یاز
محفلین
جی جی۔ تبھی تو آپ زلف کے نیچے والی شے یعنی سر کے پیچھے پڑیں۔چونکہ ہم شاعرہ نہیں اس لیے ہمیں زلف پریشاں سے کوئی لینا دینا نہیں
جی جی۔ تبھی تو آپ زلف کے نیچے والی شے یعنی سر کے پیچھے پڑیں۔چونکہ ہم شاعرہ نہیں اس لیے ہمیں زلف پریشاں سے کوئی لینا دینا نہیں
محفل کی ڈائری ۔۔۔۔ تو کسی ناول کا نام بھی ہو سکتا ہے۔وہ ضرور محفل کی ڈائری کا کہنا چاہ رہے ہونگے!
ٹائٹل تو خوب ہے، لکھ ڈالیں آپ۔محفل کی ڈائری ۔۔۔۔ تو کسی ناول کا نام بھی ہو سکتا ہے۔
ابھی لکھواتا ہوں۔۔۔۔ ڈیپ سیک سےٹائٹل تو خوب ہے، لکھ ڈالیں آپ۔
چیٹ جی پی ٹی سے کیوں نہیں؟ابھی لکھواتا ہوں۔۔۔۔ ڈیپ سیک سے
اس کو تو میں بھول ہی گیا تھا۔چیٹ جی پی ٹی سے کیوں نہیں؟
یہ تو اچھی بات نہیں، نئی کے چکر میں بندہ پرانی کو بھول جائے۔ ( اے آئی)اس کو تو میں بھول ہی گیا تھا۔
مجھے تو پہلے ہی شک تھایہ تو اچھی بات نہیں، نئی کے چکر میں بندہ پرانی کو بھول جائے۔ ( اے آئی)
کس پر، نئی یا پرانی؟مجھے تو پہلے ہی شک تھا
مگر شاعروں کو تو پوچھیے، ہو سکتا ہے کہ ہو!چونکہ ہم شاعرہ نہیں اس لیے ہمیں زلف پریشاں سے کوئی لینا دینا نہیں
نہیں مجھے خالص اور اصیل پریشانی چاہئیے۔ 24 قیراط کی!کم از کم دو گھنٹے پہلے بتائیے گا، تا کہ ہم پریشانی کے ساتھ رائتہ سلاد نیز کلونجی والے نان بھی تیار کروا سکیں۔
لیہہ فکراں کاہنوں کرنیاں ۔ مالک خیر رکھے انج وی دھیاں بے فکریاں ایک چنگیاں لگدیاں نیںیعنی کہ فکراں کرنے کی لوڑ نئیں ہے
ان کے جملوں اور حملوں پر گریہ و زاری کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ کہ بنات و اخوات کو ہم خصوصی طور پر اس مقام مرصع پر فائز دیکھتے ہیں جسے خطا ہائے غیر اختیاری پر اعفاء اضطراری حاصل ہے۔آپ نے ان کی بھلی چنگی ثقیل اردو پہ بنیان المرصوص کر دیا ہے۔
ان کے سر پر بال بھی ہیں کہ نہیں آپ سہرا دیکھ رہی ہیں ۔ (گستاخی معاف)مگر اس کا سہرا تو آپ کے سر ہے!
اس کے لیئے دشمنان مگس کے ساتھ اتحاد کرنا ہوگا۔ہاں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ہمیں بھی تو سکھائے نا ایسی ثقیل اردو، تو ہم بھی فر فر بولنے لگیں گے جواب میں۔ اب تو جس لائق ہیں اسی حساب سے جواب دیں گے۔
واہ بھئی فاروق ۔ محمود اور فرزانہ کدھر ہیں؟؟محفل کی ڈائری ۔۔۔۔ تو کسی ناول کا نام بھی ہو سکتا ہے۔
مطلب تہاڈے والوں ناں ای سمجھئیےنہیں مجھے خالص اور اصیل پریشانی چاہئیے۔ 24 قیراط کی!
لیکن مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو کہ ۔۔۔۔اس کے لیئے دشمنان مگس کے ساتھ اتحاد کرنا ہوگا۔
آنسۂ جمیلہ و جلیلہ بنامِ گل بکاؤلی و گُلِ یاسمیں کی جسدِ اردو پہ تیغ و سناں زنی پر ہم ہرگز بھی مبتلائے فکر نہیں ہیں کہ ایں ہمہ افعال ان کی فطرتِ ثانیہ کا جزوِ لازم ہیں بعینٖہ مانندِ سہہ پات ہائے ڈھاک۔ نیز مسماۃ ِ ہٰذا کے زورِ شمشیر کا نشانۂ ستم فقط گیسوئے اردو ہی نہیں، بلکہ زیرِ گیسوئے عاجز و احقر کا کاسۂ سر بھی ہے۔ان کے جملوں اور حملوں پر گریہ و زاری کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ کہ بنات و اخوات کو ہم خصوصی طور پر اس مقام مرصع پر فائز دیکھتے ہیں جسے خطا ہائے غیر اختیاری پر اعفاء اضطراری حاصل ہے۔