فارسی شاعری ای باد اگر بہ گلشن احباب بگذری -------------- حافظ ِ شیراز

مغزل

محفلین
حافظ ِ شیراز کی ایک غزل جو پچھلے کئی ہفتوں سے ذہن ودل پر اپنا تسلط کیئے
ہوئے ہے ۔۔۔ ا س التما س کے ساتھ پیش ہے ۔کہ ا س کا ترجمہ پیش کیجئے۔
میں فارسی کا نوداخِل مکتب طالبِ علم ہوں ۔ ابھی صرف لطف لےسکتا ہوں
اظہار مقدور نہیں۔


غزل

ساقی بہ نورِ بادہ بر افروز جام ِ ما
مطرب بگو کہ کار جہان شد بنامِ ما

ما ، در پیالہ عکس ِرخ ِ یار دیدہ ایم
ای بی خبرز لذت ِشرب و مدامِ ما

چندان بود کرشمہ و ناز سہی قدان
کاید بہ جلوہ سرو صنو بر خرامِ ما

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بسر جریدہِ عالم دوام ِما

ترسم کہ صرفہ نبرد روز بازخواست
نانِ حلا ل ، شیخ ز آب ِ حرام ِ ما

مستی بچشم شاہد دلبند ما خوش است
زانرو سپردہ اند بہ مستی زمامِ ما

ای باد اگر بہ گلشن احباب بگذری
زنہار عرضہ دہ بر ُجانان پیام ِ ما

گو نام ِ ما زیاد بہ عمدا ً چہ می بری
خود آید آنکہ یاد نیاری زنامِ ما

حافظ زدیدہ دانہِ ا شکی ہمی فشان
باشد کہ مرغِ وصل کند قصدِ دامِ ما

دریای اخضر فلک و کشتیِ ہلال
ہستند غرق نعمت ِ حاجی قوام ِ ما


حافظِ شیراز


املا کی اغلاط پر نشاندہی کرکے شکریہ کا موقع دیں۔
والسلام​
 

الف نظامی

لائبریرین
ساقی بنُورِ بادہ بر افروز جام ِ ما
مطرب بگو کہ کار جہاں شد بکامِ ما

اے ساقی شراب کے نور سے میرے پیالہ کو منور کر
اور اے مطرب بشارت دے کہ تمام کام خاطر خواہ سرانجام ہوجائے

شرح: اے مرشدِ کامل عشق سے ہمارا دل بھر دے کیونکہ عشق ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمام کام حسب دل کردیتا ہے اور معشوق حقیقی تک پہنچا دیتا ہے

ما ، در پیالہ عکس ِرخ ِ یار دیدہ ایم
ای بیخبر ز لذت ِشرب دوامِ ما

میں نے پیالہ میں یار کے چہرہ کا عکس دیکھا ہے
اے بیخبر یہ وہ مزا ہے جو ہمیشہ شراب نوشی سے حاصل ہوتا ہے

شرح: ہم نے اپنے قلب میں معشوق کے انوار کا جلوہ مشاہدہ کیا ہے اور اس طرح عین الیقین کا مرتبہ حاصل کیا ہے۔ وہ لوگ جو غافل ہیں ، اس لذت سے نا آشنا ہیں جو ہمیں میسر ہے

چنداں بود کرشمہ و ناز سہی قداں
کاید بجلوہ سرو صنوبر خرامِ ما

سہی قامت معشوقوں کے ناز و انداز اس وقت تک پسندیدہ ہیں
جب تک ہمارا بلند قد سرو خراماں خراماں جلوہ افروز نہیں ہوتا

شرح: کچھ شک نہیں کہ انبیاء کرام جو چمن دنیا مین بلند مرتبہ ہیں اس وقت تک قابل تقلید تھے جب تک خاتم النبین مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ آں حضرت اس معشوق خوش خرام کے مشابہ ہیں جو باغ میں آنکلتا ہے اور تمام آنکھیں اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں اور کوئی شخص پھر باغ کے درختوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا جو پابند ہیں۔ اور ہمارا سرو خوش رفتار روشوں پر ٹہلتا ہے اور باغ عالم کو رونق دیتا ہے۔

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدہِ عالم دوام ِما


بے شک وہ شخص کبھی نہیں مرتا جس کا دل عشق سے زندہ ہے
زمانہ کے دفتر پر ہماری ہمیشگی ثبت ہے

شرح: قرآن شریف کی آیات سے ثابت ہے کہ جو قتیل عشق الہی ہیں یعنی اللہ کے راستے میں قتل ہوئے وہ زندہ ہیں۔ ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون۔ چونکہ عاشقان الہی بہرحال اللہ کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں اس لئے ان کی موت فی سبیل اللہ واقع ہو جاتی ہے۔ اہل اللہ اگرچہ زندگی فقر و فاقہ سے بسر کرتے رہے لیکن مرنے کے بعد ان کی قبریں زیارت گاہ عالم ہیں اور ہر ایک شخص ان کا نام ادب سے لیتا ہے۔

ترسم کہ صرفہ نبرد روز بازخواست
نانِ حلا ل ، شیخ ز آب ِ حرام ِ ما

مجھے ڈر ہے کہ قیامت کے دن غلبہ حاصل نہ کرے گا
شیخ کا نانِ حلال ہمارے حرام پانی پر
شرح: ایسا نہیں ہوسکتا کہ زہد و تقوی ہمارے عشق پر غالب آجائے۔ ہمارا"آبِ حرام" یعنی وہ پانی جو حرمت والا ہے اور جس سے شیخ محروم ہے ، ہماری تشنگی دیدار الہی کو بجھا دے گا۔ اور شیخ کے زہد و ریاضت کی کمائی جنت کی نعمتوں تک محدود ہے۔

مستی بچشم شاہد دلبند ما خوش است
زاں رو سپردہ اند بمستاں زمامِ ما

میرے معشوق کی آنکھوں میں مستی کسی بھلی معلوم ہوتی ہے
اس لئے ہمارے اختیار کی باگ اس کی مست آنکھوں کے حوالے ہے

شرح: آنحضرت نشہ عشق الہی میں مخمور ہیں اور آپ کی آنکھیں جلوہ شاہد حقیقی دیکھ رہی ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ آپ کی اطاعت اور متابعت اختیار کریں تاکہ آپ کے طفیل ہم بھی منزل مقصود تک پہنچیں۔

ای باد گر بہ گلشن احباب بگذری
زنہار عرضہ دہ بر جاناں پیام ِ ما

اے صبا اگر تیرا گذر دوستوں کے گلشن میں ہو تو
ضرور میرا پیام میرے محبوب کو پہنچا دینا

گو نام ِ ما ز یاد بعمدا ً چہ مے بری
خود آید آنکہ یاد نیاری ز نامِ ما

اور کہنا کہ دیدہ و دانستہ میرا نام کیوں فراموش کرتا ہے
وہ وقت آتا ہے کہ تجھے میرا نام بھولے سے یاد نہ آئے گا

دریائے اخضر فلک و کشتیِ ہلال
ہستند غرق نعمت ِ حاجی قوام ِ ما

آسمان جو نیلے دریا کی طرح ہے اور ہلال جو کشتی کے مشابہ ہے
ہمارے حاجی قوام کی نعمت میں غرق ہیں

حافظ زدیدہ دانہِ ا شکی ہمی فشاں
باشد کہ مرغِ وصل کند قصدِ دامِ ما

اے حافظ آنکھوں سے آنسوں کے دانے گرا
ممکن ہے کہ مرغ وصل ہمارے جال میں پھنس جائے

(خواجہ حافظ شیرازی)
**ترجمہ میں صنعت اقتباس پائی جاتی ہے۔
 

مغزل

محفلین
نظامی صاحب ۔ شکریہ کا شکریہ
مگر میں کلام کے دوبارہ پیش کرنے کا مقصد نہ سمجھ پایا ۔
نون غنہ کی جگہ نون بالاعلان فارسی رسم الخط میں تھا۔
 

مغزل

محفلین
محمود مغل بھائی ترجمہ بھی دیکھیے۔

بہت بہت شکریہ ۔ بہت شکریہ نظامی صاحب۔
میرا مسئلہ حل ہوگیا ہے ۔ دراصل میں اسے
اسی بحر میں منظوم ترجمہ کرکے پیش کرنا چاہتا
تھا۔۔ آپ نے جو ترجمہ کیا ہے وہ دل کو لگتا ہے
باقی میں اپنی کوشش کرتا ہوں۔

والسلام
 

شاکرالقادری

لائبریرین
الف نظامی ! خوبصورت ترجمہ کے لیے شکریہ ۔ ۔ ۔ ۔ مترجم اور شارح کیا آپ خود ہیں؟

مم مغلجی ! منظوم ترجمہ کب دیکھنے کو ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ہم جیسے بوڑھوں کو بھی کچھ تحریک ملے:)
 

مغزل

محفلین
الف نظامی ! خوبصورت ترجمہ کے لیے شکریہ ۔ ۔ ۔ ۔ مترجم اور شارح کیا آپ خود ہیں؟

مم مغلجی ! منظوم ترجمہ کب دیکھنے کو ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ہم جیسے بوڑھوں کو بھی کچھ تحریک ملے:)
مم مغلجی ؟؟
علاؤالدین خلجی یاد آگئے ۔۔
قبلہ میں تو خود جہل مرتبت ہوں مجھے کیامقدورکہ میں آپ کی خواہش پوری کرسکوں۔۔
میں تو یہ لڑی ہی بھول بھال گیا تھا۔۔ سو جب فضا میسر رہے گی تو ضرور پیش کردوں گا۔
 
Top