وہ یہ جان کر حیرت زدہ ہوئی کہ اردو فکشن کے بڑے نام مقامی اردو بولنے والے نہیں تھے۔

الف نظامی

لائبریرین
جس زبان کا رسم الخط ہی نہیں

پنجابی زبان کے لیے کوئی متفقہ واحد رسم الخط نہیں ہے، بلکہ مختلف رسم الخط رائج ہیں ۔ جیسا کہ آپ نے بیان کیا ۔
رسم الخط نہ ہونے سے متفقہ واحد رسم الخط ہونے تک کافی تبدیلی آ گئی۔

اس کی وجہ سے پنجابی ادب کو زبان و رسم الخط کی سطح پر تقسیم کا سامنا ہے، جو شاید اردو یا انگریزی میں نہیں۔
رسم الخط کی تقسیم تو ختم ہو چکی ہے ، شاہ مکھی اور گورمکھی با آسانی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
رسم الخط نہ ہونے سے متفقہ واحد رسم الخط ہونے تک کافی تبدیلی آ گئی۔


رسم الخط کی تقسیم تو ختم ہو چکی ہے ، شاہ مکھی اور گورمکھی با آسانی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
میں نے ابتدائی طور پر بات ذرا سخت انداز میں کہی، بعد میں اسے واضح کیا کہ مسئلہ رسم الخط کی عدم موجودگی کا نہیں بلکہ متفقہ اور مشترکہ رسم الخط کے فقدان کا ہے۔
جہاں تک یہ کہنا کہ شاہ مکھی اور گورمکھی "آسانی سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ تو تکنیکی طور پر واقعی ایسا ممکن ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ تر قاری اور لکھنے والے ایک رسم الخط سے جڑے رہتے ہیں۔ عام پنجابی بولنے والا یا قاری دونوں رسم الخطوں میں یکساں مہارت نہیں رکھتا۔یعنی تبدیلی ممکن ہے، مگر رائج نہیں۔سہولت موجود ہے، مگر عام نہیں۔
لہٰذا، رسم الخط کی تقسیم تکنیکی سطح پر شاید "قابلِ حل" ہو، مگر ادبی اور سماجی سطح پر اب بھی موجود ہے۔
شاہ مکھی اور گورمکھی کے درمیان تکنیکی سطح پر تبدیلی ممکن ہے ۔اور سافٹ ویئر کے ذریعے transliteration اب سہل ہے۔
مگر میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ عام قاری، طالب علم، یا ادیب کے لیے آج بھی دونوں رسم الخط ایک دوسرے سے عملاً اجنبی ہیں۔جیسےپاکستانی قارئین گورمکھی کو شاید نہ پڑھ سکیں ۔بھارتی قاری شاہ مکھی کو رسم الخط سمجھنے کے باوجود روانی سے نہیں پڑھتا۔جب آپ یہ کہتے ہیں کہ رس الخط کی تقسیم ختم ہوچکی ہے تو یہ بات تب درست ثابت ہوگی جب پنجابی زبان میں لکھنے والے ادیب یا قاری دونوں رسم الخطوں میں مہارت رکھتے ہوں۔
اور ادارہ جاتی سطح پر دونوں رسم الخط استعمال اور سکھائے جاتے ہوں۔
فی الحال، حقیقت یہ ہے کہ رسم الخط کی تقسیم نے ہی پاکستان اور بھارت کے پنجابی ادب کو الگ الگ دھاروں میں بہنے پر مجبور کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین

الف نظامی

لائبریرین
ظفری کہیں آپ یہ تو نہیں چاہتے کہ ہم پاکستانی پنجاب والے عربی-فارسی رسم الخط کو چھوڑ کر کلی طور پر گورمکھی رسم الخط اپنا لیں تا کہ اردو اور پنجابی میں رسم الخط کا مشترک ہونا بھی ختم ہو جائے بقول علامہ ضمیر اخترجعفری ہم نے تم سے دوری اختیار کر لی؟
 

ظفری

لائبریرین
آپ نے دو لنک جو دیئے ہیں ۔ اس میں سے پہلا رؤف بھائی کے تبصرے سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ کون کون پڑھ سکتا ہے ۔ اور دوسرا لنک کام نہیں کر رہا ہے ۔ شاید آپ نے پوسٹ کرنے سے پہلے اُسے چیک نہیں کیا ۔ خیر آپ کے ان دونوں تبصروں پر میرا موقوف یہ ہے کہ یقیناً کچھ افراد ذاتی دلچسپی یا علمی ذوق کی بنیاد پر گورمکھی پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو قابلِ قدر ہے۔تاہم، میری بات عمومی رجحان سے متعلق تھی ۔ یعنی اکثریتی پاکستانی پنجابی قارئین گورمکھی سے ناآشنا ہیں، کیونکہ اسے نہ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے، نہ رسمی طور پر رائج ہے۔
جی ہاں، آپ کی بات صحیح ہے کہ بھارت میں گورمکھی رسم الخط ادارہ جاتی سطح پر مکمل طور پر نافذ ہے۔ مگرمیرا نکتہ یہ تھا کہ دونوں رسم الخط اگر دونوں طرف تعلیمی سطح پر متوازی طور پر رائج ہوتے، تو ہم "تقسیم ختم ہونے" کی بات کو حقیقت کے قریب تر سمجھ سکتے۔ فی الحال، دونوں رسم الخط اپنی اپنی جغرافیائی حدود میں "ادارہ جاتی قید" میں ہیں۔ رسم الخط کی تبدیلی تکنیکی طور پر ممکن ہے، مگر عوامی، تعلیمی اور ادبی سطح پر اب بھی عملی تقسیم موجود ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جی ہاں، آپ کی بات صحیح ہے کہ بھارت میں گورمکھی رسم الخط ادارہ جاتی سطح پر مکمل طور پر نافذ ہے۔ مگرمیرا نکتہ یہ تھا کہ دونوں رسم الخط اگر دونوں طرف تعلیمی سطح پر متوازی طور پر رائج ہوتے، تو ہم "تقسیم ختم ہونے" کی بات کو حقیقت کے قریب تر سمجھ سکتے۔
تقسیم ختم ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ نہ بھارتی پنجاب پاکستان میں شامل ہو سکتا ہے اور نہ پاکستانی پنجاب بھارت کا حصہ بن سکتا ہے البتہ باہم تجارت کریں۔

لسانی بحث کو سیاسی رنگ دینے کا شکریہ۔

ایہ اساڈی زبان اے، اڑیا
یہ ہماری زبان ہے پیارے
 

ظفری

لائبریرین
ظفری کہیں آپ یہ تو نہیں چاہتے کہ ہم پاکستانی پنجاب والے عربی-فارسی رسم الخط کو چھوڑ کر کلی طور پر گورمکھی رسم الخط اپنا لیں تا کہ اردو اور پنجابی میں رسم الخط کا مشترک ہونا بھی ختم ہو جائے بقول علامہ ضمیر اخترجعفری ہم نے تم سے دوری اختیار کر لی؟
بالکل نہیں! نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ پاکستانی پنجاب والے گورمکھی اپنا لیں، نہ یہ کہ اردو اور پنجابی کے درمیان رسم الخط کا رشتہ ٹوٹ جائے۔
اصل بات صرف اتنی سی ہے کہ پنجابی ابھی بھی رسم الخط کی تقسیم کا شکار ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ گورمکھی اور شاہ مکھی دونوں الگ الگ جہانوں میں سانس لیتی ہیں، اور عام قاری آج بھی دونوں پڑھ نہیں سکتا۔
جب میں نے یہ بات کی، تو مقصد کسی طرف جھکاؤ نہیں تھا، بلکہ صرف یہ کہنا تھا کہ"تقسیم ابھی موجود ہے، ختم نہیں ہوئی ، اور جب دونوں طرف یہ ادارہ جاتی طور پر ایک دوسرے کو سکھایا ہی نہیں جا رہا، تو ہم 'آسانی سے قابلِ تبدیل' جیسے جملے کو زمینی سچ نہیں کہہ سکتے۔"
اور ہاں… ضمیر جعفری صاحب کو کوٹ کر کے بات کا رنگ بدل دینا تو آپ کی مہارت ہے!
تو عرض ہے کہ
ہم نے تم سے دوری اختیار کی نہیں…
ہم تو بس یہ دیکھ رہے تھے کہ تم ساتھ کتنا دے سکتے ہو ;)
 

ظفری

لائبریرین
تقسیم ختم ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ نہ بھارتی پنجاب پاکستان میں شامل ہو سکتا ہے اور نہ پاکستانی پنجاب بھارت کا حصہ بن سکتا ہے البتہ باہم تجارت کریں۔

لسانی بحث کو سیاسی رنگ دینے کا شکریہ
محترم، میری بات خالصتاً لسانی اور ثقافتی دائرے میں تھی اور نہ اس میں کوئی سیاسی تمنا تھی، نہ جغرافیائی الہام۔
میں نے نہ بھارتی پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کی خواہش ظاہر کی، نہ ہی پاکستانی پنجاب کو بھارت میں ڈالنے کی کوئی بات کی۔میرا نکتہ بس اتنا تھا کہ پنجابی زبان کی داخلی ساخت، رسم الخط اور قاری کے درمیان تعلق ابھی بھی "دو دھڑوں" میں تقسیم ہے۔
یہ بات لسانی حقیقت ہے، اور صرف اسی زاویے سے عرض کی گئی تھی ۔ جس طرح اردو کی تاریخ میں فارسی، ہندی اور انگریزی اثرات کا تذکرہ ہوتا ہے، ویسے ہی پنجابی کی لسانی صورتِ حال پر بات ہو رہی تھی۔
اگر یہ گفتگو کسی کو سیاسی محسوس ہوئی، تو شاید اندازِ بیان میرا کمزور تھا مگر نیت یا خیال ہرگز ایسا نہ تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جب میں نے یہ بات کی، تو مقصد کسی طرف جھکاؤ نہیں تھا، بلکہ صرف یہ کہنا تھا کہ"تقسیم ابھی موجود ہے، ختم نہیں ہوئی ، اور جب دونوں طرف یہ ادارہ جاتی طور پر ایک دوسرے کو سکھایا ہی نہیں جا رہا، تو ہم 'آسانی سے قابلِ تبدیل' جیسے جملے کو زمینی سچ نہیں کہہ سکتے۔"
;)
اچھا یہ پنجابیوں کا مسئلہ ہے نا یا آپ اہل زبان کا؟ تو پنجابی ہی حل کر ہی لیں گے آپ فکر نہ کیجیے۔
 

ظفری

لائبریرین
اچھا یہ پنجابیوں کا مسئلہ ہے نا یا آپ اہل زبان کا؟ تو پنجابی ہی حل کر ہی لیں گے آپ فکر نہ کیجیے۔
ارے نہیں، نہ میں پنجابی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہوں، نہ ہی زبان سے لاتعلقی دکھا رہا ہوں۔میری گفتگو صرف ایک لسانی حقیقت کی نشاندہی تھی، جو کسی بھی باشعور قاری یا زبان دوست کے لیے قابلِ توجہ ہو سکتی ہے ۔ چاہے وہ پنجابی ہو یا غیر پنجابی۔زبانیں ہماری مشترکہ تہذیبی میراث ہوتی ہیں، اور ان پر بات کرنا صرف بولنے والوں کا نہیں بلکہ پڑھنے والوں کا بھی حق ہے۔میری نیت اصلاح یا توجہ دلانے کی تھی، نہ کہ زبان کے وارثوں پر بوجھ ڈالنے کی۔اگر آپ کو اندازِ گفتگو میں دخل محسوس ہوا ہو تو معذرت،لیکن اگر ہم سب "اپنا، غیر" کی تقسیم سے ہٹ کر مشترکہ فہم کی بات کریں،تو شاید پنجابی بھی آگے بڑھے ، اور ہم بھی۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اچھا یہ پنجابیوں کا مسئلہ ہے نا یا آپ اہل زبان کا؟ تو پنجابی ہی حل کر ہی لیں گے آپ فکر نہ کیجیے۔
جب آپ بحث کا آغاز کریں گے تو اس کی حمایت یا مخالفت میں آوازیں تو اٹھیں گی ۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ جب بحث سے جی اچاٹ ہوا یا کوئی نکتہ نہ سوجھا تو یوں چپ کرا دیا۔۔۔۔ پڑھے لکھے لوگ ایسا نہیں کرتے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ارے نہیں، نہ میں پنجابی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہوں، نہ ہی زبان سے لاتعلقی دکھا رہا ہوں۔میری گفتگو صرف ایک لسانی حقیقت کی نشاندہی تھی، جو کسی بھی باشعور قاری یا زبان دوست کے لیے قابلِ توجہ ہو سکتی ہے ۔ چاہے وہ پنجابی ہو یا غیر پنجابی۔زبانیں ہماری مشترکہ تہذیبی میراث ہوتی ہیں، اور ان پر بات کرنا صرف بولنے والوں کا نہیں بلکہ پڑھنے والوں کا بھی حق ہے۔میری نیت اصلاح یا توجہ دلانے کی تھی، نہ کہ زبان کے وارثوں پر بوجھ ڈالنے کی۔اگر آپ کو اندازِ گفتگو میں دخل محسوس ہوا ہو تو معذرت،لیکن اگر ہم سب "اپنا، غیر" کی تقسیم سے ہٹ کر مشترکہ فہم کی بات کریں،تو شاید پنجابی بھی آگے بڑھے ، اور ہم بھی۔
گوگل اے آئی سٹوڈیو وچ گورمکھی نوں شاہ مکھی وچ بدلݨا
 

الف نظامی

لائبریرین
جب آپ بحث کا آغاز کریں گے تو اس کی حمایت یا مخالفت میں آوازیں تو اٹھیں گی ۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ جب بحث سے جی اچاٹ ہوا یا کوئی نکتہ نہ سوجھا تو یوں چپ کرا دیا۔۔۔۔ پڑھے لکھے لوگ ایسا نہیں کرتے۔
جی بالکل ایسا ہی ہے۔ ہم تو حاضر ہیں اس پر بات کرنے کے لیے کہ پنجابی لسانی حوالے سے کسی سے کم نہیں سوائے یہ کہ اشرافیہ نے پنجابی زبان کا راستہ روک رکھا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
ٹولز رسم الخط بدل سکتے ہیں، مگر قاری نہیں"آپ کا دیا گیا لنک واقعی تکنیکی طور پر دلچسپ ہے۔اور ہاں، گوگل اے آئی، ماڈل، یا اسکرپٹ کی مدد سے گورمکھی کو شاہ مکھی یا برعکس میں بدلنا ممکن ہے۔مگر جس بات پر میں اصرار کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ،زبانوں کی اصل تبدیلی تکنیکی سہولت سے نہیں، بلکہ عوامی و تعلیمی اداروں کے رجحانات سے ہوتی ہے۔آپ، میں یا کچھ خاص افراد تو شاید یہ تبدیلی manual یا AI tools سے کر سکتے ہیں،مگر ایک عام قاری ، جو نہ گورمکھی پڑھ سکتا ہے، نہ خودکار ٹولز استعمال کرتا ہے ، وہ کہاں کھڑا ہے؟ بات صرف اتنی سی تھی کہ رسم الخط کا "تبدیل ہو جانا" اور رسم الخط کا "رائج ہو جانا" ۔ دونوں الگ باتیں ہیں۔
گوگل AI یا کنورژن سروسز سہولت فراہم کرتی ہیں،مگر رسم الخط کی معاشرتی و ادارہ جاتی موجودگی اب بھی دو الگ سمتوں میں ہے ۔اور اسی کو میں نے "تقسیم باقی ہے" کہہ کر بیان کیا تھا۔
شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پارہا ہوں ۔ تو میں یہ سلسلہ موقوف کرتا ہوں ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جی بالکل ایسا ہی ہے۔ ہم تو حاضر ہیں اس پر بات کرنے کے لیے کہ پنجابی لسانی حوالے سے کسی سے کم نہیں سوائے یہ کہ اشرافیہ نے پنجابی زبان کا راستہ روک رکھا ہے۔
آپ خالصتاً سیاسی بنائیں تو جائز کوئی ہلکا سا اشارہ بھی دے جائے تو۔۔۔۔
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ٹولز رسم الخط بدل سکتے ہیں، مگر قاری نہیں"آپ کا دیا گیا لنک واقعی تکنیکی طور پر دلچسپ ہے۔اور ہاں، گوگل اے آئی، ماڈل، یا اسکرپٹ کی مدد سے گورمکھی کو شاہ مکھی یا برعکس میں بدلنا ممکن ہے۔مگر جس بات پر میں اصرار کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ،زبانوں کی اصل تبدیلی تکنیکی سہولت سے نہیں، بلکہ عوامی و تعلیمی اداروں کے رجحانات سے ہوتی ہے۔
کیا اردو کا فروغ بذریعہ اردو ویب ، اردو فونٹ ، اردو او سی آر اور اردو کمپیوٹنگ کے دیگر ٹولز تکنیکی سہولیات نہیں ہیں؟
کمال کرتے ہیں آپ بھی ، اردو تو تکنیکی وسائل استعمال کرے تو درست ، پنجابی کے لیے کیسے نا درست؟

شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پارہا ہوں ۔ تو میں یہ سلسلہ موقوف کرتا ہوں ۔
جی موقوف رکھیے ، تب تک ہم اے آئی ٹولز کا استعمال کرتے ہیں۔
 
Top