الوداعی تقریب ناقابلِ اصلاح غزل

اگر یہ ایک مسلسل غزل ہے تو شوہریات اور بیویات کو اکٹھے چھیڑ بیٹھی ہے۔ مطلع کے پہلے مصرع میں بیگم صاحبہ اپنے میاں کے بالوں کی رنگت پر بات کرتی پائی جا رہی ہیں، حالانکہ ان کو غنیمت جاننا چاہیے کہ ان کے میاں کے سر پہ بال موجود ہیں، ورنہ بہتوں کو تو وہ بھی نصیب نہیں ہوتے۔اگلے ہی مصرع میں میاں کیوں پیچھے رہتے؟کہنے لگے کہ میرے بالوں کی رنگت مصنوعی سہی، آپ بھی تو Maybelline اور Revolution کی میک اپ کِٹس کی" منیاری" لگائے بیٹھی ہیں، ورنہ میں اس میک اپ کی تہہ کے پیچھے کا انسان جانتا نہیں؟ (بیک گراؤنڈ میں گانا چل رہا ہے، لے کے چہرۂ پر نور، ایسے بیٹھے ہیں حضور، جیسے جانتے نہیں، پہچانتے نہیں۔۔۔کر کے (پارلر کے) "بِل کا شیشہ چُور، ایسے بیٹھے ہیں حضور جیسے۔۔۔)

اگلے ہی شعر میں بیگم گویا ہوتی ہیں کہ آپ کی زلفوں کی رنگت پہ بات کی تھی، غنیمت نہ جانا۔ اب ان کی ہئیت پر بھی بات کر لیتے ہیں، نِری مصنوعی ہیں اور آپ سونے سے پہلے یہ زلفیں اتار کر سوتے ہیں۔ ہم میک اپ دھو بھی لیں تو نیچے کچھ نین نقش موجود ہیں، مگر آپ کے اس گھنے جنگل کے نیچے چٹیل میدان ہے!!!

اگلے ہی شعر میں میاں صاحب فرماتے ہیں کہ پہلے تو یہ عالم تھا کہ "آنکھیں دیکھیں تو میں دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔۔جام دو ہیں اور دونوں ہی دو آتشہ" اور اب یہ حال ہے کہ کیا کہوں، قدرت کی صناعی دیکھتے دیکھتے انسان کی مصنوعی کوزہ گری کے چنگل میں پھنس گیا اور اب ان آنکھوں پر وہی ایک شعر صادق آتا محسوس ہوتا ہے کہ پچھلا ہر کلام تو کاذب ٹھہرا: "میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی۔۔۔۔۔آنکھ میں موتیا اتر آیا!"

(بیگم صاحبہ اس معاملے کی گھمبیرتا کی گہرائی و گیرائی جانچتے ہوئے خاموش تماش بین بنی بیٹھی ہیں کہ یہ بڑبولا ایک بار بول ہی لے، اس پہ اکٹھا ایک دیوان لکھ کر گھر گھر بانٹوں گی!!!)

میاں صاحب مزید گویا ہوتے ہیں کہ لطیفے پر ہنسی ایک دو بار آتی ہے، کاش مجھے یہ بات بھری جوانی میں سمجھ آ جاتی۔ میں بیگم صاحبہ کی حسِ ظرافت پر مر مٹا اور یہ نہ جان پایا کہ ان کے پاس یہی دو چار لطیفے ہیں جو ریسائیکل ہوتے رہتے ہیں۔ اب بیگم اور لطیفے تو وہی ہیں لیکن میرے قہقہوں کی جگہ آہ و بکا نے لے لی ہے۔اگلے شعر میں مزید کہتے ہیں کہ بیگم کے بغیر دن گنتا تھا اور کہتا تھا کہ "نہ تو آئے گی، نہ ہی چَین آئے گا" مگر اب زندگی اک جبرِ مسلسل کی طرح کاٹ رہا ہوں اور ہر چند روز بعد میرے دل میں خیال آتا ہے کہ "میں تو اہل ہوں کسی اور کا ، مری اہلیہ کوئی اور ہے۔"

مقطع میں شاعر خورشید تخلص رکھتے ہیں اور کسی کو بھنک نہیں پڑنے دیتے کہ بیگم صاحبہ درحقیقت اس سورج گرہن پر دیوان لکھ کر چھپوانے کی تیاریوں میں ہیں ۔وہ اس بات سے البتہ خود بھی بے خبر ہیں کہ جنہیں وہ کاغذی پھول کہہ رہے ہیں اصلی تناور درخت اب اپنی شاخوں (بچوں) کی موجودگی میں وہی ہے اور بیگم کا عروج کا دور آیا ہی چاہتا ہے کہ بقول احمد فراز دوئم "بچے تیرے جوان ہیں کچھ تو خیال کر"!
یہ صرف ازراہ تفنن مجھے فی البدیہہ مسخریاں سوجھی ہیں کیونکہ آپ نے ٹیگ کر کے رائے مانگ لی تھی، کسی بھی قاری یا لکھاری کے ساتھ اس کی مماثلت فقط اتفاقیہ ہو گی۔ :rollingonthefloor:
بہت بہت بہت شکریہ!
قسم سے اتنی اچھی تشریح میں بھی نہیں کرسکتا تھا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
گل تے کوئی خاص نہ ہوئی مگر بارشاں بہت لگیاں۔

یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
جو برس گئیں تو بہار ہیں
جو ٹہر گئیں تو قرار ہیں
کبھی آ گئیں یونہی بے سبب
کبھی چھا گئیں یونہی روز و شب
کبھی شور ہیں کبھی چُپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
 
Top