اللہ موجود ہے

فرخ منظور

لائبریرین
آپکا شعر بہت خوب ھے لیکن ترتیب کچھ غلط ہو گئی

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ھے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر

(اقبال)

صحیح شعر یوں ہے اور یہ شعر علّامہ اقبال کا نہیں "بھرتری ہری " کا ہے علّامہ نے صرف اسے بالِ جبریل کے پہلے صفہے پر کوٹ کیا تھا -
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ھے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام ِنرم و نازک بے اثر
(بھرتری ہری)
 

حسن نظامی

لائبریرین
میں یہ سمجھتا ہوں ۔۔ بعض چیزیں ایسی ہوا کرتی ہیں جو عقل کی حد سے تجاوز کر جاتی ہیں ۔۔

جیسے ہمیں یہ تو معلوم ہے ۔۔ کہ اس آسمان میں ستارے ہیں مگر کوئی ایسا ہے جس کی عقل ان ستاروں کا شمار کر سکے ۔۔

اس لیے یہ کبھی بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو چیز عقل کی حدود میں نہیں آ سکتی وہ موجود نہیں ۔۔

بہت سی باتیں ہیں جن کو ہمارا ذہن نا رسا ناممکن خیال کرتا ہے مگر وہ ظہور پذیر ہو کر ہمیں ششدروحیران کر دیتی ہیں ۔۔

خدا ہے ۔۔ ایک سلیم الفطرت انسان اس بات کو تسلیم کیے بنا نہیں‌ رہ سکتا ۔۔

ایک دہریہ کے ساتھ امام ابو حنیفہ کا مناظرہ طے ہوا ۔۔

امام صاحب وقت مقررہ پر نہ پہنچے بلکہ کچھ لیٹ گئے ۔۔
دہریے نے کہا آپ لیٹ ہیں ۔۔ جو امام وقت کی پابندی نہ کر سکے وہ کچھ اور کیسے کرے گا ۔۔
امام صاحب نے فرمایا : بھائی بات سن لو پھر کچھ فیصلہ کرنا ۔۔ اس نے کہا کہیے: آپ نے فرمایا : ہوا یوں کہ میرے راستے میں ایک دریا ہے ۔ میں وہاں کشتی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ اچانک پاس سے ایک درخت خود بخود اکھڑا اور پھر اس کی لکڑی کٹی اس کے تختے بنے اور پھر وہ خود بخود ایک کشتی بن گئی پھر وہ کشتی میری طرف آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا وہ کشتی مجھے لے کر دوسرے کنارے پر آئی ۔۔ بس اس میں‌کچھ دیر ہو گئی ۔۔

دہریہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا ۔۔ یہ دیکھو مسلمانوں کا امام کتنا بڑا کذاب ہے ۔۔ حضرت نے کہا ہے کہ بنا بڑھئی کے کشتی بھی بنی اور بنا ملاح کے چلی اور حضرت کو کنارے پر پہنچا بھی گئی ۔۔
امام اعظم نے کہا : بھئی یہی تو میں بھی کہنا چاہتا ہوں ۔۔ جب ایک کشتی بنا بنانے والے کے بن نہیں سکتی ، بنا چلانے والے کے چل نہیں سکتی ، تو اتنی بڑی کائنات بالکل درست طور خود بخود کیسے چل سکتی ہے ۔۔

دہریہ انگشت بدنداں رہ گیا ۔ اور امام صاحب کے ہاتھ پر اسلام لے آیا ۔

اگرچہ یہ ایک سادہ سا واقعہ ہے ۔۔ اس میں نہ تو فلسفے کی موشگافیاں ہیں اور نہ ہی سائنس کی تھیوریاں ۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ سمجھنے کے لیے یہ بھی بہت کا فی ہے ۔۔
 

arshadmm

محفلین
میں یہ سمجھتا ہوں ۔۔ بعض چیزیں ایسی ہوا کرتی ہیں جو عقل کی حد سے تجاوز کر جاتی ہیں ۔۔

جیسے ہمیں یہ تو معلوم ہے ۔۔ کہ اس آسمان میں ستارے ہیں مگر کوئی ایسا ہے جس کی عقل ان ستاروں کا شمار کر سکے ۔۔

اس لیے یہ کبھی بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو چیز عقل کی حدود میں نہیں آ سکتی وہ موجود نہیں ۔۔

بہت سی باتیں ہیں جن کو ہمارا ذہن نا رسا ناممکن خیال کرتا ہے مگر وہ ظہور پذیر ہو کر ہمیں ششدروحیران کر دیتی ہیں ۔۔

خدا ہے ۔۔ ایک سلیم الفطرت انسان اس بات کو تسلیم کیے بنا نہیں‌ رہ سکتا ۔۔

ایک دہریہ کے ساتھ امام ابو حنیفہ کا مناظرہ طے ہوا ۔۔

امام صاحب وقت مقررہ پر نہ پہنچے بلکہ کچھ لیٹ گئے ۔۔
دہریے نے کہا آپ لیٹ ہیں ۔۔ جو امام وقت کی پابندی نہ کر سکے وہ کچھ اور کیسے کرے گا ۔۔
امام صاحب نے فرمایا : بھائی بات سن لو پھر کچھ فیصلہ کرنا ۔۔ اس نے کہا کہیے: آپ نے فرمایا : ہوا یوں کہ میرے راستے میں ایک دریا ہے ۔ میں وہاں کشتی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ اچانک پاس سے ایک درخت خود بخود اکھڑا اور پھر اس کی لکڑی کٹی اس کے تختے بنے اور پھر وہ خود بخود ایک کشتی بن گئی پھر وہ کشتی میری طرف آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا وہ کشتی مجھے لے کر دوسرے کنارے پر آئی ۔۔ بس اس میں‌کچھ دیر ہو گئی ۔۔

دہریہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا ۔۔ یہ دیکھو مسلمانوں کا امام کتنا بڑا کذاب ہے ۔۔ حضرت نے کہا ہے کہ بنا بڑھئی کے کشتی بھی بنی اور بنا ملاح کے چلی اور حضرت کو کنارے پر پہنچا بھی گئی ۔۔
امام اعظم نے کہا : بھئی یہی تو میں بھی کہنا چاہتا ہوں ۔۔ جب ایک کشتی بنا بنانے والے کے بن نہیں سکتی ، بنا چلانے والے کے چل نہیں سکتی ، تو اتنی بڑی کائنات بالکل درست طور خود بخود کیسے چل سکتی ہے ۔۔

دہریہ انگشت بدنداں رہ گیا ۔ اور امام صاحب کے ہاتھ پر اسلام لے آیا ۔

اگرچہ یہ ایک سادہ سا واقعہ ہے ۔۔ اس میں نہ تو فلسفے کی موشگافیاں ہیں اور نہ ہی سائنس کی تھیوریاں ۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ سمجھنے کے لیے یہ بھی بہت کا فی ہے ۔۔
بالکل یہی بات ہے۔ چیونٹی اور انسان کا تقابل کرنا کیسا ہو گا ؟ اور پھر انسان محدود سے حواس خمسہ محدود سا دماغ/عقل۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کا بھی ایک محدود سا حصہ ساری زندگی میں‌ استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں‌خود ضرورت ہے کہ ہم یقین کی دولت سے مالا مال ہوں اس درجے کا یقین کہ اس کی طاقت سے آپ کو کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔۔۔۔۔ اللہ معاف کرے اور ہمیں یقین کی دولت سے نوازے ہمارے اپنے یقین کتنے ڈھلمل ڈھلمل سے ہیں، جسکی وجہ سے کتنے طے شدہ معاملے ہیں‌ کہ اب ان پر پھر ہمیں‌ بحث و مباحثے کرنے پڑتے ہیں‌ ایسی باتیں‌جو سورج کی طرح‌ روشن اور چمکدار ہیں‌ ان پر بھی ہمارے یقین کمزور ہو چکے ہیں‌۔ فلم خدا کیلئے اس کی کتنی واضح مثال ہے
 

حسن نظامی

لائبریرین
علماء متقدمین اور خصوصا فقہاء نے یہ کہا ہے کہ اگر اللہ تعالی اپنی پہچان کے لیے نبیوں اور رسولوں کو نہ بھی بھیجتا تب بھی انسان کے لیے خدا کے وجود کو تسلیم کرنا ضروری ، فرض تھا ۔۔

کیونکہ خدا کو تسلیم کرنا انسان کی فطرت میں ازل سے موجود ہے ۔۔ جب رب نے روحوں سے سوال کیا ۔۔ الست بربکم " کیا میں تمہارا رب نہیں "قالوا بلا " تو انہوں نے کہا ہاں "

یہی وجہ ہے کہ سلیم الطبع اور عقلمند افراد ایک ایسی ہستی کے وجود کو تسلیم کرتے رہے ہیں جو سب سے برتر اور سب سے اعلی ہے ۔۔ ہر مذہب میں‌کسی نہ کسی صورت خدا کا وجود اسی بات کا ثبوت ہے ۔۔

دراصل خدا کے وجود کو تسلیم کرنا ہی ہمارے لیے سود مند ہے ۔۔ کیونکہ انسان زیادہ دیر تک اپنی فطرت کے خلاف نہیں رہ سکتا اور اگر وہ ایسی کوشش کرے تو پریشان اور بے سکون ہو جاتا ہے ۔۔


خدا کا وجود ماننا ہمارے لیے بہت بڑی تسلی کا باعث ہے ۔۔ ہم اس ذات پر یقین رکھ کر بے بسی جیسی لعنت سے بچ سکتے ہیں ۔۔ اور اپنی سی کوشش‌کر کے اس پر سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں ۔۔ جس سے ہمیں بے فکری کی دولت حاصل ہوتی ہے ۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہوتا؟
(غالب)
 

arshadmm

محفلین
خدا کا وجود ماننا ہمارے لیے بہت بڑی تسلی کا باعث ہے ۔۔ ہم اس ذات پر یقین رکھ کر بے بسی جیسی لعنت سے بچ سکتے ہیں ۔۔ اور اپنی سی کوشش‌کر کے اس پر سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں ۔۔ جس سے ہمیں بے فکری کی دولت حاصل ہوتی ہے ۔۔

یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں‌ دہریے خودکشی کرتے ہیں‌ پاگل ہو جاتے ہیں اور اللہ کا ماننے والا اللہ پر توکل کرنے والا اللہ کو رازق خالق ماننے والا ایک بے پایاں‌ اطمینان محسوس کرتا ہے کہ یہ اس کے رب کی مرضی ہے وہ اس کا ایک ادنی سے بھی ادنیٰ ایک ذرے سے بھی حقیر غلام ہے۔ اور پھر سکون سے سو جاتا ہے۔
الا بذکر اللہ تطمئن قلوب
خوب جان لو کہ دلوں کو اطمینان اللہ کی یاد ہی میں‌ ہے۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
سخنور بہت خوب شعر کہا ۔۔ اگر اس کی تشریح بھی کر دیں تو موضوع کی مناسبت سے بہت خوب رہے گی ۔۔

واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں ۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
سخنور بہت خوب شعر کہا ۔۔ اگر اس کی تشریح بھی کر دیں تو موضوع کی مناسبت سے بہت خوب رہے گی ۔۔

واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں ۔۔

حصور نظامی صاحب!‌بہت شکریہ لیکن میں حساس موضوعات پر تبصرہ نثر میں تو بالکل نہیں کرتا اسی لیے شعر لکھ دیتا ہوں - اگر نثر میں کروں گا یا اس شعر کی تشریح کروں گا تو شائد لوگ میرے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جائیں - جس سے میں بہت ڈرتا ہوں - براہ مہربانی اس کی تشریح آپ غالب کی تشریحات کی کتب میں سے دیکھ لیں اور مجھے معاف رکھیے اور میری معذرت قبول کیجئے - بہت شکریہ!
 

حسن نظامی

لائبریرین
ٹھیک ہے جناب جو مزاج یار میں آئے ۔۔۔۔ اگر آپ مجھ پر مہربانی کرنا چاہیں تو مجھے ذ پ کر دیں اس کی تشریح ۔۔۔ نوازش ہو گی ۔۔
 

کعنان

محفلین
حَبْلِ الْوَرِيدِ

سب نے بہت اچھے طریقے سے لکھا ھے اور اس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ھے

یہ سارے ترجمہ اس لیے دیے گئے ہیں کہ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اپنا ترجمہ لکھ دیا

مسلمان کے کسی بھی قرآنی ترجمہ کو غلط نہیں کہنا چاہیے الفاظ کی ادائگی ہوتی ھے مفہوم ایک ہی ہوتا ھے


بسم اللہ الرحمن الرحیم


وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ

سورة ق 50 الآية 16


Tahir ul Qadri
اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں


Ahmed Ali
اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کے دل میں گزرتا ہے اور ہم اس سے اس کی رگ گلو سے بھی زیادہ قریب ہیں


Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں


Shabbir Ahmed
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم ہی نے پیدا کیا ہے انسان کو اور ہم جانتے ہیں کہ کیا کیا وسوسے پیدا ہوتے ہیں اس کے دل میں۔ اور ہم زیادہ قریب ہیں اس کے اور اس کی رگِ جان سے بھی۔


Fateh Muhammad Jalandhary
اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں


Mehmood Al Hassan
اور البتہ ہم نے بنایا انسان کو اور ہم جانتےہیں جو باتیں آتی رہتی ہیں اُسکے جی میں اور ہم اُس سے نزدیک ہیں دھڑکتی رگ سے زیادہ


Yousuf Ali
It was We Who created man, and We know what dark suggestions his soul makes to him: for We are nearer to him than (his) jugular vein.

 
صحیح شعر یوں ہے اور یہ شعر علّامہ اقبال کا نہیں "بھرتری ہری " کا ہے علّامہ نے صرف اسے بالِ جبریل کے پہلے صفہے پر کوٹ کیا تھا -
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ھے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام ِنرم و نازک بے اثر
(بھرتری ہری)
جان کی امان پاءوں تو کچھ عرض کروں؟،،،،،شعر تو اقبال کا ھی ھے لیکن خیال آفرینی بھرتری ھری کی ھے۔۔۔۔:)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جان کی امان پاءوں تو کچھ عرض کروں؟،،،،،شعر تو اقبال کا ھی ھے لیکن خیال آفرینی بھرتری ھری کی ھے۔۔۔۔:)

یہ مراسلہ آج ہی میں نے دیکھا۔ آپ نے بالکل درست فرمایا کہ شعر اقبال کا ہی ہے۔ اقبال نے بھرتری ہری لکھ کر ہمیں بہکا دیا تھا۔ :)
 

ریحان

محفلین
میرے تبصرے کی کوئی اہمیت نہیں بنے گی ۔۔ پر آپ سے کچھ کہنا چاہوگا

اس دنیا میں ایتھسٹ موجود ہیں ۔۔۔ اللہ ہے کے نہیں یہ بحث ان کے ساتھ کرنی چاہیے ۔۔ ہم مسلمان ہیں ۔۔ اللہ پر یقین ہے ۔ پر ایک ایٹھیسٹ مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی ۔۔ اسے یقین کیوں نہیں !ِ

ہم نے یقین دلایا نہیں ۔۔ ہم جو آپس میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ لگے رہتے ہیں ۔
 
صحیح شعر یوں ہے اور یہ شعر علّامہ اقبال کا نہیں "بھرتری ہری " کا ہے علّامہ نے صرف اسے بالِ جبریل کے
یہ شعر علامہ اقبال ہی کا ھے، اُنہوں نے بھرتری ھری کو افکار کو نظم کیا ھے، بھرتریھری چھٹی ساتویں صدی عیسوی کا فلسفی ھے، اس کے افکار غالبا سنسکرت میں ھیں، اردو یا ھندی میں ھرگز نہیں۔ یہ اقبال کی دیانتداری ھے کہ اگرچہ شعر اُن ہی کا ھے لیکن چونکہ افکار ھری کے تھے لہذا انہیں نے اسے اُسی کے نام سے منسوب کیا۔ کلامِ اقبال میں بہت سے مفکرین اور فلسفیوں کی طرف اُن کے نام کے ساتھ اشارہ ملتا ھے، اقبال نے ھر جگہ اُن کے نام سے اشارہ کیا ھے، کہیں اُن پر تنقید کی ھے کہیں تعریف و توثیق۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ شعر علامہ اقبال ہی کا ھے، اُنہوں نے بھرتری ھری کو افکار کو نظم کیا ھے، بھرتریھری چھٹی ساتویں صدی عیسوی کا فلسفی ھے، اس کے افکار غالبا سنسکرت میں ھیں، اردو یا ھندی میں ھرگز نہیں۔ یہ اقبال کی دیانتداری ھے کہ اگرچہ شعر اُن ہی کا ھے لیکن چونکہ افکار ھری کے تھے لہذا انہیں نے اسے اُسی کے نام سے منسوب کیا۔ کلامِ اقبال میں بہت سے مفکرین اور فلسفیوں کی طرف اُن کے نام کے ساتھ اشارہ ملتا ھے، اقبال نے ھر جگہ اُن کے نام سے اشارہ کیا ھے، کہیں اُن پر تنقید کی ھے کہیں تعریف و توثیق۔
بہت پرانی بات کا اقتباس لے لیا ۔ جب ہم تحقیق کے سمندر میں نئے نئے غوطہ زن ہوئے تھے۔
 
Top