پاکستان میں سال 2020 آزادی صحافت کیلئے تاریک رہا، پی پی ایف

پاکستان میں سال 2020 آزادی صحافت کیلئے تاریک رہا، پی پی ایف
ویب ڈیسک 03 مئ 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
60901b2c26d87.png

رپورٹ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی پر زور دیا گیا ہے—فائل/فوٹو: اے پی
پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) نے گزشتہ برس کو پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے تاریک قرار دیتے ہوئے صحافیوں کو نشانہ بنانے اور آزادی صحافت پر قدغنیں لگانے کے لیے قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیا۔

پی پی ایف نے کراچی میں ایک تقریب میں پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2020-2021 جاری کی، جس کے مطابق قتل، براہ راست حملوں، اغوا کے ساتھ ساتھ میڈیا کے اہلکاروں کو دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

مزید پڑھیں: 'آزاد صحافت پر بڑھتے ہوئے حملے آمرانہ سوچ کو تقویت دینے کا باعث ہیں'

پروگرام میں معروف صحافی مظہر عباس، پی پی ایف کے جنرل سیکریٹری اویس اسلم علی، سی پی این ای اور اے پی این ایس کے سابق صدر جبار خٹک، پی ایف یو جے کے سابق عہدیدار جی ایم جمالی اور استاد اور صحافی توصیف احمد خان نے شرکت کی اورپاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال بھی میڈیا کے مواد کو براہ راست کنٹرول کرنے کی کوششوں پر توجہ رکھی گئی، میڈیا ریگولیٹری اداروں کی جانب سے جاری کردہ ہدایات، تمام پلیٹ فارمز پر پابندی اور قانونی اضطراب کا باعث بننے والے قوانین تیار کرنے کی کوششوں سے ایسا ماحول پیدا کیا گیا جہاں میڈیا کو سنسر کیا جاتا ہے اور صحافیوں کو سیلف سنسرشپ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ کووڈ-19 کے پھیلاؤ کے ساتھ اس نئے چیلنج کی شمولیت نے متعدد صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی جانیں لے لی ہیں، وبائی مرض نے پریس کی آزادی کے معاملے میں بھی نئے مسائل پیدا کردیے ہیں۔

کورونا وائرس کے دوران فرنٹ لائن پر کام کرنے والے صحافیوں کے کردار اور کورونا وائرس میں اضافے کے خطرے کے پیش نظررپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ میڈیا پریکٹیشنرز کو فرنٹ لائن ورکر سمجھا جائے اور ان کو حفاظتی ویکسینیشن کی فراہمی میں ترجیح دی جانی چاہیے۔

پاکستان میں، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز، میڈیا پر بالخصوص کوڈ-19 پر رپورٹنگ کرنے والی خواتین صحافیوں کو ٹرولنگ اور مربوط حملوں کا سامنا رہا۔

پی پی ایف کا کہنا ہے کہ جنوری 2020 سے اپریل 2021 کے دوران اپنے کام کی وجہ سے ایک صحافی کا قتل، گرفتاریوں اور نظربندی کے 10 واقعات، جبری طور پر اٹھائے جانے اور اغوا کے 4 واقعات، براہ راست حملوں کے 16 واقعات، دھمکیوں کے 13 واقعات، چھاپوں اور حملوں کے 4 واقعات، انٹرنیٹ پر بڑی پابندی یا بلیک آؤٹ کے 5 واقعات، پیمرا کی 22 ہدایات جو آزادی اظہار رائے میں قدغن لگنے کاباعث بن جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: آزادی صحافت کو سب سے بڑا خطرہ پراسرار، نامعلوم عناصر سے ہے، سی پی این ای

رپورٹ میں کہا گیا کہ صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی کے 7 واقعات اور قانون سازی کی 6 مثالوں نے پاکستان میں آزادانہ اظہار رائے کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔

پی پی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کے تحفظ کے لیے کوئی حفاظتی بل موجود نہیں ہے تاہم پی پی ایف اس بل کی منظوری کے لیے سرگرم طور پر لابنگ کررہی ہے اور وفاقی کابینہ سے اس پر عمل کرنے کی اپیل کرتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے صوبائی سطح پر ایک علیحدہ ڈرافٹ بل تیار کیا گیا تھا اور حکومت نے اس بل کو صوبائی سطح پر منظور کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2021 میں صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے تحفظ کے لیے مؤثر قومی اور صوبائی قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ریگولیٹری ادارے مواد کو روکنے کے لیے حکومتی آلہ کار بن گئے ہیں، پیمرا کی 2020-21 کے دوران جاری کی گئیں ہدایات مواد پر سنسر کے مترادف ہے۔

پیمرا کے حوالے سے کہا گیا کہ کوریج سے ملک میں تازہ ترین اہم پیش رفت کا باعث بننے والے موضوعات پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، اس کا نتیجہ میڈیا کے ذریعے سنسرشپ کا نفاذ ہے اور ان پابندیوں کے ذریعے معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو محدود کردیا گیا ہے۔

2021 کے محض چند مہینوں میں پیمرا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کوریج سے متعلق ہدایات جاری کیں اور صحافیوں کو کابینہ کے اجلاسوں کی ذرائع پر رپورٹنگ کرنے سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا میں آزادی صحافت کو حکومتوں سے سنگین خطرات کا سامنا

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آن لائن مواد کی نگرانی کے لیے قانون سازی ایک اور تشویش ناک بات ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اسٹیک ہولڈرز انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی، قواعد و ضوابط کے مسودے کے عمل میں فعال طور پر شامل ہوں۔

پی پی ایف نے مطالبہ کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی یک طرفہ نظربندی اور تشدد، جبری گمشدگی، اغوا، اور قتل سے متعلق تمام معاملات میں قابل اعتماد تفتیش اور بھرپور فوجداری قانونی کارروائی کی جا ئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ براڈکاسٹ میڈیا کے لیے مزید پابندی والی ہدایت جاری کی گئی ہے جبکہ پرتشدد حملوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کا فقدان ہے، یہ سال پاکستان میں آزادی صحافت کے لئے ایک تاریک تصویر پیش کرتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں سال 2020 آزادی صحافت کیلئے تاریک رہا، پی پی ایف
ویب ڈیسک 03 مئ 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
60901b2c26d87.png

رپورٹ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی پر زور دیا گیا ہے—فائل/فوٹو: اے پی
پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) نے گزشتہ برس کو پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے تاریک قرار دیتے ہوئے صحافیوں کو نشانہ بنانے اور آزادی صحافت پر قدغنیں لگانے کے لیے قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیا۔

پی پی ایف نے کراچی میں ایک تقریب میں پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2020-2021 جاری کی، جس کے مطابق قتل، براہ راست حملوں، اغوا کے ساتھ ساتھ میڈیا کے اہلکاروں کو دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

مزید پڑھیں: 'آزاد صحافت پر بڑھتے ہوئے حملے آمرانہ سوچ کو تقویت دینے کا باعث ہیں'

پروگرام میں معروف صحافی مظہر عباس، پی پی ایف کے جنرل سیکریٹری اویس اسلم علی، سی پی این ای اور اے پی این ایس کے سابق صدر جبار خٹک، پی ایف یو جے کے سابق عہدیدار جی ایم جمالی اور استاد اور صحافی توصیف احمد خان نے شرکت کی اورپاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال بھی میڈیا کے مواد کو براہ راست کنٹرول کرنے کی کوششوں پر توجہ رکھی گئی، میڈیا ریگولیٹری اداروں کی جانب سے جاری کردہ ہدایات، تمام پلیٹ فارمز پر پابندی اور قانونی اضطراب کا باعث بننے والے قوانین تیار کرنے کی کوششوں سے ایسا ماحول پیدا کیا گیا جہاں میڈیا کو سنسر کیا جاتا ہے اور صحافیوں کو سیلف سنسرشپ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ کووڈ-19 کے پھیلاؤ کے ساتھ اس نئے چیلنج کی شمولیت نے متعدد صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی جانیں لے لی ہیں، وبائی مرض نے پریس کی آزادی کے معاملے میں بھی نئے مسائل پیدا کردیے ہیں۔

کورونا وائرس کے دوران فرنٹ لائن پر کام کرنے والے صحافیوں کے کردار اور کورونا وائرس میں اضافے کے خطرے کے پیش نظررپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ میڈیا پریکٹیشنرز کو فرنٹ لائن ورکر سمجھا جائے اور ان کو حفاظتی ویکسینیشن کی فراہمی میں ترجیح دی جانی چاہیے۔

پاکستان میں، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز، میڈیا پر بالخصوص کوڈ-19 پر رپورٹنگ کرنے والی خواتین صحافیوں کو ٹرولنگ اور مربوط حملوں کا سامنا رہا۔

پی پی ایف کا کہنا ہے کہ جنوری 2020 سے اپریل 2021 کے دوران اپنے کام کی وجہ سے ایک صحافی کا قتل، گرفتاریوں اور نظربندی کے 10 واقعات، جبری طور پر اٹھائے جانے اور اغوا کے 4 واقعات، براہ راست حملوں کے 16 واقعات، دھمکیوں کے 13 واقعات، چھاپوں اور حملوں کے 4 واقعات، انٹرنیٹ پر بڑی پابندی یا بلیک آؤٹ کے 5 واقعات، پیمرا کی 22 ہدایات جو آزادی اظہار رائے میں قدغن لگنے کاباعث بن جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: آزادی صحافت کو سب سے بڑا خطرہ پراسرار، نامعلوم عناصر سے ہے، سی پی این ای

رپورٹ میں کہا گیا کہ صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی کے 7 واقعات اور قانون سازی کی 6 مثالوں نے پاکستان میں آزادانہ اظہار رائے کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔

پی پی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کے تحفظ کے لیے کوئی حفاظتی بل موجود نہیں ہے تاہم پی پی ایف اس بل کی منظوری کے لیے سرگرم طور پر لابنگ کررہی ہے اور وفاقی کابینہ سے اس پر عمل کرنے کی اپیل کرتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے صوبائی سطح پر ایک علیحدہ ڈرافٹ بل تیار کیا گیا تھا اور حکومت نے اس بل کو صوبائی سطح پر منظور کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2021 میں صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے تحفظ کے لیے مؤثر قومی اور صوبائی قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ریگولیٹری ادارے مواد کو روکنے کے لیے حکومتی آلہ کار بن گئے ہیں، پیمرا کی 2020-21 کے دوران جاری کی گئیں ہدایات مواد پر سنسر کے مترادف ہے۔

پیمرا کے حوالے سے کہا گیا کہ کوریج سے ملک میں تازہ ترین اہم پیش رفت کا باعث بننے والے موضوعات پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، اس کا نتیجہ میڈیا کے ذریعے سنسرشپ کا نفاذ ہے اور ان پابندیوں کے ذریعے معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو محدود کردیا گیا ہے۔

2021 کے محض چند مہینوں میں پیمرا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کوریج سے متعلق ہدایات جاری کیں اور صحافیوں کو کابینہ کے اجلاسوں کی ذرائع پر رپورٹنگ کرنے سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا میں آزادی صحافت کو حکومتوں سے سنگین خطرات کا سامنا

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آن لائن مواد کی نگرانی کے لیے قانون سازی ایک اور تشویش ناک بات ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اسٹیک ہولڈرز انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی، قواعد و ضوابط کے مسودے کے عمل میں فعال طور پر شامل ہوں۔

پی پی ایف نے مطالبہ کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی یک طرفہ نظربندی اور تشدد، جبری گمشدگی، اغوا، اور قتل سے متعلق تمام معاملات میں قابل اعتماد تفتیش اور بھرپور فوجداری قانونی کارروائی کی جا ئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ براڈکاسٹ میڈیا کے لیے مزید پابندی والی ہدایت جاری کی گئی ہے جبکہ پرتشدد حملوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کا فقدان ہے، یہ سال پاکستان میں آزادی صحافت کے لئے ایک تاریک تصویر پیش کرتا ہے۔
پاکستان میں آزادی صحافت کا مطلب ہے روزانہ کی بنیاد پر فیک نیوز پھیلاؤ اور پھر پکڑے جانے پر معافی مانگ لو۔ فیک نیوز پھیلانے پر کوئی ندامت یا اصلاح نہ کرو
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں سال 2020 آزادی صحافت کیلئے تاریک رہا، پی پی ایف
ویب ڈیسک 03 مئ 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
60901b2c26d87.png

رپورٹ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی پر زور دیا گیا ہے—فائل/فوٹو: اے پی
پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) نے گزشتہ برس کو پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے تاریک قرار دیتے ہوئے صحافیوں کو نشانہ بنانے اور آزادی صحافت پر قدغنیں لگانے کے لیے قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیا۔

پی پی ایف نے کراچی میں ایک تقریب میں پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2020-2021 جاری کی، جس کے مطابق قتل، براہ راست حملوں، اغوا کے ساتھ ساتھ میڈیا کے اہلکاروں کو دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

مزید پڑھیں: 'آزاد صحافت پر بڑھتے ہوئے حملے آمرانہ سوچ کو تقویت دینے کا باعث ہیں'

پروگرام میں معروف صحافی مظہر عباس، پی پی ایف کے جنرل سیکریٹری اویس اسلم علی، سی پی این ای اور اے پی این ایس کے سابق صدر جبار خٹک، پی ایف یو جے کے سابق عہدیدار جی ایم جمالی اور استاد اور صحافی توصیف احمد خان نے شرکت کی اورپاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال بھی میڈیا کے مواد کو براہ راست کنٹرول کرنے کی کوششوں پر توجہ رکھی گئی، میڈیا ریگولیٹری اداروں کی جانب سے جاری کردہ ہدایات، تمام پلیٹ فارمز پر پابندی اور قانونی اضطراب کا باعث بننے والے قوانین تیار کرنے کی کوششوں سے ایسا ماحول پیدا کیا گیا جہاں میڈیا کو سنسر کیا جاتا ہے اور صحافیوں کو سیلف سنسرشپ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ کووڈ-19 کے پھیلاؤ کے ساتھ اس نئے چیلنج کی شمولیت نے متعدد صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی جانیں لے لی ہیں، وبائی مرض نے پریس کی آزادی کے معاملے میں بھی نئے مسائل پیدا کردیے ہیں۔

کورونا وائرس کے دوران فرنٹ لائن پر کام کرنے والے صحافیوں کے کردار اور کورونا وائرس میں اضافے کے خطرے کے پیش نظررپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ میڈیا پریکٹیشنرز کو فرنٹ لائن ورکر سمجھا جائے اور ان کو حفاظتی ویکسینیشن کی فراہمی میں ترجیح دی جانی چاہیے۔

پاکستان میں، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز، میڈیا پر بالخصوص کوڈ-19 پر رپورٹنگ کرنے والی خواتین صحافیوں کو ٹرولنگ اور مربوط حملوں کا سامنا رہا۔

پی پی ایف کا کہنا ہے کہ جنوری 2020 سے اپریل 2021 کے دوران اپنے کام کی وجہ سے ایک صحافی کا قتل، گرفتاریوں اور نظربندی کے 10 واقعات، جبری طور پر اٹھائے جانے اور اغوا کے 4 واقعات، براہ راست حملوں کے 16 واقعات، دھمکیوں کے 13 واقعات، چھاپوں اور حملوں کے 4 واقعات، انٹرنیٹ پر بڑی پابندی یا بلیک آؤٹ کے 5 واقعات، پیمرا کی 22 ہدایات جو آزادی اظہار رائے میں قدغن لگنے کاباعث بن جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: آزادی صحافت کو سب سے بڑا خطرہ پراسرار، نامعلوم عناصر سے ہے، سی پی این ای

رپورٹ میں کہا گیا کہ صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی کے 7 واقعات اور قانون سازی کی 6 مثالوں نے پاکستان میں آزادانہ اظہار رائے کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔

پی پی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کے تحفظ کے لیے کوئی حفاظتی بل موجود نہیں ہے تاہم پی پی ایف اس بل کی منظوری کے لیے سرگرم طور پر لابنگ کررہی ہے اور وفاقی کابینہ سے اس پر عمل کرنے کی اپیل کرتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے صوبائی سطح پر ایک علیحدہ ڈرافٹ بل تیار کیا گیا تھا اور حکومت نے اس بل کو صوبائی سطح پر منظور کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2021 میں صحافیوں اور میڈیا کارکنان کے تحفظ کے لیے مؤثر قومی اور صوبائی قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ریگولیٹری ادارے مواد کو روکنے کے لیے حکومتی آلہ کار بن گئے ہیں، پیمرا کی 2020-21 کے دوران جاری کی گئیں ہدایات مواد پر سنسر کے مترادف ہے۔

پیمرا کے حوالے سے کہا گیا کہ کوریج سے ملک میں تازہ ترین اہم پیش رفت کا باعث بننے والے موضوعات پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، اس کا نتیجہ میڈیا کے ذریعے سنسرشپ کا نفاذ ہے اور ان پابندیوں کے ذریعے معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو محدود کردیا گیا ہے۔

2021 کے محض چند مہینوں میں پیمرا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کوریج سے متعلق ہدایات جاری کیں اور صحافیوں کو کابینہ کے اجلاسوں کی ذرائع پر رپورٹنگ کرنے سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا میں آزادی صحافت کو حکومتوں سے سنگین خطرات کا سامنا

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آن لائن مواد کی نگرانی کے لیے قانون سازی ایک اور تشویش ناک بات ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اسٹیک ہولڈرز انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی، قواعد و ضوابط کے مسودے کے عمل میں فعال طور پر شامل ہوں۔

پی پی ایف نے مطالبہ کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی یک طرفہ نظربندی اور تشدد، جبری گمشدگی، اغوا، اور قتل سے متعلق تمام معاملات میں قابل اعتماد تفتیش اور بھرپور فوجداری قانونی کارروائی کی جا ئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ براڈکاسٹ میڈیا کے لیے مزید پابندی والی ہدایت جاری کی گئی ہے جبکہ پرتشدد حملوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کا فقدان ہے، یہ سال پاکستان میں آزادی صحافت کے لئے ایک تاریک تصویر پیش کرتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
یہی تو کام آتا ہے میرے پیارے کپتان کو، اب یہ بھی نہ کرے تو اور کیا کرے؟
جتنے جھوٹے الزامات پاکستانی سیاست دان، صحافی، اینکرز ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔ اگر یہ سب برطانیہ میں ہو رہا ہوتا تو سب کے سب ہتک عزت کے مقدمات بھگت بھگت کر کنگال ہو چکے ہوتے۔
 

حسرت جاوید

محفلین
آزادی صحافت رہے نہ رہے بس اے آر وائی چلتا رہے کیونکہ اے آر وائی سے زیادہ تصدیق شدہ خبر دینے والا چینل ابھی پیدا نہ ہوا! :heehee:
 

جاسم محمد

محفلین
آزادی صحافت رہے نہ رہے بس اے آر وائی چلتا رہے کیونکہ اے آر وائی سے زیادہ تصدیق شدہ خبر دینے والا چینل ابھی پیدا نہ ہوا! :heehee:
اے آر وائی ویسے ہی بدنام ہے۔ حالانکہ سب سے زیادہ جھوٹی خبریں جیو، ڈان، ۲۴ نیوز والے دیتے ہیں۔
 
پاکستان دنیا کا وہ انوکھا ملک ہے جہاں قتل، چوری چکاری اور کرپشن سے بڑا جرم سچ بولنا اور سچ لکھنا ہیں۔ مدینے کی ریاست کا دعوے دار کپتان روز بھاشن دیتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اے آر وائی نیم سرکاری ادارہ جو ہوا۔
اے آر وائی کا جھکاؤ تحریک انصاف کی جانب ہے اس لئے آپ کو ایسا لگ رہا ہے۔ حالانکہ پچھلی حکومتوں میں اے آر وائی حکومت مخالف ہی ہوتا تھا۔
جیو نیوز کا جھکاؤ ن لیگ کی طرف ہے۔ وہ پچھلی حکومت میں بھی تحریک انصاف کا مخالف تھا اور اب کا حال تو آپ کے سامنے ہے۔
ڈان دیسی لبرل ہے تو وہ کسی سے خوش ہو نہیں سکتا۔
۹۲ نیوز والے تحریک لبیک کے حامی ہیں۔
۲۴ نیوز زرداری کا چینل ہے۔
پاکستان میں آزاد و غیر جانبدار صحافت کر کون رہا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
آمرانہ ذہنیت اور آمروں کے چہیتوں نے اس ملک کو نچوڑکر رکھ دیا ہے۔ جمہوریت دشمنوں کی اس ملک میں کمی نہیں!
منافقانہ ذہنیت کا جمہورانہ ذہنیت سے تقابل غلط ہے۔ پاکستان کے جمہوری انقلابی صحافی غیر جانبدار نہیں۔ کسی نہ کسی جماعت یا انٹرسٹ گروپ کے پے رول پر ہیں
 
Top