اسلام آباد میں چند قدم

زیک

فوٹوگرافر
واپسی کی فلائٹ کے دن کوئی چار بجے سویرے ٹرکش ایئرلائنز سے میسج آیا کہ اسلام آباد سے استنبول کی فلائٹ لیٹ ہے اس لئے انہوں نے مجھے اگلے دن کی فلائٹ پر بدل دیا ہے۔ ایک تو ایک مزید دن پاکستان میں، اوپر سے یہ مسئلہ بھی کہ تحریک انصاف کا جلسہ طے تھا اور خیال تھا کہ کنٹینرز کے ذریعہ اسلام آباد کو بند کر دیا جائے گا اور ائرپورٹ جانا بھی عذاب بن جائے گا۔ ٹرکش ائرلائن کے لوکل نمبر کو فون کیا۔ وہ کہنے لگا کہ سویرے سویرے والی مجھ سے پہلے والی فلائٹ پر کر سکتا ہے۔ میں حیران کہ یہ کیا کہہ رہا ہے جتنی دیر میں میں ائرپورٹ پہنچوں گا بورڈنگ بند ہو چکی ہو گی۔ خیر کسٹمر سروس نکمی ثابت ہوئی اور ایپ بھی کسی کام نہ آئی۔ یہی فیصلہ ہوا کہ اوریجنل فلائٹ کا رسک لے لیا جائے۔

ٹیکسی لے کر ائرپورٹ پہنچ گیا۔ ایئرپورٹ میں داخلے کی لمبی لائن تھی۔ کوئی 40 منٹ لگے اندر جانے میں۔ آگے زیادہ دیر نہ لگی۔

جب یہ نیا ائرپورٹ کھلا تھا تو پرانے سے نہ صرف سائز میں بلکہ پروسیجر میں بھی کافی بہتر تھا لیکن اب کچھ اسی طرح ہوتا جا رہا ہے۔

ناشتے کے بغیر آیا تھا۔ لیکن یہاں ڈیپارچر کے علاقے میں کوئی خاص کھانے پینے کا انتظام نہ تھا۔ یہاں تک کہ بنانا بریڈ بھی بالکل ٹھنڈی ملی گرم کرنے کا تکلف بھی نہ تھا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ وہاں دکانوں پر کوک اور پیپسی کی جگہ مقامی اسلامی کولا دستیاب تھا۔ میرے علم میں نہ تھا کہ کولا بھی مذہبی ہو سکتا ہے۔

 

زیک

فوٹوگرافر
استنبول پہنچا تو اگلی فلائٹ جا چکی تھی۔ ائرلائن سے رابطہ کیا تو انہوں نے میرے لئے ہوٹل اور کھانے کا بندوبست کیا اور میں ان کی بس میں سوار ہو کر ہوٹل روانہ ہو گیا۔ ایئرپورٹ شہر سے کافی دور ہے۔ جب بس چلتی ہی جا رہی تھی تو مجھے خیال گزرا کہ شاید استنبول ہی جا رہی ہو لیکن گھنٹے سے زیادہ ڈرائیو کے بعد ہم ہوٹل پہنچے جو شہر اور ایئرپورٹ دونوں سے کافی دور تھا۔ کمرہ ملنے کے بعد ڈنر کیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی لہذا سونے کا ہی ارادہ کیا۔

اگلی صبح بارش کے ساتھ ساتھ تیز ہوا چل رہی تھی سو باہر پھرنے کا موقع نہ ملا۔ ۱۱ بجے کی ائرلائن کی بس میں ائیرپورٹ روانہ ہوا۔ وہاں سیکورٹی سے گزرنے کے بعد لنچ کا وقت تھا۔

 
مجھے اس لڑی میں بھنگ میں رنگ ڈالنے کے دعوے کے بعد خیال آیا کہ اسلام آباد کے متعدد مقامات کی تصاویر چند ماہ پہلے ایک ڈرائیو میں ضائع ہو گئی تھیں جس کا پاسورڈ میں بھول چکی تھی اور اسے فارمٹ کرنا پڑا۔ پچھلے پانچ چھے سالوں میں این سی پی، قائد اعظم یونیورسٹی، ایچ ای سی، این اے آر سی اور اے کیو خان لیبز کے چکر وغیرہ لگتے رہے، جب کہ نیلوپ میں کچھ ماہ لگاتار لیب ورک کرنے کا موقع بھی ملا۔سیاحتی مقامات میں سے بھی زیادہ پرسنٹیج تو متعدد بار دیکھ رکھی ہے، تاہم تصاویر اب اڑ چکی ہیں۔ اب چونکہ کہہ ہی دیا ہے تو چند اور تصاویر شئیر کر دیتے ہیں جو فون میں موجود ہیں تاہم ان میں سے کوئی سیاحتی مقامات وغیرہ کی تو نہیں۔
 
آخری تدوین:
Top