وکلا کی ناکام تحریک

ہمت بھائی جیو پر لانگ مارچ کی تاریخ کے بارے میں اس صفحہ پر مختصر سا مضمون موجود تھا جو آپ کے لئے یہاں شامل کر رہا ہوں

akhbar11.jpg
 
ذرا یہ اقتباس دیکھئے گا
.

یہ اقتباس پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے اور دیکھیں یہاں پر تاریخ بھی وہ درست نہیں لکھ پائے یہ 1973 نہیں ہے یہ 1993 ہے اور نواز شریف کی حکومت اس وقت کی منتخب جمہوری حکومت تھی۔
میراخیال ہے اپ واقعات کی غلط ترتیب سمجھ رہے ہیں۔ پی پی پی نے لانگ مارچ غالبا بابا کے خلاف نکالا تھا۔
 
ہمت بھائی جیو پر لانگ مارچ کی تاریخ کے بارے میں اس صفحہ پر مختصر سا مضمون موجود تھا جو آپ کے لئے یہاں شامل کر رہا ہوں

akhbar11.jpg
یقینا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پی پی پی نے آمروں‌ کے خلاف جدوجہد کی۔ یہ تو اچھی بات ہے۔
حالیہ لانگ مارچ اپنے کوئی بھی ہدف حاصل نہ کرسکا کیونکہ وکلا کی کنفوژ قیادت نے جان بوجھ کر یا کسی اور خفیہ مقاصد کے تحت وکلا کو مس گائیڈ کیا۔ وکلا اپنی تمام لانگ مارچ میں پارلیمنٹ پرغیر معینہ مدت تک دھرنا دینے کا پروگرام پریچ کررہے تھے مگر وائے ناکامی ہُشیار فسادی نے دھوکا دے دیا۔
اب وکلا پوچھتے پھررہے ہیں‌کہ ہم کیا کرنے اسلام اباد گئے تھے۔ دھوم دھڑکا ۔ وہ تو ہوگیا حاصل وصول کچھ نہیں۔

جتنی بڑی جہوری پارٹی پی پی پی کی ہے اس میں‌اسطرح‌کے اختلافات تو ظاہر ہے ہوتے ہی ہیں‌یہی پی پی پی کی کامیابی ہے ۔
 
ایک بات جس کا آپ سب بھول گئے کہ اس لانگ مارچ کی اچھی بات یہ تھی کہ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر سمیت جو لوگ آئے تھے وہ صرف پاکستانی بن کہ آئے تھے ۔۔ ۔ اس کا مطلب (اگر کوئی سمجھے تو ) یہ ہی ہے کہ قوم میں ابھی بھی اتحاد باقی ہے ۔ ۔ ۔ اور پاکستانی کی پہچان ہے ۔ ۔۔ جو اس لانگ مارچ نے بتائی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ قومیت کا خاتمہ صرف از صرف اتحاد میں ہے جو کسی بھی لمحے میں ہو سکتا ہے ۔ ۔ اور چاہے ایوان ہلیں نہ ہلیں ۔ ۔ ۔ قوم کے کچھ لوگ ہی سہی (بقول مشیر مداخلہ بیس تیس ہزار) ہل رہے ہیں خالی سوچ نہیں رہے !!!!
بس جلن میں یہ بات کہہ رہے ہیں۔ ورنہ قوم تو پہلے ہی پی پی پی کی قیادت میں‌ متحد ہے اور یہ اتحاد حالیہ انتخابات میں‌بلکل ظاہر ہے۔ دھوم دھڑکا تو مداری بھی کرکے مجمع جمع کرلیتے ہیں بھائی۔
 
ناکام شو

اب جب کہ وکلا اپنا سا منہ لٹکا کر اسلام اباد سے واپس اگئے ہیں اور حالیہ لانگ مارچ کوئی ہدف حاصل نہ کرسکا۔ حقیقت میں‌کوئی ہدف تھا ہی نہیں۔ بلکہ یہ اعتزاز کی شخصیت سازی کا شو تھا جو بری طرح‌ناکام رہا حتیٰ کہ وکلا خود اعتزاز کے خلاف نعرے لگارہے ہیں۔
یہ بات اب واضح‌ہوتی جارہی ہے کہ عدلیہ کی ازادی پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہوگی اور عوام کو اس کے لیے پی پی پی کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس صورت حال میں‌نواز لیگ کا یہ فرض‌بنتا ہے کہ وہ پی پی پی کی حکومت کو سپورٹ کرے تاکہ پی پی پی کی حکومت دباو سے ازاد فیصلے کرسکے۔
 
اس کامیاب لانگ مارچ پر ہماری پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے ہماری پوری قوم نے جس مثالی نظم وضبط کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی تاریخی ہے ۔ ہماری قوم نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بڑھکر مثالی نظم وضبط کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔
بلکل قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔
پاکستانی قوم نے ایک بار پھر انارکی پھیلانے کے خواہش مندوں‌کو مسترد کردیا ہے۔
 
یقینا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پی پی پی نے آمروں‌ کے خلاف جدوجہد کی۔ یہ تو اچھی بات ہے۔
حالیہ لانگ مارچ اپنے کوئی بھی ہدف حاصل نہ کرسکا کیونکہ وکلا کی کنفوژ قیادت نے جان بوجھ کر یا کسی اور خفیہ مقاصد کے تحت وکلا کو مس گائیڈ کیا۔ وکلا اپنی تمام لانگ مارچ میں پارلیمنٹ پرغیر معینہ مدت تک دھرنا دینے کا پروگرام پریچ کررہے تھے مگر وائے ناکامی ہُشیار فسادی نے دھوکا دے دیا۔
اب وکلا پوچھتے پھررہے ہیں‌کہ ہم کیا کرنے اسلام اباد گئے تھے۔ دھوم دھڑکا ۔ وہ تو ہوگیا حاصل وصول کچھ نہیں۔

جتنی بڑی جہوری پارٹی پی پی پی کی ہے اس میں‌اسطرح‌کے اختلافات تو ظاہر ہے ہوتے ہی ہیں‌یہی پی پی پی کی کامیابی ہے ۔


محترم صرف بھٹو نے جنرل ایوب خان کے خلاف لانگ مارچ کیا تھا۔ اس کے بعد بی بی کے دونوں کئے گئے لانگ مارچ منتخب عوامی حکومت کے خلاف تھے۔ اس تصویر کو دوبارہ دیکھیں آپ کی سہولت کے لئے بی بی کے منتخب حکومت کے خلاف لانگ مارچ کو ہائی لائیٹ کر دیا ہے۔ بی بی تو مشرف کے خلاف لانگ مارچ کر ہی نہیں پائی تھی۔

لہذا یہ کہنا کہ پی پی پی نے صرف آمروں کے خلاف لانگ مارچ کئے غلط ہے۔ زیادہ لانگ مارچ تو منتخب حکومت کے خلاف رہے ہیں
 

دوست

محفلین
چونکہ وہ لانگ مارچ پی پی نے کیے تھے اس لیے وہ کامیاب ہیں۔ چونکہ یہ باقی تمام کوڑے کرکٹ نے کیا ہے اس لیے یہ ناکام ہے۔ ملک میں انارکی پھیلانے کی سازش تھی۔ اور ایک اچھا "شو"‌ تھا۔ آخر آپ کو یہ باتیں‌ سمجھ کیوں‌ نہیں‌ آرہیں‌۔ مشیر داخلہ یہی فرما رہے ہیں‌۔ مشرف اور پی پی کے ناجائز تعلقات کا پر"تاثیر"‌ نتیجہ بار بار یہ گردان کیے جارہا ہے۔ ہوش کے ناخن لیجیے اور چپ رہیے۔ پی پی والے اب دودھ کے دھلے بلکہ این آر او کے دھلے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
ہمت بھیا ۔۔۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ ۔۔کڑوا کڑوا تھو تھو۔۔۔ یعنی کیا بات ہے ۔۔۔ جہاں بھی موقع ملے ڈنڈی مار جائیے۔۔۔
دلائل سے آپ قائل نہیں ہوتے ۔۔۔ بلکہ منفی سمت سفر کرنا شروع کردیتے ہیں ۔۔ خیر ۔۔۔

ایک شعر‌ آپ کی نظر :

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
 
ہمت بھیا ۔۔۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ ۔۔کڑوا کڑوا تھو تھو۔۔۔ یعنی کیا بات ہے ۔۔۔ جہاں بھی موقع ملے ڈنڈی مار جائیے۔۔۔
دلائل سے آپ قائل نہیں ہوتے ۔۔۔ بلکہ منفی سمت سفر کرنا شروع کردیتے ہیں ۔۔ خیر ۔۔۔

ایک شعر‌ آپ کی نظر :

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
کونسی دلیل؟ دیجیے۔
میں‌نے تو سب کے جواب دیے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ
اس لانگ مارچ کا کیا نتیجہ نکلا؟
کیا مشرف بھاگ گیا؟
کیا ججز بحال ہوگئے؟
کیا حکومت دھونس میں‌اگئی

گالیاں‌تو میں‌بھی نکال سکتا ہوں ۔
 

ساجداقبال

محفلین
ممکن ہے اس مارچ کے فوری نتائج نہ ہوں لیکن دوررس فوائد کو نظر انداز نہیں‌کیا جا سکتا۔ واضح‌ رہے کہ مشرف کو وکلاء‌ یا سول سوسائٹی نے گھر سے اٹھا کر باہر نہیں پھینکنا بلکہ اس مارچ کا مقصد منتخب پارلیمنٹ کو اپنے وعدے یاد دلانے تھے۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ عرصہ بعد نوجوان نسل کو اس طرح کا کوئی موقع میسر آیا جس کی بدولت وہ کسی تحریک کیلیے منظم طور پر موبلائز ہو سکیں۔ پچھلے سال آپکو یاد ہو جب ایسا ہی سرکاری ”شو“ ہوا تھا تو تنظیم کا یہ حال تھا کہ روٹی اور پانی پر لوگ جھگڑ رہے تھے گو موسم بھی اس سے کافی بہتر تھا۔ لانگ مارچ کو کھڈے لائن اسلئے بھی نہیں لگا سکتے کہ پی پی پی کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وکلاء‌ اور سول سوسائٹی بھی اس ملک میں ایک طاقت ہیں اور آئندہ ایسے منظم مارچ کی بجائے کوئی منظم ایجی ٹیشن بھی شروع کر سکتے ہیں۔ فی الحال تو اسے بیس ہزار کا شو قرار دیکر کبوتر بنا جا سکتا ہے۔
 

دوست

محفلین
یہ یاددہانی تھی کہ ابھی قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرنے والے زندہ ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کو یاددہانی تھی کہ سیدھے ہوجاؤ۔ اس لانگ مارچ سے حکومت میں بیٹھے کئی لوگوں کو خاصا افاقہ ہوا ہے۔ زرداری کو بھی احساس ہے کہ اگر ججوں کو بحال نہ کیا تو پی پی پی بھی گئی۔ پارلیمنٹ اگر یہ نہ کرسکی تو سڑکیں گلیاں تو ہیں ہی پھر عوام اپنے ہاتھ سے فیصلہ لکھیں گے۔ یہ تو پہلا لانگ مارچ تھا۔ بطور ٹریلر۔
 
ممکن ہے اس مارچ کے فوری نتائج نہ ہوں لیکن دوررس فوائد کو نظر انداز نہیں‌کیا جا سکتا۔ واضح‌ رہے کہ مشرف کو وکلاء‌ یا سول سوسائٹی نے گھر سے اٹھا کر باہر نہیں پھینکنا بلکہ اس مارچ کا مقصد منتخب پارلیمنٹ کو اپنے وعدے یاد دلانے تھے۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ عرصہ بعد نوجوان نسل کو اس طرح کا کوئی موقع میسر آیا جس کی بدولت وہ کسی تحریک کیلیے منظم طور پر موبلائز ہو سکیں۔ پچھلے سال آپکو یاد ہو جب ایسا ہی سرکاری ”شو“ ہوا تھا تو تنظیم کا یہ حال تھا کہ روٹی اور پانی پر لوگ جھگڑ رہے تھے گو موسم بھی اس سے کافی بہتر تھا۔ لانگ مارچ کو کھڈے لائن اسلئے بھی نہیں لگا سکتے کہ پی پی پی کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وکلاء‌ اور سول سوسائٹی بھی اس ملک میں ایک طاقت ہیں اور آئندہ ایسے منظم مارچ کی بجائے کوئی منظم ایجی ٹیشن بھی شروع کر سکتے ہیں۔ فی الحال تو اسے بیس ہزار کا شو قرار دیکر کبوتر بنا جا سکتا ہے۔

اگر وکلا پارلیمنٹ کے اقتدار کو بالا مانتے ہیں‌تو لازما انھیں‌پارلیمنٹ‌کے فیصلوں‌کو بھی ماننا ہوگا چاہے وہ ان کی مرضی کے نہ ہوں۔ اپ کی یہ بات بھی ادھوری ہے کہ ایک عرصے کے بعد نوجوان نسل کو یہ موقع میسر ایا کہ وہ موبلائز ہوسکیں۔ موبلائزیشن اگر کسی مقصد کے لیے ہو تو اچھی ہے ورنہ بے سود۔ ویسے بے نظیر کے استقبال کے لیے عوام کی ایک عظیم اکثریت کی موبلائزیشن اپکی نظر میں‌کوئی اھمیت نہیں‌رکھتی؟ لانگ مارچ کو کھڈے لائن پی پی پی نے نہیں‌لگایا بلکہ انھوں‌نے تو اس کو facilitate کیا ہے جبکہ خود وکلا قیادت نے لانگ مارچ کھڈے لائن لگادیا۔ یہ لانگ مارچ دراصل وکلا تحریک کا نقطہ عروج تھا جو سخت کنفیوژن کا شکار رہا اور بے نتیجہ رہا۔ اب وکلا تحریک زوال ہی کی طرف گامزن رہے گی۔ منظم ایجی ٹیشن سیاسی جماعت ہی کرسکتی ہیں اکیلے وکلا نہیں۔ میری نظر میں‌وکلا کو اب پھر کنونشنز تک محدود رہنا چاہیے تاکہ افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کو فائدہ مند رکھا جاسکے اس سے بڑے دائرہ میں‌جاکر سوچنا صرف تجریدی بیانات تک محدود رکھنا چاہیے۔
حامد میر تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ لانگ مارچ سے چاند کی روشنی بڑھ جائے گی یا ہواوں‌میں‌خوشبو ائے گی۔ اسطرح کی شاعری سے کوئی کسی کو کیسے روک سکتا ہے۔
 
یہ یاددہانی تھی کہ ابھی قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرنے والے زندہ ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کو یاددہانی تھی کہ سیدھے ہوجاؤ۔ اس لانگ مارچ سے حکومت میں بیٹھے کئی لوگوں کو خاصا افاقہ ہوا ہے۔ زرداری کو بھی احساس ہے کہ اگر ججوں کو بحال نہ کیا تو پی پی پی بھی گئی۔ پارلیمنٹ اگر یہ نہ کرسکی تو سڑکیں گلیاں تو ہیں ہی پھر عوام اپنے ہاتھ سے فیصلہ لکھیں گے۔ یہ تو پہلا لانگ مارچ تھا۔ بطور ٹریلر۔
دوست اس طرح‌کے طرز عمل کو ہی انارکی پھیلانا کہتے ہیں کہ عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو مسترد کرتے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلوں‌کو رائج کرنے کے لیے قانون کو ہاتھ میں‌لینا۔
 

ساجداقبال

محفلین
چودہ جون کی شب اسلام آباد میں پانچ لاکھ افراد جمع ہوئے یا بیس ہزار، دھرنا دینا چاہیے تھا یا نہیں ان باتوں اور دعووں سے قطع نظر لانگ مارچ نے کئی ایسے زاویے واضح کیے ہیں جو اب تک دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔

پہلی بات یہ کہ پاکستان کا عام آدمی اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کے روایتی دعویداروں کے اشارہ ابرو سے بے نیاز ہوکر خود بھی اپنے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کرسکتا ہے اور اپنی قیادت خود کرسکتا ہے۔

دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ یہ آدمی تمام تر مایوسی، لاچاری اور روزمرہ مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود پرامن طور پر ایک اجتماعی سفر کا حصہ بن سکتا ہے اور حکومتیں اگر اس پر اعتماد کریں تو وہ اب بھی حکومتوں کو کچے پکے ، آدھے پونے وعدے وفا کرنے کی مہلت دے سکتا ہے۔
وسعت اللہ خان نے اس اتوار کو اسی کے متعلق کالم لکھا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
ہمت بھائی آپ وہ طلعت حسین والا پروگرام دیکھتے تو پی پی پی کے لیڈران کے پینترا بدلنے پر اب تک آپ ان پر دو حرف بھیج چکے ہوتے۔ یہی شیری رحمٰن اور دوسرے اسوقت قیام پاکستان کے بعد اسی وکلاء‌ تحریک کو مقدس قرار دے رہے تھے لیکن آج۔۔۔
افسوس میں شرفو کو زبان سے پھر جانے والا سمجھتا تھا لیکن پی پی پی والے چار ہاتھ آگے۔

مجھے کوئی حیرت نہ ہوگی اگر کچھ عرصہ بعد مشرف کے نام کے ساتھ بھٹو کا اضافہ کر دیا جائے۔
 
یہ اشک شوئی کی کوشش کے سوا کچھ اور نہیں۔
پہلی بات یہ کہ پاکستان کا عام آدمی اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کے روایتی دعویداروں کے اشارہ ابرو سے بے نیاز ہوکر خود بھی اپنے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کرسکتا ہے اور اپنی قیادت خود کرسکتا ہے۔
عوام کی موبلائزیشزین روایتی سیاسی جماعتوں نواز لیگ، جماعت اسلامی ، تحریک انصاف، و دوسری چھوٹی جماعتوں‌کے کارکنوں اور ان کے حامی وکلا نے کیں‌ تھیں۔ عوام کبھی سیاسی قیادت کے بنا میدان میں نہیں‌اتیں‌۔ وسعت کا یہ بیان ادھورا سچ ہے۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ یہ آدمی تمام تر مایوسی، لاچاری اور روزمرہ مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود پرامن طور پر ایک اجتماعی سفر کا حصہ بن سکتا ہے اور حکومتیں اگر اس پر اعتماد کریں تو وہ اب بھی حکومتوں کو کچے پکے ، آدھے پونے وعدے وفا کرنے کی مہلت دے سکتا ہے۔
یہ تو اپنے دل بہلاوے کے لیے ہے۔ جب اخیتار ہاتھ میں‌ہو تو کوئی کسی کو مہلت نہیں‌دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل اختیار ان لوگوں‌کے ہاتھ میں‌نہیں‌جو بقول وسعت کے "مہلت دینے کو تیار ہیں"
یہ تو ناکامی کے احساس کو کم کرنے کی بات ہے۔

تیسری بات یہ کہ عام آدمی نے ساٹھ برس میں آج تک روٹی، کپڑے یا مکان کے لیے پانچ دن کا لانگ مارچ نہیں کیا۔بلکہ مارے غیرت کے اپنا تماشا بنانے کے بجائے گھر کے اندر بھوکے رہنے یا خودکشی کرنے یا بچوں کو مار ڈالنے کی کوشش کی۔

البتہ حصولِ انصاف کے لیے اسے جون کی دوپہر میں سفر کی صعوبتیں گلے لگانے سے ھچکچاہٹ نہیں ہوئی۔شائد اسے آج بھی امید ہے کہ انصاف کی مملکت ہوگی تو ایک روٹی میں سے بھی اسے اپنے حصے کا ٹکڑا مل جائےگا۔اور جنگل کا قانون ہوا تو طاقتور اسکا فاقہ ، تن کا ننگ، بے گھری اور عزت بھی بیچ کھائے گا۔


عام ادمی نے لانگ مارچ کیا ہی نہیں۔ یہ تو سیاسی جماعت کے کارکن اور ان کے حامی وکلا تھے۔ عام ادمی تو اپنی زندگی گزرانے کے لیے سامان کی تگ و ود میں‌لگا ہوا ہے۔

ایسے لشکر سے ڈرنا چاہیے جو ہدف تک پہنچ کر لوٹ جائے۔ایسے لشکر کے صبر اور اعتماد کو کمزوری سمجھنے کا نتیجہ تاریخ میں جگہ جگہ بکھرا پڑا ہے۔ایسا لشکر سٹیٹس کو یا جاری نظام برقرار رکھنے کے حامیوں پر ایک مرتبہ اعتبار کرتا ہے۔دو مرتبہ اعتبار کرتا ہے۔لیکن تیسری مرتبہ اپنا نظریہ، اپنی قیادت اور اپنا نظام ساتھ لاتا ہے اور ریاست کے ستونوں کو اپنےساتھ لے جاتا ہے۔

ایسا لشکر جو واضح‌ہدف رکھتا ہوکبھی اپنے ہدف پر پہنچ کر بے مراد نہیں‌لوٹتا ۔ ہاں‌ اگر کنفیوژ لوگوں‌ کا ایک گروہ ہو تو پھر کہتا ہے کہ " پھر ائیں‌گے"

لانگ مارچ کے پرامن اختتام پر حکومت کو سکھ کا سانس لینے کے بجائے تشویش ہونی چاہیے۔یہ اختتام نہیں مہلت ہے۔سو دن کی ترجیحات مکمل کرنے کی مہلت۔عدلیہ کو خودمختار کرنے کی مہلت۔بھوک،ننگ، جہالت ، بیماری اور عدم تحفظ کے خلاف ترجیحات وضع کرنے اور قومی حقوق دینے کی مہلت۔اگر اب بھی مسخرہ پن جاری رہا تو پھر یوں بھی ہوسکتا ہے کہ

مہلت تھی جب تو دل کو تھا بے کاریوں سے شغل
اب کام یاد آئے تو مہلت نہیں رہی۔


حکومت تو میرے خیال میں‌سکھ کا سانس لے ہی نہیں‌سکتی اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتی رہے گی۔ انشاللہ
مگر لانگ مارچ کے کنفوژن کی بنا پر وسعت ایسے تجریدی کالم نہ لکھے تو بی بی سی نوکری سے نہ نکال دے۔
 
ہمت بھائی آپ وہ طلعت حسین والا پروگرام دیکھتے تو پی پی پی کے لیڈران کے پینترا بدلنے پر اب تک آپ ان پر دو حرف بھیج چکے ہوتے۔ یہی شیری رحمٰن اور دوسرے اسوقت قیام پاکستان کے بعد اسی وکلاء‌ تحریک کو مقدس قرار دے رہے تھے لیکن آج۔۔۔
افسوس میں شرفو کو زبان سے پھر جانے والا سمجھتا تھا لیکن پی پی پی والے چار ہاتھ آگے۔

مجھے کوئی حیرت نہ ہوگی اگر کچھ عرصہ بعد مشرف کے نام کے ساتھ بھٹو کا اضافہ کر دیا جائے۔
ساجد بھائی میں‌نے وہ پروگرام دو مرتبہ دیکھا ہے جو اپنے دو مختلف پوسٹز میں‌دیا تھا۔
میری رائے میں‌اپ اسکو ایک بار پھر دیکھیے اور طلعت کی کمنٹری کے بغیر۔
پی پی پی کا اب بھی وہی موقف ہے جو اس وقت تھا۔
یہ طلعت کی کارگزاری ہے کہ وہ اچھے موقف کو یہ کہہ کر دکھلارہا ہے کہ پی پی پی اپنے موقف سے ہٹ گئی ہے۔ صرف اس بنا پر کہ طریقہ کار مختلف ہے یا ترمیم شدہ موقف نئے حالات کے تحت ہے جو طلعت کی سوچ سے مطابقت نہیں‌ رکھتا۔
پروگرام دیکھ کر اور حالات کا درست اندازہ کرکے پی پی پی کے موقف کو سراہنا چاہیے۔
 
Top