آؤ کرتے ہیں موت کی باتیں
غم کے پاتال میں ذرا جھانکیں
مضمون خوب لیا ہے ، بحیثیت مطلع کے ،کمزور ہے ۔
کریں خالی مکان یہ اپنا
لامکاں کو کہیں نکل جائیں
اچھا ہے ، مگر مصرع اولی ، پر گرفت کمزور رہی،
گھڑی کھولیں کلائی سے اپنی
اور زماں کے بھنور میں پھینک آئیں
اچھا بیان ہے مگر شعریت ۔۔ داغ دار ،
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شاعر نے کہا:
حصارِوقت سے آزاد ہی رکھا خود کو
کبھی کلائی پہ باندھی نہیں گھڑی ہم نے
(فیض عالم بابر،معاون مدیر روزنامہ جراء ت کراچی)
اب کے ٹوٹے شہابِ ثاقب تو
اُس کے پیچھے ہوا میں اڑ جائیں
وا حسرتا۔ بہر کیف ، ہوا کا محل نہیں خلا کی جگہ ہے ، شہابِ ثاقب خلا میں میسر آئے گا، جب پیچھے ہی جانا ہے تو۔۔
ویسے ایک شعر اس پر یاد آیا ،
ہاتھ بے ساختہ پھیلا دیے اس کی جانب
اور کیا کرتا میں ٹوٹے ہوئے تارے کے لیے
لیاقت علی عاصم
اب کے آتش فشاں پھٹے تو کہیں
موت کی روٹیاں پکا کھائیں
قولِ محال ہے ، واہ ، واہ۔ روٹیاں محلِ نظر ہے
میٹھے کڑوے یہاں کے پانی کو
آخری گھونٹ کیوں نہ پی جائیں
شعر برائے شعر ہے
زہر پی کر امر ہوا اک شخص
کیوں نہ ہم بھی کوئی پُڑی پھانکیں
پڑی نے اسے مزاح کے دائرے میں قید کرلیا ہے ،
ہم نے مر مر کے زندگی کاٹی
ہم سمجھتے ہیں موت کی گھاتیں
اچھا ہے ، بہت خوب ، داخلی و خارجی واردات ہے ،و اہ
کوئی سویا، تو رہ گیا سوتا
بس کہ لمبی ہیں موت کی راتیں
بے شک، معلوم حقیقتوں کا بیان شاعری نہیں منظوم صحافت ہے ، جب تک کہ اس میں شعریت نہ ہو
کئی گولی کی زد میں آ کے مرے
چار جانب بکھر گئیں لاشیں
پھر وہی صحافت، محض شعر گھڑا گیا ہے
اک صدا سینی ٹوریم سے اٹھی
پانچ نمبر کو آؤ داب آئیں
معانی بہ بطنِ شاعر ، 5 نمبر کیا ہے،
بہہ گیا پانیوں میں کوئی جہاز
لے کے کمپاس ڈھونڈتا راہیں
خانہ پوری، محض غزل کا پیٹ بھرا گیا ہے۔
مرنے والے نے سادھ لی ہے چُپ
ہم تو زندہ ہیں ہم تو کُرلائیں
گو کہ کرلائیں ایک بولی سے لیا گیا ہے ، مگر کیا لطف دے رہا ہے ، واہ واہ
خالد علیگ مرحوم نے کہا تھا۔
یہ لوگ مردہ پرستی کے فن میں ماہرہیں
یہ مجھ کو روئیں گےکل آج ان کورولوں میں
اب غزل پر مجموعی رائے: غزل باقائدہ مشق کی نشاندہی کرتی ہے ، یعنی شاعر نے باقائدہ اسے کہنے کی کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کہیںکہیں تو رو میں آگیا ، اور زیادہ تر ، ناکام رہا ، اسی سبب سے شعریت عنقا، بحیثیتِ مجموعی غزل برائے غزل ہے ۔ شکریہ
فرخ بھائی پیش کرنے کے لیےممنون ہوں، بہت بہت شکریہ