صابرہ امین
لائبریرین
گئے دنوں کی بات ہے شاید بی ایس سی فائنل کی، جب ایک دن ہماری ایک دوست نے ہمیں ایک حیرت ناک خبر دی کہ اس کی ایک دوست کی بہن جو برابر والے کالج میں پڑھتی ہے وہ ہماری ہم شکل ہے۔ ہماری بے یقینی اور ہنسی کو دیکھتے ہوئے وہ دوسرے ہی دن اس کی تصویر لے کر آ گئیں۔ ارے یہ کیا! وہ تو ہو بہو ہماری ہم شکل تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کہ ہماری لک الائک ہے۔ ۔ فرق یہ تھا کہ اس کے بال شولڈر کٹ تھے ہماری دو چوٹیاں کمر تک لمبی۔ تمام سہیلیوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا۔ کاش کہ برابر والے کالج جا کر اس کے ساتھ ایک تصویر بنا لی ہوتی ۔ خیر یہاں اس بات کا محل ابھی کچھ دیر بعد سمجھ میں آئے گا۔
اردو محفل میں ہماری شاعری کا سفر دھیرے دھیرے کامیابی سے جاری تھا۔ ہم نے نئی پرانی ہر ہر لڑی کھنگالنے کا ٹھیکہ لے لیا تھا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ گپ شپ کی لڑیوں میں وقت کی کمی کے باعث زیادہ آنا جانا نہیں رہا۔ ایک دن فیس بک پر پڑھا کہ اگر کوئی پانچ ہزار اشعار یاد کر لے تو اس کو شاعری آ جاتی ہے۔ ہمیں تو یہ ترکیب بہت بھائی اور چپکے چپکے ہم نے بھی محفل میں مختلف شعرا کو ڈھونڈھنا شروع کیا۔ ہماری شاندار ترکیب یہ تھی کہ اگر ایک ہی شاعر کے پانچ ہزار اشعار یاد کر لیے تو ہم ایک چھوٹے موٹے فیض، فراز یا پروین شاکر بن جائیں گے۔ مختلف شاعروں کو یاد کرنے سے کسی کو کبھی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ ہم کون سے شاعر ہیں!! لڑیوں کو کھنگالنا ہمیں کافی مشکل معلوم ہوا تو ایک دن محفل کے منتظم تابش بھائی( جن کے دادا محترم کی شاعری پر ہم کچھ کچھ ہاتھ صاف کر چکے تھے) سے استاد محترم الف عین اور ظہیراحمدظہیر کی شاعری کے لنکس طلب کئے۔ یہ محفل کی سالگرہ کا زمانہ تھا اور انہوں نے اپنے پوسٹرز میں ان دونوں معزز اساتذہ کے اشعار استعمال کیے تھے۔ انہوں نے فورا ہی لنکس فراہم کر دیئے اور ہم نے شاعری کو پڑھنا شروع کر دیا۔ استاد محترم کے انداز سے تو واقفیت اصلاح لیتے لیتے ہونے لگی تھی مگر ظہیر صاحب کی شاعری واقفیت نہ ہونے کے باعث ایک الگ طرح کی معلوم ہوئی۔ ایک دن تو یہ ہوا کہ ایک غزل پڑھتے پڑھتے ہم نے بھی کئ اشعار اسی زمین پر کہہ ڈالے۔ ارے واہ یہ تو ایک غزل ایجاد ہو گئی!! اب مسئلہ یہ ہوا کہ اگر اس کو اصلاح سخن میں پیش کیا تو نا صرف سب سمجھ جائیں گے بلکہ اندیشہ یہ ہوا یہ محترم بھی کھنچائی کے لیے پہنچ جائیں کہ آپ نے ہماری غزل کا چربہ پیش کر دیا ہے۔ ہم ان کو سالگرہ کی لڑیوں میں دیکھ ہی چکے تھے۔ کون سی لڑی تھی جہاں ان کے قدم نہ پہنچے ہوں!! کسی سے نوک جھونک نہ کی ہو!! کسی کو فری فنڈ سے مشورہ نہ دیا ہو یا کسی کی کھنچائی نہ کی ہو!! تو اب سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کیا جائے۔ آخر دماغ لڑانے پر ایک ترکیب ہمارے معصوم (جی جی معصوم ) سے ذہن میں آئی کہ اصلاح سخن میں جا کر شرمندہ ہونے سے بہتر ہے کہ انہی کی غزل کے نیچے مراسلہ لکھ کر اپنی کاوش پیش کر دی جائے اور اقرار جرم کر لیا جائے! یعنی آ بیل مجھے مار!! نہیں نہیں!! یعنی آئیے محترم استاد ہمارے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی اصلاح کیجیے! ایک دن ہم نے ایسا ہی کر ڈالا۔ مگر یہ کیا!! انہوں نے تو ہماری تعریف کی، ہمیں کچھ نہیں کہا اور رہنمائی کا عندیہ دیا!! اصل میں ہمیں یہ معلوم ہی نہ تھا کوئی بھی شاعر کسی کی بھی زمین پر اپنا پلازہ تعمیر کر سکتا ہے۔!! یہ غزل کامیاب ہوئی یا نہیں یہ بات ثانوی رہ گئی کہ اس پر انہوں نے غزل سازی پر اتنی پرمغز گفتگو اور مفید باتیں کیں کہ غالبا راحل بھیا نے اسے پن کرنے کا مشورہ دیا اور پیاری نور وجدان نے اس پر فورا عمل کر ڈالا!!
یہ ابتدا تھی اردو محفل کے ایک بہترین ترین اساتذہ میں سے ایک استاد سے شاعری کے رموز و اسرار سیکھنے کی۔ ہم نے جب جب اصلاح سخن میں اپنی شاعری پیش کی، آپ نے ہمیشہ اپنی انتہائی مصروفیت میں سےقیمتی وقت نکال کر بےحد لگن، توچہ اور ہمدردی سے ہمیں ایسی ایسی باریکیاں سکھائیں کہ قافیے کی غلطی تو تقریبا خواب ہی ہو گئی۔ ہماری غزلوں پر آپ کے نکات پڑھنے سبھی بھاگے بھاگے آتے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ محسوس ہوا کہ یہ بات تو بڑھتی ہی جا رہی ہے کہ جو غزل پڑھیں اس کا متبادل تیار ہو جاتا۔ خدشہ یہ ہوا کہ اس ادبی شباہت کے سبب ہم ان کا ایک فیمیل ورژن نہ بن جائیں۔ ۔ پھر ہماری ہجرت نے اس شاعری کے سلسلے کو تقریبا موقوف ہی کر دیا۔ اور دنیا ایک ادبی لک الائیک محترمہ ظہیرہ خاتون سے محروم ہو گئیں!!
آپ کی علم دوستی، سخن فہمی، سخن شناسی اور دولت علم سے مالا مال ہونے کی گواہ پوری اردو محفل ہے۔ میں تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے سخن شناسی سے متعلق میری کم علمی بلکہ جہالت کو دور کرنے کی سعی پیہم کی۔ بہت شفقت، توجہ، احساس مروت اور برداشت کا عملی مظاہرہ کیا۔ میرے بےتکے سوالات کو سمجھا اور میری سوچ کے در وا کیے ایک ایسی دنیا کے لیے کہ جہاں میں اب اعتماد اور کسی حد تک علمی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کر سکتی ہوں۔ یہ اردو محفل کا ہی کرشمہ تھا کہ میری زندگی میں ایسا ادبی معجزہ ہوا کہ تمام عمر کی علمی پیاس کو ایک مختصر ترین عرصے میں سیراب کر ڈالا۔
آج بھی اتنی ہی حیران ہوں کہ جتنی کہ اس دن تھی جب میں نے ایک اپنی ہم شکل دیکھی تھی۔ میرا ایک مضمون "شوہریات " آپ کے ایک مضمون سے کس قدر مماثلت رکھتا ہے۔ یہ مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں لکھا گیا مگر حیرت انگیز طور پر ملتا جلتا ہے!! ہاں اس کے لکھنے کا باعث آپ کے مندرجہ ذیل دو عدد مراسلات ہی تھے۔
ان کو پڑھ کر ہمارے معصوم سے دماغ نے سوچا کہ بیگم ہی کیوں شوہر کیوں نہیں جو ہنسی کا سامان ہوں۔ ۔ ۔ اور ٹی وی ہونا یا نا ہونا کون سی قابل فخر بات ہے۔ مطلب جن کے گھر میں ہے وہ توڑ ڈالیں؟؟!! اور پھر سترہ سال ۔بات یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں۔ پیریڈ!! بس یہ مواد کافی تھا کہ ہم نے ایک مضمون لکھ مارا!!
یہ آپ کی زندہ دلی ہے کہ آپ نے برا منائے بغیر اس کو مزاح ہی سمجھا۔۔ اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔ آپ کی شاعری اور نثری تخلیقات کا سفر جاری و ساری رہے۔ اللہ آپ کی عمر، علم اور وقت میں برکت عطا فرمائے۔ آپ کی کامیابیوں کے لیے میرے اور تمام محفلین کے دست دعا ہمیشہ دراز رہیں گے۔
اردو محفل میں ہماری شاعری کا سفر دھیرے دھیرے کامیابی سے جاری تھا۔ ہم نے نئی پرانی ہر ہر لڑی کھنگالنے کا ٹھیکہ لے لیا تھا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ گپ شپ کی لڑیوں میں وقت کی کمی کے باعث زیادہ آنا جانا نہیں رہا۔ ایک دن فیس بک پر پڑھا کہ اگر کوئی پانچ ہزار اشعار یاد کر لے تو اس کو شاعری آ جاتی ہے۔ ہمیں تو یہ ترکیب بہت بھائی اور چپکے چپکے ہم نے بھی محفل میں مختلف شعرا کو ڈھونڈھنا شروع کیا۔ ہماری شاندار ترکیب یہ تھی کہ اگر ایک ہی شاعر کے پانچ ہزار اشعار یاد کر لیے تو ہم ایک چھوٹے موٹے فیض، فراز یا پروین شاکر بن جائیں گے۔ مختلف شاعروں کو یاد کرنے سے کسی کو کبھی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ ہم کون سے شاعر ہیں!! لڑیوں کو کھنگالنا ہمیں کافی مشکل معلوم ہوا تو ایک دن محفل کے منتظم تابش بھائی( جن کے دادا محترم کی شاعری پر ہم کچھ کچھ ہاتھ صاف کر چکے تھے) سے استاد محترم الف عین اور ظہیراحمدظہیر کی شاعری کے لنکس طلب کئے۔ یہ محفل کی سالگرہ کا زمانہ تھا اور انہوں نے اپنے پوسٹرز میں ان دونوں معزز اساتذہ کے اشعار استعمال کیے تھے۔ انہوں نے فورا ہی لنکس فراہم کر دیئے اور ہم نے شاعری کو پڑھنا شروع کر دیا۔ استاد محترم کے انداز سے تو واقفیت اصلاح لیتے لیتے ہونے لگی تھی مگر ظہیر صاحب کی شاعری واقفیت نہ ہونے کے باعث ایک الگ طرح کی معلوم ہوئی۔ ایک دن تو یہ ہوا کہ ایک غزل پڑھتے پڑھتے ہم نے بھی کئ اشعار اسی زمین پر کہہ ڈالے۔ ارے واہ یہ تو ایک غزل ایجاد ہو گئی!! اب مسئلہ یہ ہوا کہ اگر اس کو اصلاح سخن میں پیش کیا تو نا صرف سب سمجھ جائیں گے بلکہ اندیشہ یہ ہوا یہ محترم بھی کھنچائی کے لیے پہنچ جائیں کہ آپ نے ہماری غزل کا چربہ پیش کر دیا ہے۔ ہم ان کو سالگرہ کی لڑیوں میں دیکھ ہی چکے تھے۔ کون سی لڑی تھی جہاں ان کے قدم نہ پہنچے ہوں!! کسی سے نوک جھونک نہ کی ہو!! کسی کو فری فنڈ سے مشورہ نہ دیا ہو یا کسی کی کھنچائی نہ کی ہو!! تو اب سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کیا جائے۔ آخر دماغ لڑانے پر ایک ترکیب ہمارے معصوم (جی جی معصوم ) سے ذہن میں آئی کہ اصلاح سخن میں جا کر شرمندہ ہونے سے بہتر ہے کہ انہی کی غزل کے نیچے مراسلہ لکھ کر اپنی کاوش پیش کر دی جائے اور اقرار جرم کر لیا جائے! یعنی آ بیل مجھے مار!! نہیں نہیں!! یعنی آئیے محترم استاد ہمارے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی اصلاح کیجیے! ایک دن ہم نے ایسا ہی کر ڈالا۔ مگر یہ کیا!! انہوں نے تو ہماری تعریف کی، ہمیں کچھ نہیں کہا اور رہنمائی کا عندیہ دیا!! اصل میں ہمیں یہ معلوم ہی نہ تھا کوئی بھی شاعر کسی کی بھی زمین پر اپنا پلازہ تعمیر کر سکتا ہے۔!! یہ غزل کامیاب ہوئی یا نہیں یہ بات ثانوی رہ گئی کہ اس پر انہوں نے غزل سازی پر اتنی پرمغز گفتگو اور مفید باتیں کیں کہ غالبا راحل بھیا نے اسے پن کرنے کا مشورہ دیا اور پیاری نور وجدان نے اس پر فورا عمل کر ڈالا!!
یہ ابتدا تھی اردو محفل کے ایک بہترین ترین اساتذہ میں سے ایک استاد سے شاعری کے رموز و اسرار سیکھنے کی۔ ہم نے جب جب اصلاح سخن میں اپنی شاعری پیش کی، آپ نے ہمیشہ اپنی انتہائی مصروفیت میں سےقیمتی وقت نکال کر بےحد لگن، توچہ اور ہمدردی سے ہمیں ایسی ایسی باریکیاں سکھائیں کہ قافیے کی غلطی تو تقریبا خواب ہی ہو گئی۔ ہماری غزلوں پر آپ کے نکات پڑھنے سبھی بھاگے بھاگے آتے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ محسوس ہوا کہ یہ بات تو بڑھتی ہی جا رہی ہے کہ جو غزل پڑھیں اس کا متبادل تیار ہو جاتا۔ خدشہ یہ ہوا کہ اس ادبی شباہت کے سبب ہم ان کا ایک فیمیل ورژن نہ بن جائیں۔ ۔ پھر ہماری ہجرت نے اس شاعری کے سلسلے کو تقریبا موقوف ہی کر دیا۔ اور دنیا ایک ادبی لک الائیک محترمہ ظہیرہ خاتون سے محروم ہو گئیں!!
آپ کی علم دوستی، سخن فہمی، سخن شناسی اور دولت علم سے مالا مال ہونے کی گواہ پوری اردو محفل ہے۔ میں تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے سخن شناسی سے متعلق میری کم علمی بلکہ جہالت کو دور کرنے کی سعی پیہم کی۔ بہت شفقت، توجہ، احساس مروت اور برداشت کا عملی مظاہرہ کیا۔ میرے بےتکے سوالات کو سمجھا اور میری سوچ کے در وا کیے ایک ایسی دنیا کے لیے کہ جہاں میں اب اعتماد اور کسی حد تک علمی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کر سکتی ہوں۔ یہ اردو محفل کا ہی کرشمہ تھا کہ میری زندگی میں ایسا ادبی معجزہ ہوا کہ تمام عمر کی علمی پیاس کو ایک مختصر ترین عرصے میں سیراب کر ڈالا۔
آج بھی اتنی ہی حیران ہوں کہ جتنی کہ اس دن تھی جب میں نے ایک اپنی ہم شکل دیکھی تھی۔ میرا ایک مضمون "شوہریات " آپ کے ایک مضمون سے کس قدر مماثلت رکھتا ہے۔ یہ مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں لکھا گیا مگر حیرت انگیز طور پر ملتا جلتا ہے!! ہاں اس کے لکھنے کا باعث آپ کے مندرجہ ذیل دو عدد مراسلات ہی تھے۔
فلم دیکھے ایک زمانہ ہوا کہ گھر میں سولہ سترہ سالوں سے ٹی وی نہیں ہے۔
نوٹ: بیگم کو میرا لکھنا لکھانا بالکل پسند نہیں اور اسے وقت کا ضیاع سمجھتی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں عقلمندوں کے لیے کوئی سراغ ہو ۔![]()
ان کو پڑھ کر ہمارے معصوم سے دماغ نے سوچا کہ بیگم ہی کیوں شوہر کیوں نہیں جو ہنسی کا سامان ہوں۔ ۔ ۔ اور ٹی وی ہونا یا نا ہونا کون سی قابل فخر بات ہے۔ مطلب جن کے گھر میں ہے وہ توڑ ڈالیں؟؟!! اور پھر سترہ سال ۔بات یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں۔ پیریڈ!! بس یہ مواد کافی تھا کہ ہم نے ایک مضمون لکھ مارا!!
یہ آپ کی زندہ دلی ہے کہ آپ نے برا منائے بغیر اس کو مزاح ہی سمجھا۔۔ اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔ آپ کی شاعری اور نثری تخلیقات کا سفر جاری و ساری رہے۔ اللہ آپ کی عمر، علم اور وقت میں برکت عطا فرمائے۔ آپ کی کامیابیوں کے لیے میرے اور تمام محفلین کے دست دعا ہمیشہ دراز رہیں گے۔
آخری تدوین: