ریشم سا بدن اس کا کمخواب سی ہیں آنکھیں

طالش طور

محفلین
سر الف عین
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

اک شخص کے چہرے پر نایاب سی ہیں آنکھیں
ہے حسن سمندر سا گرداب سی ہیں آنکھیں

کچھ روز ہوئے اس کو میں دیکھ نہیں پایا
دل ہے مرا افسردہ بے تاب سی ہیں آنکھیں

معصوم سی ہیں باتیں اس شخص کی سب باتیں
ہیں ہونٹ بھی پاکیزہ محراب سی ہیں آنکھیں

چہرے پہ سکوں اس کے ہے چاند کی کرنوں سا
بپھری ہوئی لہروں کے سیلاب سی ہیں آنکھیں

مسکاں ترے ہونٹوں کی کلیوں کی چٹک جیسی
چنچل سی جوانی ہے شاداب سی ہیں آنکھیں

مسحور سا ہوں طالش جب سے ہے اسے دیکھا
ریشم سا بدن اس کا کمخواب سی ہیں آنکھیں
 

طالش طور

محفلین
سر الف عین
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

اک شخص کے چہرے پر نایاب سی ہیں آنکھیں
ہے حسن سمندر سا گرداب سی ہیں آنکھیں

کچھ روز ہوئے اس کو میں دیکھ نہیں پایا
دل ہے مرا افسردہ بے تاب سی ہیں آنکھیں

معصوم سی ہیں باتیں اس شخص کی سب باتیں
ہیں ہونٹ بھی پاکیزہ محراب سی ہیں آنکھیں

چہرے پہ سکوں اس کے ہے چاند کی کرنوں سا
بپھری ہوئی لہروں کے سیلاب سی ہیں آنکھیں

مسکاں ترے ہونٹوں کی کلیوں کی چٹک جیسی
چنچل سی جوانی ہے شاداب سی ہیں آنکھیں

مسحور سا ہوں طالش جب سے ہے اسے دیکھا
ریشم سا بدن اس کا کمخواب سی ہیں آنکھیں
سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
اس کی بحر میں گڑبڑ لگ رہی ہے
کہیں مفعول مفاعیلن کے ارکان ہیں، کہیں مفعول فاعلاتن کے
 

طالش طور

محفلین
اس کی بحر میں گڑبڑ لگ رہی ہے
کہیں مفعول مفاعیلن کے ارکان ہیں، کہیں مفعول فاعلاتن کے
سر کیسے میری سمجھ میں بات آ نہیں رہی کیونکہ غزل مکمل مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن پر ہے سر مہربانی فرما کر نشاندہی کریں کسی ایسے سکتے کی جس کا وزن آپ کے خیال سے قابلِ اعتراض ہے
 

الف عین

لائبریرین
ردیف میں مناسب تبدیلی کر ہی دیں تو بہتر ہے۔ 'سی ہیں' کو 'سی ہ' ( جو زیادہ رواں ہے اور جس طرح میں پڑھ گیا تھا) یعنی فاعلاتن کا فاع بھی پڑھا جا سکتا ہے اور 'سِہے' مفاعیلن کا مفا بھی۔ میرے خیال میں 'سی آنکھیں ہیں' بہتر رواں ردیف ہو گی۔ حالانکہ اس میں بھی اسے صرف س کے طور پر باندھا گیا ہے۔ اگرچہ 'سی' کو مثال کے لئے مکمل فع باندھنا ہی بہتر ہے۔
مسکان ہندی لفظ ہے، اسے فارسی کی طرح مسکاں نہیں بنایا جا سکتا
 

طالش طور

محفلین
ردیف میں مناسب تبدیلی کر ہی دیں تو بہتر ہے۔ 'سی ہیں' کو 'سی ہ' ( جو زیادہ رواں ہے اور جس طرح میں پڑھ گیا تھا) یعنی فاعلاتن کا فاع بھی پڑھا جا سکتا ہے اور 'سِہے' مفاعیلن کا مفا بھی۔ میرے خیال میں 'سی آنکھیں ہیں' بہتر رواں ردیف ہو گی۔ حالانکہ اس میں بھی اسے صرف س کے طور پر باندھا گیا ہے۔ اگرچہ 'سی' کو مثال کے لئے مکمل فع باندھنا ہی بہتر ہے۔
مسکان ہندی لفظ ہے، اسے فارسی کی طرح مسکاں نہیں بنایا جا سکتا
اک شخص کے چہرے پر نایاب سی آنکھیں ہیں
ہے حسن سمندر سا گرداب سی آنکھیں ہیں

کچھ روز ہوئے اس کو میں دیکھ نہیں پایا
دل ہے مرا افسردہ بے تاب سی آنکھیں ہیں

معصوم سی ہیں باتیں اس شخص کی سب باتیں
ہیں ہونٹ بھی پاکیزہ محراب سی آنکھیں ہیں

چہرے پہ سکوں اس کے ہے چاند کی کرنوں سا
بپھری ہوئی لہروں کے سیلاب سی آنکھیں ہیں

مسکان ترے لب کی کلیوں کی چٹک جیسی
چنچل سی جوانی ہے شاداب سی آنکھیں ہیں

مسحور سا ہوں طالش جب سے ہے اسے دیکھا
ریشم سا بدن اس کا کمخواب سی آنکھیں ہیں
 
Top