رسم الخط نہ ہونے سے متفقہ واحد رسم الخط ہونے تک کافی تبدیلی آ گئی۔
رسم الخط کی تقسیم تو ختم ہو چکی ہے ، شاہ مکھی اور گورمکھی با آسانی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
میں نے ابتدائی طور پر بات ذرا سخت انداز میں کہی، بعد میں اسے واضح کیا کہ مسئلہ
رسم الخط کی عدم موجودگی کا نہیں بلکہ
متفقہ اور مشترکہ رسم الخط کے فقدان کا ہے۔
جہاں تک یہ کہنا کہ شاہ مکھی اور گورمکھی "آسانی سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ تو تکنیکی طور پر واقعی ایسا ممکن ہے، لیکن
عملی طور پر زیادہ تر قاری اور لکھنے والے ایک رسم الخط سے جڑے رہتے ہیں۔ عام پنجابی بولنے والا یا قاری دونوں رسم الخطوں میں یکساں مہارت نہیں رکھتا۔یعنی تبدیلی ممکن ہے، مگر
رائج نہیں۔سہولت موجود ہے، مگر
عام نہیں۔
لہٰذا، رسم الخط کی تقسیم تکنیکی سطح پر شاید "قابلِ حل" ہو، مگر
ادبی اور سماجی سطح پر اب بھی موجود ہے۔
شاہ مکھی اور گورمکھی کے درمیان تکنیکی سطح پر تبدیلی ممکن ہے ۔اور سافٹ ویئر کے ذریعے transliteration اب سہل ہے۔
مگر میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ
عام قاری، طالب علم، یا ادیب کے لیے آج بھی دونوں رسم الخط ایک دوسرے سے
عملاً اجنبی ہیں۔جیسےپاکستانی قارئین گورمکھی کو شاید نہ پڑھ سکیں ۔بھارتی قاری شاہ مکھی کو رسم الخط سمجھنے کے باوجود روانی سے نہیں پڑھتا۔جب آپ یہ کہتے ہیں کہ رس الخط کی تقسیم ختم ہوچکی ہے تو یہ بات تب درست ثابت ہوگی جب پنجابی زبان میں لکھنے والے ادیب یا قاری
دونوں رسم الخطوں میں مہارت رکھتے ہوں۔
اور
ادارہ جاتی سطح پر دونوں رسم الخط استعمال اور سکھائے جاتے ہوں۔
فی الحال، حقیقت یہ ہے کہ رسم الخط کی تقسیم نے ہی
پاکستان اور بھارت کے پنجابی ادب کو الگ الگ دھاروں میں بہنے پر مجبور کیا ہے۔