الوداعی تقریب محفل کی گلیوں میں ایک مسافر کا پیغام

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
السلام علیکم محفلین
26 مارچ 2021 کا دن تھا جب ایک شعر کی تلاش میں اردو محفل تک پہننچنا ہوا۔ محفل کی رکنیت اختیار کی۔تلاش تو صرف ایک شعر کی تھی، لیکن محفل کی گلیاں ایسی بھائیں کہ وہیں ڈیرا ڈال لیا۔ شعر کہنا تو کبھی مقصد ہی نہ تھا ، کیونکہ ردیف اور قافیہ دیکھ کر دماغ پلٹ کر فوراً اعلان کر دیتا تھا کہ"یہ ہمارے بس کی بات نہیں!" مگر رفتہ رفتہ اشعار کی گلیوں میں گھومتے گھومتے، ان کے اشارے، کنائے اور چھپی مسکراہٹیں سمجھنے کا فن کافی حد تک سیکھ ہی گئے۔ ایسا ہمارا ماننا ہے۔ اب جبکہ محفل اپنی کتاب بند کرنے کو ہے، تو دل کہتا ہے: "واہ! کیسا سہانا سفر تھا یہ جو عرصہ چار سال پر محیط تھا مگر اس میں نہ الفاظ کم ہوئے، نہ حیرت۔ اور محبتوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں"
تو عرض یہ ہے کہ فانی بدایونی کی غزل کا ترجمہ رخصتِ محفل کے تناظر میں کرنے کی کوشش کی ہے، اسےہماری طرف سے اس محفل کو الوداعی سلام سمجھئیے۔
چلے بھی آؤ وہ ہے قبر فانیؔ دیکھتے جاؤ
تم اپنے مرنے والے کی نشانی دیکھتے جاؤ


اس شعر میں شاعر موت کی حقیقت اور اس کے بعد کی یادوں کا ذکر کر رہا ہے۔
محفل ایک جیتی جاگتی جگہ تھی جہاں الفاظ کی خوشبو، محبت، ہنسی، اور یادیں بسی ہوئی تھیں۔لیکن اب محفل برخاست ہونے جا رہی ہے۔ اسے الوداع کہنے کا وقت آ گیا ہے۔اس آخری لمحے میں آ کر اسے دیکھ لو۔ محفل کے مراسلے، پوسٹس، ادبی لڑیوں اور دوستوں کی باتیں وہ "نشانی" ہیں، جو ہمیشہ یاد دلائیں گی کہ یہاں کتنی محبتیں اور کتنی یادیں بستی تھیں۔محفل نہ رہے گی لیکن تبصروں کی، ہنسی مذاق کی گونج ہماری یادوں کا حصہ بن کر ہمارے ساتھ رہے گی۔

ابھی کیا ہے کسی دن خوں رلا دے گی یہ خاموشی
زبان حال کی جادو بیانی دیکھتے جاؤ


(ابھی تو دمِ آخر بھڑکنے والی شمع کی طرح سوئے محفلین جاگ کر پوسٹوں کے انبار لگا رہے ہیں تا کہ ان پر سے پوستی ہونے کا لیبل ہٹ جائے۔ )
محفل جس دن شاید خاموش ہو جائے گی، لوگوں کی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی محفل پر، تبصرات کرنے کا حق چھن جائے گا تو فورم کی رونق کم پڑ جائے گی۔
پھریہ خاموشی ابھی جو ہمیں صرف ایک "سناٹا" لگ رہی ہے، کل کو یہی اتنی شدت اختیار کرے گی کہ دل خون کے آنسو روئے گا۔
محفل کی پرانی پوسٹس، پرانے دھاگے، محفلین کی یادیں ، سب زبانِ حال کی طرح خاموش رہ کر بھی ہماری روح سے بات کریں گے اور یہی ان کی جادو بیانی ہے۔

غرور حسن کا صدقہ کوئی جاتا ہے دنیا سے
کسی کی خاک میں ملتی جوانی دیکھتے جاؤ

یہ شعر فنا اور عاجزی کی یاد دلاتا ہوا ہے۔ دائمی کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ نہ حسن ، نہ جوانی۔ مگر انسان کی خوبصورت یادیں اور محبتیں ضرور باقی رہتی ہیں۔
شاعر اس وقت کو یاد کر رہا ہے جب محفل کی رونق، ہنسی، قہقہے، اور خوبصورت تحریریں عروج پر تھیں۔
سب کو اپنے الفاظ کے چناؤ، اپنی تحریر کی مقبولیت، اور اپنی ادبی کاوشوں پر مان تھا۔
مگر آج، جب محفل ختم ہونے جا رہی ہے، تو یہ منظر اسی طرح سےہے جیسے حسن کا غرور مٹی میں مل جانا۔
یادیں باقی رہ جائیں گی، مگر وہ جوانی، وہ عروج سب مٹی میں دفن ہو جائے گا۔

ادھر منہ پھیر کر کیا ذبح کرتے ہو ادھر دیکھو
مری گردن پہ خنجر کی روانی دیکھتے جاؤ


اس شعر میں شاعر نے تمام محفلین کی طرف سے درد، بے بسی اور خودسپردگی سب کچھ سمو دیا ہے ۔۔۔ اور نبیل اور ابن سعید سے کہہ رہا ہے

اے منتظمینِ محفل ! محفل کو بند کرنے کا تو فیصلہ کر کے اعلان تو کر دیا ہے لیکن خود بھی آ کر موجود رہو اور اپنی آنکھوں سے دیکھو کہ محفلین پر کیا بیت رہی ہے۔ محفل کی رونق،محفلین کے الفاظ، ان کے جذبات ، ان کی دھڑا دھڑ لڑیاں سب چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ یہ وار ایسا کاری ہے جیسے گردن پر چھری چلائی جا رہی ہو۔
آخری خواہش کے طور پر محفل اور محفلین چاہتے ہیں کہ آپ آ کر ان سب کا درد، خاموشی، آخری لمحات اپنی آنکھوں سے دیکھیں، بجائے اس کے کہ منہ موڑ کر خاموشی سے سب ختم ہوتا دیکھیں۔

بہار زندگی کا لطف دیکھا اور دیکھو گے
کسی کا عیش مرگ ناگہانی دیکھتے جاؤ


فلسفیانہ سوچ کو جگاتا ہوا یہ شعر ، منتظمینِ محفل کی طرف سے محفلین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ اس میں شاعر کا کہنا ہے کہ
جس طرح بہار کے بعد خزاں یقینی ہے، اسی طرح ہر ہنستی مسکراتی زندگی کے پیچھے موت کی خاموش پرچھائیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔ ناگہانی موت کا شاک، اس کا کرب، اور اس کی اچانک یلغار ہی ہمیں اس فانی دنیا کی اصل حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ بس محفل کا بھی یہی حال ہے۔ تم لوگوں نے اپنے الفاظ سے اس محفل کی آبیاری کی، اسے پروان چڑھایا۔ ہمارے ساتھ ساتھ تم لوگوں نے بھی اردو محفل کی چہل پہل، اس کی بہار، اس کی علمی اور ادبی خوشبو کو محسوس کیا ۔ اور اب جبکہ یہ بیس برس کی ہوئی تو عین عالمِ شباب میں اچانک داغِ مفارقت دینے چلی ہے۔ اس کے پیچھے وجہ کوئی بھی ہو لیکن تم لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ عیشِ مرگ ناگہانی کی حقیقت کو بھی دل سے تسلیم کرنا ہی اصل ادراک اور عاجزی ہے۔

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ


اس شعر میں شاعرمنتظمینِ محفل اور تمام محفلین کو یہ کہنا چاہتا ہے کہ زندہ جذبات، سچے شکوے اور لوگوں کے درد کو اس وقت سننا چاہیے جب وہ زندہ ہوں، نہ کہ بعد میں پچھتاوے کے آنسو بہانے کے لیے۔انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اکثر ان باتوں کو سننے سے قاصر رہتا ہے جو الفاظ کی حدود سے باہر ہوتی ہیں۔ ہم زبان کی گونج پر بھروسہ کرتے ہیں، مگر دل کی خاموش دھڑکنوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں
محفل کے ارکان بارہا محفل کی حالت، اس کی خاموشی، اور اس کے سست پڑتے ماحول پر شکوے کرتے رہے۔مگر شاید ان شکوؤں کو سننے والا کوئی نہ تھا۔موت کے بعد کفن میں لپٹا وجود بولتا نہیں، لیکن اس کی خاموشی سب کچھ کہہ جاتی ہے۔
کہنا یہ تھا کہ انسان اکثر زندگی میں اپنے جذبات، اپنے شکوے، اپنی تکلیفیں دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے، مگر دوسرا فریق اکثر سننے سے انکار کر دیتا ہے، یا پھر بے پرواہ رہتا ہے۔
موت کے بعد کفن کے نیچے چھپی خاموشی گویا آخری گواہی ہوتی ہے اس بات کی کہ انسان نے کتنی باتیں اندر ہی اندر دفن کر دیں۔
نہ جانے کیوں یہاں "کفن سرکاؤ" کا استعارہ معطلین کی طرف بھی اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے جو اس وقت شدید بے بسی اور محرومی محسوس کر رہے ہوں گے کہ دمِ مرگ محفل تک رسائی نہ تھی۔

وہ اٹھا شور ماتم آخری دیدار میت پر
اب اٹھا چاہتی ہے نعش فانیؔ دیکھتے جاؤ


اس شعر میں شاعر انسانی زندگی کے آخری لمحے کی بے بسی کو بہت پُراثر انداز میں بیان کرتا ہے۔ کہ جب میت کا آخری دیدار ہو رہا ہوتا ہے، تو اچانک شورِ ماتم بلند ہو جاتا ہے، رونے دھونے کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔اب اس مردہ جسم کو دفن ہونے کے لیے لے جایا جائے گا، اور لوگ اپنی آخری رسومات کے ساتھ الوداع کہیں گے۔اگر ہم اس شعر کو اردو محفل کے ختم ہونے کے منظر سے جوڑیں کہ اب جبکہ محفل کی "نعش" اٹھنے لگی ہے، یعنی جب محفل ہمیشہ کے لیے بند ہونے لگی ہے، تو سب لوگ افسوس، یادوں، اور پچھتاوے کے ساتھ جمع ہو رہےہیں۔اب محفل کی "نعش" اٹھائی جا رہی ہے، اور لوگ آخری بار دیکھنے، الوداع کہنے اور اپنی دیرینہ محبت کا ثبوت دینے کے لیے دوڑ پڑے ہیں۔

زندگی کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہی ہے کہ ہم جیتے جی کسی کی قدر کرنا بھول جاتے ہیں، اور پھر جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، تو شورِ ماتم میں اپنی پچھتاوے کی چیخیں دفن کر دیتے ہیں۔ میت کے آخری دیدار پر اٹھنے والا شور ہمیں یہی بتاتا ہے کہ محبت اور خلوص کی اصل قدر زندگی میں ہوتی ہے، نہ کہ کفن کے سائے میں۔ اردو محفل کی بند ہوتی روشنی بھی اسی خاموش فریاد کی مانند ہے جس میں سب دیر سے جاگے ہوئے ماتم کر رہے ہیں، جبکہ محفل کی "نعش" اٹھنے کو تیار ہے۔ اب پچھتاوے کے آنسو، یادوں کی چیخیں، اور تحریروں کا ہجوم ۔۔ سب بیکار ہیں، کیونکہ وہ وقت گزر چکا ہے، جب لفظوں کو سنا جا سکتا تھا، جب محبت کی جا سکتی تھی، جب زندہ محفل کو جیا جا سکتا تھا۔

ان تمام اشعار میں انسانی رشتوں کی قدر، بے زبانی، خاموش اذیت، اور زندگی کی ناپائیداری کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ ہم زندہ لوگوں کے شکوے، درد، اور محبت اس وقت سنیں، جب وہ ہمارے درمیان موجود ہوں۔ مرنے کے بعد، کفن کے نیچے چھپی بے زبانی، آخری دیدار پر اٹھتا شور، اور دفن ہونے سے پہلے کا ہجوم ۔۔۔ سب ایک وقتی شور کے سوا کچھ نہیں رہ جاتے۔ حسن، جوانی، اور شہرت سب فانی ہیں، اور موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے پیاروں کی باتیں، ان کی خاموشیاں، اور ان کے دل کی آواز وقت پر سنیں، ان کے جذبات کو سمجھیں، اور ان کی موجودگی کا احترام کریں۔
اردو محفل کے تناظر میں بھی ان اشعار سےیہی پیغام ملتا ہے کہ محفل کی رونق، اس کے قہقہے، علمی گفتگو، اور خوبصورت یادیں آج خاموشی کی چادر اوڑھ رہی ہیں۔ اس کا "آخری دیدار" کرنے والے اب پچھتا رہے ہیں، لیکن اس وقت محبت کا اظہار کرنا بے معنی ہو جاتا ہے جب محفل اپنی "نعش" اٹھانے کو تیار ہے۔
بزبانِ محفل بس اتنا ہی کہنا ہے
دل میں تھے لاکھ زخم تبسم لبوں پہ تھا
خاموش سسکیوں کو کوئی بھی نہ سن سکا
چادر کفن کی اوڑھ کے سونے لگا جو میں
تب بے زبانیوں کا مری شور و غل مچا
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
اوہ میرے خدا!
گُلِ یاسمیں صاحبہ! اگر ہمیں علم ہوتا کہ سر پہ چوٹ لگنے سے ایسی غیرمعمولی اور فقید المثال تحریر بھی لکھی جا سکتی ہے تو بخدا ہم کہساروں سے سر مارنے کو تیار ہیں۔
بلاشبہ ایک شاندار تحریر ہے۔ کمال کر دتا بھئی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اوہ میرے خدا!
گُلِ یاسمیں صاحبہ! اگر ہمیں علم ہوتا کہ سر پہ چوٹ لگنے سے ایسی غیرمعمولی اور فقید المثال تحریر بھی لکھی جا سکتی ہے تو بخدا ہم کہساروں سے سر مارنے کو تیار ہیں۔
بلاشبہ ایک شاندار تحریر ہے۔ کمال کر دتا بھئی
اب اس مراسلے کو پرمزاح والی ریٹنگ دیں کہ متفق والی ؟؟؟🤔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اوہ میرے خدا!
گُلِ یاسمیں صاحبہ! اگر ہمیں علم ہوتا کہ سر پہ چوٹ لگنے سے ایسی غیرمعمولی اور فقید المثال تحریر بھی لکھی جا سکتی ہے تو بخدا ہم کہساروں سے سر مارنے کو تیار ہیں۔
بلاشبہ ایک شاندار تحریر ہے۔ کمال کر دتا بھئی
ابھی کون سا دیر ہو گئی۔ ایک ٹکر مار لیں سامنے والی دیوار سے۔
تحریر پسند آئی تے فیر ایہہ کمال تہاڈا ہویا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ سبھی ہمارے استاد ہیں۔۔۔
مختصر سا تعارف ہے میرا ۔۔۔ سے لے کر ۔۔۔ محفل کی گلیوں میں ایک مسافر کا پیغام ۔۔تک۔
مجھ پر ایسے الزامات نہ دھرے جائیں ورنہ کل ہی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس پہنچ جاؤں گا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہائے کیا منتخب کیا اور کیا لکھ دیا !!!
سوہنیاں ! جان کڈ لئی ۔
😂😂😂
جان کڈ لئی سے دنوا دنوا کی طرح میکوں ایک گانا یاد آیا
جان کڈ لئی آ بے ایماناں وے جان والی گل کر کے

بس اسی طرح ہماری جان کڈے جا رہی اے محفل :rollingonthefloor: :rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
Top