برائے اصلاح- اور ہے شہرِ بدگمان میں کیا؟

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم اساتذہ! اصلاح کی درخواست ہے۔
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، سید عاطف علی ، عرفان علوی

نفرتوں کے سوا ہے دان میں کیا؟
اور ہے شہرِ بدگمان میں کیا؟

خامشی میرے قتل پر ہر سو
کوئی زندہ نہیں جہان میں کیا؟

یوں اکڑ کے جو چل رہے ہو تم
چھید کرنا ہے آسمان میں کیا؟

آپ یہ نفرتوں کی منڈی میں
پھول رکھ بیٹھے ہیں دکان میں کیا

جسم جھلسے ہیں سائبان میں جو
پھر وہ پائیں گے سائبان میں کیا؟

عشق میں ہو جو مبتلا اُس کو
اور ڈالو گے امتحان میں کیا؟

یہ بدلتا ہوا ہر آن جہاں
"آن میں کیا ہے اور آن میں کیا"

ہم بجز خوف پا سکیں گے کبھی
تیرے اس شہرِ بے امان میں کیا؟

اشک بے ساختہ چھلک ہی پڑے
آپ آئے تھے میرے دھیان میں کیا؟

میرا دل تو ہے ایک کھنڈر سا
آپ رہتے بھی اس مکان میں کیا

ہم سخن ہو گئے سبھی اُن کے
شہد رکھتے ہیں وہ زبان میں کیا
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت شکریہ اکمل بھائی! سلامت رہیں
وااااہ ! خووووب است !


"کھنڈر" کا وزن کہیں "فعو" تو نہیں ؟
حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔
فراق صاحب نے تو "فعو" ہی باندھا ہے۔ لیکن اور بہت سے شعراء نے "فعلن" باندھا ہوا ہے۔ اب استاد صاحب کو دیکھ لیتے ہیں۔ اگر مطمئن ہوئے تو اچھی بات ہے ورنہ لفظ بدلنے کی کوشش کر لیں گے ☺️
 

الف عین

لائبریرین
کھنڈر کو تو میں بھی فعو کے وزن پر ہی درست مانتا ہوں، یعنی ن غنہ۔
محترم اساتذہ! اصلاح کی درخواست ہے۔
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، سید عاطف علی ، عرفان علوی

نفرتوں کے سوا ہے دان میں کیا؟
اور ہے شہرِ بدگمان میں کیا؟
درست
خامشی میرے قتل پر ہر سو
کوئی زندہ نہیں جہان میں کیا؟
پہلے مصرع میں "ہے" آ سکے تو بہتر ہے
یوں اکڑ کے جو چل رہے ہو تم
چھید کرنا ہے آسمان میں کیا؟
درست
آپ یہ نفرتوں کی منڈی میں
پھول رکھ بیٹھے ہیں دکان میں کیا
"یہ "کی جگہ "اس" بہتر ہو گا
جسم جھلسے ہیں سائبان میں جو
پھر وہ پائیں گے سائبان میں کیا؟

عشق میں ہو جو مبتلا اُس کو
اور ڈالو گے امتحان میں کیا؟

یہ بدلتا ہوا ہر آن جہاں
"آن میں کیا ہے اور آن میں کیا"
اوپر کے سب درست
ہم بجز خوف پا سکیں گے کبھی
تیرے اس شہرِ بے امان میں کیا
اشک بے ساختہ چھلک ہی پڑے
آپ آئے تھے میرے دھیان میں کیا؟

میرا دل تو ہے ایک کھنڈر سا
آپ رہتے بھی اس مکان میں کیا

ہم سخن ہو گئے سبھی اُن کے
شہد رکھتے ہیں وہ زبان میں کیا
یہ سب بھی درست لگ رہے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خامشی میرے قتل پر ہر سو
کوئی زندہ نہیں جہان میں کیا؟

پہلے مصرع میں "ہے" آ سکے تو بہتر ہے
کیوں خموشی یہ میرے قتل پہ ہے
یا
کیوں ہیں خاموش میرے قتل پہ سب


آپ یہ نفرتوں کی منڈی میں
پھول رکھ بیٹھے ہیں دکان میں کیا

"یہ "کی جگہ "اس" بہتر ہو گا
آپ اس نفرتوں کی منڈی میں
پھول رکھ بیٹھے ہیں دکان میں کیا
میرا دل تو ہے ایک کھنڈر سا
آپ رہتے بھی اس مکان میں کیا

کھنڈر کو تو میں بھی فعو کے وزن پر ہی درست مانتا ہوں، یعنی ن غنہ۔
ہے کھنڈر سا مرا یہ دل بھی اک
یا
دل تھا طوفانِ غم کی زد میں مرا
 

الف عین

لائبریرین
کیوں ہیں خاموش میرے قتل پہ سب
بہتر اور رواں مصرع ہے
میرا دل تو ہے بس کھنڈر جیسا
کرنے میں کیا حرج ہے، ویسے مکمل بدلنا ہی چاہو تو دوسرا متبادل بہتر ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نفرتوں کے سوا ہے دان میں کیا؟
اور ہے شہرِ بدگمان میں کیا؟

کیوں ہیں خاموش میرے قتل پہ سب
کوئی زندہ نہیں جہان میں کیا؟

یوں اکڑ کے جو چل رہے ہو تم
چھید کرنا ہے آسمان میں کیا؟

آپ یہ نفرتوں کی منڈی میں
پھول رکھ بیٹھے ہیں دکان میں کیا

جسم جھلسے ہیں سائبان میں جو
پھر وہ پائیں گے سائبان میں کیا؟

عشق میں ہو جو مبتلا اُس کو
اور ڈالو گے امتحان میں کیا؟

یہ بدلتا ہوا ہر آن جہاں
"آن میں کیا ہے اور آن میں کیا"

ہم بجز خوف پا سکیں گے کبھی
تیرے اس شہرِ بے امان میں کیا؟

اشک بے ساختہ چھلک ہی پڑے
آپ آئے تھے میرے دھیان میں کیا؟

دل تھا طوفانِ غم کی زد میں مرا
آپ رہتے بھی اس مکان میں کیا

ہم سخن ہو گئے سبھی اُن کے
شہد رکھتے ہیں وہ زبان میں کیا
 
Top