محمد امین
لائبریرین
کراچی میں ہر سال دسمبر میں عالمی کتب میلے کا انعقاد ہوتا ہے۔ پچھلے سال ہم پہلی دفعہ اس میں شریک ہوئے۔ اور اپنی زندگی میں کتابوں پر شہد کی مکھیوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہوئے لوگ ہم نے کبھی نہیں دیکھے۔ واضح رہے اس سال جس دن ہم کتب میلے میں گئے اس دن زیادہ رش نہیں تھا، غالباً پہلے دن کی وجہ سے۔ پچھلے سال یہ کتب میلہ غالباً پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر منعقد ہوا تھا۔
اس کتب میلے کے لیے ہم دن گن گن کر گزار رہے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ اس پیمانے کے کتب میلوں میں ہر طرح کی کتب باآسانی مل جاتی ہیں، اکثر تو نایاب بھی۔ کیوں کہ کتب فروشوں کے علاوہ یہاں کچھ ایسے ادارے بھی موجود ہوتے ہیں کہ جن کا کوئی شوروم یا آؤٹ لیٹ نہیں ہوتا۔ مگر یہ ایک سال پھر بھی بہت سرعت سے گزرا۔ قربِ قیامت ہے نا!! وقت میں سے برکت ختم ہوجانا۔
تو صاحب۔۔۔ ہم اپنے ہمدمِ دیرینہ کمیل احمد کو ان کے گھر سے لیتے ہوئے ایکسپو سینٹر جاپہنچے۔ کمیل ہمارے جامعہ کے ساتھی ہیں اور بہت وسیع المطالعہ شخصیت۔ اس قدر مطالعہ ہم نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے، جو بھی پڑھتے ہیں بہت یکسوئی اور غور کے ساتھ ، اور پھر اس پر گفتگو کا ڈھنگ بھی جانتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہمارے شوقِ مطالعہ کو مہمیز دینے اور برقرار رکھنے میں کمیل کی صحبت کا بڑا ہاتھ ہے۔ایکسپو سینٹر پہنچ کر ہمیں تھوڑی سی مایوسی ہوئی۔ پچھلے برس کی طرح داخلے پر لمبی تو کیا سرے سے قطار ہی نہیں تھی۔ اندر لوگ بہرحال اچھے خاصے موجود تھے۔ اور ہمیں امید ہے کہ اگلے تین دنوں میں بہت زیادہ لوگوں نے میلے کو شرفِ شرکت بخشا ہوگا۔
ہم نے اپنا شکار شروع کیا۔ مگر ایک بات نے اور مایوس کیا اور وہ رعایتوں کا بہت ہی کم ہونا تھا۔ فضلی سنز کے مالک کے بقول یہاں کے خرچے اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم ۲۰ فی صد رعایت دے رہے ہیں یہی بڑی بات ہے۔مگر ہم نے رعایتوں کے کم ہونے کے باوجود اپنا ہاتھ رکنے نہیں دیا اور دل کھول کر، بلکہ بٹوہ کھول کر کتب خریدیں۔ کسی کسی ناشر نے اچھی رعایتیں دی تھیں تو ہم نے کچھ غیر ضروری کتب بھی خرید لیں۔ عام کتب فروش جن کی دکانیں اردو بازار میں موجود ہیں وہ ۱۵ سے ۲۰ فی صد رعایتوں پر کتب دے رہے تھے، اور اتنی ہی رعایت وہ دکانوں پر بھی دیتے ہیں۔ لاہور کے ایک ناشر "بک ٹاک" نے تمام کتب پر ۵۰ فی صد رعایت دی ہوئی تھی مگر ان کی کتب کی قیمتیں ویسے بھی زیادہ تھیں۔ پھر بھی ہم نے کلیاتِ جالب اور مقدمۂ شعر و شاعری وہاں سے خرید لیے، کیوں کہ طباعت بہت معیاری اور خوبصورت تھی۔ مگر مقدمۂ شعر و شاعری جب گھر پر کھول کر بیٹھے تو کمپوزنگ کی کافی اغلاط نظر آئیں۔ اردو سائنس بورڈ، انجمن ترقیٔ اردو، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اردو اکیڈمی سندھ، اقبال اکادمی وغیرہ کے اسٹَول ہمارے مرغوب ترین اسٹَول رہے۔
اقبال اکادمی نے بھی ۵۰ فی صد رعایت دی ہوئی تھی، مگر ان کی کتب بہت ہی اعلیٰ معیار کی اور خاصی مہنگی تھیں کیوں کہ زیادہ تر آرٹ پیپر پر اور رنگ برنگی چھپائی میں تھیں۔ تو اقبال اکادمی سے باوجود خواہش کے کچھ نہیں خرید سکے کیوں کہ وہاں تو سب کچھ خریدنے کے لائق تھا اور چننے کی تاب ہم میں نہ تھی۔ اردو سائنس بورڈ، انجمن ترقیٔ اردو، نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اردو اکیڈمی سندھ نے تقریباً ۳۰ ، ۳۰ فی صد رعایت رکھی ہوئی تھی جو کہ ہمیں پسند آئی اور ہم نے کافی کتب ان اداروں سے خریدیں-
اب آتے ہیں فرہنگِ آصفیہ کی طرف۔ ہم کافی عرصے سے یہ لغت خریدنے کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ مگر جب پرانی معیاری طباعت میں سستے داموں مل رہی تھی تو یہ سوچ کر چھوڑ دی تھی کہ نیا ایڈیشن آئے گا تو لے لیں گے۔ مگر نیا ایڈیشن دیکھ کر ہمیں بہت مایوسی ہوئی۔ ناقص کاغذ اور گھٹیا بائنڈنگ کے ساتھ ضخیم لغت لینا روپے کا ضیاع ہے کیوں کہ چند ماہ میں ہی اس کے اوراق بکھر جانے ہیں۔ یہ نیا ایڈیشن اردو سائنس بورڈ نے چھاپا ہے، وہی پرانا بلَوک استعمال کیا ہے تو چھپائی غیر واضح ہے۔ مگر یہ تھا کہ رعایت کے ساتھ دونوں جلدیں ۷۵۰ روپے میں مل رہی تھیں جو کہ واقعی ایک ناقابلِ یقین قیمت ہے۔
کچھ تصاویر پیشِ خدمت ہیں۔۔۔۔۔