَعِلن کو فعلن کے ساتھ بھی بدلا جا سکتا ہے، شکل مختلف ہو سکتی ہے لیکن اصول یہی ہے۔

مثلاً بحرِ کامل کہ اس کا وزن ہے

مُتَفاعلن مُتَفاعلن مُتَفاعلن مُتَفاعلن

آپ غور کریں کہ مُتَفا اصل میں فِعَلن ہی ہے، اور اس مُتَفا کے مُ تَ کو تسکینِ اوسط زحاف سے فع سے بدل سکتےہیں یعنی متفاعلن کو مستفعلن سے بدل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا جامی کا مشہور شعر ہے ﴿جسے غلطی سے لوگ دوبیتی یا رباعی سمجھتے اور لکھتے ہیں حالانکہ وہ اس بحر کامل میں ایک شعر ہے﴾

بلغ العلیٰ بکمالہ، کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ، صلوا علیہ و آلہ

اس میں تمام ٹکڑے متفاعلن کے وزن پر چل رہے ہیں لیکن صلوا علیہ و آلہ میں صلوا علے مستفعلن کے وزن پر ہے۔

بَ لَ غل عُ لا - متفاعلن
ب کَ ما لِ ہی - متفاعلن
کَ شَ فد دُ جیٰ - متفاعلن وعلی ہذا القیاس

اور

صلوا علیہ و آلہ

صل لو ع لے - مستفعلن
ہِ و آ لِ ہی - متفاعلن

پس ثابت ہوا کہ متفاعلن کو تسکین اوسط زحاف سے مستفعلن بنایا جا سکتا ہے۔

آمدم برسر مطلب فَعِلن کو فعلن بنایا جا سکتا ہے اور اسکا الٹ بھی صحیح ہے جو کہ آپ کا اصل سوال تھا۔
 

متلاشی

محفلین
جی مخصوص بحروں میں بالکل ہو سکتا ہے۔

ایک تو بحر خفیف ہے جس کے پہلے رکن میں فاعلاتن کو فعلاتن اور آخری رکن میں فعلن، فَعِلن، فعلان اور فَعِلان چاروں میں سے کوئی بھی آ سکتا ہے۔ اس بحر کے اوزان پر میرا تفصیلی مضمون مثالوں کے ساتھ دیکھیے۔

اسی طرح بحر رمل کی ایک شکل اوپر گزری ہے اس میں بھی آخری رکن فعلن 22 کی جگہ فَعِلن 211 آ سکتا ہے مثلاً مومن کی ایک غزل کے مصرعے میں نے اوپر لکھے ہیں، اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہونگے

اس میں پہلا مصرعے کا وزن فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فَعِلن ہے

ایک ہم ہیں - فاعلاتن
کہ ہُ ئے اے - فعلاتن
سِ پشیما - فعلاتن
ن کہ بس - فَعِلن

جب کہ دوسرے مصرعے کا وزن فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ﴿ع ساکن کے ساتھ﴾ ہے یعنی

ایک وہ ہیں - فاعلاتن
کہ جنھیں چا - فعلاتن
ہ کِ ارما - فعلاتن
ہونگے - فعلن

پس ثابت ہوا کہ فعلن کی جگہ فعِلن آ سکتا ہے۔

مزید برآں یہ کہ اس بحر میں بھی آخری رکن فعلن، فَعِلن، فعلان اورفَعِلان ہو سکتا ہے۔

آپ کے سوال کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہونگا کہ کچھ بحروں میں رکن کے شروع میں فَعِلن کو فعلن کے ساتھ بھی بدلا جا سکتا ہے، شکل مختلف ہو سکتی ہے لیکن اصول یہی ہے۔

مثلاً بحرِ کامل کہ اس کا وزن ہے

مُتَفاعلن مُتَفاعلن مُتَفاعلن مُتَفاعلن

آپ غور کریں کہ مُتَفا اصل میں فِعَلن ہی ہے، اور اس مُتَفا کے مُ تَ کو تسکینِ اوسط زحاف سے فع سے بدل سکتےہیں یعنی متفاعلن کو مستفعلن سے بدل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا جامی کا مشہور شعر ہے ﴿جسے غلطی سے لوگ دوبیتی یا رباعی سمجھتے اور لکھتے ہیں حالانکہ وہ اس بحر کامل میں ایک شعر ہے﴾

بلغ العلیٰ بکمالہ، کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ، صلوا علیہ و آلہ

اس میں تمام ٹکڑے متفاعلن کے وزن پر چل رہے ہیں لیکن صلوا علیہ و آلہ میں صلوا علے مستفعلن کے وزن پر ہے۔

بَ لَ غل عُ لا - متفاعلن
ب کَ ما لِ ہی - متفاعلن
کَ شَ فد دُ جیٰ - متفاعلن وعلی ہذا القیاس

اور

صلوا علیہ و آلہ

صل لو ع لے - مستفعلن
ہِ و آ لِ ہی - متفاعلن

پس ثابت ہوا کہ متفاعلن کو تسکین اوسط زحاف سے مستفعلن بنایا جا سکتا ہے۔

آمدم برسر مطلب فَعِلن کو فعلن بنایا جا سکتا ہے اور اسکا الٹ بھی صحیح ہے جو کہ آپ کا اصل سوال تھا۔
مکرمی جناب وارث صاحب بہت بہت شکریہ اصل میں میں ایک غزل کہنا چاہ رہا تھا جس کا مطلع کچھ یوں تھا؟
الفت میں بھی ہم رکھتے ہیں معیار الگ
اپنی چاہت کے ہیں سب افکار الگ
اور مقطع یوں ۔۔۔
اندازِ بیاں گرچہ بہت خاص نہیں
کہتے ہیں کہ ذیشاں کے ہیں اشعار الگ

اب میں نے تو اسے فعلن کی پانچ رکنی بحر میں لکھا تھا ۔۔۔۔زحافات کا استعمال کر تے ہوئے ۔ اب پتہ نہیں یہ کونسی بحر ہے ؟ اس بحر کے بارے میں بتائیے جناب ۔۔۔۔! اعشاری نظام کے ساتھ اس کی تقطیع کر دیجئے ۔۔۔! شکریہ۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مکرمی جناب وارث صاحب بہت بہت شکریہ اصل میں میں ایک غزل کہنا چاہ رہا تھا جس کا مطلع کچھ یوں تھا؟
الفت میں بھی ہم رکھتے ہیں معیار الگ
اپنی چاہت کے ہیں سب افکار الگ
اور مقطع یوں ۔۔۔
اندازِ بیاں گرچہ بہت خاص نہیں
کہتے ہیں کہ ذیشاں کے ہیں اشعار الگ

اب میں نے تو اسے فعلن کی پانچ رکنی بحر میں لکھا تھا ۔۔۔ ۔زحافات کا استعمال کر تے ہوئے ۔ اب پتہ نہیں یہ کونسی بحر ہے ؟ اس بحر کے بارے میں بتائیے جناب ۔۔۔ ۔! اعشاری نظام کے ساتھ اس کی تقطیع کر دیجئے ۔۔۔ ! شکریہ۔۔۔

اس کو بحر ہندی بھی کہتے ہیں فعلن کی تعداد مقرر کر کے انکی پابندی کی جاتی ہے اور کسی بھی فع یعنی 2 کو فَ عِ 11 میں توڑا جا سکتا ہے۔

الفت میں بھی ہم رکھتے ہیں معیار الگ

الفت - فعلن 22
مِ بِ ہم - فَعِلن 211
رکھ تِ ہِ - فع فَ عِ 2 11
معیا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

اپنی چاہت کے ہیں سب افکار الگ

اپنی - فعلن 22
چاہت - فعلن 22
ک ہ سب - فَعِلن 211
افکا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

اندازِ بیاں گرچہ بہت خاص نہیں

اندا - فعلن 22
ز بیا - فَعِلن 211
گرچ ب - فع فَ عِ 2 11
ہت خا - فعلن 22
ص نہیں - فَعِلن 211

کہتے ہیں کہ ذیشاں کے ہیں اشعار الگ

کہتے - فعلن 22
ہ ک ذی - فَعِلن 211
شا ک ہ - فع فَ عِ 2 11
اشعا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

ہر مصرعے میں پانچ فعلن ہیں جب کہ کچھ جگہ 2 ٹوٹا ہے 11 میں۔

آپ کی سہولت کیلیے اس انداز میں تقطیع کی ہے، یہ اور طرح بھی ممکن ہے۔
 

متلاشی

محفلین
اس کو بحر ہندی بھی کہتے ہیں فعلن کی تعداد مقرر کر کے انکی پابندی کی جاتی ہے اور کسی بھی فع یعنی 2 کو فَ عِ 11 میں توڑا جا سکتا ہے۔

الفت میں بھی ہم رکھتے ہیں معیار الگ

الفت - فعلن 22
مِ بِ ہم - فَعِلن 211
رکھ تِ ہِ - فع فَ عِ 2 11
معیا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

اپنی چاہت کے ہیں سب افکار الگ

اپنی - فعلن 22
چاہت - فعلن 22
ک ہ سب - فَعِلن 211
افکا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

اندازِ بیاں گرچہ بہت خاص نہیں

اندا - فعلن 22
ز بیا - فَعِلن 211
گرچ ب - فع فَ عِ 2 11
ہت خا - فعلن 22
ص نہیں - فَعِلن 211

کہتے ہیں کہ ذیشاں کے ہیں اشعار الگ

کہتے - فعلن 22
ہ ک ذی - فَعِلن 211
شا ک ہ - فع فَ عِ 2 11
اشعا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

ہر مصرعے میں پانچ فعلن ہیں جب کہ کچھ جگہ 2 ٹوٹا ہے 11 میں۔

آپ کی سہولت کیلیے اس انداز میں تقطیع کی ہے، یہ اور طرح بھی ممکن ہے۔
مکرمی جناب استاذ گرامی محمد وارث صاحب۔۔۔ اس قدر مفصل جواب دینے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
اپنی چاہت کے ہیں سب افکار الگ

اپنی - فعلن 22
چاہت - فعلن 22
ک ہ سب - فَعِلن 211
افکا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211
مکرمی وارث صاحب مجھے اس تقطیع میں تھوڑا شبہ ہو رہا ہے امید اس کا ازالہ فرمائیں گے۔۔۔
یہاں جب اس مصرع کو روانی میں پڑھیں گے تو سب کی ب افکار کی ف کے ساتھ مل رہی ہے ، اور ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے یہ لفظ سبفکار ہو ۔ تو میرے خیال میں اسے یوں تقطیع کیا جائے گا۔۔۔۔
اپنی۔ فعلن 22
چاہت۔ فعلن 22
کے ہ سَ۔ فع فَ عِ 112
بف کا۔ فعلن 22
رالگ۔ فَعِلن 211
برائے مہربانی اس شبہ کا ازالہ فرما کا مشکور فرمائیں۔۔۔۔! شکریہ
 

متلاشی

محفلین
اس کو بحر ہندی بھی کہتے ہیں فعلن کی تعداد مقرر کر کے انکی پابندی کی جاتی ہے اور کسی بھی فع یعنی 2 کو فَ عِ 11 میں توڑا جا سکتا ہے۔

الفت میں بھی ہم رکھتے ہیں معیار الگ

الفت - فعلن 22
مِ بِ ہم - فَعِلن 211
رکھ تِ ہِ - فع فَ عِ 2 11
معیا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

اپنی چاہت کے ہیں سب افکار الگ

اپنی - فعلن 22
چاہت - فعلن 22
ک ہ سب - فَعِلن 211
افکا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

اندازِ بیاں گرچہ بہت خاص نہیں

اندا - فعلن 22
ز بیا - فَعِلن 211
گرچ ب - فع فَ عِ 2 11
ہت خا - فعلن 22
ص نہیں - فَعِلن 211

کہتے ہیں کہ ذیشاں کے ہیں اشعار الگ

کہتے - فعلن 22
ہ ک ذی - فَعِلن 211
شا ک ہ - فع فَ عِ 2 11
اشعا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

ہر مصرعے میں پانچ فعلن ہیں جب کہ کچھ جگہ 2 ٹوٹا ہے 11 میں۔

آپ کی سہولت کیلیے اس انداز میں تقطیع کی ہے، یہ اور طرح بھی ممکن ہے۔
استاذ گرامی یہ اور کس طرح ممکن ہے وہ بھی وضاحت فرما دیں کہ حقیر کے علم میں اضافے کا کچھ سبب بنے ۔۔۔!
 

محمد وارث

لائبریرین
مکرمی وارث صاحب مجھے اس تقطیع میں تھوڑا شبہ ہو رہا ہے امید اس کا ازالہ فرمائیں گے۔۔۔
یہاں جب اس مصرع کو روانی میں پڑھیں گے تو سب کی ب افکار کی ف کے ساتھ مل رہی ہے ، اور ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے یہ لفظ سبفکار ہو ۔ تو میرے خیال میں اسے یوں تقطیع کیا جائے گا۔۔۔ ۔
اپنی۔ فعلن 22
چاہت۔ فعلن 22
کے ہ سَ۔ فع فَ عِ 112
بف کا۔ فعلن 22
رالگ۔ فَعِلن 211
برائے مہربانی اس شبہ کا ازالہ فرما کا مشکور فرمائیں۔۔۔ ۔! شکریہ

آپ نے درست لکھا۔ اس عمل یعنی ملانے کو الف کا وصال کہتے ہیں، اور یہاں اس طریقے سے بھی تقطیع ہو سکتی ہے یعنی دونوں طریقوں سے جس سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
استاذ گرامی یہ اور کس طرح ممکن ہے وہ بھی وضاحت فرما دیں کہ حقیر کے علم میں اضافے کا کچھ سبب بنے ۔۔۔ !

اس کی تقطیع اس طرح بھی ممکن ہے ف ع کی جگہ ہم معروف رکن فاع اور فعولن لکھیں

الفت میں بھی ہم رکھتے ہیں معیار الگ

الفت - فعلن 22
مِ بِ ہم - فَعِلن 211
رکھ تِ - فاع 2 1
ہِ معیا - فعولن 1 22
ر الگ - فَعِلن 211

اپنی چاہت کے ہیں سب افکار الگ

اپنی - فعلن 22
چاہت - فعلن 22
ک ہ سب - فَعِلن 211
افکا - فعلن 22
ر الگ - فَعِلن 211

اندازِ بیاں گرچہ بہت خاص نہیں

اندا - فعلن 22
ز بیا - فَعِلن 211
گر چ - فاع 2 1
بہت خا - فعولن 1 22
ص نہیں - فَعِلن 211

کہتے ہیں کہ ذیشاں کے ہیں اشعار الگ

کہتے - فعلن 22
ہ ک ذی - فَعِلن 211
شا ک - فاع 2 1
ہ اشعا - فعولن1 22
ر الگ - فَعِلن 211
 

متلاشی

محفلین
بہت بہت شکریہ استاذ گرامی جناب محمد وارث صاحب!
ایک اور سوال وہ یہ کہ ہر بحر کے ہر افاعیل کی جگہ اس کا زحاف استعمال ہو سکتا ہے یا کچھ بحروں میں کچھ زحافات مخصوص ہیں کہ لگائے جا سکتے ہیں۔۔۔۔؟
اور دوسرا سوال یہ کہ کیا ہر بحر میں 2 کو 11 میں توڑا جا سکتا ہے یا یہ کلیہ صرف فعلن پر ہی لاگو ہوتا ہے ۔۔۔؟
امید ہے جواب دے کر مشکور فرمائیں گے۔۔۔!
 
Top