حضرت ابراہیم علیہ السلام

ابن آدم

محفلین
باقی یہ کہ حضرت موسیٰ کو ان کی اولاد میں سے کہنا جو حضرت نوح کے ساتھ سوار ہوئے تھے خود ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے حضرت ابراہیم آل نوح میں شامل نہیں. اور ویسے بھی حضرت نوح آدم ثانی قرآن کی روح سے نہیں بلکہ اسرائیلیات کے مطابق ہیں. اور اگر اسرائیلیات ہی حقیقت ہوتیں تو پھر تو قرآن کی ضرورت ہی نہیں تھی
 
تورات میں دی گئی ان دونوں خوشخبریوں یعنی ہاجرہ {ع} اور حضرت ابراہیم {ع} کو جو دی گئیں ، ان پر اہل علم اسلامی روایات پر کہتے ہیں کہ پہلی خوشخبری صادق آتی ہے محمد {ص} پر اس لئے کہ عرب آپ {ص} کی وجہ سے لوگوں کے سردار بنے ، مشرق و مغرب تمام ملکوں کے مالک ہوئے ۔ اور اللہ نے ان کو وہ علم نافع اور عمل صالح عطا فرمایا جو ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دیا گیا تھا ۔ اور عرب کو یہ شرف نبی پاک {ص} کے تمام رسولوں پر اشرف ہونے سے ملا ۔ آپ {ص} کی رسالت کی برکت اور آپ {ص} کی بشارت کی برکت ، آپ {ص} کی کامل رسالت اور تمام اہل ارض کے لیے آپ کی بعثت کی وجہ سے یہ شرف امت محمدیہ اور عرب کو حاصل ہوا ۔
دوسری خوشخبری بھی امت محمدیہ کے ساتھ پوری ہوتی ہے اور یہ بارہ عظیم افراد بارہ خلفاء راشدین ہیں جن کی بشارت عبدالملک بن عمیر راوی کی حدیث میں مذکور ہے کہ وہ حضرت جابر بن سمرہ {رض} سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم {ص} نے فرمایا " بارہ امیر ہوں گے " پھر آپ {ص} نے کوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی ، بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ {ص} نے یہ فرمایا کہ " وہ سب کے سب قریش خاندان سے ہوں گے ۔ "
اور جابر {رض} کی دوسری روایت میں ہے اسلام بارہ خلفاء تک غالب رہے گا ، سب کے سب قریش کے ہوں گے ۔ ان ہی کی دوسری روایت ہے ، بلاشبہ یہ دین غالب و مضبوط رہے گا بارہ خلفاء تک ، وہ سب کے سب قریش کے ہوں گے ۔
واللہ اعلم
 
ہاجرہ {ع} کے یہاں جب اسماعیل {ع} پیدا ہوئے تو اس سے سارہ {ع} کو سخت غیرت آئی ۔ تو پھر انہوں نے حضرت ابراہیم {ع} کو کہا کہ ہاجرہ کومجھ سے کہیں دور لے جاؤ ۔ تو پھر ہاجرہ {ع} اور اسماعیل {ع} کو ابراہیم {ع} لے گئے اور چلے حتی کہ ان کو اس جگہ اتار دیا جہاں آج مکہ شہر آباد ہے ۔ اسماعیل {ع} اس وقت ایک شیرخوار بچے تھے ۔ جب ابراہیم {ع} ان دونوں کو وہاں چھوڑ کر پلٹنے لگے تو ہاجرہ {ع} ان سے چمٹ گئیں اور عرض کیا " اے ابراہیم آپ ہمیں یہاں تنہا چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں ؟ ، جبکہ ہمارے پاس کوئی سامان بھی نہیں جس سے ہم گزر بسر کرسکیں
حضرت ابراہیم {ع} خاموش رہے
ہاجرہ {ع} نے اصرار و اضطراب کے ساتھ دوبارہ اپنا سوال دہرایا اور حضرت ابراہیم {ع} نے پھر کوئی جواب نہ دیا
ہاجرہ {ع} بولیں " کیا اللہ نے اس کا حکم فرمایا ہے ؟ "
حضرت ابراہیم {ع} نے جواب دیا " ہاں "
پھر ہاجرہ {ع} نے بھی کہا " پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا "
ابن عباس {رض} نے بیان کیا ، عورتوں میں کمر بند باندھنے کا رواج اسماعیل {ع} کی والدہ سے چلا ہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر بند اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ {ع} ان کا سراغ نہ پائیں پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم {ع} ساتھ لے کر مکہ میں آئے ، اس وقت ابھی وہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ابراہیم نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے ۔ مسجد کی بلند جانب میں ۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا ۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا ۔ ابراہیم نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا ۔ پھر ابراہیم روانہ ہوئے ۔ اس وقت اسماعیل کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم ! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں ، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟
انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے ۔ آخر ہاجرہ نے پوچھا کیا اللہ تعالی نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟
 
ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا
ابراہیم {ع} نے فرمایا کہ ہاں ۔
اس پر ہاجرہ {ع} بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالی ہماری حفاظت کرے گا ، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا ۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم روانہ ہو گئے ۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا ، جہاں اب کعبہ ہے ، پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ۔
قرآن میں آتا ہے " اے رب ہمارے ! میں نے اپنی کچھ اولاد ایسے میدان میں بسائی ہے جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت والے گھر کے پاس ، اے رب ہمارے ! تاکہ نماز کو قائم رکھیں پھر کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں میووں کی روزی دے تاکہ وہ شکر کریں { سورۃ ابراہیم 37 }"
ادھر اسماعیل {ع} کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں ۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے ۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا پیچ و تاب کھا رہا ہے یا زمین پر لوٹ رہا ہے ۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بےچین ہوتا تھا ۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی ۔ وہ اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا ، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا ۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے ۔
 
ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا " صفا اور مروہ کے درمیان لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا ۔ "
جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی ، انہوں نے کہا " خاموش ! " یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے ۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی ۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو ۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں آب زمزم ہے ، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے ۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا ، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے ، جس سے وہاں پانی ابل آیا ۔ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں ۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا ۔
ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : اللہ ! ام اسماعیل پر رحم کرے ، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ {ص} نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا ۔
ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا کہ پھر ہاجرہ {ع} نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا ۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ " اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا ، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا " اب جہاں بیت اللہ ہے ، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی ۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا ۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے
 
پہلی بات کیونکہ ہم حضرت ابراہیم کو اسرائیلی روایات کے تحت حضرت نوح کی اولاد مانتے ہیں. جبکہ حضرت نوح کے بارے میں بھی الله نے کہا کہ ان کا ایک بیٹا فوت ہو گیا تھا، ان کے کتنے بیٹے ایمان لائے تھے اس کے بارے میں قرآن کچھ نہیں کہتا جبکہ اسرائیلی روایات تو کسی بیٹے کے فوت ہونے کا نہیں بتاتیں جس سے یہی تاثر ملتا ہے قرآن ان اسرائیلی روایات کی نفی کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں.
یہاں پر بھی اِنَّهٗ كَانَ عَبۡدًا شَكُوۡرًا‏ کے الفاظ ہیں. اور واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور یہ صیغہ اس سوار کے لئے استعمال ہوا ہے جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا ہے. نہ کہ حضرت نوح کے لئے.
اس کی مثال انگریزی میں ایسی دی جا سکتی ہے جیسے کہا جائے کہ
Nooh has a friend. He is a good cricket player
یہاں پر کرکٹ کا کھلاڑی نوح کو نہیں کہا گیا بلکہ نوح کے دوست کو کہا گیا ہے.

میں نے حضرت زکریا کی دعا پر جو مضمون لکھا ہے اس میں بھی اسی میں بھی شجروں پر تھوڑی سی بات کی ہے
آپ نے لکھا
" یہاں پر بھی اِنَّهٗ كَانَ عَبۡدًا شَكُوۡرًا‏ کے الفاظ ہیں. اور واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور یہ صیغہ اس سوار کے لئے استعمال ہوا ہے جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا ہے. نہ کہ حضرت نوح کے لئے.
اس کی مثال انگریزی میں ایسی دی جا سکتی ہے جیسے کہا جائے کہ
Nooh has a friend. He is a good cricket player
یہاں پر کرکٹ کا کھلاڑی نوح کو نہیں کہا گیا بلکہ نوح کے دوست کو کہا گیا ہے. "

اسرائیلی روایات سے ہٹ کر صحيح البخاری کی حدیث 4712 میں بھی ہے جو کہ ایک طویل حدیث ہے اس میں نبی پاک {ص} قیامت والے دن کا احوال فرما رہے ہیں کہ کیسے انسان روز قیامت تکالیف سے پریشان ہوکر مختلف نبیوں کے پاس جائیں گے تاکہ ان کے ساتھ آسانی والا معاملہ ہوسکے سب سے پہلے وہ آدم {ع} کے پاس جائیں گے اور ان کے انکار کے بعد وہ نوح {ع} کے پاس آئیں گے حدیث کے اس حصہ کے الفاظ کچھ یوں ہیں " چنانچہ سب لوگ نوح {ع} کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے ، اے نوح ! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے ”شکر گزار بندہ“ کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح {ع} بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی ۔ نفسی ، نفسی ، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ، "
حدیث کے الفاظ بھی اس بات کی دلیل بنتے ہیں کہ سوره بنی اسرائیل کی آیت 3 میں اِنَّهٗ كَانَ عَبۡدًا شَكُوۡرًا میں نوح کا ہی ذکر ہے ناکہ ان ہستی کا جو نوح {ع} کے ساتھ کشتی میں چڑھے ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
 
باقی یہ کہ حضرت موسیٰ کو ان کی اولاد میں سے کہنا جو حضرت نوح کے ساتھ سوار ہوئے تھے خود ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے حضرت ابراہیم آل نوح میں شامل نہیں. اور ویسے بھی حضرت نوح آدم ثانی قرآن کی روح سے نہیں بلکہ اسرائیلیات کے مطابق ہیں. اور اگر اسرائیلیات ہی حقیقت ہوتیں تو پھر تو قرآن کی ضرورت ہی نہیں تھی

آپ کا مضمون حضرت زکریا کی دعا پڑھا
جہاں تک سمجھ میں آیا کہ آپ کا مقدمہ یہ ہے کہ آل عمران کی آیت 33 اور 34 میں جب اللہ نے آدم اور نوح کا ذکر کیا اور اس کے بات آل ابراہیم اور آل عمران کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ ان میں سے بعض بعض کی اولاد میں سے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ عیسی {ع} نوح کی اولادوں میں سے ہیں جبکہ زکریا یا ابراہیم اس نامعلوم شخص کی نسبت کے ساتھ جو نوح {ع} کے ساتھ کشی میں سوار ہوا تھا ، آدم {ع} کی اولاد ہیں ۔ اور آپ نے اپنے مقدمے کو مزید تقویت دینے کے لیے زکریا {ع} کی دعا والی آیات کا بھی حوالہ لکھا ۔
یہ باتیں بھی غور طلب ہیں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ نوح {ع} آدم {ٰع} کی اولاد میں سے نہیں ہیں
 

ابن آدم

محفلین
آپ کا مضمون حضرت زکریا کی دعا پڑھا
جہاں تک سمجھ میں آیا کہ آپ کا مقدمہ یہ ہے کہ آل عمران کی آیت 33 اور 34 میں جب اللہ نے آدم اور نوح کا ذکر کیا اور اس کے بات آل ابراہیم اور آل عمران کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ ان میں سے بعض بعض کی اولاد میں سے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ عیسی {ع} نوح کی اولادوں میں سے ہیں جبکہ زکریا یا ابراہیم اس نامعلوم شخص کی نسبت کے ساتھ جو نوح {ع} کے ساتھ کشی میں سوار ہوا تھا ، آدم {ع} کی اولاد ہیں ۔ اور آپ نے اپنے مقدمے کو مزید تقویت دینے کے لیے زکریا {ع} کی دعا والی آیات کا بھی حوالہ لکھا ۔
یہ باتیں بھی غور طلب ہیں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ نوح {ع} آدم {ٰع} کی اولاد میں سے نہیں ہیں
آیت کے اس حصے کا ترجمہ کسی سے بھی کروا لیں یا خود کر لیں اور خود سوچیں اس کا مطلب کیا ہے.
ذُرِّيَّةَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ‌ؕ
احمد علی کا ترجمہ ہے
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا
احمد رضا کا ترجمہ
اے ان کی اولاد! جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا

الله ہم سب کو قرآن کو ماننے اور اس کی دی ہوئی ہدایت پر چلنے کی توفیق دے. آمین
 
ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا کہ اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا ۔ انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے ، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے ۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی ۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل {ع} کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی ۔ ہاجرہ {ع} نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا ۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا ۔
ابن عباس{رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے ۔
انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی ۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے ۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی ۔
 
ابن عباس {رض} آگے کہتے ہیں جوانی میں اسماعیل {ع} ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے ۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی ۔ اس عرصے میں ہاجرہ {ع} بھی عظیم قربانیاں دے کر اپنے پروردگار کے پاس چلی گئیں ۔ اسماعیل کی شادی کے بعد ابراہیم {ع} یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے ۔ اسماعیل گھر پر نہیں تھے ۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں ۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے ، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے ۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی ۔ ابراہیم نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ پھر جب اسماعیل واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا ، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ، میں نے انہیں بتایا پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے ۔ اسماعیل نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ اسماعیل نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں ، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی ۔ جب تک اللہ تعالی کو منظور رہا ، ابراہیم ان کے یہاں نہیں آئے ۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل اپنے گھر پر موجود نہیں تھے ۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں ۔ ابراہیم نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے ؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے ، بڑی فراخی ہے ، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی ۔ ابراہیم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت ! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو ؟ بتایا کہ پانی ! ابراہیم نے ان کے لیے دعا کی ، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما ۔
 
آیت کے اس حصے کا ترجمہ کسی سے بھی کروا لیں یا خود کر لیں اور خود سوچیں اس کا مطلب کیا ہے.
ذُرِّيَّةَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ‌ؕ
احمد علی کا ترجمہ ہے
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا
احمد رضا کا ترجمہ
اے ان کی اولاد! جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا

الله ہم سب کو قرآن کو ماننے اور اس کی دی ہوئی ہدایت پر چلنے کی توفیق دے. آمین
بھائی ہمیں اس آیت کے ترجمے سے اختلاف نہیں ۔ مگر ہم اس نتیجے سے اختلاف کر رہے ہیں جو آپ اخذ کر رہے ہیں
پہلے دن آپ نے جو ترجمہ لکھا وہ یہ ہے ، کاپی پیسٹ کرہا ہوں
{ تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا }
پہلے آیت کے دوسرے حصے کی طرف آتا ہوں آپ نے خود لکھا کہ شکر گزار بندہ اللہ نے نوح کو کہا مگر دوسرے دن آپ نے اپنا موقف بدلا اور کہا کہ شکر گزار بندہ اللہ نے اس شخصیت کو کہا جو نوح کے ساتھ کشتی پر سوار ہوا تھا اور مثال دی کرکٹ پلئیر کی { یہاں پر کرکٹ کا کھلاڑی نوح کو نہیں کہا گیا بلکہ نوح کے دوست کو کہا گیا ہے } اس پر ہم نے صحيح البخاری کی حدیث 4712 کا حوالہ سے آپ کی سوچ کو غلط سمجھا
اب چلتے ہیں آیت کے پہلے حصے پر جس میں نوح کے ساتھ سوار ہونے والوں کا ذکر ہے ۔ تاریخ دان لکھتے ہیں نوح کے ساتھ سوار ہونے والوں میں ان کے تین بیٹے بھی شامل تھے جن کے نام انہوں نے یہ تحریر کئے ہیں سام ، حام ، یافث اور تاریخ ابن کثیر میں جو نسب نامہ لکھا ہے اس میں سے ان کے ایک بیٹے یعنی سام کا نام لکھا ہے
چونکہ قرآن نوح کے ساتھ سوار ہونے والوں کے ناموں کو ظاہر نہیں کررہا اس لئے اگر کوئی تاریخ دان اسرائیلی روایت کو اٹھاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کم از کم ہماری نظر میں
اور اس نسب نامہ میں نوح اور سام کے علاوہ اور بھی ناموں کا اندراج ہے جس سے صحیح یا غلط ثابت ہوسکتا ہے تو ان پر بھی تحقیق کی جاسکتی اور ہوسکتا ہے کی بھی گئی ہو ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں تھوڑی سی بات کرونگا حضرت زکریا کی دعا پر
آپ نے تشریح کی
ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ کی { ان (خاندانوں میں سے) میں سے بعض، (ان) بعض (افراد) کی اولاد تھے } یعنی الگ الگ تھے جب کہ ہماری نظر میں اس کا مطلب نکلنا چاہیے وہ ایک تھے یعنی وہ ایک دوسرے کی اولاد تھے
مثال کے طور پر بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ قرآن کے دیگر مقامات میں جب آیا ہے
اَلْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُ۔مْ مِّنْ بَعْضٍ
منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں
سورہ توبہ 67
وَاللّ۔ٰهُ اَعْلَمُ بِاِيْمَانِكُمْ ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ
اور اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے ، تم آپس میں ایک ہو
سورہ النسا 25
فَاسْتَجَابَ لَ۔هُ۔مْ رَبُّهُ۔مْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ۖ بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ
پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول کی کہ میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کا کام ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت ، تم آپس میں ایک دوسرے کے جز ہو
سورہ آل عمران 195
تو الگ الگ کے لئے نہیں بلکہ ایک جیسے کے لیے آیا ہے
اب اگر ہم سورہ آل عمران کی آیت 33 ، 34 کی سمجھیں تو اس کا مطلب نکلے گا کہ آدم نوح آل ابراہیم اور آل عمران کو اللہ نے پسند کیا سارے جہاں سے اور جو ایک دوسرے کی اولاد تھے
ویسے بھی عیسی {ع} کے والد تو تھے نہیں اور یہ سورت بھی خاص طور سے عیسائیوں کو نصیحت کے لئے نازل ہوئی تھی اس لئے اللہ نے مریم کے والد عمران کا خاص طور سے ذکر کیا ہوگا اور ویسے بھی عیسی کو بھی بنی اسرائیل کی طرف ہی منسوب کیا جاتا ہے یعنی یعقوب کی اولاد میں جن سے زکریا {ع} اور یحیی تھے کیونکہ قرآن میں آتا ہے
وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَ۔مَ يَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّ۔ٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوْرَاةِ
اور جب عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل ! بے شک میں اللہ کا تمہاری طرف رسول ہوں ، تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں
سورہ الصف 6
باقی رہی بات زکریا {ع} کی دعا کی نیت کی کہ آیا وہ اولاد کے لئے تھی یا آل یعقوب میں نبوت کے جاری رہنے یا آل عمران میں چلے جانے کے غم میں اگر ان کی نظر میں وہ الگ الگ تھے تو اس کا نتیجہ ہم اس بات سے نکال سکتے ہیں جب قرآن میں اللہ نے ان کی دعا کی قبولیت پر فرمایا
فَاسْتَجَبْنَا لَ۔هٝ وَوَهَبْنَا لَ۔هٝ يَحْيٰى وَاَصْلَحْنَا لَ۔هٝ زَوْجَهٝ ۚ اِنَّ۔هُ۔مْ كَانُ۔وْا يُسَارِعُوْنَ فِى الْخَيْ۔رَاتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ۖ وَكَانُ۔وْا لَنَا خَاشِعِيْنَ
پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحیی عطا کیا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو درست کر دیا ، بے شک یہ لوگ نیک کاموں میں دوڑ پڑتے تھے اور ہمیں امید اور ڈر سے پکارا کرتے تھے ، اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم
 

ابن آدم

محفلین
بھائی ہمیں اس آیت کے ترجمے سے اختلاف نہیں ۔ مگر ہم اس نتیجے سے اختلاف کر رہے ہیں جو آپ اخذ کر رہے ہیں
پہلے دن آپ نے جو ترجمہ لکھا وہ یہ ہے ، کاپی پیسٹ کرہا ہوں
{ تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا }
پہلے آیت کے دوسرے حصے کی طرف آتا ہوں آپ نے خود لکھا کہ شکر گزار بندہ اللہ نے نوح کو کہا مگر دوسرے دن آپ نے اپنا موقف بدلا اور کہا کہ شکر گزار بندہ اللہ نے اس شخصیت کو کہا جو نوح کے ساتھ کشتی پر سوار ہوا تھا اور مثال دی کرکٹ پلئیر کی { یہاں پر کرکٹ کا کھلاڑی نوح کو نہیں کہا گیا بلکہ نوح کے دوست کو کہا گیا ہے } اس پر ہم نے صحيح البخاری کی حدیث 4712 کا حوالہ سے آپ کی سوچ کو غلط سمجھا
اب چلتے ہیں آیت کے پہلے حصے پر جس میں نوح کے ساتھ سوار ہونے والوں کا ذکر ہے ۔ تاریخ دان لکھتے ہیں نوح کے ساتھ سوار ہونے والوں میں ان کے تین بیٹے بھی شامل تھے جن کے نام انہوں نے یہ تحریر کئے ہیں سام ، حام ، یافث اور تاریخ ابن کثیر میں جو نسب نامہ لکھا ہے اس میں سے ان کے ایک بیٹے یعنی سام کا نام لکھا ہے
چونکہ قرآن نوح کے ساتھ سوار ہونے والوں کے ناموں کو ظاہر نہیں کررہا اس لئے اگر کوئی تاریخ دان اسرائیلی روایت کو اٹھاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کم از کم ہماری نظر میں
اور اس نسب نامہ میں نوح اور سام کے علاوہ اور بھی ناموں کا اندراج ہے جس سے صحیح یا غلط ثابت ہوسکتا ہے تو ان پر بھی تحقیق کی جاسکتی اور ہوسکتا ہے کی بھی گئی ہو ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں تھوڑی سی بات کرونگا حضرت زکریا کی دعا پر
آپ نے تشریح کی
ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ کی { ان (خاندانوں میں سے) میں سے بعض، (ان) بعض (افراد) کی اولاد تھے } یعنی الگ الگ تھے جب کہ ہماری نظر میں اس کا مطلب نکلنا چاہیے وہ ایک تھے یعنی وہ ایک دوسرے کی اولاد تھے
مثال کے طور پر بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ قرآن کے دیگر مقامات میں جب آیا ہے
اَلْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُ۔مْ مِّنْ بَعْضٍ
منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں
سورہ توبہ 67
وَاللّ۔ٰهُ اَعْلَمُ بِاِيْمَانِكُمْ ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ
اور اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے ، تم آپس میں ایک ہو
سورہ النسا 25
فَاسْتَجَابَ لَ۔هُ۔مْ رَبُّهُ۔مْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ۖ بَعْضُكُمْ مِّنْ بَعْضٍ
پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول کی کہ میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کا کام ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت ، تم آپس میں ایک دوسرے کے جز ہو
سورہ آل عمران 195
تو الگ الگ کے لئے نہیں بلکہ ایک جیسے کے لیے آیا ہے
اب اگر ہم سورہ آل عمران کی آیت 33 ، 34 کی سمجھیں تو اس کا مطلب نکلے گا کہ آدم نوح آل ابراہیم اور آل عمران کو اللہ نے پسند کیا سارے جہاں سے اور جو ایک دوسرے کی اولاد تھے
ویسے بھی عیسی {ع} کے والد تو تھے نہیں اور یہ سورت بھی خاص طور سے عیسائیوں کو نصیحت کے لئے نازل ہوئی تھی اس لئے اللہ نے مریم کے والد عمران کا خاص طور سے ذکر کیا ہوگا اور ویسے بھی عیسی کو بھی بنی اسرائیل کی طرف ہی منسوب کیا جاتا ہے یعنی یعقوب کی اولاد میں جن سے زکریا {ع} اور یحیی تھے کیونکہ قرآن میں آتا ہے
وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَ۔مَ يَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّ۔ٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوْرَاةِ
اور جب عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل ! بے شک میں اللہ کا تمہاری طرف رسول ہوں ، تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں
سورہ الصف 6
باقی رہی بات زکریا {ع} کی دعا کی نیت کی کہ آیا وہ اولاد کے لئے تھی یا آل یعقوب میں نبوت کے جاری رہنے یا آل عمران میں چلے جانے کے غم میں اگر ان کی نظر میں وہ الگ الگ تھے تو اس کا نتیجہ ہم اس بات سے نکال سکتے ہیں جب قرآن میں اللہ نے ان کی دعا کی قبولیت پر فرمایا
فَاسْتَجَبْنَا لَ۔هٝ وَوَهَبْنَا لَ۔هٝ يَحْيٰى وَاَصْلَحْنَا لَ۔هٝ زَوْجَهٝ ۚ اِنَّ۔هُ۔مْ كَانُ۔وْا يُسَارِعُوْنَ فِى الْخَيْ۔رَاتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ۖ وَكَانُ۔وْا لَنَا خَاشِعِيْنَ
پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحیی عطا کیا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو درست کر دیا ، بے شک یہ لوگ نیک کاموں میں دوڑ پڑتے تھے اور ہمیں امید اور ڈر سے پکارا کرتے تھے ، اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم
جناب میں نے فتح الله جالندھری کا ترجمہ دکھایا تھا، اصل میں بنیادی مقصد اس میں آیت کا پہلا حصہ دکھلانا ہی مقصود تھا. اور اگر پہلا حصہ آپ ٹھیک سے سمجھ لیں گے تو آپ دوسرا حصہ خود ہی سے سمجھ جائیں گے. بس یہ بات یاد رہے کہ نسل کسی ایک شخص سے چلتی ہے نہ کہ کسی گروہ سے.
احمد علی کا ترجمہ ہے
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا
احمد رضا کا ترجمہ
اے ان کی اولاد! جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا

اگر بنی اسرائیل حضرت نوح کی نسل سے ہوتے تو پھر آیت میں مَعَ کی ضرورت نہیں تھی.
ذُرِّيَّةَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ
 
نبی کریم {ص} نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا ۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے ۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا ۔
ابراہیم {ع} نے اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں ۔ جب اسماعیل {ع} تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے ۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا اور میں نے بتا دیا ، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے ۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں ۔ اسماعیل نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں ۔ اسماعیل نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے ، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں ۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالی کو منظور رہا ، کے بعد ابراہیم ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زم زم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں اپنے تیر بنا رہے ہیں ۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گئے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا ۔
 
پھر ابراہیم {ع} نے فرمایا ، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے ۔ اسماعیل {ع} نے عرض کیا ، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں ۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے ؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔ فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف ! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی ۔ اسماعیل پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم تعمیر کرتے جاتے تھے ۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ خاص پتھر لائے اور ابراہیم کے لیے اسے رکھ دیا ۔ اب ابراہیم اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے ۔ اسماعیل پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے ۔ ہمارے رب ! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
قرآن میں آتا ہے " اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر ، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے { سورۃ البقرۃ 127 } " ۔۔۔
تو یہ مذکورہ طویل حدیث حضرت ابن عباس {رض} کا بیان ہے جو صحيح البخاری میں موجود ہے ، اس کے بعض حصے رسول اللہ {ص} سے بھی منسوب ہیں اور بعض حصوں میں غرابت ہے ۔ اس روایت کی بعض باتوں کی بنا پر لگتا ہے کہ حضرت ابن عباس {رض} کو یہ روایت اسرائیلیات سے ملی ہیں
واللہ اعلم
 
جناب میں نے فتح الله جالندھری کا ترجمہ دکھایا تھا، اصل میں بنیادی مقصد اس میں آیت کا پہلا حصہ دکھلانا ہی مقصود تھا. اور اگر پہلا حصہ آپ ٹھیک سے سمجھ لیں گے تو آپ دوسرا حصہ خود ہی سے سمجھ جائیں گے. بس یہ بات یاد رہے کہ نسل کسی ایک شخص سے چلتی ہے نہ کہ کسی گروہ سے.
احمد علی کا ترجمہ ہے
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا
احمد رضا کا ترجمہ
اے ان کی اولاد! جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا

اگر بنی اسرائیل حضرت نوح کی نسل سے ہوتے تو پھر آیت میں مَعَ کی ضرورت نہیں تھی.
ذُرِّيَّةَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ
جب ہم نے تاریخ ابن کثیر میں یہ مضمون پڑھا تو ہمیں کافی اختلاف پڑھنے کو ملے اور ان اختلاف میں دونوں طرف کے دلائل بھی پڑھنے کو ملے ، مگر یقین کریں کبھی سوچا بھی نہیں تھا قصہ ابراہیم کی پہلی لائن یعنی نسب نامہ پر بھی کوئی اختلاف سنے کو ملے گا اور اس پر بحث بھی خود ہی کرنی پڑے گی
آپ کا ایک سیدھا سا موقف ہے کہ ابراہیم {ع} نوح کی اولاد میں سے نہیں ، اور اس کی تشریح آپ نے اپنے مضمون حضرت زکریا کی دعا میں کی ہے ۔ ۔ ۔ سچی بات ہے مجھے اس پر کوئی مسئلہ نہیں کہ ابراہیم نوح کی اولادوں میں سے تھے یہ نہیں اور یہ بات کسی مسلمان کے ایمان کے لئے ضروری بھی نہیں
مگر میں نے صرف یہ جاننے کی کوشش کی کہ آپ اس بات کو سچ کہنے کے لیے کیا دلیل رکھتے ہیں
آپ نے سوره بنی اسرائیل کی آیات 2 اور 3 کا حوالہ دیا
میرا موقف ہے کہ ان آیات سے بھی آپ کی بات درست ثابت نہیں ہوتی ۔ ہم نے کل بھی تفصیل سے اظہار کیا تھا اور آج پھر اپنا موقف مزید وضاہتوں کے ساتھ دوہرا رہا ہوں اور امید کرتا ہوں آپ اطمینان کے ساتھ پڑھ کر کوئی تبصرہ کریں گے
جب اللہ نے سوره بنی اسرائیل کی آیت 3 میں کہا
" اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا ، بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔ " { ترجمہ مولانا احمد علی }
" اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا ۔ بےشک نوح شکرگزار بندے تھے " { ترجمہ فتح محمد جالندھری }
" اے ان کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا بیشک وہ بڑا شکرگزار بندہ تھا " { ترجمہ احمد رضا بریلوی }
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی شخص یہ موقف رکھے نوح کے ساتھ ان کی بیٹے بھی کشتی میں سوار تھے اور انہی میں سے ایک بیٹے کی نسل سے ابراہیم تھے یعنی ابرہیم نوح کی اولاد میں سے تھے تو یہ آیت اس موقف کو مسترد نہیں کرتی کیونکہ ان سواروں کے ناموں پر خاموشی ہے اور کئی اسرائیلی روایات اس کی تائید کرتی ہیں
اور اگر کوئی شخص یہ موقف رکھے کہ جو کہ آپ نے لکھا کہ حضرت ابراہیم حضرت نوح کے اولاد سے نہیں ہیں تو یہ آیت صرف ایک سہارا بنتی ہے اس پر مقدمہ جیتا نہیں جاسکتا
آپ نے دوسری دلیل لکھی سوره صفات کی آیت 83
" اور بے شک اسی کے طریق پر چلنے والوں میں ابراہیم بھی تھا۔ " { ترجمہ مولانا احمد علی }
" اور ان ہی کے پیرووں میں ابراہیم تھے " { ترجمہ فتح محمد جالندھری }
" اور بے شک اسی کے گروہ سے ابراہیم ہیں " { ترجمہ احمد رضا بریلوی }
یہ آیت بھی کسی قسم کی دلیل نہیں بن سکتی کسی بھی شخص کے موقف پر ۔ ۔ ۔ مگر آپ چند قدم پیچھے ہٹ کر پڑھتے یعنی سوره صفات کی آیات 75 سے 77 تک تو بات اور واضع ہوجاتی
اللہ تعالی فرماتا ہے
" اور ہمیں نوح نے پکارا پس ہم کیا خوب جواب دینے والے ہیں _ اور ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی مصیبت سے نجات دی _ اور ہم نے اس کی اولاد ہی کو باقی رہنے والی کر دیا " { ترجمہ مولانا احمد علی }
" اور ہم کو نوح نے پکارا سو ہم اچھے قبول کرنے والے ہیں _ اور ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بڑی مصیبت سے نجات دی _ اور ان کی اولاد کو ایسا کیا کہ وہی باقی رہ گئے " { ترجمہ فتح محمد جالندھری }
" اور بےشک ہمیں نوح نے پکارا تو ہم کیا ہی اچھے قبول فرمانے والے ہیں _ اور ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی تکلیف سے نجات دی _ اور ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی " { ترجمہ احمد رضا بریلوی }
یہ آیات ابن کثیر کے موقف کی بھرپور تائید کر رہی ہیں اور آپ کا مقدمہ مزید کمزور ہورہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ آپ نے احمد رضا بریلوی صاحب کا نام لکھا تھا اس لئے ان کے ترجمے بھی لکھے ہیں ۔ آپ یقین کریں گے ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے " تو اب دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں سب نوح {ع} کی نسل سے ہیں ۔ حضرت ابن عباس {رض} سے مروی ہے کہ نوح کی کشتی سے اترنے کے بعد ان کے ہمراہیوں میں جس قدر مرد و عورت تھے سب ہی مرگئے سوائے آپ کی اولاد اور ان کی عورتوں کے ۔ انہیں سے دنیا کی نسلیں چلیں عرب اور فارس اور روم آپ کے فرزند سام کی اولاد سے ہیں اور سوڈان کے لوگ آپ کے بیٹے حام کی نسل سے ہیں اور ترک اور یاجوج ماجوج وغیرہ آپ کے صاحب زادہ یافث کی اولاد سے "
واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ترمذی کی حدیث 3230 میں ہے کہ
سمرہ {رض} کہتے ہیں کہ نبی اکرم {ص} نے اللہ تعالی کے قول « وجعلنا ذريته هم الباقين » ”ہم نے نوح ہی کی اولاد کو باقی رکھا “ ( الصافات : 77 )، کی تفسیر میں فرمایا : ”(نوح کے تین بیٹے) حام، سام اور یافث تھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے
جبکہ شیخ البانی ضعیف الاسناد کہتے ہیں
لیکن شیخ البانی کی کتاب سلسله احاديث صحيحه کی حدیث 3838 میں نوح {ع} اور ان کے بیٹے کا ذکر موجود ہے اس وصیت کے متعلق جو نوح نے مرتے وقت اپنے بیٹے کو کی تھی
واللہ اعلم
 

ابن آدم

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ترمذی کی حدیث 3230 میں ہے کہ
سمرہ {رض} کہتے ہیں کہ نبی اکرم {ص} نے اللہ تعالی کے قول « وجعلنا ذريته هم الباقين » ”ہم نے نوح ہی کی اولاد کو باقی رکھا “ ( الصافات : 77 )، کی تفسیر میں فرمایا : ”(نوح کے تین بیٹے) حام، سام اور یافث تھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے
جبکہ شیخ البانی ضعیف الاسناد کہتے ہیں
لیکن شیخ البانی کی کتاب سلسله احاديث صحيحه کی حدیث 3838 میں نوح {ع} اور ان کے بیٹے کا ذکر موجود ہے اس وصیت کے متعلق جو نوح نے مرتے وقت اپنے بیٹے کو کی تھی
واللہ اعلم
پہلی بات یہ کہ نوح کے بیٹے سے اگر نسل ہو تو وہ نوح کی ہی نسل کہلائے گی. آپ سے جو نسل چل رہی ہے یا چلے گی وہ آپ کے والد کی نسل میں بھی شامل ہوں گے اور آپ کے دادا کی نسل میں بھی. تو اگر نسل ان کے بیٹے سے چلی ہے تو وہ ان کی ہی نسل ہے. تو آیت میں مع کہنا پھر بے معنی بلکہ غلط ہو جاتا ہے.

دوسری بات آپ کا شکریہ کہ آپ نے سوره الصافات کا حوالہ دے دیا . یہ میرے سے مس ہو گیا تھا اور میں نے اپنے مضمون میں بھی یہی بات کی ہے کہ ذریتہ کا لفظ ماننے والوں کے لئے آیا ہے اور آل یا اہل کا لفظ گھر والوں یا اولاد کے لئے استعمال ہوا ہے. تو اس آیت (وَ جَعَلۡنَا ذُرِّیَّتَہٗ ہُمُ الۡبٰقِیۡنَ ﴿۷۷﴾۫ ۖ) میں بھی ذریتہ ماننے والوں کے لئے استعمال ہوا ہے. تو حضرت نوح کے ماننے والے ہی باقی بچے. تو انشاللہ میں اپنے مضمون میں بھی اس کا اضافہ کر دوں گا.

اور آخر میں سوره ال عمران
اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾
ذُرِّیَّۃًۢ بَعۡضُہَا مِنۡۢ بَعۡضٍ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۚ۳۴﴾

میں جو نسل کی بات گئی ہے اس کو بنی اسرائیل کی آیات کے ساتھ ملا کر دیکھیں اور پھر سوچیں کہ یہ تمام آیتیں ٹھیک کس طرح ہوں گی؟
 
مذکورہ روایت میں کئی باتیں قابل غور ہیں ایک تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے ہاجرہ {ع} اور اپنے لخت جگر کو وادی بیابان میں چھوڑنے کے بعد صرف تین چکر لگائے اور ان میں پہلی مرتبہ جب تشریف لائے تو ہاجرہ {ع} کی وفات اور اسماعیل {ع} کی پہلی شادی ہوچکی تھی تو یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ ابراہیم {ع} نے اپنے بچے کو بچپن سے شادی تک کیسے چھوڑا ؟ کہ ان کے حالات کی بھی خبر نہ لی ۔ جبکہ کتابوں میں آیا ہے کہ ابراہیم {ع} کے لیے زمین کو لپیٹ دیا گیا تھا ۔ اور یہ بھی کتابوں میں آیا ہے کہ جب وہ ان کی طرف جاتے تو براق پر سوار ہوکر تشریف لے جاتے تھے ۔ دوسری بات یہ قابل غور ہے کہ اس میں اللہ کی راہ میں اسماعیل {ع} کے ذبح ہونے کا ذکر نہیں اور بنی اسرائیل کے یہاں اسماعیل {ع} کے بجائے اسحاق {ع} کو اللہ کی راہ میں ذبح ہونے والا سمجھا جاتا ہے ، اس لئے ان باتوں کی بنیاد پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس {رض} کی مذکورہ روایت اسرائیلیات میں سے لی گئی ہے اور کچھ کچھ باتیں احادیث صحیح مرفوعہ میں سے ملائی گئی ہے ۔ اس لئے اس اسرائیلی روایت میں قصہ ذبیح موجود نہیں ہے
واللہ اعلم
 
قرآن کی سورۃ الصافات میں اللہ فرماتا ہے :
اور کہا میں نے اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے راہ بتائے گا ۔ ( 99 )
اے میرے رب ! مجھے ایک صالح عطا کر ( 100 )
پس ہم نے اسے ایک لڑکے حلم والے کی خوشخبری دی ۔ ( 101 )
پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا کہا اے بیٹے ! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا رائے ہے ، کہا اے ابا ! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیے ، آپ مجھے ان شا اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ ( 102 )
پس جب دونوں نے تسلیم کر لیا اور اس نے پیشانی کے بل ڈال دیا ۔ ( 103 )
اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراھیم ! ۔ ( 104 )
تو نے خواب سچا کر دکھایا ، بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ ( 105 )
البتہ یہ صریح آزمائش ہے ۔ ( 106 )
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا ۔ ( 107 )
اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی ۔ ( 108 )
ابراہیم پر سلام ہو ۔ ( 109 )
اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ ( 110 )
بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے ۔ ( 111 )
اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی کہ وہ نبی نیک لوگوں میں سے ہوگا ۔ ( 112 )
اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں ، اور ان کی اولاد میں سے کوئی نیک بھی ہیں اور کوئی اپنے آپ پر کھلم کھلا ظلم کرنے والے ہیں ۔ ( 113 )
اللہ اپنے دوست حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں فرماتا ہے جب انہوں نے اپنے علاقے کو خیرباد کہا اور اپنے پروردگار کے حضور التجاء کی کہ اسے کوئی صالح اولاد عدا فرما دے ۔ تو اللہ نے خوشخبری سنائی کہ ان کے یہاں ایک بردبار لڑکا جنم لے گا ۔
وہ حضرت اسماعیل {ع} ہیں کیونکہ ابراہیم {ع} کی پہلی اولاد وہ ہی ہیں ۔ اس وقت ابراہیم {ع} کی عمر تقریبا چھیاسی سال تھی ۔ اور اس بات میں کسی مذہب والے کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اسماعیل {ع} ابراہیم {ع} کی پہلی اولاد ہیں
 
پہلی بات یہ کہ نوح کے بیٹے سے اگر نسل ہو تو وہ نوح کی ہی نسل کہلائے گی. آپ سے جو نسل چل رہی ہے یا چلے گی وہ آپ کے والد کی نسل میں بھی شامل ہوں گے اور آپ کے دادا کی نسل میں بھی. تو اگر نسل ان کے بیٹے سے چلی ہے تو وہ ان کی ہی نسل ہے. تو آیت میں مع کہنا پھر بے معنی بلکہ غلط ہو جاتا ہے.

دوسری بات آپ کا شکریہ کہ آپ نے سوره الصافات کا حوالہ دے دیا . یہ میرے سے مس ہو گیا تھا اور میں نے اپنے مضمون میں بھی یہی بات کی ہے کہ ذریتہ کا لفظ ماننے والوں کے لئے آیا ہے اور آل یا اہل کا لفظ گھر والوں یا اولاد کے لئے استعمال ہوا ہے. تو اس آیت (وَ جَعَلۡنَا ذُرِّیَّتَہٗ ہُمُ الۡبٰقِیۡنَ ﴿۷۷﴾۫ ۖ) میں بھی ذریتہ ماننے والوں کے لئے استعمال ہوا ہے. تو حضرت نوح کے ماننے والے ہی باقی بچے. تو انشاللہ میں اپنے مضمون میں بھی اس کا اضافہ کر دوں گا.

اور آخر میں سوره ال عمران
اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾
ذُرِّیَّۃًۢ بَعۡضُہَا مِنۡۢ بَعۡضٍ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۚ۳۴﴾

میں جو نسل کی بات گئی ہے اس کو بنی اسرائیل کی آیات کے ساتھ ملا کر دیکھیں اور پھر سوچیں کہ یہ تمام آیتیں ٹھیک کس طرح ہوں گی؟
اتنی مشکلوں سے ڈھونڈ کر ہم نے سوره صفات کی آیت 77 میں نوح کی اولاد تلاش کی اور آپ نے رد کردیا کہ ذُرِّیَّتَہٗ کا مطلب اولاد نہیں بلکہ ماننے والے ہوگا جیسا کہ آپ نے لکھا " تو حضرت نوح کے ماننے والے ہی باقی بچے "
اب چلتے ہیں پیچھے کی جانب
سب سے پہلے دن آپ نے کہا سوره بنی اسرائیل کی آیت 3 کے حوالے سے
" تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا "
آپ کا سیدھا سا موقف تھا کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے نوح کی نہیں بلکہ ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والے کسی دوسرے شخص کی اولاد کہہ کر جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم نوح کی اولادوں میں سے نہیں
تو ہم نے سوال کیا جب بنی اسرائیل نوح کی اولادوں میں سے نہیں تو پھر اللہ کیوں ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ نوح کی طرح شکرگزار بنو
تو دوسرے دن آپ نے یہ موقف رکھا
کہ شکرگزار " اس سوار کے لئے استعمال ہوا ہے جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا ہے. نہ کہ حضرت نوح کے لئے. "
اور آج آپ نے کہا کہ ذُرِّیَّتَہٗ کا مطلب اولاد نہیں بلکہ ماننے والے ہوگا
اس حساب سے اب سوره بنی اسرائیل کی آیت 3 کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا " " تم اُن لوگوں کے ماننے والے ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور وہ سوار ایک شکر گزار بندہ تھا "
اس ترجمہ سے تو آپ کا ابراہیم کو نوح کی اولاد میں سے نہ کہنے والا مقدمہ مزید کمزور ہوجائے گا کیونکہ اب آیت سے لفظ اولاد تو ہٹ چکا ہے اور یہ بھی ممکن ہے نوح کے ساتھ سوار ہونے والوں میں کوئی نبی بھی ہو اور ابراہیم یا بنی اسرائیل ان ہی کے ماننے والوں میں شامل ہوں ۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" حَ۔مَلْنَا مَعَ نُ۔وْحٍۖ " قرآن میں مزید جگہ بھی استعمال ہوا ہے
سورہ مریم میں اللہ بہت سارے نبیوں کا ذکر کرکے فرماتا ہے آیت 58 میں
اُولٰٓئِكَ الَّ۔ذِيْنَ اَنْعَمَ اللّ۔ٰهُ عَلَيْ۔هِ۔مْ مِّنَ النَّبِ۔يِّيْ۔نَ مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَۖ وَمِمَّنْ حَ۔مَلْنَا مَعَ نُ۔وْحٍۖ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ اِبْ۔رَاهِيْ۔مَ وَاِسْرَآئِيْلَ ۖ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ اِذَا تُ۔تْلٰى عَلَيْ۔هِ۔مْ اٰيَاتُ الرَّحْ۔مٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِ۔يًّا
" یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے اپنے پیغمبروں میں سے فضل کیا۔ اولاد آدم میں سے اور ان لوگوں میں سے جن کو نوح کے ساتھ سوار کیا اور ابراہیم اور یعقوب کی اولاد میں سے اور ان لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا۔ جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے رہتے تھے " فتح محمد جالندھری کا ترجمہ
ممکن ہے یہ آیت بھی آپ کے مضمون کے لئے فائدے مند ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ البقرہ آیت 266 میں اللہ فرماتا ہے
أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
ترجمہ " بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور اس میں اس کے لئے ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور اسے بڑھاپا آپکڑے اور اس کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں۔ تو اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل کر جائے۔ اس طرح خدا تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو "
سورہ الانعام آیت 133 میں اللہ فرماتا ہے
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِكُمْ مَا يَشَاءُ كَمَا أَنْشَأَكُمْ مِنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ
ترجمہ " اور تمہارا پروردگار بےپروا صاحب رحمت ہے اگر چاہے تمہیں نابود کر دے اور تمہارے بعد جن لوگوں کو چاہے تمہارا جانشین بنا دے جیسا تم کو بھی دوسرے لوگوں کی نسل سے پیدا کیا ہے "
سورۃ النساء آیت 9 میں اللہ فرماتا ہے
وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا
ترجمہ " اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جواپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو پس چاہیئے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں نہیں لگتا ان ساری جگہوں پر ذریتہ ماننے والوں کے لئے استعمال ہوسکے گا ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
 
فَلَمَّا بَلَ۔غَ مَعَهُ السَّعْىَ ( 102 ) کی تفسیر مجاہد {رح} نے یوں فرمائی ہے کہ جب اسماعیل جوان ہوگئے اور اتنی طاقت و قوت کے حامل ہوگئے کہ اپنے والد کے ساتھ کام کریں ۔
جب اسماعیل {ع} اپنی عمر کی اس بہار کو پہنچ گئے تو آپ کے والد ابراہیم {ع} نے خواب میں دیکھا کہ ان کو اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کا حکم ہو رہا ہے
ابن عباس {رض} سے مرفوع حدیث یوں مروی ہے کہ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں ۔ یہ عبید بن عمیر کا بھی فرمان ہے ۔
واللہ اعلم
یہ خواب اللہ کی طرف سے اپنے دوست ابراہیم {ع} کا امتحان تھا کہ وہ اپنے بیٹے جو ان کو بڑھاپے میں بڑی دعاؤں سے ملا ان کو ذبح کریں اور اس سے پہلے وہ عظیم امتحان بھی گزچکا تھا جب وہ اپنی بیوی ہاجرہ {ع} اور اسماعیل {ع} کو جنگل بیابان میں تن تنہا چھوڑ آئے تھے ۔ جہاں نہ کوئی کھیتی تھی نہ دودھ دینے والا جانور اور نہ ہی کوئی دل بہلانے والی چیز ۔ بلکہ وہ ایک خشک صحرا تھا ۔ پھر بھی ابراہیم {ع} اللہ کے اس امتحان پر پورا اترے اور دونوں کو اس جگہ محض اللہ کے توکل چھوڑ دیا ۔ پھر اللہ نے بھی وہاں ان دونوں کے لیے کشادگی و فراخی کا راستہ کھول دیا اور ایسی جگہ سے ان کو رزق دیا جہاں ان کا گمان بھی نہ جاسکتا تھا
الغرض جب پہلی قربانی پوری ہوگئی اور ابراہیم {ع} اس میں پورا اترے تو اللہ تعالی کی طرف سے اپنے دوست ابراہیم {ع} کو دوسری قربانی یعنی اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ملا ، یہ حکم ایسا تھا جو اللہ نے اپنے اس خاص دوست کو دیا تھا ۔ اسماعیل {ع} بھی اس وقت تک اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھے ۔ اس کے باوجود ابراہیم {ع} نے حکم خداوندی پر لبیک کہا ۔ اور حکم کی فرمانبرداری میں دوڑ پڑے
 
Top