اپنے ماموں ڈاکٹر شبیر احمد خان شبیر کی چند نظمیں احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس سے قبل ماموں کا مختصر سا تعارف پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔

ڈاکٹر شبیر احمد خان کا تعلق اترپردیش ہند کے ایک گاؤں سے ہے۔ آبائی پیشہ زراعت ہے اور خود کچھ عرصہ آس پاس کے چند مدارس میں بطور انگریزی ٹیچر نوکری کرنے کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی یو ایم ایس کی ٹھانی۔ اور الحمد للہ ان دنوں ایک میڈیکل ڈاکٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

موصوف نے دیہی زندگی کی بے شمار مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں تھا اس کے باوجود ان کی علم دوستی اور لگن نے ان کے لئے راستے ہموار کیئے۔ ان کی زیادہ تر تعلیم ہندی میڈیم میں ہوئی سوائے میڈکل اور پرائمری درجات کے۔ لیکن زبان و ادب سے حد درجہ دلچسپی کے باعث از خود فارسی اور عربی زبانیں سیکھیں۔ یوں انھیں اردو، انگریزی، ہندی، فارسی، عربی اور سنسکرت زبانوں میں دسترس حاصل ہے۔ اپنا یہ جوہر ماموں نے اپنی ایک تخلیق میں دکھایا جس میں انھوں نے علم کے موضوع پر چند احادیث جمع کی ہیں اور پھر اردو شاعری سمیت مندرجہ بالا زبانوں میں ان کا خود ترجمہ کیا ہے۔ ماموں کی یہ تخلیق مدارس میں بچوں کے سالانہ انجمنوں میں کافی مقبول رہی جسے گروپ کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔

دور معلمی میں اردو شاعری کی طرف آئے۔ شبیر تخلص کرتے تھے۔ عموماً اسلامی اشعار کہتے تھے اور اپنی تخلیقات ایک نوٹ بک میں خوشخط لکھتے تھے جسے بعد میں ان کے بچوں نے گم کر دیا۔ جسے جمع کرنے کی خاطر ہم آج بھی ان کی نظمیں اپنے حافظے میں ٹٹولتے رہتے ہیں۔ بعد میں فکر معاش میں پڑ کر شعر و شاعری سے تعلق ٹوٹ سا گیا اور اب ہم کبھی ان سے کہتے ہیں کہ ماموں اپنے اندر کے خوابیدہ شاعر کو جگائیے تو مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔

اسی کی دہائی کے وسط کی ان کی چند تخلیقات ملاحظہ فرمائیے۔
 

خطاب بہ قوم مسلم

زندگی ہر شئے کی ہے دنیا میں مانند حباب
خواہ ماہ و مشتری ہو خواہ نورِ آفتاب

اس لئے اے مشت خاکی عاقبت کی فکر کر
ٹوٹ جائیگی یقیناً تیرے خیمے کی طناب

مضمحل ہو جائیں گے اک روز اعضاءِ بدن
اور نہ باقی رہینگے روئے گل کے آب و تاب

پھر تو آخر ورطہء عالم میں ہے کیونکر گھرا
توڑ دے طوق و سلاسل دیکھ پھر ہو کامیاب

قوم مسلم آج تو کیوں ہے بھلا شوریدہ حال
کیا نہیں غیرت ہے تجھ میں کیا نہیں نگہہِ مآب

تار ہیں اجڑے ہوئے اب تیرے ہر مضراب کے
آج بے آواز ہیں تیرے سبھی چنگ و رباب

جاگ اے قوم مسلماں اب بہت حد ہو چکی
اپنے کردار و عمل سے لا جہاں میں انقلاب

آبیاری پھر سے کر اب مزرعِ اعمال کی
تا نظر آئیں بہر سو نرگس و سوسن گلاب

کفر ہے مایوس ہونا ایک مسلم کے لئے
آیتِ لا تقنطو کا ہے یہی لب لباب

سلب ہو جائینگی عقلیں آنکھ خیرہ لب خموش
عہدِ رفتہ کی اگر تاریخ کر دوں بے نقاب

رو رہا ہے دیکھ کر شبیر حالت قوم کی
اے خدا اب کھول دے اس قوم پہ رحمت کا باب

 

غزل

کیا کوئی اس جہاں میں ہمارا نہیں
کوئی دن ہم نے ہنس کر گزارا نہیں

ہم ہیں تاریک وادی میں بھٹکے ہوئے
روشنی کا ہمیں کچھ سہارا نہیں

اشک و خوں کے ہوئے کتنے دریا رواں
پھر بھی مجبور ہیں کوئی چارہ نہیں

قوتِ فکر و احساس مفقود ہے
دل میں باقی حیا کا شرارہ نہیں

بھائی ہی بھائی کے خوں کا پیاسا ہے جب
کیا یہ بد قسمتی کا نظارہ نہیں

ڈوب جائیگی کشتی تری ایک دن
اپنا طرزِ عمل گر سنوارا نہیں

غیر اقوام کہتی ہیں یوں ناز سے
مہرباں وہ خدا اب تمہارا نہیں

تم کو مٹنا ہے حرف غلط کی طرح
کیا یہ حالات سے آشکارا نہیں

ہم رہیں جادہء حق پہ شبیر گر
پھر تو دیکھیں خدا کیا ہمارا نہیں

 

تضمین

گو دہر میں مسلم کے کاشانے ہزاروں ہیں
پھر بھی ہے بپا شیون ویرانے ہزاروں ہیں

ہیں باغی و رو گرداں آئینِ شریعت سے
طاغوت کے ہم مشرب دیوانے ہزاروں ہیں

توحید کے شیدائی گو صورت عنقا ہیں
پر شرک کی نعشوں کے دیوانے ہزاروں ہیں

مشکل سے ہی ملتے ہیں مئے ناب کے ساقی اب
ویسے تو سرِ منزل خم خانے ہزاروں ہیں

حبّہ بھی نہیں دیتے نادار برادر کو
قبروں پہ زر و گل کے نذرانے ہزاروں ہیں

کعبہ کی زیارت کو سمجھا ہے عبث لیکن
اجمیر کے روضہ کے پروانے ہزاروں ہیں

دنیا ہے بڑی شاطر دھوکہ نہ کہیں کھانا
ہم رنگ حرم حالا بت خانے ہزاروں ہیں

ناکام جو کرتے ہیں شیطان کی چالوں کو
شبیر کہیں جیسے فرزانے ہزاروں ہیں

 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ سعود اس تعارف اور خوبصورت کلام کیلیے، خوشی ہوئی آپ کے ماموں جان کا کلام دیکھ کر!

امید ہے مزید کلام بھی شیئر کریں گے!
 
نعت

وہ نبیِّ محترم، خیر البشر، خیر الانام
جنکی عظمت اور رفعت کے ہیں شاہد خاص و عام

عالمِ گیتی میں جس دم آپ کی بعثت ہوئی
ساری خلقت خوش ہوئی، روشن ہوا ماہِ تمام

رحمت و شفقت ہے جن کی سارے عالم کو محیط
اسود و احمر ہوں یا ادنیٰ گدا، عالی مقام

آپ کے دامان رحمت میں ملی ان کو پناہ
جن کے ظلم و جبر سے تھا ایک دن جینا حرام

اولاً دشمن بنے تھے آپ کے احباب جو
آپ ہی کے میکدے سے پی لیا الفت کا جام

مشعلِ توحید روشن کر دیا کُل دہر میں
ایک گوشہ بھی نہ چھوڑا تشنہ کام و نا تمام

آرزو شبیر کی پوری ہو اے ربِّ کریم
عاشقانِ احمدِ محبوب میں ہو اس کا نام
 

لاریب مرزا

محفلین
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بہت عمدہ!! :)
سعود بھائی!! آپ کے ماموں جان ماشاء اللہ اتنے باصلاحیت ہیں۔ اتنی ساری زبانوں پر دسترس حاصل ہے۔ انہوں نے کبھی اردو محفل کیوں جوائن نہیں کی؟؟ یقیناً ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔ :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اپنے ماموں ڈاکٹر شبیر احمد خان شبیر کی چند نظمیں احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس سے قبل ماموں کا مختصر سا تعارف پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔

ڈاکٹر شبیر احمد خان کا تعلق اترپردیش ہند کے ایک گاؤں سے ہے۔ آبائی پیشہ زراعت ہے اور خود کچھ عرصہ آس پاس کے چند مدارس میں بطور انگریزی ٹیچر نوکری کرنے کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی یو ایم ایس کی ٹھانی۔ اور الحمد للہ ان دنوں ایک میڈیکل ڈاکٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

موصوف نے دیہی زندگی کی بے شمار مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں تھا اس کے باوجود ان کی علم دوستی اور لگن نے ان کے لئے راستے ہموار کیئے۔ ان کی زیادہ تر تعلیم ہندی میڈیم میں ہوئی سوائے میڈکل اور پرائمری درجات کے۔ لیکن زبان و ادب سے حد درجہ دلچسپی کے باعث از خود فارسی اور عربی زبانیں سیکھیں۔ یوں انھیں اردو، انگریزی، ہندی، فارسی، عربی اور سنسکرت زبانوں میں دسترس حاصل ہے۔ اپنا یہ جوہر ماموں نے اپنی ایک تخلیق میں دکھایا جس میں انھوں نے علم کے موضوع پر چند احادیث جمع کی ہیں اور پھر اردو شاعری سمیت مندرجہ بالا زبانوں میں ان کا خود ترجمہ کیا ہے۔ ماموں کی یہ تخلیق مدارس میں بچوں کے سالانہ انجمنوں میں کافی مقبول رہی جسے گروپ کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔

دور معلمی میں اردو شاعری کی طرف آئے۔ شبیر تخلص کرتے تھے۔ عموماً اسلامی اشعار کہتے تھے اور اپنی تخلیقات ایک نوٹ بک میں خوشخط لکھتے تھے جسے بعد میں ان کے بچوں نے گم کر دیا۔ جسے جمع کرنے کی خاطر ہم آج بھی ان کی نظمیں اپنے حافظے میں ٹٹولتے رہتے ہیں۔ بعد میں فکر معاش میں پڑ کر شعر و شاعری سے تعلق ٹوٹ سا گیا اور اب ہم کبھی ان سے کہتے ہیں کہ ماموں اپنے اندر کے خوابیدہ شاعر کو جگائیے تو مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔

ان کی چند تخلیقات ملاحظہ فرمائیے۔
سعود بھائی، بہت اچھا لگا آپ کے ماموں کے بارے میں جان کر! اچھا لکھا آپ نے۔
ایک سوال، کیا وہ خطاطی بھی جانتے ہیں؟
 
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بہت عمدہ!! :)
سعود بھائی!! آپ کے ماموں جان ماشاء اللہ اتنے باصلاحیت ہیں۔ اتنی ساری زبانوں پر دسترس حاصل ہے۔ انہوں نے کبھی اردو محفل کیوں جوائن نہیں کی؟؟ یقیناً ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔ :)
لاریب بٹیا رانی، ہمارے ماموں جان ایک دیہی علاقے میں مقیم ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رفتار تسلی بخش نہیں ہوتی۔ فیس بک پر تو پائے جاتے ہیں، ممکن ہے کسی وقت ہم انھیں یہاں بھی بلا لائیں۔ ویسے ہم ماضی میں چند دفعہ ان کے سامنے اردو محفل کا ذکر کر چکے ہیں۔ :) :) :)
 
سعود بھائی، بہت اچھا لگا آپ کے ماموں کے بارے میں جان کر! اچھا لکھا آپ نے۔
ایک سوال، کیا وہ خطاطی بھی جانتے ہیں؟
ہمارا نہیں خیال کہ انھوں نے کبھی باقاعدہ خطاطی کی ہو، البتہ خوشخط ضرور ہیں۔ بلکہ ہماری خالہ جان اور محلے کی دوسری خواتین ان سے رومال اور تکیے وغیرہ پر اشعار لکھوا کر کڑھائی کیا کرتی تھیں۔ اگر ہمیں ٹھیک سے یاد ہے تو کئی دفعہ ماموں تکیوں کے لیے اشعار خود ہی تخلیق کر کے خوشخطی کرتے تھے اور کبھی کبھی کشیدہ کاری کی کتابوں یا ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والے اشعار سے کام چلاتے تھے۔ اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ہماری ڈیڑھ امی یعنی چھوٹی خالہ جان نے ایک تکیے پر ماموں جان سے درج ذیل شعر لکھوا کر کڑھائی کی تھی:

تکیے پہ پھول، پھول پہ رخسار یار ہو
دو گل رخوں کے وصل سے پیدا بہار ہو

ایک دفعہ گھر پر کوئی تقریب تھی، غالباً کسی کی شادی یا عقیقہ وغیرہ کی تقریب۔ ایسے میں مہمانوں کے بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے برامدے میں کافی ساری چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ تب ٹینٹ وغیرہ کا رواج نہیں تھا تو ایسی تقریبات میں پڑوسیوں کے گھروں سے چارپائیاں اور صاف ستھرے بستر وغیرہ اکٹھا کر لیے جاتے تھے اور کام چل جاتا تھا۔ ہم اس وقت اپنے تین چار ہم عمروں کے ساتھ ایک چارپائی پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اتفاق سے اس چارپائی پر وہی تکیہ رکھا ہوا تھا اور اتفاق سے خوشخطی کرتے ہوئے ماموں نے "گل رخوں" کو "گلرخوں" لکھ دیا تھا۔ ایسے میں ایک صاحب وہ شعر پڑھتے ہوئے "گلر" اور "خوں" کو علیحدہ علیحدہ پڑھ گئے اور پھر ہم لوگ خوب ہنسے۔ :) :) :)
 

لاریب مرزا

محفلین
اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ہماری ڈیڑھ امی یعنی چھوٹی خالہ جان نے ایک تکیے پر ماموں جان سے درج ذیل شعر لکھوا کر کڑھائی کی تھی:

تکیے پہ پھول، پھول پہ رخسار یار ہو
دو گل رخوں کے وصل سے پیدا بہار ہو

ایک دفعہ گھر پر کوئی تقریب تھی، غالباً کسی کی شادی یا عقیقہ وغیرہ کی تقریب۔ ایسے میں مہمانوں کے بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے برامدے میں کافی ساری چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ تب ٹینٹ وغیرہ کا رواج نہیں تھا تو ایسی تقریبات میں پڑوسیوں کے گھروں سے چارپائیاں اور صاف ستھرے بستر وغیرہ اکٹھا کر لیے جاتے تھے اور کام چل جاتا تھا۔ ہم اس وقت اپنے تین چار ہم عمروں کے ساتھ ایک چارپائی پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اتفاق سے اس چارپائی پر وہی تکیہ رکھا ہوا تھا اور اتفاق سے خوشخطی کرتے ہوئے ماموں نے "گل رخوں" کو "گلرخوں" لکھ دیا تھا۔ ایسے میں ایک صاحب وہ شعر پڑھتے ہوئے "گلر" اور "خوں" کو علیحدہ علیحدہ پڑھ گئے اور پھر ہم لوگ خوب ہنسے۔ :) :) :)
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
تکیے پہ پھول، پھول پہ رخسار یار ہو
دو گلر خوں کے وصل سے پیدا بہار ہو
:D
ارے واہ!! تکیوں پر شعر و شاعری کا پہلے نہیں سنا کبھی نہ دیکھا۔ دلچسپ ہے۔ :)
ایسے تکیوں پر تو نیند بھی خوب آتی ہو گی۔ :ROFLMAO:
 
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
تکیے پہ پھول، پھول پہ رخسار یار ہو
دو گلر خوں کے وصل سے پیدا بہار ہو
:D
ارے واہ!! تکیوں پر شعر و شاعری کا پہلے نہیں سنا کبھی نہ دیکھا۔ دلچسپ ہے۔ :)
ایسے تکیوں پر تو نیند بھی خوب آتی ہو گی۔ :ROFLMAO:
غالباً ہندوستان میں یہ رواج ہو، یہاں پاکستان میں تو یہ رواج نہیں ہے۔
تکیوں کی شاعری پر مجتبیٰ حسین صاحب کا ایک فکاہیہ مضمون بھی ہے، اگر ملا تو شئر کروں گا۔
 

لاریب مرزا

محفلین
لاریب بٹیا رانی، ہمارے ماموں جان ایک دیہی علاقے میں مقیم ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رفتار تسلی بخش نہیں ہوتی۔ فیس بک پر تو پائے جاتے ہیں، ممکن ہے کسی وقت ہم انھیں یہاں بھی بلا لائیں۔ ویسے ہم ماضی میں چند دفعہ ان کے سامنے اردو محفل کا ذکر کر چکے ہیں۔ :) :) :)
جی سعود بھائی!! ان کا اس محفل سے جڑنا محفل کے لیے باعثِ افتخار ہو گا۔ :)
 

لاریب مرزا

محفلین
غالباً ہندوستان میں یہ رواج ہو، یہاں پاکستان میں تو یہ رواج نہیں ہے۔
تکیوں کی شاعری پر مجتبیٰ حسین صاحب کا ایک فکاہیہ مضمون بھی ہے، اگر ملا تو شئر کروں گا۔
جی درست کہا، پاکستان میں اس طرح کا رواج نہیں دیکھا۔
ضرور اشتراک کیجیے گا۔
 
Top