بقاکی جنگ لڑرہےہیں،امریکہ اوربھارت مددکریں براہمداغ بگٹی

زین

لائبریرین
آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن مرکز میں ہمیشہ پنجاب کی ہی رہی ہے اور بالادست صوبہ ہمیشہ پنجاب ہی رہا ہے ۔ اس وجہ سے یہاں کے لوگ پنجاب کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
ٹی وی اور اخباروں میں تو اب جاکر کچھ کوریج مل رہی ہے ۔ یہاں اگر دھماکہ ہوجائے اور درجن سے زیادہ لوگ بھی مارے جائے ۔ اور کراچی میں کسی فیکٹری میں آگ لگ جائے تو اس کی کوریج بلوچستان کے واقعہ سے زیادہ ہوگی۔
یہاں کے معاملات کو کوریج نہیں دی جاتی کیونکہ یہاں ٹی وی والوں کے لئے بزنس نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی باتوں کا جواب بعد میں دونگا ، مجھے آفس جانا ہے ۔
 

خرم

محفلین
آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن مرکز میں ہمیشہ پنجاب کی ہی رہی ہے اور بالادست صوبہ ہمیشہ پنجاب ہی رہا ہے ۔ اس وجہ سے یہاں کے لوگ پنجاب کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
ٹی وی اور اخباروں میں تو اب جاکر کچھ کوریج مل رہی ہے ۔ یہاں اگر دھماکہ ہوجائے اور درجن سے زیادہ لوگ بھی مارے جائے ۔ اور کراچی میں کسی فیکٹری میں آگ لگ جائے تو اس کی کوریج بلوچستان کے واقعہ سے زیادہ ہوگی۔
یہاں کے معاملات کو کوریج نہیں دی جاتی کیونکہ یہاں ٹی وی والوں کے لئے بزنس نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی باتوں کا جواب بعد میں دونگا ، مجھے آفس جانا ہے ۔

ارے پیارے بھیا، میاں‌نوازشریف، فیروز خان نون، غلام محمد اور یوسف رضا گیلانی کے سوا کونسا حکمران پنجاب سے آیا ہے؟ لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، محمد علی بوگرا، سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، ضیاء الحق (کہ سرحد کا ڈومیسائل رکھتے تھے)، بلخ شیر مزاری، غلام مصطفٰے جتوئی، پرویز مشرف، آصف علی زرداری یہ سب تو غیر پنجابی ہیں۔ چلیں ان میں سے جنرل ضیاء کو پنجابی کہہ لیتے ہیں لیکن پاکستان کے ساٹھ برس میں آپ سولہ برس پنجاب کے نام لگا دیں۔ باقی کے چوالیس برس میں تو پنجاب کا حکمران تھا ہی نہیں تو پھر پنجاب پر غصہ کیوں؟

بھائی سب ایک سے مظلوم ہیں۔ پاکستان میں کوئی طبقہ نہیں جسے انصاف ملتا ہو، روزگار ملتا ہو، سکون ملتا ہو۔ یہ برائیاں تمام پاکستان کی ہیں۔ انہیں صرف بلوچوں کے لئے مخصوص مت سمجھئے۔
 

arifkarim

معطل
پاکستان میں‌گزشتہ بیس برس میں کتنی یونیورسٹیاں بنی ہیں وہ بھی آپ جانتے ہی ہوں گے۔

ناروے کی آبادی صرف 4،5 ملین ہے جبکہ یہاں 7 عالمی معیار کی یونی ورسٹیز اور 25 ہائی اسکولز ہیں جنکا اسٹینڈرڈ یونی ورسٹیز کو چھوتا ہے۔
یہاں ناروے کی مثال اسلئے دی کہ ضروری نہیں کہ بڑی نوعیت کے تعلیمی ادارے گنجان آبادی میں ہی کھولے جائیں۔ جس قوم کو تعلیم سے عشق ہو وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور صحرا کی گھاٹیوں میں بھی یونی ورسٹیز بنا سکتی ہے!
 

arifkarim

معطل
خرم: وزیر اعظم "میر ظفراللہ خان جمالی" تو بلوچی تھے اور انکا کام امریکی پائپ لائن جو بلوچستان سے گزرتی ہے، پر دستخط کرنا تھا۔ اسکے بعد انکو ہٹا دیا گیا۔ بس یہی ہماری سیاست ہے: امریکہ کیساتھ رہو گے تو عیش کرو گے!
 

خورشیدآزاد

محفلین
بھائی سب ایک سے مظلوم ہیں۔ پاکستان میں کوئی طبقہ نہیں جسے انصاف ملتا ہو، روزگار ملتا ہو، سکون ملتا ہو۔ یہ برائیاں تمام پاکستان کی ہیں۔ انہیں صرف بلوچوں کے لئے مخصوص مت سمجھئے۔

نہیں اس سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ 2001 سے پہلے پنجاب کے عوام کی زندگی کا معیار باقی صوبوں سے بہت زیادہ بہتر تھا۔ اب یہ ایک دوسری بحث ہے کہ کیا پنجاب کے علاقائی اور صوبائی قیادت نے کم از کم اپنے صوبے اور علاقے کے لیے کام کیا ہے، اور باقی صوبوں کی قیادت نے خود ہی سب کچھ کھایا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کبھی میں سوچتی ہوں کہ سو ارب روپے کی گیس رائلٹی کو یورو میں تبدیل کیا جائے تو یہ ایک بلین یورو بنتے ہیں تقریبا۔ ڈالر میں تبدیل کریں تو سوا سے ڈیڑھ ارب ڈالر بنتے ہوں گے۔

کیا یہ ایک ڈیڑھ بلین ڈالر دینے سے بلوچستان کا مسئلہ آدھا حل ہو سکتا ہے؟

قوموں کی زندگی میں دیڑھ دو بلین ڈالر کوئی معنی نہیں رکھتے۔
 

راشد احمد

محفلین
کبھی میں سوچتی ہوں کہ سو ارب روپے کی گیس رائلٹی کو یورو میں تبدیل کیا جائے تو یہ ایک بلین یورو بنتے ہیں تقریبا۔ ڈالر میں تبدیل کریں تو سوا سے ڈیڑھ ارب ڈالر بنتے ہوں گے۔

کیا یہ ایک ڈیڑھ بلین ڈالر دینے سے بلوچستان کا مسئلہ آدھا حل ہو سکتا ہے؟

قوموں کی زندگی میں دیڑھ دو بلین ڈالر کوئی معنی نہیں رکھتے۔

لیکن یہ دے کون اور دیں کسے؟

بگٹی کے خاندان کو یا حکومت کو؟
 

اکبر لاکھو

محفلین
یار یہ کیسی اکائی ہے کیسا ملک ہے جس کو ہر وقت ٹوٹنے کا خطرہ رہتا ہے ہم کیوں منتیں کر کر کے اس ملک کو بچائیں جس کو دیکھو ایک ہی بات سندھ سرحد بلوچستان کشمیر میں ہر دوسرا لیڈر پاکستان کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے الطاف حسین سے لے کر براہمداغ تک تو سندھی وڈیروں سے لے کر پختونستان تک ہر کسی کو آزادی چاہیے اب میں پچھلے 10 سال سے موجود اپنے دل کے خدشات کو خدا حافظ کہتے ہوئے یہ کہوں گا اگر ان سب نے مل کر رہنا ہے تو جی بسم اللہ نہیں تو ختم کرو یہ بھان متی کا کنبہ اور دو سب کو آزادی جاؤ اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا لو ہم پنجاب کی عوام نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا متحد رکھنے کا سب کو اور اپنی بدنامی کا ہر بات کا طعنہ ملامت ہو اپنی ہر ناکامی پر پردہ پنجاب کا لیبل چڑھا لو آسانی سے اگر بلوچستان سندھو دیش پختونستان ہی بنانا ہے تو ہمیں بھی پنجابستان میں رہ کر خوشی ہو گی اور وقت دیکھے گا ہم لوگ ہی ترقی کرتے جائیں گے حال کی طرح اور باقیوں کا حال بنگلہ دیش جیسا ہو گا:notlistening:
پیارے عبداللھ بھائی
آپ کا شکریھ کہ آپ اب تک بڑی قربانی دیکر پاکستان کو بچاتے ہوئے آئے ہیں۔ آپ نے پاکستان کو بچانے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ آپ نے پاکستان کو بچانے کے لئے بڑی قربانی دی ہے۔ اسی جذبے کے تحت آپ نے کراچی سے لیکر کشمیر تک پاکستان کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں لگنے والے ہر فیکٹری میں چپڑاسی سے جنرل مئنیجر تک آپ محب وطن پاکستانیوں کو نہ رکھنے پر اس فیکٹری کو بند ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے۔ کہ سندھ میں موجود ہر وصوبائی و وفاقی محکمہ میں آپ کی تعداد دوسرے لوگوں کے مقابلے میں‌ تقریب آدھی ہے۔ سندھ کے ہر تحصیل میں آپ نے کتنی ہی زمین کو اپنا کر اس پر اپنے گوٹھ قائم کر رکھے ہیں۔ پورٹ قاسم سے لیکر اسٹیل مل، ریلوے سے لیکر پولیس تک ہر محکمہ کو آپ نے اپنی جاگیر بنا کر رکھا ہے۔ کیونکہ آپ اس ملک کے مالک ہیں۔ اس لئے آپ کا حق بنتا ہے۔ سندھ میں موجود کسی بھی طبقے کا پنجابی سندھ کے بااثر جاگیردار سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والے کسی عام سے واقعے پر آپ کے مضبوط تے وڈے ادارے کے لوگ تحرک میں آجاتے ہیں۔ آپ پاکستان اور اسلام کے عظیم مفاد میں ہمیں ایسا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں جو نہ تو اپنے حقوق کی پامالی پر رو سکتا ہو اور نہ مذاحمت کر سکے۔ لیکن کیا کریں ہر انسان کی طرح یم بھی غلامی کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہو کہ ہر کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے۔ کیا سندھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے۔ آپ شاید بھول رہیں ہیں۔ کہ سندھ انگریز کے آنے سے پہلے ایک خودمختار قوم تھی۔
ہم پاکستان میں رہنا چاہتے ھیں۔ لیکن غلام کی حیثیت میں نہیں۔ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان چار قوموں کا ایک اتحاد ہے۔ جسے کسی بھی مذھبی نظرئے کے آڑ میں کسی ایک قوم میں‌نہیں‌ڈھالا جاسکتا۔ آپ یہ ناکام تجربا کر چکے ہیں۔ پھر بھی آپ نہہں سمجھتے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ ہم نے پاکستان کی خاطر چار بھٹوز کی قربانی دی ہے۔ اب یم میں زیادہ برداشت نہیں۔ اب فیصلھ آپ کے ہاتھ میں ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
پیارے عبداللھ بھائی
آپ کا شکریھ کہ آپ اب تک بڑی قربانی دیکر پاکستان کو بچاتے ہوئے آئے ہیں۔ آپ نے پاکستان کو بچانے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ آپ نے پاکستان کو بچانے کے لئے بڑی قربانی دی ہے۔ اسی جذبے کے تحت آپ نے کراچی سے لیکر کشمیر تک پاکستان کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں لگنے والے ہر فیکٹری میں چپڑاسی سے جنرل مئنیجر تک آپ محب وطن پاکستانیوں کو نہ رکھنے پر اس فیکٹری کو بند ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے۔ کہ سندھ میں موجود ہر وصوبائی و وفاقی محکمہ میں آپ کی تعداد دوسرے لوگوں کے مقابلے میں‌ تقریب آدھی ہے۔ سندھ کے ہر تحصیل میں آپ نے کتنی ہی زمین کو اپنا کر اس پر اپنے گوٹھ قائم کر رکھے ہیں۔ پورٹ قاسم سے لیکر اسٹیل مل، ریلوے سے لیکر پولیس تک ہر محکمہ کو آپ نے اپنی جاگیر بنا کر رکھا ہے۔ کیونکہ آپ اس ملک کے مالک ہیں۔ اس لئے آپ کا حق بنتا ہے۔ سندھ میں موجود کسی بھی طبقے کا پنجابی سندھ کے بااثر جاگیردار سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والے کسی عام سے واقعے پر آپ کے مضبوط تے وڈے ادارے کے لوگ تحرک میں آجاتے ہیں۔ آپ پاکستان اور اسلام کے عظیم مفاد میں ہمیں ایسا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں جو نہ تو اپنے حقوق کی پامالی پر رو سکتا ہو اور نہ مذاحمت کر سکے۔ لیکن کیا کریں ہر انسان کی طرح یم بھی غلامی کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہو کہ ہر کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے۔ کیا سندھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے۔ آپ شاید بھول رہیں ہیں۔ کہ سندھ انگریز کے آنے سے پہلے ایک خودمختار قوم تھی۔
ہم پاکستان میں رہنا چاہتے ھیں۔ لیکن غلام کی حیثیت میں نہیں۔ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان چار قوموں کا ایک اتحاد ہے۔ جسے کسی بھی مذھبی نظرئے کے آڑ میں کسی ایک قوم میں‌نہیں‌ڈھالا جاسکتا۔ آپ یہ ناکام تجربا کر چکے ہیں۔ پھر بھی آپ نہہں سمجھتے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ ہم نے پاکستان کی خاطر چار بھٹوز کی قربانی دی ہے۔ اب یم میں زیادہ برداشت نہیں۔ اب فیصلھ آپ کے ہاتھ میں ہیں۔

یہ غلط ہے کہ پنجابی سندھ آکر آبادہوگئے تو انہوں نے آپ کو غلام بنالیا۔ کیا پنجاب میں پٹھان آکر آباد ہوگئے تو انہوں نے پنجابیوں کو غلام بنالیا؟ کیا سندھ میں پٹھان آکر آباد ہوگئے تو انہوں نے سندھیوں کو غلام بنالیا۔ آپ کی یہ بات کہ ہم نے ہر محکمہ کو جاگیر بنالیا ہے قطعی غلط ہے۔

سندھ میں ایم این اے، ایم پی اے سندھی منتخب ہوئے ہیں پنجابی نہیں
سندھ میں ناظم اور نائب ناظم سندھی ہیں پنجابی نہیں
کیا وزیراعلٰی سندھ اور گورنر سندھی نہیں؟
کیا ملک کا صدر سندھی نہیں؟
سندھ میں‌حکومت سندھ کے لوگوں کی ہے۔پنجابیوں کی نہیں

جب سے پاکستان بنا ہے یہی رونا ہے کہ پنجاب ہمارے وسائل کھاگیا، پنجاب یہ کرگیا وہ کرگیا۔

کیا سٹیل مل، گوادرپورٹ، پورٹ قاسم میں پنجابی گھس آئے ہیں۔ یہ بھی شکرکریں کہ یہ سندھ وبلوچستان میں ہے ورنہ تعصب پسندوں نے یہ راگ الاپنا شروع کردینا تھا کہ گوادرپورٹ، پورٹ قاسم، سٹیل مل پنجاب میں بن گئی۔ ہمارے لئے کچھ نہں رکھا

ویسے پنجابیوں کو پتہ نہیں کیوں اچھوت قوم بنادیا ہے آپ نے۔

آپ میں نفرت آپ کے اپنے صوبے کے لوگوں نے بھری ہے جو اس وقت بڑے بڑے اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں اور فائز ہوتے چلے آرہے ہیں۔ وہ آپ لوگوں کو لڑا کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور آپ لڑلڑکر مرجاتے ہیں۔

اگر آپ غلام نہیں بننا چاہتے تو اپنے علاقے میں شرح خواندگی بڑھائیں، ان علاقوں میں بھی جہاں جاگیردار قابض ہیں جو نہیں چاہتے کہ لوگ پڑھیں۔ سندھ کا وزیر اعلٰٰی، وزیرتعلیم، صدرپاکستان، گورنر سب سندھی ہیں۔ ان سے کہیں کہ ہمارے صوبے میں سکول، کالج، یونیورسٹیاں بنائے تاکہ ہم پڑھ سکیں۔ اس طرح لڑنے یا بحث کرنے سے کچھ حاصل نہیں‌ہونیوالا۔

ملک کے اصل دشمن پنجابی نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو تعصب پھیلاتے ہیں وہ چاہے پنجابی جاگیردار ہویا سندھی وڈیرا یا کوئی بھی۔
 

ساجد

محفلین
اکبر لاکھو صاحب ، آپ کا شکریہ کہ آپ نے اپنی بات کہی۔ لیکن آپ پنجاب کو نہیں اس نظام کو الزام دیجئیے کہ جو پاکستانیوں کو آج تک ایک قوم نہ بنا سکا۔
شروع سے لے کر آج تک پاکستان پیپلز پارٹی اس ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس کو سندھ سے بھی زیادہ ووٹ پنجاب سے ملتے ہیں اگر پنجاب باسی بھی آپ ہی کی طرح سے سوچتے تو یہ صورت حال اس کے برعکس ہوتی۔
آپ پاکستان کے تمام وزراء اعظم کے ناموں پہ غور فرمائیں اور پھر دیکھیں کہ اس میں کتنے پنجابی ہیں؟
معاملہ کہیں بحث برائے بحث والا نہ ہو جائے اس لئیے یہیں بات ختم کرتا ہوں۔ بس یہ یاد رکھئیے کہ ہم میں سے کوئی بھی سندھی، پنجابی ، بلوچ اور پٹھان بعد میں ہے سب سے پہلے ہم پاکستانی ہیں۔
 

زین

لائبریرین
تحریر:اخوندزادہ جلال نورزئی

بلوچستان کا مسئلہ جاں گسل مسئلہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے بھی درد سر بن گیا ہے اب تک کا نقشہ یہ واضح کرتاہے کہ حکومت صوبے کے مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ سکی ہے کہ آیا احساس صورتحال میں کس طرح امن قائم کیا جائے اور کس تدبیر اور راہ سے بلوچ رہنماﺅں کو شریک گفتگو کیا جائے ، صلح و آشتی کی فضاءقائم ہو ۔ بہر حال موجودہ وقت آثار اطمینان بخش نہیں ہے، بگاڑ میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جبکہ حکمران طبقہ بناﺅ کے ضمن میں بیانات کو وصیلہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے سینٹ میں ان کیمرہ بریفنگ دی گئی ہے جس میں بیرونی مداخلت کے دستاویزی ثبوت پیش کردیئے گئے۔ پیش ازیں(بائیس اپریل) وفاقی مشیر داخلہ رحمن ملک نے ایوان بالا کے اجلاس میں بلوچستان میں آپریشن کے تاثر کو مسترد کردیا ۔رحمن ملک نے گویا پیپلز پارٹی کا بلوچستان کے حالات سے متعلق موقف کا اظہار کیا ، براہمداغ کی افغانستان میں موجودگی کی باتیں یقینا گشت کررہی تھیں لیکن رحمن ملک نے ایک اہم فورم پر یقینی طور پر اس ضمن میں ابہام دور کرتے ہوئے حکومتی بیان دیدیا کہ براہمداغ بگٹی افغانستان میں ہی ہے اور انہیں بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے ، یہ کہ بھارت بلوچستان میں حالات خراب کررہا ہے اور جان سولیکی کے اغواءمیں بھی براہمداغ بگٹی کا ہاتھ تھا۔ رحمن ملک کی تقریر اور ان کیمرہ بریفنگ پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے اختلاف کا اظہار کیا اور بریفنگ کو جھوٹ قرار دیا ۔ ادھر روس ، بھارت اور افغانستان نے بھی پاکستان کے الزام کو مبنی بر حقیقت قرار نہیں دیا ہے ،مداخلت کے ثبوت طلب کرلئے ۔
رحمن ملک نے تربت میں قتل ہونے والے تین بلوچ رہنماﺅں سے ایک رہنماءشیر محمد کو ایرانی شہری قرار دیا ، یہ نکتہ واقعی اختلافی ہے تاہم یہ بات بھی پیش نظڑ رہے کہ پاک افغان اور پاک ایران سرحدی علاقوں کے اکثر باشندوں کے پاس ان ممالک کی شہریت بھی موجود ہیں ، رہی بھارت اور افغانستان کی مداخلت تو ، یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت اور افغانستان کے علاوہ امریکہ بھی بلوچستان میں مداخلت کررہا ہے اور یہ امر بھی اظہر من الشمس ہے کہ اپریل1978 کے افغان فساد( انقلاب) سے قبل بھی روس بلوچستان میں اپنی جڑیں پھیلانے کی سعی کررہا تھا ،بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ،لکھاری اور دانشور اشتراکی فکر کی تبلیغ میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے تھے ، عظیم تر بلوچستان کی خواہش موجود تھی جبکہ روس اس آ ڑ میں گرم پانی تک پہنچنے کا خواہاں تھا تاہم کابل پر قابض حکمران بلوچستان تنظیموںکوکما حقہ اہمیت نہیں دے رہے تھے نا ہی بلوچ قوم پرست کابل پر قابض ٹولے اور قبل ازیں سردار داﺅد اور ظاہر شاہ کی حکومت سے مطمئن تھے ، بلوچ قوم پرست اس خدشے کا شکار تھے کہ کابل بھی انہیں ماتحت رکھے گا کیونکہ یہ زمانہ پشتونستان کے نام کے نعرہ کے عروج کا بھی تھا جس میں سبی تک کا علاقہ آتا ہے چنانچہ یہ ارمان اور خواہش دم توڑ گئی تاہم روس اور بھارت میں افغان مجاہدین کی حمایت کرنے پر پاکستان کے لئے اندرونی طور پر مسائل پیدا کرنے کی حکومت عملیوں اور منصوبہ بندیوں پر کاربند رہا تاکہ پاکستان کو پریشان رکھا جائے ۔ اس عرصے میں چونکہ جنرل ضیاءالحق نے بھٹو حکومت پر کود تاءکے بعد اسیر بلوچ رہنماءکو رہا کردیا، ان پر نوازشیں کیں ، بلوچستان پرامن رہا البتہ پشتون قوم پرست انارکی اور سبوتاژ کے عمل میں ملوث رہے ۔ یہ طبقہ کابل کے بہت زیادہ قریب تھا۔ روس نا مراد افغانستان سے نکل گیا ،شکست کھا گیا ،سویت یونین پارہ پارہ ہوا ۔
آٹھ اکتوبر2001ءکے بعد نیا سوچ طلوع ہوا امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا افغانستان پر قبضہ کے بعد بھارت کو افغانستان میں در آنے کا نادر موقع مل گیا، تعمیراتی کام اور تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا ، کئی قونصل خانے قائم کئے ،پرانے آشناﺅں سے مراسم از سر نو قائم کر لئے ۔گویا آج کا افغانستان ہم سب کے سامنے ہے۔ملک کے اندر آگ لگی ہوئی ہے جس پر تیل بھارت اور امریکہ چھڑک رہا ہے ،صوبہ بلوچستان کی محرومیوں اور حقوق کے مطالبات سے قطلع نظر یہ سچ جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ مذکورہ ممالک بلوچ مزاحمت کاروں کو تعاون فراہم کررہے ہیں ۔ نوابزادہ براہمدا غ بگٹی اور سردار اختر مینگل اس خواہش کااظہار تو کرتے ہیں کہ اگر بیرونی امداد دی جائے گی تو وہ بخوشی قبول کرینگے ۔در اصل حقیقت یہ ہے کہ بیرونی امداد آرہی ہے اور اس امداد کو بخوشی قبول کیا جارہا ہے ، جاری و ساری امداد کی استرداد محض سیاسی مصلحت کے تحت کی جارہی ہے وگرنہ بغیر امداد کے بلوچ مزاحمت کار دیر پا مزاحمت نہیں کرپائیں گے ۔ براہمداغ بگٹی نے رحمن ملک کے جواب میں یہ کہا ہے کہ اگر ان کے پاس ان کی کابل میں موجودگی اور ان کے ٹیلی فون کو ٹریس کرنے کے ثبوت ہیں تو وہ پیش کئے جائیں۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ ایک بڑی تعداد میں بلوچ افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں آمدروفت ہورہی ہے نوابزادہ بالاچ مری افغانستان میں تھے ،سرحدی علاقوں میں نقل و حمل کرتے تھے ۔یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے براہمداغ بگٹی مزاحمت کررہے ہیں ،پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد کررہے ہیں ،چنانچہ اس طرح کی تنظیمیں اور گروہ ہمسایہ مملک میں جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں اور یہ جنگی حکمت عملی کا حصہ بھی ہے ۔ بلوچ مزاحمت کاروں نے اپنی جنگ وسیع علاقے میں پھیلا رکھی ہے یہ سارا کچھ بغیرکسی امداد کے قطعی نا ممکن ہے ۔ رحمن ملک کی تقریر پر بلوچ سینیٹرز نے شبہ کا اظہار تو کرلیا ہے مگر ان حقائق کو محض یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ اسے بیان کرنے والا حکومتی کارندہ ہے، اس کے ساتھ حکمران طبقہ کو اب ہوش سے کام لینا چاہیئے بقول ان کے صوبے میں مداخلت ہورہی ہے ،تو اس مداخلت کو روکنے کے اسباب بھی تو ہوں گے ،کیوں نہ اس اسباب پر غور کیا جائے ۔ رحمن ملک نے براہمداغ بگٹی کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے اور ان کے سارے مطالبات تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔یقینا یہی راستہ ہے لیکن شرط یہ ہے کہ با اختیار ہوکر بات کی جائے تاکہ صوبے کے حقیقی مسائل اور مطالبات پر عملدرآمد کے لئے فوری پیش رفت ہو ۔ حکمران طبقہ اگر سنجیدگی سے اس جانب قدم بڑھاتا ہے تو رفہ رفتہ مشکلات کم ہوتے جائیں گے ۔ اس مقصد کے لئے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی اور وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ براہمداغ بگٹی کہتے ہیں کہ ساٹھ سالہ پالیسیوں نے بلوچ عوام کو آزادی کی راہ اپنانے پر مجبور کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ پالیسیاں اگر درست کرلی جائیں تو وہ قومی دھارے میں شامل ہوں گے ، اگر ایسا نہیں ہوتا تو آزمائش بہت کچھ لے ڈوبے گا ،ذرا غور کرے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اسکولوں میں قومی پرچم اور قومی ترانے پر پابندی لگانے کی دھمکیاں دی گئی ہیں ۔ اخباری اطلاعات یہ ہیں کہ اسکولوں کی عمارتوں پر آزاد بلوچستان کے پرچم لہرائے گئے ہیں۔ ضلع مستونگ میں نامعلوم افراد کی جانب سے مستونگ کے تعلیمی اداروں کو لکھے گئے دھمکی آمیز خطوط میں قومی ترانہ اور پرچم کشائی بند کرنے کی ہدایت کے بعد مستونگ کے تمام تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ بند ہے اور پرچم نہیں لہریا جارہا(جنگ کوئٹہ ،22اپریل2009ء) اس سلسلے میں گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن مستونگ نے ضلعی رابطہ آفیسر اور ڈی پی او مستونگ کو تحریر طور پر یاداشت پیش کی اور مطالبہ کیاکہ مستونگ کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے تحفظ کے لئے سیکورٹی کا بندوبست کیا جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ان اشاروں پر حکمران طبقہ کو مضطرب ہونا چاہیئے، معاشرہ یر غمال بن جائے گا ، لوگوں کا روزگار متاثر ہوگا۔ 8اپریل کو بلوچ رہنماﺅں کے قتل کے واقعہ کے بعد کاروبار بہت متاثر ہوا ہے ۔ 11,10,11,9اور12اپریل تک کوئٹہ سمیت صوبے کے ایک بڑے حصے میںہڑتال کے باعث کاروبار نہیں ہوا یہی سلسلہ 13، 21اپریل،24اور26اپریل تک شٹر ڈاﺅن اور پہیہ جام ہڑتالوں کے باعث تاجر طبقہ بہت زیادہ متاثر ہوا ہے ۔ ہڑتالوں کی کال بلوچ نیشنل فرنٹ اور بی این پی مینگل کی جانب سے دی گئی تھی ۔ ادھر اب تک بلوچ رہنماﺅں کے قتل سے متعلق تحقیقات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ ان افراد کو کس نے قتل کیا ہے اور اس واقعہ کے تانے بانے کس سے جا ملتے ہیں ۔ حالات اچھے نہیں ہے ، سیاسی جماعتیں سنجیدگی سے اس حوالے سے فعال و متحرک ہوں ، آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیئے ایک مشترکہ موقف آنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات پر اتفاق کرلیا جائے کہ کونسا فریق حالات بگاڑنے کا ذمہ دار ہے ۔بغض معاویہ کا اظہار نہیں ہونا چاہیئے ۔یہ قومی و ملکی استحکام اور سلامتی کا مسئلہ ہے اس پر ذاتی پرخاش اور عداوت کو پس پشت رکھنا ہوگا ۔خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہوتاہے سب نے اس تباہی کی لپیٹ میں آنا ہے ۔ملک کی حفاظت اور سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے ،اقوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں یقینا یہ سب کچھ خارجی قوتوں کی مداخلت سے ہورہا ہے ۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی برابر احتجاج کررہی ہیں کہ کراچی میں پشتونوں کو قتل کیا جارہا ہے گویااسیاسی جماعتیں اب اپنی اپنی ڈفلیاں بجانا چھوڑ دیں ، یہ جو نفرتیں پھیل رہی ہیں ،کی بیخ کنی کریں ، بلوچستان میں آباد کار غیر محفوظ ہیں، گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان کی صدارت میں صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا ۔ اس اجلاس میں کہا گیا کہ تربت کے واقعہ اور اسی طرح اب تک کے واقعات صوبائی حکومت اور فیڈریشن کیخلاف سازش ہے یہ کہ تر بت کے واقعہ میں ملوث افراد کو کٹہرے میں لایا جائے گا ۔ علاوہ ازیں بلوچستان میں آباد کاروں کو ہر صورت تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیئے کہ آیا واقعی بلوچستان میں فوجی آپریشن ہورہا ہے جبکہ اس حوالے سے حکومت کا موقف یکسر برعکس ہے ۔حال ہی میں ایف سی بلوچستان کے ترجمان بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردقومی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں ایف سی ان کے خلاف ایکشن لیتی ہے تو پھر واویلا کیسا ؟۔ ایف سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہورہا ہے تو بندش کا کیا سوال ہے ۔ گن شپ ہیلی کاپٹر پورے بلوچستان میں نہیں ہے کوئی جہاز استعمال نہیں ہورہے اسے آپریشن کا نام دینا جھوٹ اور بد دیانتی ہے جس سے امن پسند اور قانون پسند بلوچوں کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ افغانستان ميں بھارت کے اقدامات کا دفاع، وضاحت يا اس کی توجيہہ پيش کرنا ميرے دائرہ کار ميں نہيں آتا ليکن چونکہ اس حوالے سے لامحالہ امريکہ پر بھی الزام لگايا جاتا ہے اس ليے ميں اس پر رائے دينا ضروری سمجھتا ہوں۔

اس ايشو کے حوالے سے ميرا نقطہ نظر يہ ہے کہ جب آپ الزام لگاتے ہيں تو پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوتی ہے۔ ناقابل ترديد ثبوت اور بے بنياد جذباتی بحث ميں فرق ہوتا ہے۔ اگر کچھ پاکستانی سياست دان يہ سمجھتے ہيں کہ بھارت پاکستان کے اندر کچھ گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ان الزامات کے ضمن ميں ثبوت بھی پيش کر سکتے ہيں تو پھر ايسے کئ عالمی فورمز موجود ہيں جہاں پر يہ ايشو اٹھايا جا سکتا ہے۔

امريکہ کی جانب سے اس ايشو کو نظرانداز کرنے کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا اس ليے کہ ابھی تک حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری سطح پر کوئ رپورٹ يا ثبوت نہيں فراہم کيا گيا۔ ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ يہ امريکہ ہی ہے جو پاکستان کو مستحکم کرنے کے ليے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ امريکی حکومت ايسے کسی اقدام کی حمايت نہيں کرے گی جس سے پاکستان سميت خطے کے کسی بھی ملک ميں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔ اور يہی اصول تمام ممالک پر لاگو ہوتا ہے۔ اسی بات کا اعادہ رچرڈ ہالبورک نے بھی جيو ٹی وی پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں کيا تھا۔

جہاں تک حاليہ اخباری رپورٹوں ميں رحمان ملک کی جانب سے بند کمرے ميں ممبران قومی اسمبلی کو ثبوت فراہم کرنے کا تعلق ہے تو ميرے نزديک يہ بات خاصی حيران کن ہے کہ يہ مبينہ ثبوت تو حاليہ دنوں ميں ممبران قومی اسمبلی کو فراہم کيے گئے ہيں ليکن انھی ميں سے کچھ ممبران اسمبلی تو پچھلے کئ مہينوں سے ميڈيا پر يہ الزامات لگا رہے ہيں۔ کيا اس کا مطلب يہ ہے کہ اب تک جو الزامات ان کی طرف سے لگائے گئے ہيں وہ بغير کسی ثبوت کے لگائے گئے تھے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

راشد احمد

محفلین
جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ افغانستان ميں بھارت کے اقدامات کا دفاع، وضاحت يا اس کی توجيہہ پيش کرنا ميرے دائرہ کار ميں نہيں آتا ليکن چونکہ اس حوالے سے لامحالہ امريکہ پر بھی الزام لگايا جاتا ہے اس ليے ميں اس پر رائے دينا ضروری سمجھتا ہوں۔

اس ايشو کے حوالے سے ميرا نقطہ نظر يہ ہے کہ جب آپ الزام لگاتے ہيں تو پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوتی ہے۔ ناقابل ترديد ثبوت اور بے بنياد جذباتی بحث ميں فرق ہوتا ہے۔ اگر کچھ پاکستانی سياست دان يہ سمجھتے ہيں کہ بھارت پاکستان کے اندر کچھ گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ان الزامات کے ضمن ميں ثبوت بھی پيش کر سکتے ہيں تو پھر ايسے کئ عالمی فورمز موجود ہيں جہاں پر يہ ايشو اٹھايا جا سکتا ہے۔

امريکہ کی جانب سے اس ايشو کو نظرانداز کرنے کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا اس ليے کہ ابھی تک حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری سطح پر کوئ رپورٹ يا ثبوت نہيں فراہم کيا گيا۔ ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ يہ امريکہ ہی ہے جو پاکستان کو مستحکم کرنے کے ليے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ امريکی حکومت ايسے کسی اقدام کی حمايت نہيں کرے گی جس سے پاکستان سميت خطے کے کسی بھی ملک ميں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔ اور يہی اصول تمام ممالک پر لاگو ہوتا ہے۔ اسی بات کا اعادہ رچرڈ ہالبورک نے بھی جيو ٹی وی پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں کيا تھا۔

جہاں تک حاليہ اخباری رپورٹوں ميں رحمان ملک کی جانب سے بند کمرے ميں ممبران قومی اسمبلی کو ثبوت فراہم کرنے کا تعلق ہے تو ميرے نزديک يہ بات خاصی حيران کن ہے کہ يہ مبينہ ثبوت تو حاليہ دنوں ميں ممبران قومی اسمبلی کو فراہم کيے گئے ہيں ليکن انھی ميں سے کچھ ممبران اسمبلی تو پچھلے کئ مہينوں سے ميڈيا پر يہ الزامات لگا رہے ہيں۔ کيا اس کا مطلب يہ ہے کہ اب تک جو الزامات ان کی طرف سے لگائے گئے ہيں وہ بغير کسی ثبوت کے لگائے گئے تھے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

فواد بھائی

آپ کن عالمی فورمز کی بات کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی؟
جہاں‌جو بھی پاکستان قرارداد پیش کرتا ہے تو وہ ویٹو کردی جاتی ہے۔

پچھلے 63 سالوں سے اقوام متحدہ نہ تو مسئلہ کشمیر حل کرسکا ہے اور نہ ہی مسئلہ فلسطین۔

عراق پر جنگ امریکہ نے کیا اقوام متحدہ سے اجازت لے کر کی ہے۔

ویسے یہ ڈرامہ بند ہوجانا چاہئے جو اقوام متحدہ کشمیر یا فلسطین جیسے مسئلہ حل نہ کرسکے۔اس کا ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب بھی یہ قرارداد پیش کی جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی طاقت ور ملک ویٹو کردیتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاملات لٹکے رہتے ہیں۔ اور اقوام متحدہ طاقت ور ممالک کی لونڈی بن چکا ہے۔ جب سارے فیصلے امریکہ نے یا نیٹو نے کرنے ہیں تو کیا فائدہ ایسی اقوام متحدہ کا

جہاں تک امریکہ کے پاکستان کے حق میں‌خیر خواہی کا تعلق ہے تو ڈرون حملے، افغانستان و عراق میں‌بمباری کیا یہی امریکہ کی خیر خواہی ہے؟
 

خرم

محفلین
نہیں اس سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ 2001 سے پہلے پنجاب کے عوام کی زندگی کا معیار باقی صوبوں سے بہت زیادہ بہتر تھا۔ اب یہ ایک دوسری بحث ہے کہ کیا پنجاب کے علاقائی اور صوبائی قیادت نے کم از کم اپنے صوبے اور علاقے کے لیے کام کیا ہے، اور باقی صوبوں کی قیادت نے خود ہی سب کچھ کھایا ہے۔
بھیا پنجاب کی تعریف کریں گے تو آپ کی بات کی سمجھ آئے گی۔ کیا آپ کی پنجاب کی تعریف صادق آباد سے لیکر حسن ابدال تک وسیع ہے یا پھر چند ایک اضلاع تک محدود ہے؟
 

خرم

محفلین
فواد، بلوچستان کے مسئلہ پر امریکی اور بھارتی مداخلت حقیقت ہیں۔ ان معاملات کے باہر نکلنے کا وقت شائد اب آچکا ہے۔ جو موجودہ حکومتی اقدامات کئے گئے ہیں وہ تو صرف زمین ہموار کرنے کی غرض سے ہیں وگرنہ اس موضوع پر بات تو بہت پہلے ہو چکی ہے۔ اب شائد امریکہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست بننے دینا چاہتا ہے یا اسے ایک باجگزار ریاست کے طور پر دیکھنے کا چلن ہی جاری رکھا جائے گا۔ امریکی قیادت کی ذرا سی کوتاہ اندیشی شائد ایک ایسے چین ری ایکشن کو جنم دے جائے جس کا روکناپھر کسی کے بس میں نہ ہو۔ رچرڈ ہالبروک کے ساتھ کیا گیا سلوک صرف پہلی قسط ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد، بلوچستان کے مسئلہ پر امریکی اور بھارتی مداخلت حقیقت ہیں۔ ان معاملات کے باہر نکلنے کا وقت شائد اب آچکا ہے۔ جو موجودہ حکومتی اقدامات کئے گئے ہیں وہ تو صرف زمین ہموار کرنے کی غرض سے ہیں وگرنہ اس موضوع پر بات تو بہت پہلے ہو چکی ہے۔ اب شائد امریکہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست بننے دینا چاہتا ہے یا اسے ایک باجگزار ریاست کے طور پر دیکھنے کا چلن ہی جاری رکھا جائے گا۔ امریکی قیادت کی ذرا سی کوتاہ اندیشی شائد ایک ایسے چین ری ایکشن کو جنم دے جائے جس کا روکناپھر کسی کے بس میں نہ ہو۔ رچرڈ ہالبروک کے ساتھ کیا گیا سلوک صرف پہلی قسط ہے۔


امريکہ کی جانب سے بلوچستان کی عليحدگی پسند تنظيموں کی مبينہ امداد کے حوالے سے جن سازشوں کا ذکر کيا جاتا ہے وہ اس لحاظ سے مضحکہ خيز اور منفرد ہيں کہ اس غير منطقی دليل کے اہم کردار خود اس بات سے بے خبر ہيں کہ امريکہ نہ صرف ان کی حمايت کر رہا ہے بلکہ انھيں فنڈز بھی فراہم کر رہا ہے۔

بصورت ديگر آپ ان کی جانب سے احتجاجی ريليوں اور امريکہ پر تنقيدی بيانات کی کيا توجيہہ پيش کريں گے؟

مورخہ 6 مئ کو جب پاکستان کے صدر آصف زرداری اور امريکی صدر باراک اوبامہ کے درميان ملاقات جاری تھی تو وائٹ ہاؤس کے باہر بلوچستان کی عليحدگی پسند تنظيموں کے اراکين نے ايک احتجاجی ريلی نکالی جو وائٹ ہاؤس سے شروع ہو کر واشنگٹن ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی عمارت کے باہر اختتام پذير ہوئ۔

http://www.nowpublic.com/world/protest-rally-outside-white-house-against-genocide-baluch-people

مختلف ويب سائٹس پر جو بيانات بلوچ ليڈروں کی جانب سے ديے گئے، ان ميں سے کچھ يہاں پيش کر رہا ہوں۔

"براک اوبامہ کی امريکی انتظاميہ پاکستانی جرنلز کی بليک ميل اور چودھراہٹ سے مرعوب ہو کر دب گئ ہے"۔

"پاکستان آرمی امريکی عوام کے ٹيکس کے پيسے طالبان تک پہنچا رہی ہے اور پاکستان کا نظام چلانے کے ليے امريکی دولت اور بلوچ وسائل کو استعمال کر رہی ہے"۔

"ہم اقوام متحدہ پر زور ديتے ہيں کہ امريکی اسلحے سے غير قانونی ہلاکتوں اور ہماری عورتوں، بچوں اور سياسی کارکنوں کی گمشدگی کی تحقيقات کرائ جائيں۔"

ايک ليڈر نے امريکی سيکريٹيری آف اسٹيٹ ہيلری کلنٹن پر "پاکستانی عوام" کی اصطلاح استعمال کرنے پر تنقيد کی اور کہا کہ وہ غلطی پر ہيں انھيں ديار غير ميں بسنے والے پاکستانيوں کو ايک قوم قرار نہيں دينا چاہيے۔

اے – ايف – بی کے صدارتی کونسل ممبر نبی بلوچ نے کہا کہ ان کی تنظيم امريکہ کے قانون ساز اراکين سے مستقل رابطہ کرتی رہے گی تا کہ بلوچستان ميں مناسب کاروائ کے ليے حمايت حاصل کی جا سکے۔

ريلی کے شرکا نے اس بات پر زور ديا کہ بلوچستان ميں ہلاکتوں کے بارے ميں امريکہ ميں شعور اجاگر کرنے کے ليے مزيد کام کی ضرورت ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ريلی کا انعقاد کيا کيا ہے تا کہ صدر اوبامہ اور ان کی انتظاميہ کی توجہ اس اہم معاملے کی جانب مبذول کرائ جا سکے۔

کيا يہ احتجاجی ريليياں، بيانات اور طرز فکر کسی ايسی تنظيم کے موڈ اور جذبات کے عکاس ہيں جنھيں کسی بھی سطح پر امريکی حکومت سے مدد، حمايت يا فنڈز مل رہے ہیں؟

اگر ايسا ہوتا تو يہ لوگ وائٹ ہاؤس اور امريکی اسٹيٹ ڈيپارپمنٹ کے باہر کھڑے ہو کر نہ تو احتجاجی ريلياں نکال رہے ہوتے اور نہ ہی امريکی اہلکاروں کو اپنی تنظيموں کے وجود کے بارے ميں شعور دينے کے ليے بيانات دے رہے ہوتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top