چونکہ کلک کرنے میں دقت ہوتی ہے اور بلاگ بھی میرا ایسا ہوا پڑا ہے کہ پتہ نہیں کب سے اسے سنوارا وغیرہ نہیں تو مہمانوں کے لیے ادھر ہی پیسٹ کر دیتی ہوں:
یہ میرے گِرد ہے کیسا جہانِ آزادی
جہاں نہیں کوئی نام و نشانِ آزادی
لہُو غریب کا ارزاں ہے اِس قدر کہ یہاں
اِسی سے جاتے ہیں دھوئے بُتانِ آزادی
مِرے وطن تِرے یہ لعل کَٹ رہے ہیں روز
لہُو سے تَر ہے تِرا بادبانِ آزادی
دیارِ غیر میں کشکول پکڑے پِھرتے ہیں
مرے وطن! ترے سب ترجمانِ آزادی
نہیں ہے تاب کہ دیکھوں ترا بدن مقرُوض
بتاؤ کِتنا بھروں مَیں لگانِ آزادی؟
مِرے خُدا ! نہ دِکھانا ہمارا حال اُسے
وہ ایک شخص جو تھا باغبانِ آزادی
!اِسی میں خوش ہو اگر , تو تمہیں مبارک ہو
یہ اہتمام , یہ جشنِ گمانِ آزادی
اگست 2016
---------------------------------------
سُرخ اشکوں کی سیاہی سے ہوئے ہیں تحریر
تختئ وقت پہ جاں سوز مناظر بن کر
پھر وہی صبح کہ لائی ہے پیامِ ہجرت
اب کے جینا ہے ہمیں تیرے مہاجر بن کر
تُجھ کو چھوڑا تو ترا شہر بھی ہم چھوڑ چلے
تیرے دامن کے سِوا شہر میں رکھا کیا ہے؟
تیرے دم سے ہے یہاں مے کدۂِ علم آباد
جس نے پی ہی نہیں اُس نے بھلا چکّھا کیا ہے؟
تُو نے دیکھا ہے مِری آنکھ کا بہتا پانی
قہقہے جذب ہیں میرے تری دیواروں میں
میں وہ گُل ہوں جو تری مٹّی میں پروان چڑھا
پُھول مُجھ سا نہ مِلے گا تُجھے گُلزاروں میں
خاک مکتب تو مجھے سارے جہاں سے ہے عزیز
تجھ کو ہی چھان کے پایا جو میں نے پایا ہے
تیری ہر اینٹ میں شامل ہیں مرے بھی ذرّات
میری پُونجی ہے یہی اور یہی سرمایہ ہے
اپریل 2017