صابرہ امین
لائبریرین
ؤہاں قران کریم کے کافی سارے نسخے تھے ۔ یہ تصویر اس مصحف کی ہے ۔اس پر چند مدھم دھبے دیکھے جا سکتے ہیں۔

ٹھیک اسی جگہہ پر ہم نے کھڑے ہو کر سوچا تھا کہ وقت کیسے بدل جاتا ہے۔ اس شاہی محل میں ہم جیسے عام لوگ کیسے گھوم پھر رہے ہیں جہاں کل تک کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔محل کا بالکل آخری کونا باسفورس کے عین سامنے پہنچا دیتا ہے۔ پانی سے کافی بلندی پہ واقع ہونے کی وجہ سے کافی دیدہ زیب مناظر دکھائی دیتے ہیں۔
![]()
میرے خیال میں ان لیمپس کی کوئی dedicated دکان نہ بھی ہوئی تو کئی دکانوں پہ ان کی ورائٹی بھی مل پائے گی۔ جیسے راولپنڈی میں چائنہ مارکیٹ میں، کراچی میں گل پلازہ میں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے کسی جگہ دیکھے بھی تھے، لیکن اب یاد نہیں آ رہا کہ کہاں دیکھے۔
ہم نے بھی چپکے چپکے تصاویر لی تھیں۔۔
ایسی شاندار اور نادر شیئرنگ پہ بہت شکریہ اور جزاک اللہ صابرہ امین صاحبہ ۔ؤہاں قران کریم کے کافی سارے نسخے تھے ۔ یہ تصویر اس مصحف کی ہے ۔اس پر چند مدھم دھبے دیکھے جا سکتے ہیں۔
![]()
بہترین۔ٹھیک اسی جگہہ پر ہم نے کھڑے ہو کر سوچا تھا کہ وقت کیسے بدل جاتا ہے۔ اس شاہی محل میں ہم جیسے عام لوگ کیسے گھوم پھر رہے ہیں جہاں کل تک کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔
کلثوم زمانی بیگم کی یہ بات ہمارے دل میں بھی تیر ہو گئی تھی۔ کیسی کیسی تکلیفیں اٹھائیں اور کن کن کے ہاتھوں اٹھایئں۔ اللہ ہم سب کو بری گھڑی سے بچائے۔ آمینبہترین۔
اسی سے بہادر شاہ ظفر کی بیٹی کلثوم زمانی بیگم کی داستان کے اختتامی جملے ذہن میں آتے ہیں۔
"اتنی مدت کے بعد دہلی کی یاد نے بے چین کیا اور روانہ ہوکر دہلی آگئے۔ یہاں انگریزوں کی سرکار نے بہت بڑا ترس کھا کردس روپے ماہوار پنشن مقرر کر دی۔ اس پنشن کی رقم کو سن کر اول مجھے ہنسی آئی کہ میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر دس روپے معاوضہ دیتے ہیں، مگر پھر خیال آیا کہ ملک تو خدا کا ہے کسی کے باوا کا نہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے، جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ انسان کو دم مارنے کی مجال نہیں۔"
ہم بھی نہیں جا سکے دونوں جگہوں پہ۔کیا آپ ان کے شاہی کچن میں گئے؟
اور کیا آپ ڈولماباچے پیلس گئے؟ ہم نہیں جا سکے کہ وقت اتنی تیزی سے گزر گیا ۔ چند دن استنبول کے لیے ناکافی ہیں۔