غالب کی چند غزلیں

نور وجدان

لائبریرین
سخن درپیش برلبِ دل کہ زبان خموش ہے. خامہِ دل کے پیش سارا جہان خموش ہے! عشرتِ غیر کی آرزو نہ رہی کہ میان دل میں آج فغان خموش ہے. دل گفتہ کہ پڑھ غالب آج، شیرِ سخن کے پیش جہان خموش ہے.

خیر تمہید گفتگو تو یہی ہے غالب کی غزلیات میں کیا رمز ہے جس بناء پر آج تک ممتاز ہیں ... جو مدد کرے سمجھنے میں، اسکو کہیں تہہِ دل سے شکریہ کہ دلِ ناساز کے پیش آج دُعا خموش ہے ...کچھ رائے اپنے تئیں لکھے دیتی. گزارش ہوگی کہ بقیہ محفلین شمولیت اختیار کرتے حصہ ڈالیں کہ غالب میرِ سخن ہیں ...



مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں

یہ تو ہوئی عاشق کی بات جس دل میں عشق کا سودا سما جائے اس کے جگر میں، اب "خونِ جگر کے رہے گا کیا؟ یعنی وہ سودا ہے جو جگر میں ہے. حوصلہ سے مراد جگر ہے اور اب جگر میں عشق کا سودا سمایا ہے

مگر غبار ہُوئے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

تخییل کو ٹھیس پہنچی یا دل کو "درد " ملا. اب یہ درد ہی کوچہِ یار لیجائے تو لیجائے ورنہ ہمت دل میں خاک نہیں

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

اس شعر کو اگر کوئ سمجھا سکے تو؟

جو سمجھ پائے وہ یہی کہ جس "جلوہ یار " کی آمد کی تلاش ہے وہ آنے کو ہے. اس راہ، یعنی مرے دل میں غیر کا جلوہ تو ہو نہیں سکتا

بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں

درد مجھ کو اب لگتا نہیں. درد سے لطف ملتا ہے تو چلو اسکو لطف پانے کو یاد کریں، اسے بھلانے سے کیا ہوگا؟

خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں میکش
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں

تصویر کشی بھی ہے دیوار ودر خاک سے بنتے ہیں. پر میکشوں کا حال جلوے سے ایسے ہے جیسے سورج جلا دے. اب دل ایسا جَلا کہ خیال بھی باقی نہیں! "بے خبری " ہے

ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر۔ گھر میں خاک نہیں

ملبہ، اینٹیں، وغیرہ ..... سہتے سہتے سب خراب و برباد ... بربادی کے حسرت کہ گھر تعمیر ہو جو کہ اب ہونے والا نہیں

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کُھلا، کہ فائدہ عرضِ ہُنر میں خاک نہیں

اب جو کہتے ہیں وہ فقط دل کی لگی ہے ورنہ کہنے کا فائدہ نہیں
 

الف عین

لائبریرین
مگر غبار ہُوئے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

تخییل کو ٹھیس پہنچی یا دل کو "درد " ملا. اب یہ درد ہی کوچہِ یار لیجائے تو لیجائے ورنہ ہمت دل میں خاک نہیں
.... یہاں تم سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے، بلکہ تمہاری تشریح کی بھی تشریح کی ضرورت یے
مجھے تو یہ آسان سا شعر لگتا ہے کہ ہم میں تو کوئی ہمت و طاقت نہیں کہ کوچۂ یار تک جا سکیں، ہاں، جب موت کے بعد مشت غبار بن جائیں گے تو شاید ہوا اڑا کر وہاں تک لے جائے

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

اس شعر کو اگر کوئ سمجھا سکے تو؟
... رہگزر میں تو، (اگر ٹار روڈ یا سیمنٹ کانکریٹ کی نہیں) دھول مٹی ہونا چاہئے لیکن آج محبوب کی آمد کے باعث بلکہ اس کے استقبال میں پھول بچھے ہوئے ہیں، چاہے وہ شاعر نے بچھائے ہوں یا فطرت نے
 

نور وجدان

لائبریرین
مگر غبار ہُوئے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

تخییل کو ٹھیس پہنچی یا دل کو "درد " ملا. اب یہ درد ہی کوچہِ یار لیجائے تو لیجائے ورنہ ہمت دل میں خاک نہیں
.... یہاں تم سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے، بلکہ تمہاری تشریح کی بھی تشریح کی ضرورت یے
مجھے تو یہ آسان سا شعر لگتا ہے کہ ہم میں تو کوئی ہمت و طاقت نہیں کہ کوچۂ یار تک جا سکیں، ہاں، جب موت کے بعد مشت غبار بن جائیں گے تو شاید ہوا اڑا کر وہاں تک لے جائے

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

اس شعر کو اگر کوئ سمجھا سکے تو؟
... رہگزر میں تو، (اگر ٹار روڈ یا سیمنٹ کانکریٹ کی نہیں) دھول مٹی ہونا چاہئے لیکن آج محبوب کی آمد کے باعث بلکہ اس کے استقبال میں پھول بچھے ہوئے ہیں، چاہے وہ شاعر نے بچھائے ہوں یا فطرت نے
زبردست! استاد محترم
آپ کی پدرانہ شفقت سے دل خوش ہوگیا ... غالب کو سمجھنا چاہ رہی تھی اور آپ نے مدد کی. جس کے لیے تہہِ دل سے شکرگزار ہوں
 

نور وجدان

لائبریرین
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے

گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے

کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ
دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے

کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے

ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی
اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہے

مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین [1] ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے



گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے

شور درد کا، جب مچا تب بھی فائدہ نہ ہوا، پھر میں نے بات چیت، گفتگو کم کردی یا ہوگئی ... خاموشی سے اگر فائدہ حال چھپانا ہے تو اچھا ہے کہ لوگ نہ سمجھیں مجھے کہ لوگ سمجھ کے بھی نہیں سمجھتے. یہ وہ درد ہے میاں، جو بتانے سے بڑھتا ہے کہ اہل دل ہیں کم کم پر تماشائی بہت



کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ
دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے

پہلے جب میں اظہار کیا کرتا تھا تب تکلم سخنی پر الزم لگ گئے.اہل جنوں، اہل درد ہوتے ہیں جب کسی غیر کو جا کے سنایا جائے ماجرائے دل تو اسے وہ سمجھ نہیں سکتا محض ملزم ٹھہر گیا زبان کے جمع و خرچ سے اور اسے چھلنی دل ہوگیا. مزید دل کے زخم کہنے کی چاہ نہیں ہے. اب تو حسرت ہے اظہار کی بس


کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے

دل میرا شکستہ ہے مجھے کوئی چارہ گر چاہیے اے خدا، رحمت خاموش ہے یا عذر خواہ، کہیں چھپی ہوئی کسی لب پر جیسے سوال نہ ...آئنہ پرداز سے مراد آئنہ بنانے والے یا صیقل کرنے والے کو. شاعر کو کسی ایسی انسان کی تلاش ہے جو اسکے درون کی زبوں حالی کو بہتر کر سکے


ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی
اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہے

شوق منفعل: مانند پانی یا قطرہ آب ہوا میں اڑ گیا یا کاغذ جس کی راکھ بکھر گئی ... اب چونکہ کچھ باقی نہیں دل میں تو جس سبب یہ حال، تجھ کو خیال دشمنی؟ شوق پر طعنہ زن غالب کا سخن کا کہ عجب خیال آیا تجھے


مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین [1] ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

مشکل.شعر اس شعر پر بہت سوچ وچار کی ...پتا نہین مفہوم ٹھیک ہے یا نہیں .... دل تو نہ مکہ و مدینہ کی زمین ہے نہ سخن میرا ایسا جیسا مکے و مدینے والے کی جانب سے عطا ہو. یا کہو دل نہ نجف کی زمین ہے نہ سخن کی عطا نجف والے کی جانب سے ہے مگر سیاہ خوشبو دار مہک خراماں خراماں لیے لباس کعبہ دل میں در قدم علی ہے. واللہ کیا شان ہے



وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے


دریا جو میرے رونے سے پیدا ہوا، اس سے زمین تنگ تھا یہ کون عاشق ہے جس نے زمین کو اتنا پانی.سے بھر دیا. زمین کی تنگی بھی دور ہوگئی وہ دریا بخارات بن کے اڑ گیا
اب نشانِ عشق کے واسطے کچھ باقی نہیں


ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے


تم.سمجھ رہے ہو تم.کچھ ہو جبکہ تم کیا یہ تمام عالم اک خیال کے گرد گھوم رہا ہے. تمھاری ہستی کچھ نہیں. یہاں خود کی نفی کی گئی کہ اثبات تو بس اک ذات ہے جس کے خیال.سے یہ تما.عالم.چل.رہا

استاذ محترم الف عین
.

. ,
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین [1] ہے نہ کہ نافِ غزال ہے
غلاف کعبہ کی خوشبو امام علی کے قدم رنجا ہونے کے باعث ہے، یہ مشک کسی ہرن کی نہیں بلکہ ابوتراب، علی کی خوشبو ہے

شاید

نوٹ
امام علی کی جائے پیدائش ایک روایت کے مطابق خانہ کعبہ ہے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
خلاف کعبہ کی خوشبو امام علی کے قدم رنجا ہونے کے باعث ہے، یہ مشک کسی ہرن کی نہیں بلکہ ابوتراب، علی کی خوشبو ہے

شاید

نوٹ
امام علی کی جائے پیدائش ایک روایت کے مطابق خانہ کعبہ ہے
آپ ناف زمین اور ناف غزال کو کیا کہیں گے؟ شاید باقی خیال اپنے الفاظ میں ایسے کہا تھا مگر اک کاوش اور سہی

حضرت علی رضی تعالی عنہ کے قدم رنجہ ہونے سے ایسی خوشبو پھیلی ہے، میرا دل میں ایسی خوشبو پہلے تو نہ تھی کہ دل نہ ناف زمین ہے نہ ناف غزال ہے ...


اگر ایسا نہیں تو آپ مزید وضاحت کردیجیے
 

فاخر رضا

محفلین
آپ ناف زمین اور ناف غزال کو کیا کہیں گے؟ شاید باقی خیال اپنے الفاظ میں ایسے کہا تھا مگر اک کاوش اور سہی

حضرت علی رضی تعالی عنہ کے قدم رنجہ ہونے سے ایسی خوشبو پھیلی ہے، میرا دل میں ایسی خوشبو پہلے تو نہ تھی کہ دل نہ ناف زمین ہے نہ ناف غزال ہے ...


اگر ایسا نہیں تو آپ مزید وضاحت کردیجیے
علی، ابوتراب ہیں.
آپ علیہ السلام ناف زمین ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا

غالب کا یہ شعر بہت پیارا ہے ...بے نیازی ہے کہ زندگی نام ہے درد کا.درد کی دوا نہیں. دراصل عشق درد کا نام ہے ...یہ مطلع مجھے بہت اچھا لگا ہے سادہ سے الفاظ میں بڑی بات کردی .. ایک طرف درد کی دوا پائی .. دوا کیا ہے؟ درد کا علاج نہیں یعنی مریض عشق .....

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا


پھول جو کھلیں ہیں وہ ہمارے دل کے قتل سے ہوئے. دل کی جگہ کچھ بھی نہیں ہے یعنی دل گمشدہ ہے جب زخم درد ملے گا اسکی تمثیل ہے کہ یاد محبوب کی آئی گی. دل گمشدہ ہوجائے گا ...


شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
دل کے زخم وہ کیا جانیں جن کی تن بیتی میں درد کا مزا نہیں ہے جس نے یہ مے چکھی نہیں وہ آپ کو نصیحت کرے تو اسکی نصیحت بھی تلوار کی دھار جیسی لگتی ...بقول شاعر زخمی کو مزید درد دے کیا لطف و قرار پایا


لطافت کا حال ہے کہ پیار سے شکوہ کیا جارہا ہے یار میں تو دکھی تھا تو نے بجائے پوچھنے کے وعظ شروع کردیا اب مجھے اس سے درد علاوہ کچھ نہ ملا......


فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِ سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا
اس شعر کو سمجھا دیا جائے تو بہتر ہوگا.......



حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا

یہ شعر تو بہت پیارا ہے.... میرا دل کا تار تم سے جڑا ہوا ہے...میں نے خود کو ڈھونڈا ...تمھیں ہماری خبر ہوگئی یعنی ہم اپنا حال دل تم سے منسلک کرتے ہیں تمھیں ہمارے حال کی خبر ہو جاتی ہے


ابھی اس غزل کے تین اشعار .....
کیا میں درست سمجھ پائی

حاضرین محفل
 
Top