سوات ڈیل مبارک ہو

فرخ

محفلین
میں سوچ رہا تھا کہ میرے علم میں اضافہ کریں گے آپ ۔ مگر آیت میں تو درے ہیں نا کہ سنگسار ۔
وسلام
میں نے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے آئیت ابھی یاد نہیں۔:) اور یہ مسٗلہ شادی شدہ لوگوں کے زنا کرنے پر سنگسار کرنے کا ہے۔اور سنگسار کا حُکم احادیث میں ہے۔
 

خرم

محفلین
میں نے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے آئیت ابھی یاد نہیں۔:) اور یہ مسٗلہ شادی شدہ لوگوں کے زنا کرنے پر سنگسار کرنے کا ہے۔اور سنگسار کا حُکم احادیث میں ہے۔

سنگساری کی سزا کی جو احادیث ملتی ہیں ان دونوں‌واقعات میں رضاکارانہ اعتراف ہوا تھا اور اس کے باجود سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ کسی طرح انہیں ٹال دیا جائے۔ صحابی کا نام نہیں یاد آرہا لیکن تین دفعہ سرکار نے ان سے اعراض‌فرمایا اور چوتھی دفعہ اعتراف پر سنگساری کا حکم لگایا۔ اور جب اصحاب نے آکر بتایا کہ جب سنگساری شروع ہوئی تو ان صحابی نے کہا کہ لوگو مجھے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلو تو سرکار نے تاسف سے فرمایا "تو پھر تم لوگ انہیں‌لے کر کیوں نہ آئے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگتا اور اللہ اسے معاف فرمادیتا" اسی طرح زنا کے گواہوں کے لئے یہ بھی ہدایت ہے کہ اگر تم کسی کا عیب چھپاؤ گے تو اللہ قیامت کے دن تمہارے عیب چھپائے گا۔ سو یہ حدود موجود ہیں لیکن اصل مقصد ان کا غالباَ اس وقت نفاذ ہے جب کوئی ان گناہوں کے ارتکاب میں حد سے بڑھ جائے۔ اسلام کا بنیادی اصول نشان عبرت بنانا نہیں بلکہ انسان کے اپنے ضمیر کو جگانا ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں سےرجوع کرے اور اللہ کی شان غفاری کا اظہار ہو۔ اور یہ بھی حدیث ہے کہ اگر کسی کو قتل کی سزا دو تو اس پر رحمدلی کرو یعنی اسے اس طریقے سے مارو کہ اسے زیادہ تکلیف نہ ہو۔ رُسوا کرکے مارنے کا حکم تو قتل کے ضمن میں بھی نہیں آیا جو کہ فتنہ کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔
 

فرخ

محفلین
سنگساری کی سزا کی جو احادیث ملتی ہیں ان دونوں‌واقعات میں رضاکارانہ اعتراف ہوا تھا اور اس کے باجود سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ کسی طرح انہیں ٹال دیا جائے۔ صحابی کا نام نہیں یاد آرہا لیکن تین دفعہ سرکار نے ان سے اعراض‌فرمایا اور چوتھی دفعہ اعتراف پر سنگساری کا حکم لگایا۔ اور جب اصحاب نے آکر بتایا کہ جب سنگساری شروع ہوئی تو ان صحابی نے کہا کہ لوگو مجھے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلو تو سرکار نے تاسف سے فرمایا "تو پھر تم لوگ انہیں‌لے کر کیوں نہ آئے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگتا اور اللہ اسے معاف فرمادیتا" اسی طرح زنا کے گواہوں کے لئے یہ بھی ہدایت ہے کہ اگر تم کسی کا عیب چھپاؤ گے تو اللہ قیامت کے دن تمہارے عیب چھپائے گا۔ سو یہ حدود موجود ہیں لیکن اصل مقصد ان کا غالباَ اس وقت نفاذ ہے جب کوئی ان گناہوں کے ارتکاب میں حد سے بڑھ جائے۔ اسلام کا بنیادی اصول نشان عبرت بنانا نہیں بلکہ انسان کے اپنے ضمیر کو جگانا ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں سےرجوع کرے اور اللہ کی شان غفاری کا اظہار ہو۔ اور یہ بھی حدیث ہے کہ اگر کسی کو قتل کی سزا دو تو اس پر رحمدلی کرو یعنی اسے اس طریقے سے مارو کہ اسے زیادہ تکلیف نہ ہو۔ رُسوا کرکے مارنے کا حکم تو قتل کے ضمن میں بھی نہیں آیا جو کہ فتنہ کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔

ویسے تو یہ ایک بالکل علیحدہ موضوع بحث ہے جس سے میں بچنا ہی چاہتا ہوں۔ مگر صرف آپ کی بات میں، جن واقعات کی آپ بات کر رہے ہیں، غور کریں تو ان میں جب جُرم ثابت ہو گیا اور اقرار کر لیا گیا، تب سزا نافذ کی گئی۔اور زنا کی جو بھی سزا ہو، نافذ ہی اس وقت ہوتی ہے جب اس کا اقرار کر لیا جائے اور ثابت ہو جائے، یا کم از کم چار گواہوں کی گواہی اور مضبوط گواہی موجود ہو، تب۔ (اسی وجہ سے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سزا کو نافذ کیا اور وہ اللہ کے حُکم سے کرتے تھے)

ورنہ اس بات کا ذکر تو قرآنی آیات میں بھی ہیں، کہ مقدمے میں جن لوگوں‌پر الزام ہو، وہ اللہ کی قسم کھا کر سزا کو ٹال سکتے ہیں۔

یہ سنگسار والی سزا تو بہت آخری آپشن ہوتا ہے جب جرم عیاں ہو جائے اور کوئی چارہ نہ رہے۔اور عیب چھپانے والی بات بالکل ٹھیک ہے اسی طرح جرم اور گناہ کو بھی مشہور نہیں کرنا چاہیئے۔اسکے دیگر اور بھی نقصانات ہیں ، جو آجکل کے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے Expose کیے گئے گناہوں‌اور جرائیم کے اثرات اور تربیت و تعلیم کی صورت میں‌بہت سامنے آئےہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ نشانِ عبرت بنانا بنیادی اصول نہیں، مگر جب جُرم ثابت ہو جائے تو پھر سزا ایسی ہو کہ عبرت رہے اور لوگوں میں خوف و کراہت پیدا ہو۔ اور یہی چیز دیکھنے والوں میں بھی ضمیر کے جاگنے کا بڑا سبب بنتی ہے اور باقی لوگ ایسے جرم اور گناہ کا ارتکاب کرنے کے بچتے ہیں کہ جس کی عبرت ناک سزا ہو۔ ورنہ جہاں عبرت ناک سزائیں نہیں ہوتیں تو ان ممالک میں‌جرائیم کی شرح آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے لوگوں‌کے ضمیر جاگے ہیں اور کتنے لوگوں نے اللہ سے رجوع کیا ہے۔ ان میں‌مسلم اور غیر مسلم ممالک دونوں‌شامل ہیں۔

یہ یاد رکھئے گا کہ اسلام کا فلسفہ اچھائی، بھلائی کی طرف بہت نرم اور آسان راستے پیدا کرتا ہے، جبکہ برائی اور جرم کے خلاف انتہائی سخت۔جبکہ مغفرت اور معافی کا راستہ بھی کھُلا رکھا جاتا ہے
 

طالوت

محفلین
میں نے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے آئیت ابھی یاد نہیں۔:) اور یہ مسٗلہ شادی شدہ لوگوں کے زنا کرنے پر سنگسار کرنے کا ہے۔اور سنگسار کا حُکم احادیث میں ہے۔
تو پھر آپ اپنا وہ مراسلہ درست کر لیں کہ اس میں آپکے مطابق سنگساری کی سزا قران میں موجود ہے مگر آپ کو آیت یاد نہیں ۔ وہاں سنگساری کے بدلے درے یا آیت کی بجائے حدیث/روایت لکھ دیں ۔
وسلام
 

فرخ

محفلین
تو پھر آپ اپنا وہ مراسلہ درست کر لیں کہ اس میں آپکے مطابق سنگساری کی سزا قران میں موجود ہے مگر آپ کو آیت یاد نہیں ۔ وہاں سنگساری کے بدلے درے یا آیت کی بجائے حدیث/روایت لکھ دیں ۔
وسلام

لیجئیے جناب، درست کر دی۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے اس تصحیح کروانے پر :blushing:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ميں نے اکثر فورمز پر يہ رائے پڑھی ہے کہ امريکہ سوات ميں طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ کچھ دوستوں نے تو يہاں تک لکھا کہ پاکستانی فوج اس "حقيقت" سے پوری طرح آگاہ ہو چکی ہے۔ اگر يہ درست ہوتا تو پاکستانی فوج امريکہ سے فوجی امداد اور سازوسامن کيوں وصول کرتی؟

زمين پر حقائق اس کے بالکل متضاد ہيں۔

حکومت امريکہ نے پاکستانی حکومت کی درخواست پر آج پاک فوج کو چار ايم آئ 17 کارگو ہيلی کاپٹرز فراہم کئے ہيں۔ يہ اضافی ہيلی کاپٹرز جنگجو انتہا پسندوں کے خلاف موجودہ آپريشن ميں پاکستان کی صلاحيتوں کو بڑھانے اور لڑائ کے نتيجے ميں بے گھر ہونے والے لاکھوں پاکستانيوں کی ديکھ بھال کی کوششوں ميں اعانت کے ليے ہيں۔ امريکہ مزيد ايم آئ 17 ہيلی کاپٹرز کی نشاندہی کر رہا ہے جو مستقبل ميں پاکستان کے ليے دستياب ہوں گے۔

http://www.dawn.com/wps/wcm/connect...our-mi-17-cargo-helicopters-to-the-army-zj-05

http://img196.imageshack.us/img196/5774/clipimage002ehg.jpg

http://img194.imageshack.us/img194/2994/clipimage003w.jpg

امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان فوج کی براہ راست امداد اس بات کا ثبوت ہے کہ امريکہ پختہ عزم کے ساتھ حکومت پاکستان اور پاک فوج کی مدد سے اپنے مشترکہ دشمن کو غير مستحکم اور کمزور کر کے اسے مکمل شکست دينے کا خواہ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

باسم

محفلین
پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی فکر چھوڑ کر افغانستان میں غائب ہونے والے اپنے ہتھیاروں کی فکر کرے‘ کیونکہ خدشہ ہے کہ یہ ہتھیار پاکستان میں استعمال ہو رہے ہیں۔ گزشتہ روز سی این این کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے امریکی حکومت کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ افغان آرمی کو دیئے جانے والے اسلحہ کی کم از کم ایک تہائی تعداد (دو لاکھ 42 ہزار) کا پینٹاگون کے پاس ریکارڈ موجود نہیں۔
نوائے وقت
راولپنڈی (آئی این پی)پاک فوج کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی بجائے افغانستان میں گم ہونے والے اپنے ہتھیاروں کی فکر کرے ‘ سو ات میں طالبان کو نیٹو کے ہتھیار بھی مل رہے ہیں اور انہیں غیر ملکی انٹیلی جنس اداروں کی حمایت حاصل ہے‘ دس سے پندرہ فیصد طالبان غیر ملکی ہیں
روزنامہ جناح
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

نوائے وقت

اس ميں کوئ شک نہيں کہ کسی بھی نظام ميں خرابی يا کمی کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ليکن بنيادی بات يہ ہے کہ مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے احتساب کا ايک مربوط اور موثر نظام موجود ہے۔ جس رپورٹ کا حوالہ ديا گيا ہے وہ امريکی حکومت ہی کے احتساب سے متعلق ادارے نے کانگريس کی کميٹی کے سامنے پيش کی تھی۔ يہ امر ايک شفاف اور واضح طريقہ کار کو واضح کرتا ہے۔

آپ مکمل رپورٹ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1241297&da=y

اس رپورٹ کے مطابق دسمبر 2004 سے جون 2008 تک افغان سيکورٹی فورسز کو جو اسلحہ فراہم کيا گيا، اس کی ترسيل کے نظام میں نقائص تھے۔ رپورٹ ميں اسلحے کے اعداد وشمار ميں موجود خاميوں پر بھی تفصيلی تجزيہ اور نظام ميں بہتری کے ليے تجاويز بھی پيش کی گئيں۔ آخر ميں ڈيفنس ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے وضاحت اور تجاويز کے لیے لائحہ عمل بھی رپورٹ ميں شامل کيا گيا۔

جہاں تک آئ – ايس – پی – آر کی جانب سے اس رپورٹ پر تبصرے کا سوال ہے تو اس ضمن ميں يہ رپورٹ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ امريکی حکومت اپنے ارادے اور عزم ميں مخلص ہے۔ افراد اور متعلقہ ادارے اپنی مجموعی کارکردگی اور پرفارمنس کے لیے ايک منظم نظام کے تحت جواب دہ ہيں۔

امريکی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر احتساب رپورٹ سے اس تاثر کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ امريکہ دانستہ دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

راشد احمد

محفلین
نوائے وقت

اس ميں کوئ شک نہيں کہ کسی بھی نظام ميں خرابی يا کمی کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ليکن بنيادی بات يہ ہے کہ مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے احتساب کا ايک مربوط اور موثر نظام موجود ہے۔ جس رپورٹ کا حوالہ ديا گيا ہے وہ امريکی حکومت ہی کے احتساب سے متعلق ادارے نے کانگريس کی کميٹی کے سامنے پيش کی تھی۔ يہ امر ايک شفاف اور واضح طريقہ کار کو واضح کرتا ہے۔

آپ مکمل رپورٹ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1241297&da=y

اس رپورٹ کے مطابق دسمبر 2004 سے جون 2008 تک افغان سيکورٹی فورسز کو جو اسلحہ فراہم کيا گيا، اس کی ترسيل کے نظام میں نقائص تھے۔ رپورٹ ميں اسلحے کے اعداد وشمار ميں موجود خاميوں پر بھی تفصيلی تجزيہ اور نظام ميں بہتری کے ليے تجاويز بھی پيش کی گئيں۔ آخر ميں ڈيفنس ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے وضاحت اور تجاويز کے لیے لائحہ عمل بھی رپورٹ ميں شامل کيا گيا۔

جہاں تک آئ – ايس – پی – آر کی جانب سے اس رپورٹ پر تبصرے کا سوال ہے تو اس ضمن ميں يہ رپورٹ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ امريکی حکومت اپنے ارادے اور عزم ميں مخلص ہے۔ افراد اور متعلقہ ادارے اپنی مجموعی کارکردگی اور پرفارمنس کے لیے ايک منظم نظام کے تحت جواب دہ ہيں۔

امريکی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر احتساب رپورٹ سے اس تاثر کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ امريکہ دانستہ دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

ایک دو ہتھیار ہوں تو بندہ مان سکتا ہے کہ امریکہ نہیں دیتا۔ ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی باقاعدہ ٹریننک دی گئی ہے۔

امریکہ ایک طرف تو پاکستان کو جنگ کے لئے اکساتا ہے تودوسری طرف درپردہ طالبان کی مدد بھی کرتا ہے۔ طالبان سے امریکی اسلحہ تھوڑی تعداد میں نہیں بہت بڑی تعداد میں پکڑا گیا ہے لیکن ایسا ہی اسلحہ طالبان کے پاس ابھی بھی موجود ہے۔ ثبوت اور حقائق امریکہ کے خلاف جارہے ہیں لیکن پاکستان حکام عوام سے حقائق چھپانا چاہتے ہیں مگر کسی نہ کسی ذریعہ سے حقائق عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید انکشافات ہوں گے انتظار کریں۔۔۔۔۔
 

فرخ

محفلین
ایک دو ہتھیار ہوں تو بندہ مان سکتا ہے کہ امریکہ نہیں دیتا۔ ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی باقاعدہ ٹریننک دی گئی ہے۔

امریکہ ایک طرف تو پاکستان کو جنگ کے لئے اکساتا ہے تودوسری طرف درپردہ طالبان کی مدد بھی کرتا ہے۔ طالبان سے امریکی اسلحہ تھوڑی تعداد میں نہیں بہت بڑی تعداد میں پکڑا گیا ہے لیکن ایسا ہی اسلحہ طالبان کے پاس ابھی بھی موجود ہے۔ ثبوت اور حقائق امریکہ کے خلاف جارہے ہیں لیکن پاکستان حکام عوام سے حقائق چھپانا چاہتے ہیں مگر کسی نہ کسی ذریعہ سے حقائق عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید انکشافات ہوں گے انتظار کریں۔۔۔۔۔

اسکے علاوہ یہ خبر بھی عام ہو چُکی ہے کہ امریکی سی آئی اے یہ کاروائیاں سر انجام دیتی ہے اور اپنی تاریخ کی سب سے بڑی گیم یہاں کھیل رہی ہے۔ جس میں ایک طرف طالبان کو سپورٹ فراہم کرنا اور جنگ پر اُکسانا شامل ہے اور دوسری طرف امریکی حکومت پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے۔
نتیجہ امریکہ کا نقصان نہیں ، بلکہ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کا جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے اور یہ تلخ حقائق سب کے سامنے ہیں۔
ایک امریکہ تجزیہ نگار کا فکر انگیز تجزیہ جو اس بات کی قلعی کھولتا ہے کہ طالبان کے پیچھے کون ہے:


فواد صاحب امریکی حکومت کے ملازم ہیں‌اور ظاہر ہے انہی کا کھاتے ہیں۔ اب اپنے منہ سے اپنے کھلانے والوں کی برائی تو کر نہیں سکتے، تو کم ازکم ہمیں دھوکا دینے کے طریقے تو مت ڈھونڈیں جناب۔ :thumbsdown:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ثبوت اور حقائق امریکہ کے خلاف جارہے ہیں لیکن پاکستان حکام عوام سے حقائق چھپانا چاہتے ہیں مگر کسی نہ کسی ذریعہ سے حقائق عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید انکشافات ہوں گے انتظار کریں۔۔۔۔۔


آپ کی رائے شايد بيت اللہ محسود کے ساتھی کے اس حاليہ بيان کے تناظر ميں ہے جس ميں اس نے يہ دعوی کيا تھا کہ بيت اللہ محسود امريکی ايجنٹ ہے۔

"طالبان کو امريکہ کی سپورٹ" – اس تھيوری کے حوالے سے يہ نقطہ نظر بيان کيا جاتا ہے کہ امريکہ پاکستان کو غير مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ جو دوست انتہائ جذباتی انداز ميں اس موقف کی تشہير کرتے ہيں، وہ يہ نقطہ يکسر نظرانداز کر ديتے ہيں کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد ميں امريکی فوجی افغانستان ميں موجود ہیں۔ پاکستان ميں افراتفری اور عدم استحکام کا اثر براہراست افغانستان ميں موجود امريکی اور نيٹو افواج کی سيکورٹی اور آپريشن پر پڑے گا۔ جیو ٹی وی پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ اپنے حاليہ انٹرويو ميں رچرڈ ہالبورک نے بھی "ايف – پاک" کی اصطلاح کی يہی وضاحت کی تھی کہ دونوں ممالک ميں سيکورٹی اور استحکام ايک دوسرے سے منسلک ہے۔

سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ امريکہ پاکستان ميں دہشت گردوں کی مدد کے ذريعے عدم استحکام پيدا کر کے خود اپنے ہی فوجيوں کی زندگی خطرے ميں کيوں ڈالے گا؟

ايک طرف تو امريکہ پر الزام لگايا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کر کے اس کے ايٹمی اساسوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ليکن يہ نظرانداز کر ديا جاتا ہے کہ جو چيز پاکستان کو کمزور کر رہی ہے وہ دہشت گردی اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی بے چينی کی فضا ہے نا کہ امريکی حکومت جو کہ اب تک حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کئ ملين ڈالرز کی امداد دے چکی ہے۔ اگر امريکہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہوتا تو اس کے ليے دہشت گردوں کی کارواۂياں ہی کافی تھيں، امريکہ کو اپنے 10 بلين ڈالرز ضائع کرنے کی کيا ضرورت تھی۔

اگر منطق اور دانش کو نظرانداز کر کے اور تمام اعداد وشمار کو بالائے طاق رکھ کر انفرادی بيانات کی بنياد پر مفروضے بنانا ہی معيار ہے تو پھر ميرا بھی ايک سوال ہے

کيا ايک ايسے شخص کے بيان کو قابل اعتماد قرار ديا جا سکتا ہے جو خود اپنے بيان کے مطابق ايسے گروہ کے ساتھ کام کرتا رہا ہے جو بے نظير بھٹو سميت سينکڑوں بے گناہ پاکستانيوں کی موت کا ذمہ دار ہے؟

جہاں تک ايٹمی اساسوں کے حوالے سے تشويش کا سوال ہے تو ميڈيا کی قياس آرائيوں اور اخباری تبصروں سے ہٹ کر ميں آپ کی توجہ امريکی صدر کے حاليہ بيان کی طرف دلواتا ہوں جنھوں نے حال ہی ميں پاکستان کی عوام کے لیے 5۔1 بلين ڈالرز کا امدادی پيکج منظور کيا ہے۔

"مجھے اس بات پر مکمل اعتماد ہے کہ حکومت پاکستان نے ايٹمی اساسوں کی حفاظت کا انتظام کيا ہے۔ يہ اساسے پاکستان کی ملکيت ہيں۔ ميری تشويش اس حوالے سے ہے کہ طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيميں افغانستان، ايشيا اور مشرق وسطی ميں اپنی جڑيں مضبوط نہ کر لیں"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
کمزور پاکستان امریکہ کے حق میں نہیں ہے، اسلئے بیت اللہ محسود کے مظبوط کرکے پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش میں شامل لوگوں کو تلاش کرنے کے لئے سات سمندر پار نہیں‌ بلکہ اڑوس پڑوس میں ہی جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہر چیز کے پیچھے امریکہ نہیں‌ہوتا۔

جب کشمیر کی شورش کی بات آتی ہے تو اس میں بلا شبہ پاکستانی حمایت دکھائی دیتی ہے ، اسی طرح جب پاکستان کے شمالی علاقوں میں‌ایک کمزور دیوار دکھائی دی تو دشمن نے اسے گرا کر اپنے لئے رستہ بنایا اور پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی سازش شروع کر دی۔

اسی لئے عالمی برادری چاہتی ہے کہ پاکستان کے پڑوسی اس سے تعلقات بہتر بنائیں اور یہ اندرونی سازشیں بند کی جائیں، تبھی خطے میں‌امن قائم ہو سکتا ہے ۔
 

گرائیں

محفلین
آپ سب حضرات ، جو کسی نہ کسی طرح فواد کے کی بورڈ سے اپنے مطلب کی بات نکلوانا چاہتے ہیں، آپ کی خدمت میں ایک عرض ہے۔

عرض یہ ہے کہ فی زمانہ ہر وہ بات جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سرکاری اداروں کی تصدیق شدہ نہیں ہو گی، سازشی تھیوری کہلائے گی۔

کیوں اپنے آپ کو ہلکان کرتے ہیں، آپ لوگ؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

عرض یہ ہے کہ فی زمانہ ہر وہ بات جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سرکاری اداروں کی تصدیق شدہ نہیں ہو گی، سازشی تھیوری کہلائے گی۔


يہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نہيں بلکہ پاکستان کے ايک ممتاز سينيٹر کا حاليہ بيان ہے کہ پاکستان کو زمينی حقائق سمجھنے کے ليے "سازش" کا لفظ اپنی ڈکشنری سے نکالنا ہو گا۔

جہاں تک "سازشی تھيوري" کی اصطلاح کا سوال سے تو آپ پاکستان ميڈيا پر نيوز اور حالات حاظرہ پر جاری ٹاک شوز پر ايک سرسری نظر ڈاليں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ کون اس اصطلاح کا زيادہ استعمال کر رہا ہے۔

جہاں تک امريکی حکومت کا سوال ہے تو يہ بات ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں بتا رہا ہوں کہ امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ چاہے وہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو ہو، ايران کے ايٹمی پروگرام کے حوالے سے رپورٹ ہو يا افغانستان اور عراق میں درپيش چيلينجز ہوں، امريکی حکومت کے اہلکار اور عوام کے مختلف طبقات ہر موضوع پر بغير کسی خوف وخطر کے اپنے خيالات کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

امريکی حکومت کی جانب سے جذبات اور متضاد خيالات کے اظہار کے حوالے سے برداشت کی ايک مثال يہ خبر ہے کہ حال ہی ميں دو امريکی سفارت کاروں کو اس بات پر ايوارڈ ديا گيا کہ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران امريکی حکومت کی بعض پاليسيوں نے صرف اختلاف کيا بلکہ مسلسل اپنی رائے کا اظہار کر کے امريکی حکومت کو اپنے فيصلے تبديل کرنے پر مجبور کيا۔ يہی نہيں بلکہ ہر سال ايسے سفارت کاروں کو باقاعدہ ايوارڈ ديے جاتے ہیں جو سرکاری پاليسی سے تعميری اختلاف کا اظہار کرتے ہيں۔


http://seattletimes.nwsource.com/html/politics/2008004869_apdiplomaticdissent.html?syndication=rss

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
ہالبروک نے اپنے حال میں دئے گئے بیان میں جو کہ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے دیا تھا کہا ہے کہ پاکستانی رائے عامہ دہشت گردوں‌کے خلاف ہے جس کی وجہ سے یہ جنگ آسان ہے، یعنی کے پاکستانیوں‌کی واضح‌اکثریت طالبان کی حامی نہیں ہے اور نہ ہی اینٹی امریکہ جذبات موجود ہیں ، ہاں‌ ایک خاص اقلیت جو کہ ماضی میں‌جہاد کی کاروائیوں‌میں برسر پیکار رہی ہے اسکا پروپیگنڈہ سیل یہ کارڈ بخوبی استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کی جڑوں‌کو اندر سے کھوکھلا کرنے میں دشمن کی مدد کر رہا ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے اور طالبان ہی اسلام کے صحیح‌ ٹھیکیدار ہیں۔

کوئی بھی عوامی پول باقائدہ مستند اداروں‌کے ذریعے ہی کیا جاتا ہےا ور اسکی بنیاد پر ہی سیاسی، معاشرتی اور عسکری فیصلے کئے جاتے ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
ہالبروک نے اپنے حال میں دئے گئے بیان میں جو کہ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے دیا تھا کہا ہے کہ پاکستانی رائے عامہ دہشت گردوں‌کے خلاف ہے جس کی وجہ سے یہ جنگ آسان ہے، یعنی کے پاکستانیوں‌کی واضح‌اکثریت طالبان کی حامی نہیں ہے اور نہ ہی اینٹی امریکہ جذبات موجود ہیں ، ہاں‌ ایک خاص اقلیت جو کہ ماضی میں‌جہاد کی کاروائیوں‌میں برسر پیکار رہی ہے اسکا پروپیگنڈہ سیل یہ کارڈ بخوبی استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کی جڑوں‌کو اندر سے کھوکھلا کرنے میں دشمن کی مدد کر رہا ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے اور طالبان ہی اسلام کے صحیح‌ ٹھیکیدار ہیں۔

کوئی بھی عوامی پول باقائدہ مستند اداروں‌کے ذریعے ہی کیا جاتا ہےا ور اسکی بنیاد پر ہی سیاسی، معاشرتی اور عسکری فیصلے کئے جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں عوام سے پوچھنے کا کوئی رواج نہیں۔ حکومت کو جو حکم دیا جاتا ہے یا جو انہیں بہتر لگتا ہے وہی کرتے ہیں۔

کہتے ہیں بد سے بدنام برا۔ امریکہ اسی بناء پر برا ہے
اب تک جو حقائق سامنے‌آئے ہیں ان سے ظاہر ہورہا ہے کہ اس میں امریکہ، بھارت، اسرائیل، روس ملوث ہیں۔
ہر ایک کے اپنے اپنے مفادات ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ سب کے سب انٹی پاکستان ہیں
 

فرخ

محفلین
انیس اور فواد صاحب،
امریکہ میں‌انکی حکومت اپنے لوگوں کی تنقید کو کیسے لیتی ہے؟‌یہ انکا اندرونی معاملہ ہے۔مگر امریکی سازشوں کا بے نقاب ہونا، بش، کلنٹن کے زمانے کی شروع کردہ بے بنیاد جنگیں اور ان سے ہونے والی ہولناک تباہیاں اور پھر ان جنگوں کی جھوٹی بنیادوں‌کو اسوقت تسلیم کرنا جب کہ تباہی ہو چُکی ہو، مسلمانوں کا اچھی طرح‌جانی اور مالی نقصان ہوچُکا ہو۔
آمریکی حکومت کے پے در پے اعترافات کہ عراق میں‌جنگ جھوٹی بنیادوں پر شروع کی گئی، افغانستان میں‌لاکھوں‌لوگوں‌کو بے گناہ مار دیا گیا اور شمالی اتحاد کا ساتھ دیا گیا جس نے پہلے بھی ملک کا بیڑا روسیوں‌کی مدد کر کے غرقایا تھا اور پھر امریکیوں‌کے ساتھ مل کر اور خلقت کو بھی قتل کیا وغیرہ وغیرہ، ۔ صرف یہ بتائیے کہ آج تک امریکہ نے سی آئی اے کے کتنے لوگوں کو سزا دی کہ انہوں‌نے ایسا جھوٹا پروپیگنڈا کیا کہ عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر اسے تباہ و برباد کر دیا گیا؟
ہمارے علاقے میں امریکی امن کی خواہش کا ڈرامہ اب آپ کسی اور کو سنائیے گا۔ ہم اتنا جانتے ہیں کے ہمارے ساتھ یہ ڈرامے اسی وقت سے شروع ہو گئے تھے جب پاکستان نے ہندوستان کے مقابلے میں‌ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ اور اس میں امریکا کی ایک پرانی ٹیکنیک بھی سامنے آئی اور وہ تھا اپنی مرضی کا حکمران لانا یعنی بدنامِ زمانہ جنرل مشرف (بشرف)۔
افغانستان میں‌امریکیوں‌کے آنے کے بعد سے ہمارے ملک میں‌جو معاشی بہران شروع ہوئے اور پھر دھشت گردی کی لہروں‌نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا جو آج تک چلی آرہی ہیں۔ امریکی سی آئی اے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت افغانستان میں امریکی مدد سے اپنے قونصل خانے قائم کر کےپاکستان کے خلاف بھرپور سازشیں‌کرنے میں‌لگا ہوا ہے، اس سے چشم پوشی کرتی چلی آئی ہے اور اس پر دھیان نہیں دیتی۔ امن کا تماشا کرنے والے امریکیوں‌کوہمارے شمالی علاقوں‌میں‌جنگ کے مقاصد ناکام ہوتے دیکھ کر کچھ اور نظر نہیں‌آیا تو القاعدہ کو ہمارے چترال اور چین سے قریب دوسرے علاقوں‌میں‌داخل ہونے کا شوشا چھوڑ دیا۔ اور اس قسم کے شوشے وہ روز چھوڑتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی اور ان میں‌موجود صیہونی کبھی بھی امن نہیں‌چاہتے اور اسی وجہ سے اب وہ طالبان اور خصوصی طور پر مقامی طالبا ن کو اسلحہ اور تربیت بھی فراہم کرتے ہیں اور یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

اور اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی و فوجی قوت سے پریشان ہی نہیں‌، بلکہ سخت پریشان ہے اور چین کے مقابلے میں وہ بھارت کو سپر پاور بنانا چاہتا ہے اسکا ثبوت بھارت کو مختلف شعبوں‌میں‌ بے پناہ سپورٹ فراہم کرنا اور انکا عالمی منڈیوں‌میں پہنچ کروانا بھی شامل ہے اسکے ساتھ ساتھ، چین کے آس پاس کے علاقو‌ں میں شورش برپا رکھنا اور چین کے دوست ممالک کو بھی (جس میں‌ہم بھی شامل ہیں) ہلاتے رہنا شامل ہے۔

امریکہ کی امن پسندی کا پول سب سے زیادہ ماضی کے ویت نام ، جاپان اور دیگر جنگوں کے علاوہ ، بدنامِ زمانہ اسرائیل کی اندھی سپورٹ سے ہی کھُل جاتا ہے۔ جو اب تک لاکھوں‌معصوم مسلمان عورتوں، بچوں‌، نوجوان مردوں‌اور بوڑھوں‌کا قتل عام کر چُکا ہے اور اب تک کر رہا ہے اور امریکہ اسکے حقوق کا احترام کرتا نظر آتا ہے، جبکہ فلسطین میں ہونے والے روز کے قتل عام اسکو کبھی نظر نہیں‌آئے۔
اسلئیے انیس اور فواد صاحب، امریکہ کی امن پسندی کا ڈرامہ تو آپ مت رچائیں کیونکہ ابتک تو امریکہ بہادر کی کئی قلعی کھل چکی ہیں۔

بے شک اللہ جل شانہ نے قرآن میں بالکل درست فرمایا ہے کہ ' یاد رکھو، یہ یہود و نصٰاریٰ آپس میں تو دوست ہو سکتے ہیں، مگر تمہارے دوست نہیں‌ہوسکتے"

اور میں‌ان مسلمانوں‌کو بے وقوف ہی سمجھتا ہوں‌جو کسی نہ کسی چکر میں‌آکر انکو دوست سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

تاریخ‌گواہ ہے کہ یہ صیہونی اور نصاریٰ کیسے امن اور محبت کے ڈرامے کرکے، اور مسلمانوں‌کا اعتبار حاصل کرکے، مسلمانوں‌کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ اور آپ دونوں‌جو امریکہ کی امن پسندی اور دوستی کے راگ الاپ رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مسلمان پہلے بھی ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں‌بے وقوف بنے ہیں جو دیکھنے میں اپنے لگتے ہیں، مگر کھاتے اور کام کسی اور کا کر رہے ہوتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

حقیقت یہ ہے کہ امریکی اور ان میں‌موجود صیہونی کبھی بھی امن نہیں‌چاہتے اور اسی وجہ سے اب وہ طالبان اور خصوصی طور پر مقامی طالبا ن کو اسلحہ اور تربیت بھی فراہم کرتے ہیں اور یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔


ايک ايجنسی کی حيثيت سے سی – آئ – اے کی ذمہ داری سينير امريکی پاليسی سازوں کے لیے نيشنل سيکورٹی اينٹلی جينس فراہم کرنا ہے۔ کسی بھی دوسری سيکورٹی ايجنسی کی طرح سی – آئ – اے بھی ايک محدود لاۂحہ عمل اور سينير حکومتی اہلکاروں کی جانب سے منظور شدہ پاليسی کے تحت کام کر تی ہے۔ سی – آئ – اے کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ ايسے اقدامات اٹھائے جن کی منظوری براہ راست امريکی صدر کی جانب سے نہ موصول ہوئ ہے۔ اس کے علاوہ سی –آئ – اے کی کاروائياں امريکی کانگريس کی کميٹيوں کی زير نگرانی ہوتی ہيں۔ سی –آئ – اے کے ڈائريکٹر کا انتخاب امريکی صدر سينٹ کے مشورے اور منظوری سے کرتا ہے۔ سی – آئ – اے کا ڈائريکٹر ايجنسی کی کاروائيوں، اس کے بجٹ اور افرادی قوت کا براہراست ذمہ دار ہوتا ہے۔ کلی طور پر سی – آئ – اے کا کام اينٹيلی جينس انفارميشن کا حصول، اس کا تجزيہ اور اعلی امريکی عہديداروں تک اس کی ترسيل ہوتا ہے۔

صدر اوبامہ نے يہ بات کئ مواقع پر واضح کی ہے کہ ايک مضبوط اور مستحکم پاکستان، افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گردی کے خاتمے کے ليے اشد ضروری ہے۔ دہشت گردی کی سپورٹ کے حوالے سے کوئ بھی عمل اس منطقی دليل اور منظور شدہ پاليسی کی نفی کرتا ہے۔

سی – آئ – اے اس پاليسی کے تحت کام کرنے کی پابند ہے اور اپنی مرضی سے کوئ قدم نہيں اٹھا سکتی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

فرخ

محفلین
ايک ايجنسی کی حيثيت سے سی – آئ – اے کی ذمہ داری سينير امريکی پاليسی سازوں کے لیے نيشنل سيکورٹی اينٹلی جينس فراہم کرنا ہے۔ کسی بھی دوسری سيکورٹی ايجنسی کی طرح سی – آئ – اے بھی ايک محدود لاۂحہ عمل اور سينير حکومتی اہلکاروں کی جانب سے منظور شدہ پاليسی کے تحت کام کر تی ہے۔ سی – آئ – اے کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ ايسے اقدامات اٹھائے جن کی منظوری براہ راست امريکی صدر کی جانب سے نہ موصول ہوئ ہے۔ اس کے علاوہ سی –آئ – اے کی کاروائياں امريکی کانگريس کی کميٹيوں کی زير نگرانی ہوتی ہيں۔ سی –آئ – اے کے ڈائريکٹر کا انتخاب امريکی صدر سينٹ کے مشورے اور منظوری سے کرتا ہے۔ سی – آئ – اے کا ڈائريکٹر ايجنسی کی کاروائيوں، اس کے بجٹ اور افرادی قوت کا براہراست ذمہ دار ہوتا ہے۔ کلی طور پر سی – آئ – اے کا کام اينٹيلی جينس انفارميشن کا حصول، اس کا تجزيہ اور اعلی امريکی عہديداروں تک اس کی ترسيل ہوتا ہے۔

صدر اوبامہ نے يہ بات کئ مواقع پر واضح کی ہے کہ ايک مضبوط اور مستحکم پاکستان، افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گردی کے خاتمے کے ليے اشد ضروری ہے۔ دہشت گردی کی سپورٹ کے حوالے سے کوئ بھی عمل اس منطقی دليل اور منظور شدہ پاليسی کی نفی کرتا ہے۔

سی – آئ – اے اس پاليسی کے تحت کام کرنے کی پابند ہے اور اپنی مرضی سے کوئ قدم نہيں اٹھا سکتی۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

ایک مشہور محاورہ ہے "ہاتھی کے دانت، دکھانے کے اور ، کھانے کے اور"
اس سے زیادہ ڈائرکٹ بات شائید آپ کو کچھ سمجھا جائے کہ" یہ دو منہ والا سانپ ہے، جو کہتا ہے وہ کرتا کبھی نہیں، اور جو کرتا ہے ، وہ کہتا کبھی نہیں'

اُمید ہے آپ کو بات سمجھ آگئی ہو گی۔

اور اگر آپ میں‌غلطی سے تھوڑی سے مسلمانی ہے ( جو امریکہ کی غلامی میں‌رہتے ہوئے ذرا بھی نظر نہیں‌آرہی) تو قرآن کی یہ بات یاد رکھیئے گا: "یہود و نصاریٰ آپس میں تو دوست ہو سکتے ہیں، مگر تمہارے (مسلمانوں) کے دوست نہیں‌ہو سکتے"

انا للہِ و اِ نا الیہِ راجِعُون۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور اگر آپ میں‌غلطی سے تھوڑی سے مسلمانی ہے ( جو امریکہ کی غلامی میں‌رہتے ہوئے ذرا بھی نظر نہیں‌آرہی) تو قرآن کی یہ بات یاد رکھیئے گا: "یہود و نصاریٰ آپس میں تو دوست ہو سکتے ہیں، مگر تمہارے (مسلمانوں) کے دوست نہیں‌ہو سکتے"

انا للہِ و اِ نا الیہِ راجِعُون۔



آپ کی پوسٹ سے يہ واضح ہے کہ آپ دنيا کے اہم تنازعات خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مذہبی جدوجہد کے تناظر ميں ديکھتے ہوئے اسے مسلمانوں اور عيسائ يا يہوديوں کے مابين ايک معرکے سے تعبير کرتے ہيں۔

اس ضمن ميں يہ وضاحت کر دوں کہ جب ميں امريکہ کی بات کرتا ہوں تو ميرا اشارہ عيسائ، يہودی يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد يا گروہ کی طرف نہيں ہوتا۔ امريکہ ميں لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان بھی بستے ہيں جو کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح امريکی معاشرے کا لازم وملزوم حصہ ہيں۔ لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان نہ صرف يہ کہ امريکی حکومت کو ٹيکس ادا کرتے ہیں بلکہ امريکی فوج، بحريہ، کانگريس اور اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سميت ہر شعبہ زندگی ميں اپنا کردار ادا کر رہے ہيں۔ امريکی معاشرے ميں مذہبی وابستگی کی بنياد پر مختلف عہدوں کے ليے افراد کا انتخاب نہيں کيا جاتا اور يہی پيمانہ حکومتی عہدوں کے ليے بھی استعمال کيا جاتا ہے۔

مختلف عالمی ايشوز کے حوالے سے امريکہ کی پاليسياں جيسی بھی ہوں گی ، ايک بات واضح ہے کہ ان کی بنياد مذہب پر نہيں ہو گی۔ جيسا کہ صدر اوبامہ نے بھی اپنے ابتدائ خطاب ميں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ "ہم عيسائ، ہندو، يہود، مسلم اور کسی مذہب پر يقين نہ رکھنے والے افراد پر مشتمل ايک قوم ہیں۔ بحثيت قوم ہم کرہ ارض کے ہر کونے سے آنے والے افراد، زبان اور ثقافت پر مشتمل ہيں"۔ اس حقیقت کے پيش نظر امريکہ اپنی پاليسيوں کی بنياد کسی مذہب کی بنياد پر نہيں بلکہ صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق "مشترکہ انسانی قدروں" کی بنياد پر استوار کرے گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top