پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

زھرا علوی

محفلین
بہت شکریہ شگفتہ :)
گو مجھے ایک صفحہ لکھنے میں کم سے کم آدھا گھنٹہ لگتا ہے :noxxx: پھر بھی میری کوشش رہے گی کہ اس نیک کام میں میرا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہو ۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 101

اپنے کام مین مصروف ہو گیا اور ایک مہلک عارضہ مین مبتلا ہو گیا جس سے اوسکی جسمانی طاقت بہت کچھ زائل ہو گئی لیکن تاہم وہ اپنی دلیری اور ثابت قدمی سے باز نہین رہا۔ وہ اپنے روزنامچہ مین لکھتا ہے کہ مجھے بہ نسبت دماغی تکلیف کے جسمانی اذیت بہت اوٹھانی پڑی جسکی وجہ سے اکثر مین اپنی موت کا خواستگار رہا۔

اس بیماری سے فراغت پانیکے بعد پھر اوسنے ایک کتاب لکھی لیکن وہ اسقدر ضعیف ہو گیا تھا کہ اپنی صحت درست کرنیکی غرض سے اٹلی گیا اور سفر مین بھی چند گھنٹے روز وہ ایک ناول لکھنے میں مشغول رہتا۔

جب اوسکی موت کا زمانہ قریب ہوا تو وہ اباٹسفورڈ مین لوٹ آیا اور واپسی کے وقت کہا کہ مین نے بہت کچھ دیکھا لیکن مجھے اپنے گھر کے مانند کوئی جگہہ نظر نہین آئی۔ جو اقوال کہ اوسکے اخیر وقت مین زبانسے جاری ہوئے تھے وہ قابل یادداشت ہین۔ اوسنے کہا کہ مین اپنے زمانہ مین ایک مشہور و معروف مصنف رہا اور علاوہ اسکے یہہ خیال میرے لئے نہایت تشفی بخش ہے کہ مین نے نہ تو کسی کے ایمان کو متزلزل کیا اور کسیکے اصول کو مسترد کیا اور نہ مین نے اپنی زندگی مین کوئی ایسا مضمون لکھا جسے اسوقت بستر مرگ پر کالعدم کرنیکی ضرورت پڑے۔

اوسنے اپنے داماد لاکبرٹ سے مرتے وقت یہہ نصیحت کی۔ "پرہیزگاری اور مذہب کی پابندی کر کے اپنے کو ایک اچھا آدمی بناؤ کیونکہ تمکو اپنے اخیر وقت مین بجز اسکے کسی سے اطمینان نہ حاصل ہو گا"
************************************
********************************​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 102
ساتوان باب

فرض و راستبازی

فرض کا پورا کرنا ایک ایسا واجب التعمیل فعل ہے کہ ہر شخص کو جو موجودہ بے اعتباری اور بالمقطع اخلاقی کمی کو زائل کرنا چاہتا ہے اوسکو ضرور ان اصول کے مطابق کاربند ہونا چاہیئے۔ انسان کی زندگی انجام فرائض کے ساتھ مشتمل ہے۔ اسکی ابتدا عالم طفولیت مین گھر سے ہوتی ہے جہان فرائض کی تقسیم دو طرح پر ہے۔ ایک تو اولاد کا فرض والدین کے ساتھہ اور دوسرا والدین کا فرض اولاد کے ساتھہ۔ اسیطرح پر اور بھی مختلف اقسام کے فرائض ہین جیسے شوہر و زوجہ کا۔ آقا و غلام کا۔ گھر کے علاوہ بھی ایسے فرائض ہین جنکی تعمیل کے واسطے مرد و عورت مجبور کئے گئے ہین۔ مثلاً دوستی و ہمسائگی۔ حاکمی و محکومی۔ سینٹ پال کا قول ہے کہ انسان کو اپنا فرض بخوبی پورا کرنا چاہیے۔ اون لوگون کو محصول و خراج دینا چاہیے جنگو ان محاصل کی تحصیل کا حق ہے۔ جو لوگ قابل عزت ہین اونکی عزت کرنی چاہیے۔ کسی سے کوئی چیز قرض لینی نہین چاہیے۔ لیکن ایک دوسرے سے محبت کرنیکا سبق حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ جو شخص ہمدردی کرتا ہے وہ گویا قانون قدرت کی پوری پابندی کرتا ہے۔ جسوقت سے کہ انسان دنیا مین داخل ہوتا ہے اوسوقت سے لیکر موت کے زمانہ تک اوسکی زندگی حدود فرائض سے محیط رہتی ہے۔ اور وہ فرائض حسب تفصیل ذیل ہوتے ہین۔

اپنے سے بڑے چھوٹے اور مساوی درجہ والونکے ساتھ برتاؤ۔ ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ عملدرآمد۔ احکام خدا کی تعمیل
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 103

پس جب اسکے استعمال و عملدرآمد کی ہم مین طاقت ہے تو اسکا انجام دینا ہمارا فرض ہے کیونکہ ہم مثل ایسے خدمتگزار کے ہین جسکو یہہ خدمت تفویض کی گئی ہے کہ وہ اپنی اور دوسرونکی بھلائی کرے۔ انجام فرائض کا خیال چال چلن کے واسطے مثل ایک تاج کے ہے جو انسان کو اعلٰی درجہ کی حالت پر قائم رکھتا ہے۔ کیونکہ بغیر اسکے انسان تکلیف و نامساعدت زمانہ کے پہلے ہی جھونکے سے تزلزل و افتادگی کی حالت مین پڑ جاتا ہے۔ لیکن اسکی مدد سے کمزور آدمی بھی طاقتور اور جری ہو جاتا ہے۔ فرض کی نسبت جیمس کی بی بی کا قول ہے کہ اسمین ایک ایسی قوت جاذبہ ہوتی ہے کہ کل اخلاقی امور کی کشش اسی جانب رہتی ہے کیونکہ بغیر اسکے۔ نیکی۔ راستبازی۔ مسرت۔ دماغی قوت۔ ہمدردی جملہ صفات بالکل غیر مستقل و ناپائدار ہین۔ فرض کوئی فکریا قیاس نہین ہے بلکہ یہہ ایک ایسا اصول ہے جو زندگی مین برتا جاتا ہے اور یہہ اپنے کو اون افعال مین ظاہر کرتا ہے جسکی عملدرآمد کا کوئی شخص اپنی کانشنس یا خواہش سے خاصکر ارادہ کرتا ہے۔ انجام فرائض سے کانشنس کی تکمیل ہوتی ہے کیونکہ بغیر اسکے ہدایت و رہنمائی کے بڑے بڑے عالی دماغ و بلند خیال لوگ بھی گمراہی کے پھیر مین پڑ گئے ہین۔ کانشنس ایک فعل کی ترغیب دیتا ہے لیکن خواہش اوسکی تکمیل کرتی ہے۔ کانشنس قدرتی طور پر طبیعت کا حکمران۔ اچھے کامون کا ردنما عمدہ خیال کا ہادی سچے مذہب کا پیشوا۔ اور باقاعدہ زندگی بسر کرنیکا معلم ہے۔ اور صرف اسکے تحکمانہ تاثیر سے عمدہ و پاکیزہ چال چلن بخوبی قائم ہو سکتا ہے۔ کانشنس کسی کام کو بآواز بلند نہین کہتا۔ پس جب تک اوس فعل پر عملدرآمد کی مضبوط خواہش ایک ایسی قوت ہے جسکو یہہ اختیار حاصل ہے کہ وہ غلط یا صحیح راہ مین سے کوئی ایک پسند کر لے لیکن تاوقتیکہ اوس فعل کے ارتکاب کا فوری فیصلہ نہولے خواہش کا کوئی اثر نہین ہو سکتا۔ اور اگر انجام فرائض کی قوت مضبوط ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 104

اور کوئی امر مانع بھی نہین ہے تو دلیرانہ خواہش کانسنس کی مدد سے انسانکو اپنے کام کی طرف راغب کریگی اور اپنے مقصد کی کامیابی مین ہر قسم کی مشکلات و موانعات کا مقابلہ کریگی۔ پس اگر نتیجہ اسکا ناکامی کی صورت مین بھی ظاہر ہو گا تو اس خیال سے تشفی ہو جائیگی کہ انجام فرائض کی راہ مین یہہ شکست واقع ہوئی۔ ہینی زیلن کا قول ہے کہ اس حالت مین مفلس رہنا چاہیےجب ہمارے گرد و پیش والے فریب و دغابازی سے دولتمند ہوئے ہین۔ ایسی حالت مین مایوسی کی تکلیف گوارا کرنی چاہیے جب دوسرے لوگون نے اپنی مطلب برآری خوشامد سے کی ہو۔

سر ٹوریس نے کہا ہے کہ جس شخص مین چال چلن کی عزت ہے وہ بہر طور کامیابی حاصل کریگا اور اپنے جان کو بے عزتی و ذلت کے ساتھ نہ بچائیگا۔

جب مارکئیس آف پُسکارا سے اتلی کے شاہزادون نے یہہ درخواست کی کہ وہ الپس کے دعوی سے باز رہے تو اوسکی بیگم وٹوریا کامونا نے اوسے اپنا فرض پورا کرنیکی یاد دلائی۔ اوسنے خط مین اپنے شوہر کو لکھا کہ اپنی اوس عزت کو یاد رکھو جس سے تمکو دولت و بادشاہت سے بڑھکر مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ شہرت تمایشی خطابون سے نہین ملتی بلکہ صرف عزت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔لیکن جب اوسکے شوہر نے پہونا مین انتقال کیا تو باوجودیکہ اوسکی بی بی حسین و کم سن تھی اور اکثر عشاق نے اوسکی خواستگاری بھی ظاہر کی لیکن اوسنے تنہائی مین زندگی بسر کرنی اختیار کی تا کہ اپنے شوہر کی ماتم داری کرے اور اوسکے دلیرانہ فعال کی مدح و ثنا مین مصروف رہے۔ حقیقی طور پر زندگی بسر کرنے کے یہہ معنی ہین کہ انسان دلیری سےکام کرے۔ زندگی ایک ایسی مہم ہے جسپر نہایت دلیری سے فتح حاصل کرنی چاہیے۔ اپنے بلند و معزز ارادونکی ترغیب سے انسان اپنی جگہہ پر قایم رہتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اسی جگہہ اپنی جان دیدینے کو بھی موجود رہتا ہے۔ خواہش چاہے وہ بڑی ہو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 105

یا چھوٹی لیکن ایسی قوت ہے جسے قادر متلق نے ہملوگونمین پیدا کر دی ہے۔ بس ہمکو یہہ نہین لازم ہے کہ استعمال کی احتیاج سے زائل کر دین یا ناپاک کامونمین صرف کر کے اسے ملوث کر ڈالین۔ رابرٹسن نے سچ کہا ہے کہ انسان کی بزرگی صرف اسی پر نہین منحصر ہے کہ وہ اپنی ترقی یا شہرت یا مسرت حاصل کرے۔ نہ یہہ کہ اپنے جان کو عزیز رکھے یا فتح و فیروز مندی کی جستجو کرے بلکہ ہر شخص کو اپنا فرض پورا کرنا چاہیے۔

انجام فرائض مین جو امور سدراہ ہوتے ہیں اوسکا باعث یہہ ہے کہ انسان مستقل مزاج و ثابت قدم نہین رہتا اور نہ اوسمین قوت فیصلہ ہوتی ہے۔ اگرچہ ایکطرف تو اچھے اور بُرے کامونکا تمیز ہوتا ہے ۔ لیکن دوسرے جانب آرام طلبی۔ خود غرضی۔ اور لہو و لعب کا شوق رہتا ہے۔ پس ضعیف العقل و ناشایستہ آدمی اسی حیض بیض مین رہتا ہے کہ کس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ لیکن آخرکار خواہش کا پلہ کسی نکسی طرف جھک جاتا ہے۔ اگرچہ عمدہ کام کرنیکی عادت۔ افعال وہمیمہ سے نفرت۔ خواہشات نفسانی سے باز رہنی کی قوت اور خود غرضی وغیرہ سے علٰیحدگی حاصل کرنیمین ایک طولانی کوشش و محنت کی ضرورت ہے لیکن جب ایکمرتبہ انجام فرائض کی مشق ہو جاتی ہے تو یہ بات عادت مین داخل ہو جاتی ہے اور پہر بہت آسان معلوم ہوتی ہے۔ نیک اور بہادر آدمی وہ ہے جو اپنے مستقل ارادون و کوششون سے اپنے مین یہہ قوت پیدا کر لے کہ خواہشات نفسانی سے باز رہے اور نیکی کرنیکی عادت قائم کر لے۔ اور خراب آدمی وہ ہے جو اپنی خواہشات نفسانی کا پابند ہو اور افعال وہمیمہ کا عادی ہو گیا ہو۔

دلیر آدمیونمین فرض پورا کرنیکی قوت ایک قسم کی تحریک و تاثیر اور بھی پیدا کر دیتی ہے جس سے اونمین مستقل مزاجی و ثابت قدمی زیادہ ہو جاتی ہے۔ جسوقت پابیلی کے دوستون نے اوسے دم جانیکے واسطے جہاز پر سوار ہونے سے منع کیا اور کہا کہ یہہ طوفان کا موسم ہے جس سے جانکا خطرہ ہے تو اوسنے اون لوگونکو جواب دیا کہ مجھے جانا ضرور ہے لیکن جینا بھی ضرور ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 106

واشنگٹن مین یہہ بہت بڑی صنعت تھی کہ جب وہ دیکھتا کہ مجھے کوئی کام کرنا ہے تو اوسے فوراً انجام دیتا لیکن اس خیال سے نہین کہ اوسکی شہرت و ناموری ہو گی یا کوئی صلہ ملیگا بلکہ محض اس خیال سے کہ اوس فعل کی انجام دہی میرا فرض ہے چنانچہ جب واشنگٹن امریکہ مین کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا تو ایک موقع پر حاضرین جلسہ سے کہا کہ میرے متعلق وہ خدمت لیگئی ہے جسپر ملک کے بہت سے فوائد منحصر ہین مبادا آیندہ چلکر اتفاقات زمانہ سے میری کوئی بدنامی ہو اسلئے مین پہلے ہی دن آپ لوگون پر ظاہر کئے دیتا ہون کہ مجہے اس معزز عہدہ کے فرایض منصبی انجام دینے کی قابلیت نہین ہے۔

واشنگٹن پہلے تو کمانڈر انچیف مقرر ہوا اور بعد اسکے امریکا کا پریسیڈنٹ لیکن دونون عہدونپر اسنے اپنے فرض منصبی کے انجام مین ذرا بھی کمی نہین کی۔ اوسکو کبھی اپنی شہرت و ناموری کی خواہش نہین ہوئی بلکہ وہ ہمیشہ اپنے فرض منصبی کی طرف متوجہ رہا۔ ایک مرتبہ سلطنت برطانیہ معظم سے ایک عہد نامہ ہوا اور اوسکی تصدیق کی بحث مسڑ جے نے پیش کی۔ واشنگٹن کے اوپر یہہ زور ڈالا گیا کہ وہ اوسے نامنظور کرے۔ لیکن چونکہ اس سے ملکی نقصان متصور تھا لہذا اوسنے کسیکی راے پر عملدرآمد نہین کیا ور نہ اوس عہد نامہ کو نامنظور کیا۔ اس فعل سے وہ اسقدر بدنام ہوا کہ بدمعاشون نے اوسپر پتھر پھینکے لیکن اوسنے کبھی عہد نامہ کی عدم تصدیق جائر نرکھی۔ واشنگٹن کی طرح ولنگٹن مین بھی فرائض منصبی کے انجام کا بہت بڑا مادہ تھا۔ اوسکا مقولہ تھا کہ کیسا ہی ادنی کام ہو لیکن اگر وہ ہمارا فرض ہے تو ہمکو ضرور پورا کرنا چاہیے کیونکہ جب وفاداری سے خدمت نہین پوری کیجائیگی کوئی شخص کبہی پرعہدہ قرینہ سے حکومت نہین کر سکتا۔ چنانچہ جب وہ جنگ واٹرلو مین فرانسیسی فوج کے مقابلہ مین اپنی قلیل التعداد فوج لایا تا اپنے نوجوان سپاہیونسے کہا کہ استقلال و مضبوطی سے کام کرو اور اوسکے نوجوان سپاہیون نے جواب دیا
 

زین

لائبریرین
106 کے بعد کے صفحات میں ٹائپ کررہا ہوں۔ وقت ملا تو رات کو ہی پوسٹ کردوں گا۔ نہیں تو کل صبح تک ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 111

Tadbeer_page_0115.jpg

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہت شکریہ شگفتہ :)
گو مجھے ایک صفحہ لکھنے میں کم سے کم آدھا گھنٹہ لگتا ہے :noxxx: پھر بھی میری کوشش رہے گی کہ اس نیک کام میں میرا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہو ۔۔

شکریہ زھراء ،
آپ کا خیال جان کر اور اس سلسلے میں آپ کی دلچسپی اور شرکت سے بہت خوشی ہوئی ، مجھے بعض اوقات آدھ گھنٹہ سے بھی زائد لگ جاتا ہے ایک صفحہ لکھنے میں ، آپ کی رفتار مجھ سے بہتر ہے ۔ خوش رہیے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۱

کرنا چاہتا ہون جسکی وجہ سے ڈیوک ان تعریفات کا مستحق ہے۔ پروفیسر ٹنڈل۔ فریڈی کی نسبت بھی بیان کرتا ہے کہ اوسے نمایشی کامون سے خواہ متعلق بہ زندگی یا متعلق یہ علم فلسفہ ہون بڑی نفرت تھی۔ ڈاکٹر مارشل ہال بھی اسی قسم کا آدمی نہایت دلیر۔ راستباز اور اپنے فرایض کا پورا کرنے والا تھا۔ اوسکا ایک دوست بیان کرتا ہے کہ جب ڈاکٹر موصوف کسی کذب و دروغگوئی کی حد پر وارد ہوتا تو وہ بے تکلف یہہ ظاہر کر دیتا کہ مین کبھی جھوٹ نہین بول سکتا۔ جب کبھی صحت غلطی کی بحث پیش ہو جاتی تو وہ ہمیشہ صحیح راہ اختیار کرتا۔ گو اوسمین اوسکو مشکلین اور دقتین واقع ہوتین۔ ڈاکٹر ارنلڈ اپنے نوجوان شاگردونکواپنی محنت سے کوئی دوسری نیکی ذہن نشین نکراتا جس کوشش سے کہ وہ اونھین راستبازی کی تعلیم دیتا کیونکہ وہ اس مشقت کو سچی انسانیت کی بنیاد سمجھتا۔ ڈاکٹر موصوف راستبازی کو طبیعت کی پاکیزگی و شفافی خیال کرتا اور کبہی مشقت کی اتنی قدر نکرتا جتنی عزت و راستبازی کی کرتا جب کوئی جھوٹ بولتا تو وہ اوسے سخت اخلاقی برائی قرار دیتا لیکن جب کوئی اوسکا شاگرد صاف بیان کر دیتا تو وہ یقین کر لیتا۔ اس طرز تعلیم سے اوسنے اپنے شاگردونکو ایسا راستباز بنا دیا کہ وہ آپس مین ایکدوسریسے کہتے تھے کہ ڈاکٹر ارنلڈ سے جھوٹ بولنا بری شرم کی بات ہے۔ جارج ولسن کو سوانح عمری سے اس تمثیل کی پوری تصدیق ہوتی ہے کہ وہ راستباز محنتی اور اپنے فرض منصبی کا پورا کرنے والا تھا۔ولسن کی سوانح عمری یہی ایک عجیب فرحت بخش محنت کے سلسلہ مین بیان کیجاتی ہے کہ اگرچہ وہ کمزور تھا لیکن ایک خوبصورت لڑکا تھا ابھی اچھی طرح جوان بھی نہین ہونے پایا تھا کہ اوسکے اعضا و ضوارح مین بیماری کی علامت شروع ہوئی۔ سترہ ۱۷ برس کے سن مین اوسے کم خوابی کی شکایت ہوئی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 112

جسکی وجہ صفراویت خیال کیگئی۔ اور اوسنے اپنے ایک دوست کو لکھا کہ مجھے یہہ نہین امید ہے کہ مین زیادہ دن تک زندہ رہونگا۔ اوسکی زندگی دماغی محنت و مشقت سے مملو تھی جس سے اوسکو بہ نسبت فائدہ کے بہت نقصان ہوا۔ ہاسلیڈمی گوسے سے بہت خستہ ہو گیا اور بلا تفریح و آسایش اپنے دماغی محنت کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایکمرتبہ اوسے چوبین ۲۴ میل کی مسافت طے کرنی پڑی جس سے اوسکے ایک پاؤن مین سخت چوٹ آئی اور وہ گھر واپس آیا لیکن پھر بھی وہ اپنی محنت سے باز نہین رہا۔ وہ مضامین نویسی کرتا۔ لیکچر دیتا اور کیمیا کی تعلیم کرتا۔ بعد اسکے وہ وجع مفاصل مین مبتلا ہوا اور آنکھون مین التہاب پیدا ہو گیا جسکے سبب سے وہ لکھنے سے بھی معذور ہو گیا لیکن تاہم اوسنے اپنا ہفتہ وار لیکچر جاری رکھا۔ ستائیم برس کی عمر مین دس گیارہ گھنٹے روز لیکچر دینا اوسکے معمولات مین سے تھا اوسنے ایک مرتبہ اپنے دوست کو لکھا کہ اگر تم کسی دن یہ خبر سنو کہ مین مر گیا تو ہر گز تعجب نکرنا۔ لیکن خیالات سے بھی اوسے کسی قسم کی فکر و تشویش نہین ہوتی تھی وہ نہایت مستعدی سے محنت کرتا تھا۔ اوسکا قول تھا کہ لطف زندگی اون لوگون کو حاسل ہے جو موت سے نہین ڈرتے۔ باوجودیکہ وہ متعدد امراض اور صدہا قسم کی بیماریونمین گرفتار تھا لیکن وہ نہایت استقلال اور بشاشت سے اپنے کام مین مصروف رہتا اور جسطرح پہلے لیکچر دیا کرتا تھا اب بھی اوسیطرح دیتا۔ چنانچہ ایکمرتبہ وہ لیکچر دیکر دم لینے کے واسطے لیٹ گیا لیکن اتفاق سے کسی چیز کی اوسے ایسی چوٹ لگی کہ اوسکے جسم سے بہت سا خون خارج ہو گیا۔ یہ حالت دیکھکر اوسنے خیال کیا کہ یہہ پیام موت ہے اور کسیطرح رات کو زندہ رہنی کی امید نہین لیکن وہ زندہ رہا اور پھر دوسرے دن اوسی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۳

محنت سے اپنا کام انجام دیا۔ اسی حالت عوارض مین اوسنے متعدد کتابین تصنیف کین اور اڈوارڈ فارلس کی سوانح عمری لکھی۔ اگرچہ لوگون نے اوسے صلاح دی کہ وہ اسقدر جانکاہی کے ساتھ محنت نکرے لیکن اوسنے جواب دیا کہ مین کسیطرح باز نہین رہ سکتا کینوکہ مین اپنے فرض سے بخوبی واقف ہون۔ چنانچہ وہ اپنے اخیر وقت تک لیکچر دیتا رہا اور ۱۸۵۹ عیسوی مین جب یونیورسٹی سے لیکچر دیکر واپس آ رہا تھا کہ اوسکے پہلو مین شدید درد شروع ہوا اور اسقدر اس عارضہ مین ترقی ہوئی کہ وہ حرکت کرنے سے بھی معذور ہو گیا اگرچہ ہر قسم کی معالجہ کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہین ظاہر ہوا غرضیکہ اسی بیماری مین وہ مر گیا لیکن فرض پورا کرنے سے باز نہین رہا۔
**************************************
*****************************​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 114

آٹھوان باب

طبیعت

جسطرح انسان کو زندگی مین لیاقت سے فتحیابی ہوتی ہے اوسیطرح طبیعت سے بھی کامیابی ہوتی ہے۔ اونکی دنیاوی کامگاری اور آسودہ حالی خاصکر اسپر منحصر ہے کہ اونکے مزاج مین تحمل و استقلال اور بردباری ہو اور اون لوگونکے ساتھ عنایت و مہربانی کیجاے جو اونکے گرد و پیش جمع رہتے ہین۔ فلاطون کا یہہ قول فی الحقیقت بہت صحیح ہے کہ جو لوگ دوسرونکی کوبیونکے جویان رہتے ہین خود اونمین بھی عمدگیان پیدا ہو جاتی ہین۔ بعضی طبعیتین خوبیون سے اسدرجہ مملو ہوتی ہین کہ وہ کل چیزونکو بھلائی کی نظر سے دیکھتی ہین اور کیسی ہی بری تکلیف کیون نہو لیکن وہ اوسے راحت و اطمینان کے نتائج مستخرج کرتے ہین۔ چاہے آسمان پر کیسا ہی ابر سیاہ محیط ہو لیکن اونھین آفتاب کی راشنی مین جو چمک ہوتی ہے وہ ضرور معلوم ہوتی ہے اور گو آفتاب نہ دکھلائی دے لیکن وہ اس خیال سے مطمئن ہو جاتے ہین کہ آفتاب ضرور ہے۔ اس قسم کی طبیعت پر لوگ حسد کرتے ہین کیونکہ اونکی آنکھونمین ایک ایسی شعاع ہوتی ہے جسکی روشنی مین خوشی۔ راحت کاسگاری اور مذہبی مسرت نظر آتی ہے۔ آفتاب کی چمک گویا اونکے دلونکے قریب ہے اور جو کچھ کہ گرد و پیش نظر آتا ہے وہ گویا خود اونکی دماگی روشنی ہے۔ جب اونھین کوئی دقت پیش آتی ہے تو وہ اوس سے نہ گھبراتے ہین نہ شکایت کرتے ہین اور نہ فضول گریہ و زاری کرتے ہین بلکہ نہایت بشاشت سے اوسکا تحمل کرتے ہین اور دلیری سے کامیابی کی کوشش کرتے ہین جس سے کہ
 
Top