تعلیم اور بچپن پر نفسیاتی دباؤ

بالکل درست ہے یہ بات۔
جب انسان اپنی مرضی اور خواہش کو پسِ پُشت رکھتے ہوئے بس دوسروں کے چنےہوئے راستے پر چل کر اپنی منزل کی تلاش کرتا ہے وہ اکثر زندگی کی بازی کو ہی ہار دیتا ہے۔
اپنی مرضی جس کام میں ہو اُس کام سے گھر کے اخراجات پورے نہ ہوں تو وہ کیا کرے گا وہ مجبوراً وہ ہی کام کرنے پر مجبور ہوگا جو لوگ اُس سے کروانا چاہ رہے ہوں گے
 
جی گل سسٹر۔۔۔۔اور ہمارے یہاں والدین بچپن سے بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں۔۔۔۔بچہ پالنے میں ہوتا ہے۔۔۔۔ماں باپ کہہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر بنے گا ۔۔۔پائلٹ بنے گا۔۔۔۔فلاں کے یہاں اس کی شادی کریں گے۔۔۔ ایسا لگتا ہے ۔۔۔بڑا ہوگا تو اپنا دل دماغ لے کر بڑا ہی نہیں ہوگا۔۔۔۔ماں باپ کے جذبات اور احساسات ہوں گے اس کے اندد بھی۔۔۔۔
ہر فیصلے بڑوں کے بھی غلط نہیں ہوتے وہ اپنے تجربات کی روشنی میں ہی اپنے بچے کے لئے فیصلہ کرتے ہیں کوئی بھی ماں باپ ہو وہ یہ ہی چاہے گا کہ میرا بچہ مجھ سے اچھا ہی بنے مستقبل میں
 
افسوس کہ نہ تو ہمارے ہاں کوئی خاص نظام تعلیم ہے اور نہ ہی وہ استاد جو پڑھانا جانتے ہوں اور نہ ہی ڈھنگ کا کوئی معاشرتی نظام۔ اس سے بھی بد تر صورتحال یہ ہے کہ ہر رشتہ حاکم اور محکوم کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ ماں، باپ، بڑے بہن بھائی، تایا، چاچو، ماموں، استاد وغیرہ چاہے کوئی عمر میں ایک دن بھی بڑا ہو وہ چھوٹے پر حاکم تصور کیا جاتا ہے۔ اس غلامی کو قبول کر کے جینے والی قوم بھی سمجھتی ہے کہ وہ دنیا فتح کرے گی۔ پیار نام ہے ان کنڈیشنل سپورٹ کا لیکن ہمارے ہاں یہ ایک کاروبار ہے۔ والدین کے نزدیک بچے بچے نہیں بلکہ ایک بزنز انٹیٹی ہیں جن پہ وہ سرمایہ لگاتے ہیں اس امید سے کہ وہ سود سمیت واپس کریں گے اور جب انہیں بچے کی مرضی میں اپنا خسارہ نظر آتا ہے تو خسارہ کس کو قبول ہے؟ سو وہ ہر وہ اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جو کہ ایک بزنزمین کو کرنا چاہیے۔ ہم میں سے اکثریت اس ڈائمینشن میں نہیں سوچتی کہ وہ معاشرے کو ایسا فرد دے کر جائے جو معاشرے کے لیے فائدہ مند ہو بلکہ اس کے برعکس کاروباری سوچ رکھتی ہے۔
آپ کی بات بھی درست ہے کہ ماں باپ کو بزنس مین بن کر نہیں سوچنا چاھئیے یہ اللہ نے آپ پر ذمداری دی ہے کہ آپ اُس کی اچھے پرورش کریں اچھی تعلیم دلوائیں ۔
 
سر آپکی سب باتوں سے متفق۔۔۔۔اسی لئے ہمارے یہاں اپنی سوچ ہی نہیں ہے۔۔۔۔خود سے سوچتے ہوئے ڈرتے ہیں۔۔۔۔بس ہاں میں ہاں بچپن سے ملانا سکھائی جاتی ہے۔۔۔۔دوسروں کی باتوں پر واہ واہ کرتے ہیں۔۔۔۔اس ڈر میں ہی رہتے ہیں کہیں کوئی ناراض نہ ہو جائے۔۔ کوئی بات اکثریت کی سوچ کے خلاف کر دی۔۔۔۔سوچتے ہیں دوستی خراب ہو جائےگی۔۔۔ سب کو خوش رکھنے کی کوشش میں برائی کو برائی کہنے کی بھی ہمارے یہاں ہمت نہیں ہے
۔۔۔کیونکہ بچپن میں ہی ہمارے یہاں یہ صلاحیت بڑے ختم لر دیتے ہیں۔۔۔۔

اور عمر کا تو آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔۔۔۔اجنبی تک عمر کا رعب جماتے ہیں
۔۔مجھے تو یہاں بھی سننے کو ملا کہ میں چھوٹی ہوں اور بات بڑوں کی نہیں مان رہی ہوں۔۔۔۔

اور بات بات پر تربیت کی طعنے بھی ملتے ہیں ۔۔۔۔ بس ذرا مختلف بات کرو ۔۔۔۔ فورا سننے کو ملتا ہےماں باپ نے تمیز نہیں سکھائی۔۔۔وہ نہیں سکھایا۔۔۔۔یہ نہیں سکھایا۔۔۔
اگر کوئی عمر میں چھوٹا بھی اچھا مشورہ دے تو اُس کے مشورے کو بھی قبول کرنا چاھئیے اور اُس کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاھئیے لیکن معاشرہ کہیں اور ہی جارہا ہے میرے خاندان میں میرا ایک کزن تھا اُس کو اگر میں کوئی مشورہ دیتا تو وہ اُس وقت تو بولتا کہ نہیں تمہارا مشورہ ٹھیک نہیں ہے پر کچھ ہی دن میں نظر آجاتا تھا کہ اُس مشورے پر عمل درآمد ہورہا ہوتا تھا۔
 
اس کاروباری سوچ کی وجہ سے ہی تو منزل سے دور ہو جاتے ہیں اچھے ذہین لوگ بھی۔
لیکن جو ہو گیا ، سو ہو گیا۔ اگر سب انفرادی طور پر تہیہ کر لیں کہ اسی دائرے میں گھومتے رہنے کی بجائے اپنا راستہ نکالنا ہے تو بہت بہتری ہو سکتی ہے۔
پڑھالکھاطبقہ تو پھر بھی سمجھ جاتا ہے اور وہ اپنے بچوں کی سُن بھی لیتے ہیں ضرورت تو ان پڑھ لوگوں کو سمجھانے کی ہے
 
اسی لئے تو سب کا لکھا نا۔۔۔ اب ہر بندہ نہ سہی لیکن اگر اکثریت اپنی سوچ بدل لے تو بہت کچھ تبدیلی ہو سکتی ہے۔ ورنہ معلوم نہیں مزید کتنی نسلوں کو یہی سب دیکھنا اور سہنا ہو گا۔
معاشرہ ہم لوگوں کا اپنا بنایا ہوا ہے نا۔۔۔۔ اگر یہی سوچ کر بیٹھے رہیں گے تو کچھ نہ ہو پائے گا۔
اِس معاملے کو صحیح کرنے کے لئے کیا کرنا چاھئیے ؟
 

ہانیہ

محفلین
یہ میں نے ڈاکٹر کی پڑھائی میں بھی سُنا ہے کہ بہت موٹی موٹی کتابیں ہوتی ہیں لوگ پڑھتے پڑھتے پاگل بھی ہوجاتے ہیں

اگر پڑھتے پڑھتے پاگل ہو جاتے۔۔۔۔ تو ڈاکٹر کیسے بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔۔۔ جن کی brain capacity ہوتی ہے۔۔۔ اور وہ پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ وہ پڑھتے ہیں۔۔۔ لیکن اگر کسی کا انٹرسٹ نہ ہو۔۔۔۔ یا اس کا دماغ اتنا اچھا نہ ہو میڈیکل کی فیلڈ میں۔۔۔ تو زبردستی کرنا درست نہیں ہے۔۔۔

اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔۔۔ خود مشاہدہ کیا کریں۔۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
ہر فیصلے بڑوں کے بھی غلط نہیں ہوتے وہ اپنے تجربات کی روشنی میں ہی اپنے بچے کے لئے فیصلہ کرتے ہیں کوئی بھی ماں باپ ہو وہ یہ ہی چاہے گا کہ میرا بچہ مجھ سے اچھا ہی بنے مستقبل میں

آپ نے پوسٹ غور سے نہیں پڑھی ہے۔۔۔ ماں باپ کے ہر فیصلے کو غلط نہیں کہا جا رہا ہے۔۔۔۔بچے کے انٹرسٹ لیول اور ذہانت کے معیار کے خلاف ۔۔۔۔ اس کا کیرئیر زبردستی چوز کرنے پراعتراض ہے۔۔۔۔ کیونکہ بچہ بعد میں اپنے کیرئیر میں ویسا پرفارم نہیں کر پاتا ہے۔۔۔۔ جیسے وہ انٹرسٹ کے ساتھ کسی اور فیلڈ میں کرتا۔۔۔۔
 
آپ نے پوسٹ غور سے نہیں پڑھی ہے۔۔۔ ماں باپ کے ہر فیصلے کو غلط نہیں کہا جا رہا ہے۔۔۔۔بچے کے انٹرسٹ لیول اور ذہانت کے معیار کے خلاف ۔۔۔۔ اس کا کیرئیر زبردستی چوز کرنے پراعتراض ہے۔۔۔۔ کیونکہ بچہ بعد میں اپنے کیرئیر میں ویسا پرفارم نہیں کر پاتا ہے۔۔۔۔ جیسے وہ انٹرسٹ کے ساتھ کسی اور فیلڈ میں کرتا۔۔۔۔
میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں
 
اگر پڑھتے پڑھتے پاگل ہو جاتے۔۔۔۔ تو ڈاکٹر کیسے بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔۔۔ جن کی brain capacity ہوتی ہے۔۔۔ اور وہ پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ وہ پڑھتے ہیں۔۔۔ لیکن اگر کسی کا انٹرسٹ نہ ہو۔۔۔۔ یا اس کا دماغ اتنا اچھا نہ ہو میڈیکل کی فیلڈ میں۔۔۔ تو زبردستی کرنا درست نہیں ہے۔۔۔

اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔۔۔ خود مشاہدہ کیا کریں۔۔۔۔۔
سارے لوگ پاگل نہیں ہوتے کچھ ہی ہوتے ہیں جن لوگوں کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے وہ گھر کی بھی ٹینشن لیتے ہیں اور پڑھائی کی بھی۔
 

ہانیہ

محفلین
سارے لوگ پاگل نہیں ہوتے کچھ ہی ہوتے ہیں جن لوگوں کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے وہ گھر کی بھی ٹینشن لیتے ہیں اور پڑھائی کی بھی۔

پاگل ان آ سینز کیسے....یعنی کیا حواس کھو بیٹھتے ہیں۔۔۔ یا بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔ پاگل ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟۔۔۔۔
 
Top