فانیش مسیح کی ہلاکت!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد وارث

لائبریرین
اس واقعے میں میری دلچسپی کچھ اس حوالے سے ہے کہ اول تو سیالکوٹ میں مسیحیوں کے احتجاجی جلوس میرے گھر کے سامنے سے گزرے اور میرے بچے مجھ سے سوال کرتے رہے اور دوم یہ کہ میرے آفس کے ایک لڑکے کا تعلق اس وقوعے کے قصبے کے ساتھ والے گاؤں سے ہے اور وہ روزانہ سمبڑیال سے سیالکوٹ آتا ہے۔

اس کا کہنا ہے، گھر کا بھیدی ہوتے ہوئے، کہ 'جیٹھے کی' میں ایک کثیر تعداد ہیروئن اور دیگر منشیات فروشوں کی ہے اور اس واقعے کو بڑے پیمانے پر لے جانے اور چرچ کو آگ لگانے کے فیصلے میں یہ گروپ پیش پیش تھا، اس سے ان کے کیا مقاصد تھے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

اس مافیا کا اس واقعے میں ملوث ہونا کوئی اچنبھے کی بات کم از کم میرے لیے نہیں ہے، سیالکوٹ کے گرد و نواح میں کئی ایسے علاقے اور گاؤں مشہور ہیں جو ایک طرح سے علاقہ غیر ہیں، کچھ علاقوں کی خصوصیت ڈکیتوں اور اشتہاری مجرموں کی پناہ گاہ کے طور پر ہے اور کچھ کی منشیات فروشی بالخصوص ہیروئن کے حوالے سے، یہاں سے نہ صرف ہیروئن دیگر علاقوں کو سپلائی کی جاتی ہے بلکہ دور دور سے 'جہاز' آ کر یہاں سے ہیروئن خریدتے ہیں، اور یہ اتنے با اثر لوگ ہیں کہ مشہورِ زمانہ پنجاب پولیس کے ناکے انکی حدود سے باہر لگے ہوئے ہیں اور وہ آنے جانے والوں کو تو ضرور تنگ کرتے ہیں جامہ تلاشی سے لیکن ان علاقوں میں جاتے نہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ نشہ ہر کے و مے کو برق رفتاری سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، میرے اپنے محلے کے تین حافظِ قرآن نوجوانوں کا ایک گروپ دو تین سال کے اندر اندر اس نشے کی آخری اسٹیج پر ہے۔

جذبات کے ہاتھوں اندھی قومیں خود کشی کر لیتی ہیں، اور ان کو رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، افسوس صد افسوس۔
 

گرائیں

محفلین
آپ نے وہ تلخ حقیقت بیان کر دی ہے کہ جس سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں، اور وہ یہ کہ اگر حکومتی سطح پر آج اگر اس قانون میں کوئی ترمیم بھی کی جاتی ہے تب بھی اس فتنے میں کچھ کمی آنے والی نہیں۔
اس تلخ حقیقت کا اگر کھلے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ فتنہ مکمل طور پر اُنتہا پسند مذہبی طبقات کا کھڑا کیا ہوا ہے جس نے اسلام کا صحیح ورژن پیش کرنے کی بجائے ہمیشہ اس mob justice کی ہمت افزائی کی۔ اور اگر آج ہمیں اس فتنے کو ختم کرنا ہے تو اسکا حل حکومتی سطح پر قانون میں تبدیلی کرنے سے زیادہ عوامی سطح پر ان فسادی طبقات کے چہرے بے نقاب کرنے پر ہے اور عوام کو یہ شعور دینے میں ہے کہ ہر جھگڑے کا فیصلے کا حق صرف اور صرف عدالت کو ہے۔



اس فتنے کا آغاز ہی وہ وقت ہے جب عامر چیمہ اور علم الدین کو مجرم اور قاتل کہنے کی بجائے انہی لوگوں نے اسے ہیرو اور اسلام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔
آج تک کس عالم نے عوام کو یہ عقل دی ہے کہ یہ دونوں حضرات دنیا کے کسی اور قانون سے پہلے اسلامی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں جسکا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اگر آپ غیر مسلم اکثریت والے ملک میں رہتے ہیں تو اُس ملک کے قانون کا احترام کرنا اور اُس پر عمل کرنا آپ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے واجب و لازم ہے۔
اب لوگ اس بنیادی اسلامی قانون کو دیگر ممالک کی غلطیوں کے پردے میں چھپانا چاہیں تو یہ انکی قسمت کی بربادی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون بدل نہیں سکتا اور نہ ہی عامر چیمہ اور علم دین کو مجرم و قاتل سے اسلام کا ہیرو اور نجات دہندہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ لوگ ان کے اس غیر قانونی اقدام قتل پر خوش ہو کر تالیاں تو پیٹ رہے ہیں، مگر انہیں احساس نہیں کہ ان کے اس رویے سے مذہب اسلام کے خلاف دنیا میں کتنی نفرت پھیل رہی ہے اور دین اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے، اور مسلمانوں کو اب ایسے جنونی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ملکی قوانین کو ٹھوکر مارتا ہوا کبھی بھی کہیں بھی اقدام قتل جیسے افعال کا ارتکاب کر سکتا ہے۔

نشان زد جملے کو دوبارہ پڑھئے گا محترمہ۔ علم الدین نے کس اسلامی حکومت کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی؟ آپ نے برصغیر کی تاریخ پڑھی بھی ہے یا زور خطابت میں بس بولتی ہی چلی جاتی ہیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
السلام علیکم جناب نبیل صاحب

فانیش مسیح کے ساتھ جو ہوا اسے ایک سوچی سمجھی سازش کہ سکتے ہیں اور جو بھی گوجرہ میں ہوا وہ بھی اسی کی ایک لڑی تھا۔ اس پر دکھ ہوا مگر یہ پاکستانی عوام کا قصور نہیں۔ ی
اور نبیل صاحب جو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگ بھی ولایت مل گئی ہو گی "معاذ اللہ" لگتا ھے آپ نے قرآن نہیں پڑھا شائد یا دین سے بالکل غافل ہیں جو اسطرح کی باتیں کر رہے ہیں اس حساب سے نہ تو ان کو کچھ ملا اور نہ آپ کو ملے گا کیونکہ قرآن اس پر کیا کہہ رہا ھے وہ میں آپ کو دکھا دیتا ہوں۔

اور جو آپ بار بار چلہ کی تسبیہ پڑھ رہے ہیں تو اس پر آپ ایک الگ دھاگہ بنائیں اس پر بھی آپکی راہنمائی کی جائے گی انشا اللہ تعالی۔




فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
9:5
پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسبِ اعلان) مشرکوں کو قتل کر دو جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور انہیں (پکڑنے اور گھیرنے کے لئے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے

حضور سیاق و سباق بھی کسی چیز کا نام ہے۔ قرآن فہمی کا آپ کا یہ دعوی میری فہم سے بالاتر ہے۔
براہ کرم قرآن سے مذاق کا سلسلہ بند کیجئے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مذہبی جذبات بھڑکا کر تقریر کرنے والے ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو اُنہیں اپنا دوغلا رویہ سورج کی طرح عیاں نظر آئے گا۔

پہلی تحریر:
لوگوں کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے یہ وجہ بیان کی جارہی ہے نہ کہ ایسے واقعات کو صحیح قرار دیا جارہا ہے۔ کیا آپ یہ معمولی بات پک نہیں کر پارہے؟؟؟؟ اوپر کی گئی میری پوسٹ سے کیا یہ بات ثابت نہیں ہو رہی کہ ایسے واقعات جن میں عوم ملوث ہو جاتے ہیں ایسا ہونا ٹھیک نہیں درست نہیں، صحیح نہیں‌، اچھا نہیں ، بھلا نہیں،‌ ....

دوسری تحریر:
عامر چیمہ شہید اور علم الدین شہید امت مسلمہ کے لیے ہیرو کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ امت فتنے، فتنہ پردازوں اور ان کی فتنہ پردازی سے بخوبی آگاہ ہے ۔۔۔۔۔

اب یہ عامر چیمہ اور علم دین بعینیہ وہی مجرم و قاتل ہیں جو Mob Justice کی طرز پر اپنے بل بوتے پر Justice کے نام پر قتل کرنے چلے تھے اور انکے اپنے الفاظ میں یہ صحیح نہیں، اچھا نہیں، بھلا نہیں۔۔۔۔۔
تو صاحب یہ سب کچھ نہیں، مگر آپکی مذہبی جذباتیت کہ پھر بھی Mob Justice کی طرز پر یہ ماورائے عدالت و قانون اقدام قتل کرنے والوں کو مجرم و قاتل ٹہرانے کے اور انکی مذمت کرنے کے آپ انہیں قوم و اسلام کا ہیرو اور نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں؟؟؟؟؟ کیا آپ کے دوغلے رویے کی کوئی انتہا بھی ہے؟

اب ہزار الزام دوسروں پر لگاتے رہیں، انہیں امت کا دشمن اور غیروں کا ایجنٹ فتنہ پرداز قرار دیتے رہیں، مگر تا قیامت اپنے اس دوغلے رویے پر کوئی دلیل نہیں پیش کر سکیں گے۔ مذہبی جنونیت میں بہہ جانا اور بات ہے، اور عقل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا اور بات۔

از ابن حسن:
mob justice کی حمایت کسی نے نہیں کی اوپر ایسے واقعات کی وجہ لکھی گئی ہے نہ کہ ان کو جائز لکھاگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است
میری دانشوری چاہے کتنی ہی اور کیسی ہی کیوں نہ ہو بہرحال بولہبی سے بہتر ہے۔

آفرین ہے آپکے اس ہٹ دھرمی کے ساتھ دوغلے رویے کی وکالت کرنے پر۔

ایک طرف مسلسل mob justice کا انکار ہے، اسے برا ماننا ہے، اسے جرم ماننا ہے۔۔۔۔۔
اور دوسری طرف مسلسل mob justice کی طرز عمل پر اقدام قتل کرنے والے مجرمان عامر چیمہ اور علم دین کو اسلام کا ہیرو بنا کر پیش کرنا ہے۔

اور تیسری طرف ہم پر بولہبی کا الزام لگانا ہے کہ ہم انکے اس جنونی مذہبی دوغلے پن کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نشان زد جملے کو دوبارہ پڑھئے گا محترمہ۔ علم الدین نے کس اسلامی حکومت کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی؟ آپ نے برصغیر کی تاریخ پڑھی بھی ہے یا زور خطابت میں بس بولتی ہی چلی جاتی ہیں۔

آپ کو میری تحریر میں جتنے کیڑے نکالنے کا ملکہ حاصل ہے، اتنا آج تک کسی اور میں نے کرتے نہیں دیکھا۔
میں نے کب اور کہاں کسی "اسلامی حکومت کے قانون" کی بات کی ہے۔ اس "اسلامی حکومت" کا تو دور دور تک میری تحریر میں نام و نشان نہیں۔

اور میری تحریر کی جو سطر آپ نے سرخ کر کے لکھی ہے، اس سے اگلی سطر پڑھ لیتے تو بات مکمل سمجھ میں آ جاتی کہ یہ "اسلامی حکومت" نہیں بلکہ اسلام کے عالمگیر قانون کی بات ہو رہی ہے جو غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان ممالک کے لوکل قوانین کا احترام کریں۔
از مہوش علی:
اس فتنے کا آغاز ہی وہ وقت ہے جب عامر چیمہ اور علم الدین کو مجرم اور قاتل کہنے کی بجائے انہی لوگوں نے اسے ہیرو اور اسلام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔
آج تک کس عالم نے عوام کو یہ عقل دی ہے کہ یہ دونوں حضرات دنیا کے کسی اور قانون سے پہلے اسلامی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں جسکا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اگر آپ غیر مسلم اکثریت والے ملک میں رہتے ہیں تو اُس ملک کے قانون کا احترام کرنا اور اُس پر عمل کرنا آپ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے واجب و لازم ہے۔
اب لوگ اس بنیادی اسلامی قانون کو دیگر ممالک کی غلطیوں کے پردے میں چھپانا چاہیں تو یہ انکی قسمت کی بربادی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون بدل نہیں سکتا اور نہ ہی عامر چیمہ اور علم دین کو مجرم و قاتل سے اسلام کا ہیرو اور نجات دہندہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ لوگ ان کے اس غیر قانونی اقدام قتل پر خوش ہو کر تالیاں تو پیٹ رہے ہیں، مگر انہیں احساس نہیں کہ ان کے اس رویے سے مذہب اسلام کے خلاف دنیا میں کتنی نفرت پھیل رہی ہے اور دین اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے، اور مسلمانوں کو اب ایسے جنونی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ملکی قوانین کو ٹھوکر مارتا ہوا کبھی بھی کہیں بھی اقدام قتل جیسے افعال کا ارتکاب کر سکتا ہے۔
 

گرائیں

محفلین
نشاندہی کا شکریہ، بلکہ بہت بہت شکریہ مہوش۔

وہ کی اہے کہ آج تک آپ کی کوئی درست بات پڑھی ہی نہیں تو اس لئے یہ یہ خیال ہی نہیں آیا کہ آپ کبھی درست کہہ بھی سکتی ہیں۔

:grin::grin::grin:
 
مذہبی جذبات بھڑکا کر تقریر کرنے والے ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو اُنہیں اپنا دوغلا رویہ سورج کی طرح عیاں نظر آئے گا۔

پہلی تحریر:


دوسری تحریر:


اب یہ عامر چیمہ اور علم دین بعینیہ وہی مجرم و قاتل ہیں جو Mob Justice کی طرز پر اپنے بل بوتے پر Justice کے نام پر قتل کرنے چلے تھے اور انکے اپنے الفاظ میں یہ صحیح نہیں، اچھا نہیں، بھلا نہیں۔۔۔۔۔
تو صاحب یہ سب کچھ نہیں، مگر آپکی مذہبی جذباتیت کہ پھر بھی Mob Justice کی طرز پر یہ ماورائے عدالت و قانون اقدام قتل کرنے والوں کو مجرم و قاتل ٹہرانے کے اور انکی مذمت کرنے کے آپ انہیں قوم و اسلام کا ہیرو اور نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں؟؟؟؟؟ کیا آپ کے دوغلے رویے کی کوئی انتہا بھی ہے؟

اب ہزار الزام دوسروں پر لگاتے رہیں، انہیں امت کا دشمن اور غیروں کا ایجنٹ فتنہ پرداز قرار دیتے رہیں، مگر تا قیامت اپنے اس دوغلے رویے پر کوئی دلیل نہیں پیش کر سکیں گے۔ مذہبی جنونیت میں بہہ جانا اور بات ہے، اور عقل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا اور بات۔



آفرین ہے آپکے اس ہٹ دھرمی کے ساتھ دوغلے رویے کی وکالت کرنے پر۔

ایک طرف مسلسل mob justice کا انکار ہے، اسے برا ماننا ہے، اسے جرم ماننا ہے۔۔۔۔۔
اور دوسری طرف مسلسل mob justice کی طرز عمل پر اقدام قتل کرنے والے مجرمان عامر چیمہ اور علم دین کو اسلام کا ہیرو بنا کر پیش کرنا ہے۔

اور تیسری طرف ہم پر بولہبی کا الزام لگانا ہے کہ ہم انکے اس جنونی مذہبی دوغلے پن کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں۔



اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے
[ARABIC]فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُو[/ARABIC]
حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیںo

اس فورم پر آیت کا یہ ٹکرا مہوش علی نامی خاتون پر پورا اترتا ہے۔ اپنے تعصب ضد اور عناد نے ان کے فہم پرسیاہ تاریکیاں لپیٹ دی ہیں اور وہ ہر کفریہ فسادی طاقت کی سپورٹ کا ایک سمبل بن گئیں ہیں۔ میری عموما یہی کوشش ہے اب کہ ان سے ذرا برابر بھی گفتگو کی نوبت نہ آئے کیونکہ ایسوں سے گفتگو کر کہ میں اب اپنے وقت کا زیاں نہیں چاہتا۔اس فورم کہ دیگر متعدد ممبران بھی ان کی اس حرکت سے نالاں ہیں اور میں تو بری طرح ان سے اکتا چکا ہوں۔
غازی علم الدین شہید اور عامر چیمہ شہید نے ایسوں کے خلاف قدم اٹھایا جن کے خلاف یہ بات سو فیصد ثابت تھی کہ وہ توہین رسالت کے مرتکب ہو چکے ہیں‌ اور یہ بات واضح ہے کہ جو شخص توہین رسالت کا مرتکب ہو گا اس کی سزا موت ہی ہوگی۔کیا خود عہد رسالت ماب میں صحابہ نے یہ کام انجام نہیں دیا؟؟ اب یہ سزا اسلامی حکومت کی موجودگی میں دینا حکومت کا کام ہے ورنہ کوئی بھی شخص ایسی حکومت کی عدم موجوگی میں انجام دے گا جبکہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہو کہ توہین رسالت کی گئی ہے ۔علم الدین شہید اور عامر چیمہ اگر یہ نا کرتے اور کیا کرتے برٹش اور جرمن حکومتوں کے زیر سایہ توہین رسالت کا کام کیا جاتا ہے اور دھڑلے سے کیا جاتا ہے توہین آمیز کتابیں لکھ جاتی ہیں ، کارٹونز چھاپے جاتے ہیں پھر سلمان رشدی کی اس ذریت کو مکمل حفاطت بھی مہیا کی جاتی ہے۔ان ممالک کے قوانین میں انبیا کی عصمت کی حفاظت کا کوئی قانون موجود ہے ؟ جب توہین رسالت کا جرم ہو اور وہ پایہ ثبوت تک پہنچ جائے تو آخر کیا کیا جائے مقدمہ آپ نہیں چلا سکتے سزا ان کو نہیں دلا سکتے تو کیا مسلمان ٹھنڈے پیٹوں اپنی نبی کی شان میں گستاخیاں برداشت کرتے رہیں؟؟ جس کتے کا دل چاہے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر جائے ۔ اطلاعا عرض کہ ہمارے نبی کی شان ہماری جان سے زیادہ قیمتی ہے اور جان کا لفظ تو ویسے ہی آگیا کائنات کی ہر چز سے زیادہ قیمتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس ہے۔ کوئی مسلمان یہ جان کر کہ یقینی طور پر توہین رسالت کی گئی ہے خاموش نہیں بیٹھ سکتا یورپ کو امریکا کو اور پویر دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے ۔ خود عہد رسالت سے متعدد ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں اور ان مثالوں میں ایک یہ بھی ہے حارث یا حویرث نامی ایک شخص جو رسالت ماب کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اس کو فتح مکہ کے بعد حضرت علی نے اسی جرم میں قتل کردیا تھا اب نعوذ باللہ حضرت علی پر بھی کیا یہی الزام عائد کیا جائے گا؟؟؟؟
پھر یہ کہ mob justice ایک دوسری چیز ہے یعنی بنا کسی یقینی ثبوت کے mobیعنی ہجوم خود ہی مشتعل ہو کر فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یہ چیز اس لیے غلط ہے کہ اس میں بے گناہوں کی جان جانے کا خدشہ بہت بڑھ جاتا ہے ۔اس لیے ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔حکومت اور عدالت اس سلسلے میں ایک سب سے اہم رول یوں ادا کرسکتی ہیں کہ مبنی بر انصاف فیصلے کریں اپنی شہرت کو بہتر بنائیں کہ عوام کا اعتماد بحال ہو mob justice اسی طرح ختم ہو گا جب لوگ آنکھیں بند کر کہ عدلیہ پر اعتماد کرنے لگیں گئے ایسے ملزم عدالت میں پیش ہوں گئے توہین رسالت کے قانون کے تحت ان پر مقدمہ چلے گا اگر توہین ثابت ہو گئی تو سزا ہو گی ورنہ وہ رہا کر دئیے جائیں گئے۔ اور وہ تمام لوگ جو اس کے باوجود لوگوں کو بھڑکائیں گئے تو ان کے خلاف بھی کاروائی ہوگئی۔

اور دوغلے وہ ہوتے ہیں جو کلمہ تو محمد رسول اللہ کا پڑھتے ہیں لیکن ان کو عزت امریکا اور سلمان رشدی جیسوں کی عزیز ہوتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے
[arabic]فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُو[/arabic]
حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیںo

اس فورم پر آیت کا یہ ٹکرا مہوش علی نامی خاتون پر پورا اترتا ہے۔ اپنے تعصب ضد اور عناد نے ان کے فہم پرسیاہ تاریکیاں لپیٹ دی ہیں اور وہ ہر کفریہ فسادی طاقت کی سپورٹ کا ایک سمبل بن گئیں ہیں۔ میری عموما یہی کوشش ہے اب کہ ان سے ذرا برابر بھی گفتگو کی نوبت نہ آئے کیونکہ ایسوں سے گفتگو کر کہ میں اب اپنے وقت کا زیاں نہیں چاہتا۔اس فورم کہ دیگر متعدد ممبران بھی ان کی اس حرکت سے نالاں ہیں اور میں تو بری طرح ان سے اکتا چکا ہوں۔
غازی علم الدین شہید اور عامر چیمہ شہید نے ایسوں کے خلاف قدم اٹھایا جن کے خلاف یہ بات سو فیصد ثابت تھی کہ وہ توہین رسالت کے مرتکب ہو چکے ہیں‌ اور یہ بات واضح ہے کہ جو شخص توہین رسالت کا مرتکب ہو گا اس کی سزا موت ہی ہوگی۔کیا خود عہد رسالت ماب میں صحابہ نے یہ کام انجام نہیں دیا؟؟ اب یہ سزا اسلامی حکومت کی موجودگی میں دینا حکومت کا کام ہے ورنہ کوئی بھی شخص ایسی حکومت کی عدم موجوگی میں انجام دے گا جبکہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہو کہ توہین رسالت کی گئی ہے ۔علم الدین شہید اور عامر چیمہ اگر یہ نا کرتے اور کیا کرتے برٹش اور جرمن حکومتوں کے زیر سایہ توہین رسالت کا کام کیا جاتا ہے اور دھڑلے سے کیا جاتا ہے توہین آمیز کتابیں لکھ جاتی ہیں ، کارٹونز چھاپے جاتے ہیں پھر سلمان رشدی کی اس ذریت کو مکمل حفاطت بھی مہیا کی جاتی ہے۔ان ممالک کے قوانین میں انبیا کی عصمت کی حفاظت کا کوئی قانون موجود ہے ؟ جب توہین رسالت کا جرم ہو اور وہ پایہ ثبوت تک پہنچ جائے تو آخر کیا کیا جائے مقدمہ آپ نہیں چلا سکتے سزا ان کو نہیں دلا سکتے تو کیا مسلمان ٹھنڈے پیٹوں اپنی نبی کی شان میں گستاخیاں برداشت کرتے رہیں؟؟ جس کتے کا دل چاہے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر جائے ۔ اطلاعا عرض کہ ہمارے نبی کی شان ہماری جان سے زیادہ قیمتی ہے اور جان کا لفظ تو ویسے ہی آگیا کائنات کی ہر چز سے زیادہ قیمتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس ہے۔ کوئی مسلمان یہ جان کر کہ یقینی طور پر توہین رسالت کی گئی ہے خاموش نہیں بیٹھ سکتا یورپ کو امریکا کو اور پویر دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے ۔ خود عہد رسالت سے متعدد ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں اور ان مثالوں میں ایک یہ بھی ہے حارث یا حویرث نامی ایک شخص جو رسالت ماب کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اس کو فتح مکہ کے بعد حضرت علی نے اسی جرم میں قتل کردیا تھا اب نعوذ باللہ حضرت علی پر بھی کیا یہی الزام عائد کیا جائے گا؟؟؟؟
پھر یہ کہ mob justice ایک دوسری چیز ہے یعنی بنا کسی یقینی ثبوت کے mobیعنی ہجوم خود ہی مشتعل ہو کر فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یہ چیز اس لیے غلط ہے کہ اس میں بے گناہوں کی جان جانے کا خدشہ بہت بڑھ جاتا ہے ۔اس لیے ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔حکومت اور عدالت اس سلسلے میں ایک سب سے اہم رول یوں ادا کرسکتی ہیں کہ مبنی بر انصاف فیصلے کریں اپنی شہرت کو بہتر بنائیں کہ عوام کا اعتماد بحال ہو mob justice اسی طرح ختم ہو گا جب لوگ آنکھیں بند کر کہ عدلیہ پر اعتماد کرنے لگیں گئے ایسے ملزم عدالت میں پیش ہوں گئے توہین رسالت کے قانون کے تحت ان پر مقدمہ چلے گا اگر توہین ثابت ہو گئی تو سزا ہو گی ورنہ وہ رہا کر دئیے جائیں گئے۔ اور وہ تمام لوگ جو اس کے باوجود لوگوں کو بھڑکائیں گئے تو ان کے خلاف بھی کاروائی ہوگئی۔

اور دوغلے وہ ہوتے ہیں جو کلمہ تو محمد رسول اللہ کا پڑھتے ہیں لیکن ان کو عزت امریکا اور سلمان رشدی جیسوں کی عزیز ہوتی ہے۔

ایک تو غلطی کرنا اور دوسرا اس پر اتنے ڈھیٹ طریقے سے جمے رہنا۔

حق و انصاف کی بات اتنی صاف ہے کہ یہ لاکھ سر پٹخ لیں مگر اسلام کی لاٹھی ہر بار خود ان پر برستی رہے گی۔

جتنے مسلمان اس وقت غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں اُن پر معاہدے کے تحت لازم ہے کہ وہ ملکی قوانین کا مکمل احترام کریں گے۔

۔۔۔۔ کیا اس کے بعد کسی اور بحث کی گنجائش رہ جاتی ہے؟

قرآن تو کہتا ہے کہ ایفائے عہد کرو۔ رسول اللہ نے اسی ایفائے عہد کے تحت ابو جندل صحابی کو کفار مکہ کے حوالے واپس کر دیا۔ ۔۔۔۔۔ مگر کیا ہے کہ یہ آج کے انتہا پسند اپنی جنونیت میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری میں اپنے بنائی ہوئی نئی نئی شریعتیں لے آئے ہیں کہ جس کے بعد انہیں قران کا پاس ہے اور نہ اسوہ رسول کا، اور انکا مقصد و منشاء فقط اپنی جنونی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔

بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَO ہاں جو اپنا عہد پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے (اس پر واقعی کوئی مؤاخذہ نہیں) سو بیشک اﷲ پرہیز گاروں سے محبت فرماتا ہےo (آل عِمْرَان ، [SIZE=-1]3[/SIZE] : [SIZE=-1]76)[/SIZE]
پورا قرآن اسی ایفائے عہد کی نصیحت سے بھرا ہوا ہے، مگر یہ جنونیت ان کو کہیں کا نہیں رہنے دے گی اور دوسروں کو اندھا کہنے والے خود اس نصیحت سے کبھی فائدہ نہ اٹھا پائیں گے۔

نہ صرف یہ اللہ کی اس نصیحت سے بے بہرہ ہوئے، بلکہ یہ مذہبی جنونی اسلام کو وہ نقصان پہنچائیں گے جو دس امریکہ و اسرائیل بھی مل کر نہیں پہنچا سکتے۔

یہ لوگ ان کے اس غیر قانونی اقدام قتل پر خوش ہو کر تالیاں تو پیٹ رہے ہیں، مگر انہیں احساس نہیں کہ ان کے اس رویے سے مذہب اسلام کے خلاف دنیا میں کتنی نفرت پھیل رہی ہے اور دین اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے، اور مسلمانوں کو اب ایسے جنونی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ملکی قوانین کو ٹھوکر مارتا ہوا کبھی بھی کہیں بھی اقدام قتل جیسے افعال کا ارتکاب کر سکتا ہے۔
 
ایک تو غلطی کرنا اور دوسرا اس پر اتنے ڈھیٹ طریقے سے جمے رہنا۔

حق و انصاف کی بات اتنی صاف ہے کہ یہ لاکھ سر پٹخ لیں مگر اسلام کی لاٹھی ہر بار خود ان پر برستی رہے گی۔

جتنے مسلمان اس وقت غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں اُن پر معاہدے کے تحت لازم ہے کہ وہ ملکی قوانین کا مکمل احترام کریں گے۔

۔۔۔۔ کیا اس کے بعد کسی اور بحث کی گنجائش رہ جاتی ہے؟

قرآن تو کہتا ہے کہ ایفائے عہد کرو۔ رسول اللہ نے اسی ایفائے عہد کے تحت ابو جندل صحابی کو کفار مکہ کے حوالے واپس کر دیا۔ ۔۔۔۔۔ مگر کیا ہے کہ یہ آج کے انتہا پسند اپنی جنونیت میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری میں اپنے بنائی ہوئی نئی نئی شریعتیں لے آئے ہیں کہ جس کے بعد انہیں قران کا پاس ہے اور نہ اسوہ رسول کا، اور انکا مقصد و منشاء فقط اپنی جنونی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔

بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَo ہاں جو اپنا عہد پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے (اس پر واقعی کوئی مؤاخذہ نہیں) سو بیشک اﷲ پرہیز گاروں سے محبت فرماتا ہےo (آل عِمْرَان ، [size=-1]3[/size] : [size=-1]76)[/size]
پورا قرآن اسی ایفائے عہد کی نصیحت سے بھرا ہوا ہے، مگر یہ جنونیت ان کو کہیں کا نہیں رہنے دے گی اور دوسروں کو اندھا کہنے والے خود اس نصیحت سے کبھی فائدہ نہ اٹھا پائیں گے۔

نہ صرف یہ اللہ کی اس نصیحت سے بے بہرہ ہوئے، بلکہ یہ مذہبی جنونی اسلام کو وہ نقصان پہنچائیں گے جو دس امریکہ و اسرائیل بھی مل کر نہیں پہنچا سکتے۔

یہ لوگ ان کے اس غیر قانونی اقدام قتل پر خوش ہو کر تالیاں تو پیٹ رہے ہیں، مگر انہیں احساس نہیں کہ ان کے اس رویے سے مذہب اسلام کے خلاف دنیا میں کتنی نفرت پھیل رہی ہے اور دین اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے، اور مسلمانوں کو اب ایسے جنونی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ملکی قوانین کو ٹھوکر مارتا ہوا کبھی بھی کہیں بھی اقدام قتل جیسے افعال کا ارتکاب کر سکتا ہے۔

اب خلط مبحث سے مت کام لیں ۔اگر جواب نہیں آ رہا تو ادھر ادھر کی مت ہانکیں۔
ایفائے عہد کا توہین رسالت سے کیا واسطہ۔ خود اپنی ذات کو اگر گالیاں سنا پڑیں یا جوتے کھانا پڑیں تو اپنی عزت بچانے کے لیے اور کچھ نہیں تو وہاں سے بھاگ ضرور جائیں گئے۔ چنانچہ مسلمان اگر کسی ایسے دیس میں ہیں جہاں توہین رسالت ہو رہی ہے اور وہ خود علم الدین شہید اور عامر چیمہ شہید جیسی ہمت نہیں رکھتے تو ہجرت کر جائیں۔اور کہیں کا کوئی قانون ،قرآن وحدیث اور ناموس مصطفی سے بڑھ کر نہیں اور پھراگر کہیں بتوں کو سجدہ کرنا اور زنار پہنا قانون بن گیا تو کیا غیر ملکی قانون کی پاسداری میں میں یہ کام بھی کیا جائے گا؟ یہ آپ کا ہی دل گردہ ہو سکتا ہے کہ آپ سامنے اگر کوئی ہمارے نبی کی توہین کرے تو تم خاموش ہو جاو کسی سچے مسلمان کا نہیں۔
اور جنونی ایسے مسلمان نہیں بلکہ آپ جیسے لوگ ہو۔ جو پہلے فساد پھیلاتے ہو پھر جب کوئی مشتعل ہوجائے تو اس کو جنونی کہتے ہو۔
اور تم نے جواب نہیں دیا کہ حضرت علی بھی نعوذ باللہ mob justiceکے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟

نوٹ: اور ایسے تمام قوانین جائیں بھاڑ میں جو ناموس مصطفی و انبیا کرام کا تحفظ کرنے کے بجائے گستاخوں کو تحٍظ دیتے ہوں۔ یہی بات ہمارے دین نے ہم کو سکھائی ہے ۔اگر مغربی دنیا اس بات کا خیال نہیں کرے گی تو اس کو خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔
اور مغربی دنیا کے گن تو یوں گائے جائے ہیں جیسے وہاں سے مسلمانوں کے لیے پھلوں کی بارش ہو تی ہو؟ مغرب یہ سوچے گا وہ سوچے گا۔۔۔ خود مغرب کر کیا رہا ہے میر جعفر کی معنوی اولاد کبھی یہ سوچے گی یا نہیں؟
اور ایک بات مزید اگر بات ایفائے عہد یا کسی معاہدے کی پاسداری کی ہے تو کیا آپ کسی سے ایسا معاہدہ کر سکتے ہو کہ اس کے بدلے روزانہ آپ کو سو جوتے پڑیں اور پھر آپ اس معاہدے کی پاسداری کرو اور اس ایک قدم آگے بڑھ کر کیا کوئی ایسا معاہدہ شرعا عائد ہو سکتا ہے جس سے تو حید یا رسالت یا کسی بنیادی شرعی معاملے پر زد پڑتی ہو؟؟؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
اب خلط مبحث سے مت کام لیں ۔اگر جواب نہیں آ رہا تو ادھر ادھر کی مت ہانکیں۔
ایفائے عہد کا توہین رسالت سے کیا واسطہ۔ خود اپنی ذات کو اگر گالیاں سنا پڑیں یا جوتے کھانا پڑیں تو اپنی عزت بچانے کے لیے اور کچھ نہیں تو وہاں سے بھاگ ضرور جائیں گئے۔ چنانچہ مسلمان اگر کسی ایسے دیس میں ہیں جہاں توہین رسالت ہو رہی ہے اور وہ خود علم الدین شہید اور عامر چیمہ شہید جیسی ہمت نہیں رکھتے تو ہجرت کر جائیں۔اور کہیں کا کوئی قانون ،قرآن وحدیث اور ناموس مصطفی سے بڑھ کر نہیں اور پھراگر کہیں بتوں کو سجدہ کرنا اور زنار پہنا قانون بن گیا تو کیا غیر ملکی قانون کی پاسداری میں میں یہ کام بھی کیا جائے گا؟ یہ آپ کا ہی دل گردہ ہو سکتا ہے کہ آپ سامنے اگر کوئی ہمارے نبی کی توہین کرے تو تم خاموش ہو جاو کسی سچے مسلمان کا نہیں۔
اور جنونی ایسے مسلمان نہیں بلکہ آپ جیسے لوگ ہو۔ جو پہلے فساد پھیلاتے ہو پھر جب کوئی مشتعل ہوجائے تو اس کو جنونی کہتے ہو۔
اور تم نے جواب نہیں دیا کہ حضرت علی بھی نعوذ باللہ mob justiceکے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟

نوٹ: اور ایسے تمام قوانین جائیں بھاڑ میں جو ناموس مصطفی و انبیا کرام کا تحفظ کرنے کے بجائے گستاخوں کو تحٍظ دیتے ہوں۔ یہی بات ہمارے دین نے ہم کو سکھائی ہے ۔اگر مغربی دنیا اس بات کا خیال نہیں کرے گی تو اس کو خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔
اور مغربی دنیا کے گن تو یوں گائے جائے ہیں جیسے وہاں سے مسلمانوں کے لیے پھلوں کی بارش ہو تی ہو؟ مغرب یہ سوچے گا وہ سوچے گا۔۔۔ خود مغرب کر کیا رہا ہے میر جعفر کی معنوی اولاد کبھی یہ سوچے گی یا نہیں؟
اور ایک بات مزید اگر بات ایفائے عہد یا کسی معاہدے کی پاسداری کی ہے تو کیا آپ کسی سے ایسا معاہدہ کر سکتے ہو کہ اس کے بدلے روزانہ آپ کو سو جوتے پڑیں اور پھر آپ اس معاہدے کی پاسداری کرو اور اس ایک قدم آگے بڑھ کر کیا کوئی ایسا معاہدہ شرعا عائد ہو سکتا ہے جس سے تو حید یا رسالت یا کسی بنیادی شرعی معاملے پر زد پڑتی ہو؟؟؟؟

ان حضرت کی انتہا پسند جنونیت کو دیکھ کر بے اختیار زبان سے نکل گیا:

بک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا

جو بھی انکی جنونیت کے آگے عقل و انصاف کا بندھ باندھنے کی کوشش کرے گا، اُسکے خلاف یہ یوں ہی امریکہ و یورپ کے پٹھو ہونے کے اور اسلام مخالف ہونے کے فتووں کا طومار باندھ دیں گے۔

یہ شخص جو اس وقت ایسے بڑھ بڑھ کر تو تو کر کے بول رہا ہے اور اپنے ایمان کی ڈینگیں مار رہا ہے اور لڑنے مرنے اور ملکی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے قتل کرنے کی بات کر رہا ہے، تو انہی جیسے جنونیوں کی وجہ ان دوسرے معاشروں کے انتہا پسند بھی قوت حاصل کرتے جائیں گے اور انسان دوست قوتیں جو امن امان اور انسانیت چاہتے ہیں، وہ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائیں گی۔ کوئی بعید نہیں کہ انہی جنونیوں کی وجہ سے ایک دن بقیہ دنیا میں مسلمانوں کو مار مار کر باہر نکالا جا رہا ہو، ان پر تبلیغ کی پابندی ہو، انکا وجود برداشت کرنے کے لیے کوئی تیار نہ ہو۔

اور جو یہ لڑنے مرنے قتل کرنے اور جہاد وغیرہ کی ڈینگیں مار رہے ہیں تو انکا حال بھی انکے افغانی طالبان بھائیوں جیسا ہو گا کہ اپنے شہری نہتی آبادی، عورتوں و بچوں و لاغروں کو چھوڑ کر خود پہاڑوں میں بھاگتے چھپتے پھر رہے ہوں گے۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

جب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو اچھا ھے اسے یہیں روک دیں۔ سب پاکستانی ہیں سوچ سب کی اپنی اپنی ہوتی ھے سب ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ جب کوئی دلیل نہ ہو تو مہر بانی فرما کے ذاتیات پر اترنے سے اچھا ھے کہ خاموش ہی رہا جائے۔
ایک دوسرے سے غصہ اور ناراضگی اچھی بات نہیں
شکریہ

والسلام
 
ان حضرت کی انتہا پسند جنونیت کو دیکھ کر بے اختیار زبان سے نکل گیا:

بک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا

جو بھی انکی جنونیت کے آگے عقل و انصاف کا بندھ باندھنے کی کوشش کرے گا، اُسکے خلاف یہ یوں ہی امریکہ و یورپ کے پٹھو ہونے کے اور اسلام مخالف ہونے کے فتووں کا طومار باندھ دیں گے۔

یہ شخص جو اس وقت ایسے بڑھ بڑھ کر تو تو کر کے بول رہا ہے اور اپنے ایمان کی ڈینگیں مار رہا ہے اور لڑنے مرنے اور ملکی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے قتل کرنے کی بات کر رہا ہے، تو انہی جیسے جنونیوں کی وجہ ان دوسرے معاشروں کے انتہا پسند بھی قوت حاصل کرتے جائیں گے اور انسان دوست قوتیں جو امن امان اور انسانیت چاہتے ہیں، وہ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائیں گی۔ کوئی بعید نہیں کہ انہی جنونیوں کی وجہ سے ایک دن بقیہ دنیا میں مسلمانوں کو مار مار کر باہر نکالا جا رہا ہو، ان پر تبلیغ کی پابندی ہو، انکا وجود برداشت کرنے کے لیے کوئی تیار نہ ہو۔

اور جو یہ لڑنے مرنے قتل کرنے اور جہاد وغیرہ کی ڈینگیں مار رہے ہیں تو انکا حال بھی انکے افغانی طالبان بھائیوں جیسا ہو گا کہ اپنے شہری نہتی آبادی، عورتوں و بچوں و لاغروں کو چھوڑ کر خود پہاڑوں میں بھاگتے چھپتے پھر رہے ہوں گے۔

جب دلیل باقی نہ بچے تو حسب معمول یہ محترمہ یوں ہی چوک پر کھڑے اس مداری کی‌حیثیت اختیار کر جاتی ہیں جو مجمے کو متوجہ کرنے اور اپنی دہاڑی بنانے کے لیے طرح طرح کی فضول باتیں کر رہا ہوتا ہے۔ اوپر کی گئی پوسٹ میں کی گئی باتوں کا جواب دینے کی کوشش کریں اور پھر کہوں گا ادھر ادھر کی نہ ہانکیں۔
اور جو کچھ مجاہدین کر رہے ہیں وہ آپ جیسے دودھ پینے والے مجنون سوچ بھی نہیں سکتے۔ افغان طالبان بھاگ نہیں رہے اب نیٹو اور امریکا کی چھٹی کرنے والے ہیں۔ یہاں پڑھیں امریکی کمانڈر جنرل میک سٹینلی کیا کہ رہے ہیں۔
اور ذرا موضوع پر رہنا سکیھیں یہ نہیں جب جواب ختم ہوئے تو کوئی بھی طلسم ہوش ربا بیان کرنی شروع کردی۔
 
یہ کیا ہو رہا ہے بھئی؟
آپ لوگ آپس کی لڑائی پلیز کہیں اور لے کر جائیں۔

نبیل اسی تھریڈ میں گفتگو تو آپ سے بھی ہوئی لیکن بات ہر گز اخلاقی حدود سے باہر نہیں نکلی کیوں آپ نے اور میں نے اس بات کا خیال رکھا۔ لیکن ان محترمہ کی جوابی پہلی پوسٹ ہی دوغلے پن کے طعنے کے ساتھ شروع ہوئی اور اب بڑھتی جارہی ہے جس ٹون میں یہ مخاطب ہیں ویسا ہی طرز مجھے بھی اپنانا پڑ رہا ہے۔ بہرحال اب میں کوشش کروں گا کہ صرف ٹو دی پوائنٹ جواب دوں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جب دلیل باقی نہ بچے تو حسب معمول یہ محترمہ یوں ہی چوک پر کھڑے اس مداری کی‌حیثیت اختیار کر جاتی ہیں جو مجمے کو متوجہ کرنے اور اپنی دہاڑی بنانے کے لیے طرح طرح کی فضول باتیں کر رہا ہوتا ہے۔ اوپر کی گئی پوسٹ میں کی گئی باتوں کا جواب دینے کی کوشش کریں اور پھر کہوں گا ادھر ادھر کی نہ ہانکیں۔
اور جو کچھ مجاہدین کر رہے ہیں وہ آپ جیسے دودھ پینے والے مجنون سوچ بھی نہیں سکتے۔ افغان طالبان بھاگ نہیں رہے اب نیٹو اور امریکا کی چھٹی کرنے والے ہیں۔ یہاں پڑھیں امریکی کمانڈر جنرل میک سٹینلی کیا کہ رہے ہیں۔
اور ذرا موضوع پر رہنا سکیھیں یہ نہیں جب جواب ختم ہوئے تو کوئی بھی طلسم ہوش ربا بیان کرنی شروع کردی۔

حضرت، آپ یہاں اپنے مدرسے میں بچوں کو برین واش نہیں کر رہے بلکہ پڑھے لکھے طبقے سے بات کر رہے ہیں جو دلیل سے آپ کی مذہبی جنونیت کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
اور مداری اور ڈگڈگی دیکھنی ہے تو اُس شخص کی دیکھیں جو علی ابن ابی طالب کو عامر چیمہ جیسے مجرم و عہد شکن کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔
یہ عامر چیمہ وہ ہے جس نے بہ راضی و رضا حلف لیا تھا کہ وہ اس ملک کے قوانین کا احترام کرے گا۔ کسی نے جا کر اسکے آگے ہاتھ نہیں جوڑے تھے کہ سرکار آپ یہاں تشریف لے آئیے۔
تو ایسے بدعہد شخص کو علی ابن ابی طالب سے جوڑنے کی بات کوئی بہت ہی شقی القلب شخص ہی کر سکتا ہے۔ دکھائیں کہاں علی ابن ابی طالب نے ایسے معاہدے کر کے اُن کی عہد شکنی کی ہو؟
جتنی آپ بحث کرتے جائیں اتنا ہی آپ کا چہرہ بے نقاب ہوتا جائے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نبیل اسی تھریڈ میں گفتگو تو آپ سے بھی ہوئی لیکن بات ہر گز اخلاقی حدود سے باہر نہیں نکلی کیوں آپ نے اور میں نے اس بات کا خیال رکھا۔ لیکن ان محترمہ کی جوابی پہلی پوسٹ ہی دوغلے پن کے طعنے کے ساتھ شروع ہوئی اور اب بڑھتی جارہی ہے جس ٹون میں یہ مخاطب ہیں ویسا ہی طرز مجھے بھی اپنانا پڑ رہا ہے۔ بہرحال اب میں کوشش کروں گا کہ صرف ٹو دی پوائنٹ جواب دوں۔

اپنی پاکیزگی کے قصیدے پڑھنے سے پہلے ایک دفعہ یاد رکھئیے میں نے ان کو مخاطب تک نہیں کیا تھا اور میری گفتگو کا محور علم دین اور عامر چیمہ تھے۔
انکا پہلا جواب میری طرف یہ آیا:
اصل پيغام ارسال کردہ از: ابن حسن
عامر چیمہ شہید اور علم الدین شہید امت مسلمہ کے لیے ہیرو کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ امت فتنے، فتنہ پردازوں اور ان کی فتنہ پردازی سے بخوبی آگاہ ہے ۔۔۔۔۔
تو حضرت۔۔۔ اتنی نہ بڑھائیے اپنی پاکی دامن کی حکایت کہ آپ کو ہضم نہ ہو اور الٹیاں لگ جائیں۔
 
حضرت، آپ یہاں اپنے مدرسے میں بچوں کو برین واش نہیں کر رہے بلکہ پڑھے لکھے طبقے سے بات کر رہے ہیں جو دلیل سے آپ کی مذہبی جنونیت کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
اور مداری اور ڈگڈگی دیکھنی ہے تو اُس شخص کی دیکھیں جو علی ابن ابی طالب کو عامر چیمہ جیسے مجرم و عہد شکن کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔
یہ عامر چیمہ وہ ہے جس نے بہ راضی و رضا حلف لیا تھا کہ وہ اس ملک کے قوانین کا احترام کرے گا۔ کسی نے جا کر اسکے آگے ہاتھ نہیں جوڑے تھے کہ سرکار آپ یہاں تشریف لے آئیے۔
تو ایسے بدعہد شخص کو علی ابن ابی طالب سے جوڑنے کی بات کوئی بہت ہی شقی القلب شخص ہی کر سکتا ہے۔ دکھائیں کہاں علی ابن ابی طالب نے ایسے معاہدے کر کے اُن کی عہد شکنی کی ہو؟
جتنی آپ بحث کرتے جائیں اتنا ہی آپ کا چہرہ بے نقاب ہوتا جائے گا۔

نبیل کی بات کے بعد بہتر ہے کہ آپ بھی ذرا تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کریں‌ؤرنہ پھر ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہو گی۔
بات شروع mob justice سے ہوئی تھی اور علم الدین شہید اور عامر چیمہ شہید پر پہلا الزام یہ تھا کہ وہ mob justiceکے مرتکب ہوئے ہیں (حالانکہ یہ کسی طرح اس زمرے میں نہیں آتے) تاہم اس کے جواب میں میں نے یہ کہا تھا کہ توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت تو صحابہ کرام عہد نبوی سے دیتے چلے آئے ہیں اور دیگر کئی مثالوں کے ساتھ ایک مثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تھی کہ فتح مکہ کے بعد آپ نے حویرث کو اس جرم میں کعبہ کے نزدیک قتل کردیا تھا کیونکہ یہ نبی پاک کا دشمن تھا اور آپ کو اذیت دیا کرتا تھا۔ یہ واقعہ دیگر مورخین کے ساتھ ابن کثیر نے بھی البدایہ والنہایہ میں نقل کیا ہے

[ARABIC]قال‏:‏ والحويرث بن نقيذ بن وهب بن عبد قصي، وكان ممن يؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة، ولما تحمل العباس بفاطمة وأم كلثوم ليذهب بهما إلى المدينة يلحقهما برسول الله صلى الله عليه وسلم أول الهجرة، نخس بهما الحويرث هذا الجمل الذي هما عليه فسقطتا إلى الأرض، فلما أهدر دمه قتله علي بن أبي طالب‏[/ARABIC]
یہاں یہ کتاب دیکھی جاسکتی ہے

اور اوپر میرا سوال نظر انداز کرنے سے بہتر ہے کہ اس کا جواب دیں ۔ بتائیے کہ اگر کسی قانون یا معاہدے کی زد توحید و رسالت جیسے بنیادی عقائد اور اسلامی معاملات پر پڑتی ہو تو کیا ایسا معاہدہ نافذ ہوتا ہے یا نہیں۔
 
کیا آپ کے دوغلے رویے کی کوئی انتہا بھی ہے؟
آفرین ہے آپکے اس ہٹ دھرمی کے ساتھ دوغلے رویے کی وکالت کرنے پر۔
ہم انکے اس جنونی مذہبی دوغلے پن کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
میری باتیں کوٹ کر کہ اور مسلسل دوغلے پن کی رٹ لگا کر اب اتنی صفائی کہ ساتھ اپنی بات سے انکار؟؟؟؟؟؟؟؟
کچھ حیا و شرم بھی چیز ہوتی ہے کہ نہیں؟
اور پہلی پوسٹ میں ذرا آنکھیں کھلو کر دیکھئے کہ جمع کا صیغہ ہے فتنہ پردازوں یعنی ایک جنرل بات کی جارہی ہے۔ یہ امت سارے فتنہ پردازوں سے آگاہ ہے ۔ اور یہ اس بات کا جواب ہے کہ آپ عامر چیمہ اور علم الدین کی حمایت کو فتنہ قرار دے رہی ہیں ۔جبکہ اپنا رویہ دیکھیے آپ ڈائریکٹ مجھ سے مخاطب ہیں۔ اس میں کچھ فرق ہے یا نہیں۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

محترمہ جو یہ بات کہ رہی ہیں کہ شہید نے جرمنی قانون کا عہد کیا تھا تو میری اطلاع کے مطابق سٹوڈنٹ ویزہ جرمنی کا ہو یا پورے مغرب کا اس میں کہیں بھی یہ عہد نامہ نہیں لکھا ہوتا کہ وہ ان کے قانون کی پاسداری کرے گا ہاں یہ ضرور ھے کہ جب وہاں کی سیٹیزن شپ لی جاتی ھے تو اس وقت یہ حلف ضرور لیا جاتا ھے کونسل آفس میں میئر سے سامنے کہ وہ ان کے قانون کی پاسداری کرے گا۔ پھر اس کے بعد وہ سیٹیزن شپ دیتے ہیں اور اس میں بھی کوئی زبردستی نہیں اگر کوئی یہ کہے کہ میں حلف نہیں اٹھانا چاہتا تو بھی اس کو سیٹیزن شپ دے دیتے ہیں‌۔

اگر یہ کہا جائے کہ حلف اٹھا لیا تھا اور کیوں‌ ایسا کیا تو اس کا مطلب جو یہاں رہتے ہیں ان کے ساتھ کوئی بھی جرمن یا یوپین کچھ بھی غیر اخلاقی حرکت کرے تو وہ خاموشی سے آنکھیں بند کر لے کہ اس نے حلف لیا ہوا ھے۔

والسلام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top