حضرت ابراہیم علیہ السلام

ابوہریرہ {رض} سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کے والد کے کہے کلمات میں سب سے اچھے کلمات وہ ہیں جو اس نے اپنے بیٹے کو آگ کے اندر اس حالت میں دیکھنے کے وقت کہا " نعم الرب ربک یا ابراھیم یعنی اے ابراہیم تیرا پروردگار بہترین پروردگار ہے "
ابن عساکر {رح} حضرت عکرمہ {رض} سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} کی والدہ نے جب اپنے لخت جگر کو دیکھا تو اس نے پکارا " اے میرے بیٹے میں بھی تیرے پاس آنا چاہتی ہوں ، اللہ سے دعا کر کہ تیرے ارد گرد کی آگ کی حرارت سے مجھے نجات دے "
تو حضرت ابراہیم {ع} نے ارشاد کیا " جی اماں "
پھر آپ کی والدہ حضرت ابراہیم {ع} کی طرف چلیں اور آگ نے ان کو کچھ نہیں کہا ۔ پھر بیٹے کے پاس پہنچ کر بیٹے کو گلے سے لگایا اور بوسہ دیا پھر واپس لوٹ آئیں ۔
منہال بن عمرو سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} وہاں میں چالیس دن یا پچاس دن ٹھہرے اور انہوں نے فرمایا کہ دنوں اور راتوں میں میں نے ان سے اچھی زندگی نہیں گزاری اور میری تمنا رہی کہ میری تمام زندگی و حیات اسی کی طرح ہوجائے ۔
واللہ اعلم
الغرض کفار و مشرکین نے انتقام لینا چاہا مگر رسوا و ذلیل ہوئے ، بلند ہونا چاہا مگر پست و خوار ہوئے اور غالب ہونا چاہا مگر مغلوب ہوگئے ۔
جیسا قرآن میں اللہ نے فرمایا
" اور انہوں نے اس کی برائی چاہی سو ہم نے انہیں ناکام کر دیا ( سورۃ الانبیاء 70 ) "
" پس انہوں نے اس سے داؤ کرنے کا ارادہ کیا سو ہم نے انہیں ذلیل کر دیا ( سورۃ الصافات 98 ) "
کفار و مشرکین دنیا میں بھی ذلت و رسوائی میں رہے اور آخرت میں بھی ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ، بےشک جو ایک برا ٹھکانہ اور مقام ہے
 
بخاری میں ہے ام شریک {رض} سے مروی ہے کہ رسول اکرم {ص} نے چھپکلی کو مارنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ یہ ابراہیم {ع} پر پھونک مار رہی تھی ۔
مسند احمد میں بھی ہے حضرت عائشہ {رض} نے خبر دی کہ رسول اکرم {ص} نے فرمایا کہ چھپکلی کو قتل کرو کیونکہ وہ ابراہیم {ع} پر آگ کو پھونکیں مار رہی تھی راوی کہتے ہیں کہ پھر عائشہ {رض} بھی ان کو مارتی تھیں
مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت حضرت عائشہ {رض} کے پاس گئیں تو وہاں ایک نیزہ گڑا ہوا دیکھا تو عورت نے پوچھا یہ کیسا نیزہ ہے ؟ عائشہ {رض} نے فرمایا ہم اس کے ساتھ چھپکلیوں کو مارتے ہیں پھر عائشہ {رض} نے حضور {ص} کی حدیث بیان کی کہ جب ابراہیم {ع} آگ میں ڈال دیے گئے تو تمام جاندار اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے چھپکلی کے یہ اس پر پھونکیں مار رہی تھی ۔
امام نافع ، فاکہ بن مغیرہ کی لونڈی سائبہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدہ عائشہ {رض} کے پاس گئی اور ان کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر پوچھا : اے ام المومنین ! اس نیزے کو کیا کرتی ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم اس سے چھپکلیاں مارتی ہیں ، کیونکہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : جب ابراہیم {ع} کو آگ میں ڈالا گیا تو ہر جانور نے آگ بجھانے کی ، سوائے اس چھپکلی کے ، کہ یہ پھونک مارتی تھی ۔ آپ {ص} نے اسے مارنے کا حکم دیا ۔
واللہ اعلم
 
اللہ تعالی سورۃ البقرۃ میں فرماتا ہے " کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی ، جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ، کہا ابراھیم نے بے شک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا ، اور اللہ بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ( 258 ) "
اس آیت میں اللہ تعالی حضرت ابراہیم {ع} کے مناظرے کا ذکر کرہے ہیں ۔ اس سرکش بادشاہ کے ساتھ جس نے اپنی ذات کے لیے خدائی کا دعوی کردیا تھا ۔ تو حضرت ابراہیم {ع} نے اس کے دعوی اور دلیل کو باطل و زیر کر دکھایا ۔ اور اس کی جہالت اور کم عقلی کو واضح کردیا ۔ اسے چپ کی لگام لگا دی اور دلیل کے ساتھ حق کا راستہ دکھلا دیا ۔
مفسرین کہتے ہیں وہ بادشاہ ملک بابل کا بادشاہ تھا اور اس کا نام نمرود تھا ۔ بعض لوگ نمرود کا نسب کچھ یوں بیان کرتے ہیں
نمرود بن کنعان ، بن کوش ، بن سام ، بن نوح
بعض لوگ جن میں مجاہد {رح} بھی شامل ہیں نمرود کا نسب کچھ یوں بیان کرتے ہیں
عمرو ، بن فالح ، بن عابر ، بن صالح ، بن ارفخشاں ، بن سام ، بن نوح ۔
مجاہد {رح} یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک گزرا ہے
ایسے چار بادشاہ گزرے ہیں ، دو مومن اور دو کافر ، مومن تو ایک حضرت ذوالقرنین تھے اور دوسرے حضرت سلیمان {ع} تھے ۔ اور کافر ایک نمرود تھا اور دوسرا بخت نصر تھا
مزید فرماتے ہیں اس نمرود بادشاہ نے اپنی سلطنت چار سو سال چلائی اور وہ بہت ہی سرکش اور ظالم شخص تھا ۔ اور دنیاوی زندگی میں خوب مگن اور اس کو ترجیح دینے والا تھا
جب حضرت ابراہیم {ع} نے نمرود کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا تو نمرود کی جہالت ، گمراہی اور بادشاہت کے غرور نے اسے اللہ تعالی ہی کے انکار پر کھڑا کردیا ۔ اور پھر اس بات پر حضرت ابراہیم {ع} سے جھگڑنا شروع کردیا ۔ جب حضرت ابراہیم {ع} نے کہا میرا اللہ تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تب نمرود نے بھی جواب میں کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔
 
محمد بن اسحاق {رض} اور قتادہ {رح} فرماتے ہیں نمرود نے وہ جواب عملی طور پر یوں دیا تھا کہ دو ایسے شخص جن کے قتل کا حتمی فیصلہ کر دیا گیا تھا ۔ ان کو منگوایا اور ایک کے قتل کا حکم دے دیا اور دوسرے کو معاف کردیا اور یہ سمجھ لیا کہ اس نے بھی ایک کو زندہ کردیا اور ایک کو مار دیا ۔
جبکہ یہ فعل حضرت ابراہیم {ع} کی بات کے مقابل اور معارض نہیں تھا اور صحیح جواب نہیں تھا بلکہ مناظرے کے مقام سے ہی خارج تھا کیونکہ اس بات کے مانع اور معارض بن ہی نہیں سکتے تھے
نمرود کا یہ جواب بےوقوفی تھا ، اور مقصود سے منقطع تھا ۔ اس لیے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے روزمرہ کے مشاہدات میں کسی کے مرنے کسی کے پیدا ہونے کے ساتھ دلیل دی تھی ۔ ان کا مطلب تھا یہ چیزیں بغیر کسی پیدا کرنے والے کے ہو نہیں سکتیں ۔ بلکہ ان تمام امور کا کرنے والا کوئی ضرور ہے جو ان کو پیدا بھی کرتا ہے اور انہیں طرح طرح کے کاموں میں لگاتا بھی ہے ۔ جیسے ستاروں ، سیاروں ، ہواؤں ، بادلوں اور بارشوں کو کام میں لگا رکھا ہے ۔ اور طرح طرح کے حیوانات پیدا کئے ہیں پھر ان کو مارتا بھی ہے ۔ وہ بھی بغیر ظاہری اسباب کے ، مگر جب انسان کسی کو مارتا ہے تو کسی سبب کے ذریعے مثلا تلوار وغیرہ ۔ اللہ اپنے ارادے سے سب کچھ کرتا ہے ۔
اسی لیے حضرت ابراہیم {ع} نے فرمایا میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت طاری کرتا ہے جس کے جواب میں نمرود نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اور اس نے خیال کیا ان مشاہدات عالم کا کرنے والا میں ہی ہوں اور پھر مکمل سرکشی پر اتر آیا ، نمرود نے اپنے خیال میں حضرت ابراہیم {ع} کی دلیل کا توڑ پیش کیا
اب حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ تعالی کے وجود پر دوسری دلیل پیش فرمائی ۔ کہا یہ سورج اللہ کی طرف سے ہر روز مشرق سے نکنے پر مامور ہے وہ بھی بالکل اسی طرح جیسے اس کے خالق نے اس کو متعین کر رکھا ہے اور اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ہر چیز کا خالق ہے ۔ اگر تیرے خیال سے تو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو سورج کو بھی مغرب سے نکال کر دکھا ؟ کیونکہ جو زندگی اور موت جیسی عظیم قدرت اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے تو وہ جو چاہے کر سکتا ہے اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ، اگر تو سچا ہے تو سورج مغرب سے نکال کر دکھا ؟ ۔
حضرت ابراہیم {ع} کے اس سوال پر نمرود کی بےوقوفی اور جہالت عیاں ہوگئی ، اور اس کا وہ جھوٹ جسے اپنی رعایا کے سامنے بول کر خدائی کا دعوی کر رکھا تھا سب کے سامنے آگیا ۔ اس کے پاس ایسی کوئی دلیل نہ رہی جس سے وہ حضرت ابراہیم {ع} کو جواب دے سکے
 
سعدی {رح} فرماتے ہیں نمرود اور حضرت ابراہیم {ع} کے درمیان یہ مناظرہ اسی روز ہوا تھا جس روز حضرت ابراہیم {ع} آگ سے صحیح سلامت تشریف لائے تھے ۔
عبدالرزاق ، معمر سے روایت کرتے ہیں کہ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ قحط سالی تھی ، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے اس دن نمرود کے پاس غلہ تھا اور لوگ وفد در وفد غلہ لینے کے لیے آرہے تھے تو حضرت ابراہیم {ع} بھی غلے کے بہانے سے نمرود کے پاس گئے ۔ اور ان دونوں کی ملاقات صرف اسی روز ہوئی تھی ۔
اور پھر ان دونوں کے درمیان مناظرہ شروع ہوگیا ۔ نمرود نے اور لوگوں کو تو غلہ دیا لیکن حضرت ابراہیم {ع} کو کچھ بھی نہ دیا بلکہ حضرت ابراہیم {ع} اس کے پاس سے بالکل خالی واپس نکلے ۔ اور ان کے پاس غلے کی کچھ بھی مقدار موجود نہ تھی ، تو جب حضرت ابراہیم {ع} اپنے گھر کے پاس پہنچے تو مٹی کے ایک ٹیلے پر گئے اور دو تھیلے مٹی سے بھر لیے ۔ اور سوچا جب گھر والوں کے پاس جاؤنگا تو اس سے اہل خانہ کو شغل لگاؤنگا ۔ پھر جب حضرت ابراہیم [ع} گھر پہنچے اور اپنی سواری کو اتار دیا چونکہ سفر کی وجہ سے انتہائی تھک چکے تھے ، اس لئے گھر پہنچتے ہی ٹیک لگا کر سوگئے
جب حضرت ابراہیم {ع} کی بیوی حضرت سارہ {ع} ان تھیلوں کے پاس گئیں تو دیکھا وہ دونوں تھیلے عمدہ عمدہ طعام سے بھرے ہوئے ہیں ۔ سارہ {ع} نے ان سے کھانا بنالیا ۔ حضرت ابراہیم {ع} جاگے تو دیکھا کھانا تیار ہے بولے ، یہ تمہارے ہاں کہاں سے آیا ؟
سارہ {ع} نے عرض کیا جو آپ لائے ہیں اس سے نکالا ہے ۔
پھر حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ سب اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے
واللہ اعلم
 
زید بن اسلم {رح} فرماتے ہیں اللہ تعالی نے اس متکبر سرکش بادشاہ کی طرف فرشتے کو بھی بھیجا ۔ جس نے اس کو ایمان باللہ کی دعوت دی لیکن نمرود نے انکار کردیا ۔ دوسری مرتبہ پھر دعوت دی پھر انکار کردیا ۔ پھر تیسری مرتبہ بھی دعوت دی اس نے پھر ہٹ دھرمی دکھائی اور انکار کیا ، بولا تم اپنے لشکر اکٹھے کرلو میں بھی اپنا لشکر اکٹھا کرتا ہوں ۔
جب نمرود نے سورج کے طلوع ہونے کے وقت اپنے لشکر کو اکٹھا کیا تو اللہ نے مچھروں کا ایک لشکر بھیج دیا ، اور وہ مچھروں کا لشکر سورج کی روشنی میں دکھائی بھی نہیں دیتا تھا ۔ پھر اللہ نے مچھروں کو نمرود کے لشکر پر مسلط کردیا ۔ کہتے ہیں مچھروں نے نمرود کے لشکر کا خون تو کیا گوشت تک کھالیا یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں نظر آنے لگیں ۔ کہتے ہیں ان مچھروں میں سے ایک مچھر نمرود کی ناک میں گھس گیا اور وہ مچھر چار سو سالوں تک نمرود کے دماغ میں رہا ۔ نمرود اس ساری مدت اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا ۔ اور سخت عذاب میں رہا ۔ حتی کہ اللہ تعالی نے اس مچھر کے ذریعے نمرود کو نیست و نابود فرمادیا ۔
واللہ اعلم
 
سورۃ العنکبوت میں اللہ تعالی فرماتا ہے " پھر اس پر لوط ایمان لایا ، اور ابراہیم نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، بے شک وہ غالب حکمت والا ہے ( 26 ) اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیا اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب مقرر کردی اور ہم نے اسے اس کا بدلہ دنیا میں دیا ، اور وہ آخرت میں بھی البتہ نیکوں میں سے ہوگا ( 27 ) "
سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اور ہم اسے اور لوط کو بچا کراس زمین کی طرف لے آئے جس میں ہم نے جہان کے لیے برکت رکھی ہے ( 71 ) اور ہم نے اسے اسحاق بخشا اور انعام میں یعقوب دیا ، اور سب کو نیک بخت کیا ( 72 ) اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کیا کرتے تھے اور ہم نے انہیں اچھے کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا تھا ، اور وہ ہماری ہی بندگی کیا کرتے تھے ( 73 ) "
حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنی قوم کو خیرباد کہا اور وہاں سے ہجرت کی ۔ آپ کی بیوی سارہ {ع} بانجھ تھیں اور ان کی کوئی اولاد نہ تھی ۔ ان کے ساتھ ان کے بھتیجے لوط بن ہاران بن آزر تھے لیکن پھر اس کے بعد اللہ نے حضرت ابراہیم {ع} کو نیک اولاد عطا فرمادی ۔ اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کی اولاد کے لیے کتاب و نبوت مقرر فرمادی ۔ حضرت ابراہیم {ع} کے بعد جو بھی پیغمبر آیا وہ وہ آپ کی اولاد میں سے تھا ۔ جو بھی آسمانی کتاب آپ کے بعد کسی پیغمبر پر اتری وہ آپ کی اولاد میں سے تھا ۔ یہ آپ پر اللہ کا انعام اور اکرام تھا ۔ کیونکہ آپ نے اللہ کے خاطر اپنے شہروں کو چھوڑا ، اپنے اہل کو چھوڑا اپنے عزیز و اقربا کو چھوڑا ۔ پھر ایسے شہر کا رخ کیا جہاں اپنے پروردگار وحدہ و لاشریک کی عبادت میں کسی قسم کی روک توک نہ ہو ۔ جیسا اللہ نے فرمایا " " اور ہم اسے اور لوط کو بچا کراس زمین کی طرف لے آئے جس میں ہم نے جہان کے لیے برکت رکھی ہے { سورۃ الانبیاء 71 } "
 
عوفی {رح} نے ابن عباس {رض} سے نقل کیا ہے کہ سورۃ الانبیاء کی اس آیت میں زمین سے مراد مکہ ہے ، ابن عباس {رض} آگے فرماتے ہیں کیا آپ نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا " بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے { سورۃ آل عمران 96 } "
جبکہ کعاب احبار {رح} کا خیال ہے اس سے مراد حران شہر ہے
واللہ اعلم
اہل کتاب سے پہلے نقل ہوچکا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} اور آپ کے بھتیجے لوط {ع} ، آپ کے بھائی ناحور ، آپ کی بیوی سارہ {ع} اور آپ کی بھابھی ناحور کی بیوی ملکا یہ تمام لوگ بابل کے علاقے کو خیر باد کہہ کر حران نامی شہر میں اترے تھے اور آپ کے والد یہیں فوت ہوئے تھے ۔
سعدی {رح} فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} اور حضرت لوط {ع} دونوں شام کی طرف رخ کر کے چلے تھے پھر راستے میں حران کے بادشاہ کی بیٹی سارہ {ع} سے ملاقات ہوگئی ، سارہ {ع} اپنی قوم کے دین پر اعتراض کیا کرتی تھیں تو حضرت ابراہیم {ع} نے ان سے شادی اس شرط پر فرمالی کہ وہ کسی اور بیوی کے ساتھ ان کو غیرت میں نہ ڈالیں گے ۔
ابن حریر نے اسے روایت کیا ہے مگر اس روایت میں شبہ کا امکان ہے کیونکہ زیادہ مشہور یہ بات ہے کہ سارہ {ع} آپ کی چچا زاد تھیں
بعض لوگوں کا وہم و خیال ہے کہ سارہ {ع} آپ کے بھائی ہاران کی بیٹی تھیں یعنی لوط {ع} کی بہن ، گویا آپ نے اپنی بھتیجی سے شادی فرمائی ۔ لیکن یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے اور بغیر علم کے یہ بات کہی گئی ہے پھر اس پر جن لوگوں نے یہ کہا کہ اس وقت بھائی کی بیٹی سے نکاح جائز تھا تو بھی ان کے پاس اس کے سچ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے
واللہ اعلم
اہل کتاب آگے ذکر کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم {ع} شام تشریف لائے تو اللہ نے ان کی طرف وحی کی اور خوشخبری دی کہ میں آپ کے بعد آپ کی آنے والی اولادوں کو زمین پر خلافت کے لئے مقرر کردوں گا ۔ تو حضرت ابراہیم {ع} نے بطور شکرانے ایک مذبح خانہ بنایا ۔ جو بیت المقدس کے مشرقی حصے میں تھا پھر کچھ عرصے بعد شام میں قحط پڑا تو آپ شام سے مصر کی طرف چلے گئے
 
علماء مصر میں ہونے والا حضرت ابراہیم {ع} ، سارہ {ع} اور ایک بادشاہ کا واقعہ ذکر فرماتے ہیں
اہل تواریخ کہتے ہیں مصر کا اس وقت بادشاہ یعنی فرعون ضحاک کا بھائی تھا اور اپنے ظلم و ستم میں بہت مشہور تھا ۔ اس کا نام بتایا جاتا ہے سنان بن علوان ، بن عبید ، بن عویج ، بن عملاق ، بن لاوذ ، بن سام ، بن نوح {ع}
جبکہ سارہ {ع} کے ساتھ جس بادشاہ نے برائی کا چاہا وہ عمرو بن امرئی القیس ، بن مایلون ، بن سبا تھا اور وہ مصر کے ایک حصے کا حاکم تھا
ابوہریرہ {رض} سے روایت ہے ، رسول اللہ { ص} نے فرمایا ” ابراہیم {ع} نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر تین بار ، ان میں دو جھوٹ اللہ کے لیے تھے ۔ ان کا یہ قول کہ میں بیمار ہوں ، اور دوسرا یہ قول کہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گا ، تیسرا جھوٹ سارہ {ع} کے باب میں تھا ، اس کا قصہ یہ ہے کہ ابراہیم {ع} ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے ۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ {ع} بھی تھیں ، وہ بڑی خوبصورت تھیں ، انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بی بی ہے تو مجھ سے چھین لے گا ، اس لیے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں ، اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے ۔ اس لیے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا ، جب {ع} اس ظالم کے ملک میں پہنچے تو اس کے کارندے اس کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایسی عورت آئی ہے جو سوائے تیرے کسی کے لائق نہیں ہے ، اس نے سارہ {ع} کو بلا بھیجا وہ گئیں اور ابراہیم {ع} نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔ جب سارہ {ع} اس ظالم کے پاس پہنچیں اس نے بےاختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا ، لیکن فورا اس کا ہاتھ سوکھ گیا ، وہ بولا : تو اللہ سے دعا کر میرا ہاتھ کھل جائے میں تجھے نہیں ستاؤں گا ، انہوں نے دعا کی اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا ، پھر پہلے سے بڑھ کر سوکھ گیا ، اس نے دعا کے لیے کہا ، انہوں نے دعا کی پھر اس مردود نے دست درازی کی ، پھر دونوں بار سے بڑھ کر سوکھ گیا ، تب وہ بولا : تو اللہ سے دعا کر میرا ہاتھ کھل جائے ، اللہ کی قسم میں اب نہ تجھے ستاؤں گا ۔ سارہ {ع} نے پھر دعا کی اس کا ہاتھ کھل گیا ، تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سارہ {ع} کو لے کر آیا تھا ، اور اس سے بولا : تو میرے پاس شیطاننی کو لے کر آیا تھا ، یہ آدمی نہیں ہے ، اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ہاجرہ {ع} ایک لونڈی کو حوالے کر ۔ سارہ ہاجرہ {ع} کو لے کر لوٹ آئیں ۔ جب ابراہیم {ع} نے ان کو دیکھا تو لوٹے ، اور ان سے پوچھا : کیا گزرا ؟ انہوں نے کہا : سب خیریت رہی ، اللہ تعالی نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا ، اور ایک لونڈی بھی دلوائی ۔ “
ابوہریرہ {رض} نے کہا : اے آسمان کے پانی کے بیٹو ! یعنی اے عرب والو ! یہی ہاجرہ {ع} تمہاری ماں ہیں ۔
 
حضرت ابراہیم {ع} کا یہ فرمانا کہ یہ میری بہن ہیں ۔ اس سے ان کی مراد تھی کہ وہ دین الہی میں بہن ہیں
اور حضرت ابراہیم {ع} کا یہ فرمانا کہ اس وقت روئے زمین پر میرے اور تیرے علاوہ اور کوئی مومن نہیں اس سے ان کی مراد تھی کہ دو میاں بیوی میرے اور تیرے علاوہ اور کوئی نہیں ، ویسے ان کے ساتھ حضرت لوط {ع} بھی تھے جو کہ اللہ کے نبی تھے
ہوا یوں کہ جب حضرت ابراہیم {ع} اور سارہ {ع} کا گزر اس بادشاہ کی زمین سے ہوا تو کسی نے اس بادشاہ کو مخبری کردی کہ یہاں ایک آدمی آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک ایسی عورت ہے جو لوگوں میں سب سے حسین ہے ۔ تو بادشاہ نے حضرت ابراہیم {ع} کے پاس پیغام بھیجا اور اس عورت کے بارے میں پوچھا ۔ وہ کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا میری بہن ہے ۔ جب حضرت ابراہیم {ع} اپنی بیوی کے پاس تشریف لائے تو کہا اے سارہ ! روئے زمین پر تیرے اور میرے سوا کوئی مومن نہیں اور یہ بادشاہ مجھ سے سوال کرتا تھا تو میں نے اس کو تیرے بارے میں کہہ دیا ہے کہ تو میری بہن ہے لہذا اب تو مجھے نہ جھٹلا دینا ۔
بادشاہ نے سارہ {ع} کو بلوا بھیجا اور وہ اس کے پاس تشریف لے گئیں ۔ بادشاہ نے برے ارادے سے حضرت سارہ {ع} کو پکڑنا چاہا تو وہ اپنی جگہ جکڑا گیا پھر بادشاہ نے حضرت سارہ {ع} سے کہا آپ میرے لئے اللہ سے دعا کردیجئے پھر میں آپ کو کوئی تکلیف و نقصان نہیں دونگا ۔
سارہ {ع} نے دعا کردی تو بادشاہ اس قید و جکڑ سے رہا ہوگیا ۔ لیکن اپنے وعدے کے خلاف دوبارہ بری نیت سے آگے بڑھا اور اللہ کی قدرت کہ ایک بار پھر جکڑا گیا جو پہلی بار سے بھی زیادہ سخت تھی ۔ اس نے پھر کہا آپ میرے لئے اللہ سے دعا کردیجئے پھر میں آپ کو کوئی تکلیف و نقصان نہیں دونگا ۔ سارہ {ع} نے ایک بار پھر دعا کردی ۔ وہ پھر چھوٹ گیا اب اس نے اپنے کسی خادم کو بلایا اور کہا تم میرے پاس کوئی انسان نہیں لائے بلکہ کوئی شیطان لے کر آئے ہو ۔ پھر بادشاہ نے سارہ {ع} کو ایک خادمہ کے ساتھ واپس کردیا ۔ اس خادمہ کا نام ہاجرہ تھا
جب سارہ {ع} حضرت ابراہیم {ع} کے پاس واپس تشریف لائیں تب حضرت ابراہیم {ع} نماز میں مشغول تھے ،
اس لئے صرف ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کیا ہوا ؟
سارہ {ع} نے جواب دیا اللہ نے کافر کے مکر کو رد کردیا ، اور فاجر کی برائی کو اس کے سینے میں دبا دیا
 
کہتے ہیں جب وہ بادشاہ سارہ {ع} کے پاس بری نیت سے بڑھا تھا تو سارہ {ع} بھی وضو اور نماز میں مشغول ہوگئیں اور اللہ سے فریاد کی " اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور اپنے شوہر کے علاوہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو پھر تو مجھ پر کافر کو مسلط نہیں ہونے دینا "
اس دعا کے بعد وہ بادشاہ زمین میں دھنسنا شروع ہوجاتا یہاں تک کہ اس کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے اور جب وہ بادشاہ سارہ {ع} سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہتا تو وہ کہتیں " اے اللہ ! اگر یہ مرگیا تو کہا جائے گا کہ میں نے اسے قتل کیا ہے " تو بادشاہ آزاد ہوجاتا
راوی کہتے ہیں ایسا تین چار بار ہوا تھا اس کے بعد وہ پکار اٹھا کہ تم میرے پاس کسی شیطان کو لائے ہو ، اس کو ابراہیم کے پاس واپس لے جاؤ اور ہاجرہ بھی اس کو دے دو ۔
بعض بزرگوں کے قول ہیں کہ سارہ {ع} جب سے ابراہیم {ع} کے پاس سے نکلیں تھیں تب سے واپس آنے تک اللہ نے دونوں کے درمیان رکاوٹیں ہٹا دی تھیں یعنی ابراہیم {ع} سارہ {ع} کو مسلسل دیکھ رہے تھے کہ اللہ نے کیسے ان کے اہل کی حفاظت فرمائی اور اللہ نے ایسا اس لئے کیا تاکہ ابراہیم {ع} کا دل اطمینان ، سکون اور پاکیزگی کے ساتھ برقرار رہے ۔ کیونکہ ابراہیم {ع} سارہ {ع} سے بےانتہا محبت کرتے تھے ، وہ ان کے دین پر تھیں ، ان کی رشتہ دار تھیں ۔ اور قدرت نے انہیں خوب حسن سے نوازا تھا ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ حوا {ع} کے بعد سے سارہ {ع} تک کبھی کوئی عورت ان سے زیادہ حسین نہیں گزری ۔
واللہ اعلم
 
بعض اہل علم کا اسلامی روایات سے خیال ہے حاجرہ {ع} اس بادشاہ کی لونڈی نہیں تھیں بلکہ بیٹی تھیں اور اس نے سارہ {ع} اور حضرت ابراہیم {ع} کے کرامات دیکھ کر اپنی مرضی سے بیٹی کو ابراہیم {ع} کو سونپا ۔
چونکہ بعد میں ہاجرہ {ع} ابراہیم{ع} کے نکاح میں آئیں اور ان کے بطن سے حضرت اسماعیل {ع} پیدا ہوئے اور ان کی نسبت حضرت محمد {ص} تک پہچتی ہے
اسی لیے ابوہریرہ {رض} نے کہا : اے آسمان کے پانی کے بیٹو ! یعنی اے عرب والو ! یہی ہاجرہ {ع} تمہاری ماں ہیں ۔
اس لئے یہ اہل علم ہاجرہ {ع} کو لونڈی نہیں سمجھتے اور اسے اہل کتاب کی من گھڑت روایات سمجھتے ہیں
چونکہ غلام یا لونڈی کی نسل سے ہونا باعث ذلت سمجھا جاتا تھا اس لیے اہل کتاب نے آغاز سے ہی تضحیک و تذلیل کی خاطر پہلے عربوں کو اور پھر اسلام کے آنے کے بعد مجموعی طور پر مسلمانوں کو ہاجری کہا تھا ۔ اسی طرح رومی تذلیل کی خاطر عربوں کو " سارقیوس " کہا کرتے تھے جس سے مراد سارہ کے غلام تھی ۔
واللہ اعلم
پھر اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم {ع} مصر کو چھوڑ کر یمن کی سرزمین میں آگئے اور پھر اسی مقدس سرزمین پر رہے ۔ جب حضرت ابراہیم مصر سے چلے تو ان کے ساتھ کافی مال مویشی اور کئی غلام تھے اور ہاجرہ {ع} بھی ان کے ہمراہ تھیں ۔
 
پھر حضرت ابراہیم {ع} کے حکم سے حضرت لوط {ع} اپنے مال وغیرہ کے ساتھ یمن سے سرزمین غور کی طرف چلے گئے ۔ وہاں یہ سدوم شہر میں آباد ہوئے ۔ اس زمانے میں وہ شہر ام البلاد یعنی شہروں کی ماں کہلاتا تھا ۔ سدوم کے لوگ شریر ، فاجر ، فاسق اور کافر تھے ۔
پھر اللہ نے حضرت ابراہیم {ع} کو حکم فرمایا کہ طویل نظریں پھلائیں اور شمال ، جنوب ، مشرق و مغرب کی طرف دیکھیں اور پھر خوشخبری دی کہ یہ ساری زمیں میں نے آپ اور آپ کی آنے والی اولاد کے لیے مقرر کردی ہے ۔ اور فرمایا میں آپ کی اولاد کو اتنا بڑھا دوں گا کہ وہ ریت کے ذرات جتنی ہوجائے گی
حضرت ابراہیم {ع} کو ملنے والی اس خوشخبری میں امت محمدیہ بھی داخل ہے بلکہ حضرت ابراہیم {ع} کی تمام اولاد میں یہ زیادہ ہیں اور حضرت ابراہیم {ع} کی بشارت اس امت کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی
اس بات کی تائید نبی پاک {ص} کے اس فرمان سے ہوتی ہے ۔ ثوبان {رض} کہتے ہیں کہ آپ {ص} نے فرمایا " میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی ، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں ، یقینا میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی "
 
پھر سدوم کے سرکش اور ظالم لوگوں کا ایک گروہ حضرت لوط {ع} پر مسلط ہوگیا اور انہوں نے آپ کو قید کرلیا ۔ آپ کے مال پر قبضہ کیا اور آپ کے مویشی ہانک کر لے گئے ۔ جب یہ خبر حضرت ابراہیم {ع} کو ملی تو آپ تین سو اٹھارہ آدمیوں کا بھرپور لشکر لے کر ان کی طرف گئے اور لوط {ع} کو ان کی قید سے چھڑایا ۔ ان کا مال واپس حاصل کیا ۔ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کو زبردست شکست دی ۔ بچ کر بھاگ جانے والے سپاہیوں کا پیچھا کرتے ہوئے جن میں ان کا بادشاہ بھی تھا شمال دمشق تک پہنچ گئے ۔ اور وہاں مقام برزہ پر آپ نے اور آپ کے لشکر نے پڑاؤ کیا ۔ اسی لیے وہاں کے ایک مقام کا نام مقام ابراہیم پڑا ۔ اس کا ذکر اہل کتاب کی تورات میں ہے
واللہ اعلم
حضرت ابراہیم {ع} نے جس لشکر کو شکست دی وہ عیلام بادشاہ کا لشکر تھا ۔ اور یہ سدوم کا بادشاہ تھا ۔ جب عیلام کا لشکر پسپا ہو ہو کر برزہ کی پہاڑیوں تک محدود ہوگیا تو عیلام بادشاہ نے حضرت ابراہیم {ع} کو پیش کش کی کہ آپ جتنا چاہے مجھ سے مال و مویشی لے لیں اور ہمیں چھوڑ دیں ۔
تو حضرت ابراہیم {ع} نے جواب دیا " میں نے بلند و بالا پروردگار رب العالمین کی طرف ہاتھ اٹھالیا ، اب میں تجھ سے ایک دھاگہ اور جوتے کا ایک تسمہ تک نہیں لیتا ، کہ کہیں تو کہے میں نے ابراہیم کو مالدار کردیا " ۔ واللہ اعلم
پھر حضرت ابراہیم {ع} فتح و نصرت کے ساتھ اپنے علاقے کو لوٹے ۔ بیت المقدس کے علاقے کے بادشاہوں نے آپ کی تعظیم و تکریم کے ساتھ آپ کا خوب استقبال کیا ۔ پھر آپ اپنے علاقے میں رہے
 

ابن آدم

محفلین
نسب نامہ : ابراہیم بن تارخ ، بن ناحور ، بن ساروغ ، بن راغو ، بن فالغ ، بن عابر ، بن شالح ، بن ارفخشد ، بن سام ، بن نوح {ع}
ابن عساکر نے حضرت ابراہیم {ع} کی سوانح حیات میں روایت کیا ہے کہ ان کی والدہ کا نام امیلہ تھا
اور کلبی فرماتے ہیں ان کی والدہ کا نام بونا بنت کربتا تھا اور یہ قبیلہ بنی ارفخشد سے تھیں
ابن عساکر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کی کنیت ابو الضیفان تھی ، جس کا مطلب ہے مہمانوں کے باپ
جب تارخ کی عمر 75 سال کو پہنچ گئی تو ان کے ہاں حضرت ابراہیم {ع} پیدا ہوئے ، ان کے علاوہ دو اور لڑکے جن کے نام ناحور اور ہاران تھا تارخ کی اولادوں میں شامل تھے ۔ ہاران کے ہاں حضرت لوط {ع} کی پیدائش ہوئی اس طرح حضرت لوط {ع} حضرت ابراہیم {ع} کے بھتیجے ہوئے
پہلے ابن عساکر نے حضرت ابن عباس {رض} سے روایت کیا کہ حضرت ابراہیم {ع} غوطہ دمشق میں قاسیون کی پہاڑی علاقے میں برزہ نامی بستی میں پیدا ہوئے لیکن بعد میں ابن عساکر نے فرمایا جو صحیح قول ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} بابل شہر میں پیدا ہوئے
بابل کو حضرت ابراہیم {ع} کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا کہ جب آپ اپنے بھتیجے حضرت لوط {ع} کی مدد کے لیے یہاں تشریف لائے تو یہاں آپ نے نماز ادا فرمائی تھی
اہل تواریخ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} نے حضرت سارہ {ع} سے شادی کی اور حضرت سارہ بانجھ تھیں اور کوئی اولاد ان کے ہاں نہ ہوتی تھی
کہتے ہیں تارخ اپنے بیٹے حضرت ابراہیم {ع} اور ان کی بیوی یعنی اپنی بہو سارہ ، اور پوتے لوط بن ہاران کو لے کر کلدانیوں کی سرزمین بابل سے چلے گئے اور کنعانیوں کی سرزمین میں آباد ہوئے اور وہاں مقام حران میں اترے اور وہیں تارخ نے وفات پائی اس وقت ان کی عمر 250 سال تھی

خوشی ہوتی اگر آپ اپنی تحقیق میں قرآن کو بھی شامل کرتے. قرآن نے بہت سے مقامات پر شجروں کی نشاندھی کی ہے اور قرآن کی رو سے حضرت ابراہیم، آل نوح سے نہیں ہیں بلکہ وہ حضرت نوح پر ایمان لانے والوں میں سے کسی کی آل سے ہیں.
اسی طرح سوره بنی اسرائیل کی آیات ٢ اور ٣ میں ارشاد ہوتا ہے
ہم نے اِس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا ﴿۲﴾ تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا ﴿۳﴾

ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ آل یعقوب سے ہیں اور آل یعقوب، آل ابراہیم سے ہے. چنانچہ حضرت موسیٰ آل ابراہیم سے ہیں اور یہ آیات کہہ رہی ہیں کہ حضرت موسیٰ ان لوگوں کی اولاد میں سے ہیں جن کو حضرت نوح نے اپنے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا. تو حضرت ابراہیم حضرت نوح کے اولاد سے نہیں ہیں

اسی طرح سوره صفات کی آیات ٧٩ سے ٨٤ کہہ رہی ہیں کہ حضرت ابراہیم حضرت نوح پر ایمان لانے والوں کی اولاد سے تھے
تمام جہان میں (کہ) نوح پر سلام ﴿۷۹﴾ نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ﴿۸۰﴾ بےشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا ﴿۸۱﴾ پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا ﴿۸۲﴾ اور ان ہی کے پیرووں میں ابراہیم تھے ﴿۸۳﴾ جب وہ اپنے پروردگار کے پاس (عیب سے) پاک دل لے کر آئے ﴿۸۴﴾
 
خلیلﷲ کا لقب پانے والے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت عراق پر نمرود نامی بادشاہ کی حکومت تھی جو بڑا مغرور اور ظالم تھا۔ خدا کا نہ صرف منکر تھا بلکہ اُس نے خدائی کا دعویٰ بھی کر رکھا تھا۔نمرود نے شہر کے سب سے بڑے مندر میں سونے کا بُت رکھا ہوا تھا اور لوگ اس کی پوجا و پرستش کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لوگ چاند ، سورج اور ستاروں کو بھی پوجتے تھے۔ آپ ؑ کی نسل میں سے بہت سے پیغمبر گزرے ہیں اس لئے آپ ؑ کو ’’ابوالانبیاء ‘‘ یعنی نبیوں کے باپ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ ؑ کے والد آزر مذہبی پیشوا تھے اور بُت تراشی اورفروشی اُن کا پیشہ تھا۔ جیسا کہ فرمان ایزدی ہے۔’’وہ وقت یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا۔ کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طور طریقے اور عادتیں بچپن ہی سے مختلف تھیں۔ آپبُت پرستی کے خلاف تھے۔ جب جوان ہوئے تو اعلانیہ بتوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا اور لوگوں کو بُت پرستی ترک کر کے خدائے واحد پر ایمان لانے اور خدا کی بندگی کرنے کی تلقین کرنے لگے لیکن بُت پرست لوگوں پر آپ ؑکی تبلیغ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ایک دن جب شہر کے تمام لوگ میلے میں شرکت کے لئے باہر گئے ہوئے تھے تو آپ ؑ نے مندر میں گھس کر بڑے بُت کے سوا تمام بتوں کو توڑ پھوڑ دیا اور کلہاڑا بڑے بُت کے کندھے پر رکھ دیا۔ جب لوگ واپس لوٹے اور انہوں نے اپنے بتوں کا بُرا حال دیکھاتو بہت غصہ ہوئے۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ کام ابراہیم کا ہی ہوسکتا ہے کیوں کہ وہی بتوں سے نفرت کرتا ہے اور اُن کو ہر وقت بُرا بھلا کہتا رہتا ہے۔ لوگوں نے آپ ؑ کو بلا کر پوچھا تو فرمایا کہ اس بڑے بُت سے پوچھیں کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے دوسرے بتوں کو توڑا ہو۔لوگ کہنے لگے، تمہیں معلوم ہے کہ یہ حرکت کرسکتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں۔ اس موقع پر آپ ؑ نے اُن کو حقیقی خدا کی طرف توحید کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ جب یہ بول نہیں سکتے اور خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو پھر تم ان کو کس لئے پوجتے ہو؟۔

اس واقعے کی خبر جب بادشاہ نمرود کو ملی تو اُس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دربار میں طلب کیااور پوچھا کہ تمہارا خدا کون ہے ؟ ۔ ’’ میرا خدا وہ ہے جو زندگی اور موت کا مالک ہے ‘‘۔ آپ ؑ نے جواب دیا۔ نمرود نے کہا کہ یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں جس کو چاہوں ماردوں اور جس کو چاہوں چھوڑ دوں۔ یہ کہہ کر اُس نے قید خانے سے دو قیدی بلوائے۔ ایک کو رہا کردیا اور ایک کو قتل کردیا۔آپ ؑ نے کہا۔ ’’ میرا خدا ہر روز سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ تم اگر خدا ہو تو ایک روز سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا ؤ‘‘۔اس بات پر نمرود لاجواب ہوگیا اور تلملا کر حکم دیا کہ آپ ؑکو آگ میں جلا کر راکھ کردیا جائے۔نمرود کے حکم کی تعمیل کے لئے ایک مربع میل کا احاطہ بنایا گیا جس کی چار دیواری بیس گز تھی۔ جب ایک ماہ میں وہ احاطہ لکڑیوں سے بھر گیا تو آگ جلائی گئی اور پھر دہکتی آگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق کے ذریعے ڈال دیا گیا لیکن ﷲ تعالیٰ کے حکم سے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ﷲ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا لیکن آپ ؑ کی مخالفت میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا جس کی وجہ سے آپ ؑ عراق چھوڑ کر ملک شام اور پھر وہاں سے کنعان (موجودہ فلسطین) میں آباد ہوگئے۔ ایک مرتبہ آپ ؑ اپنی بیوی کے ہمراہ مصر تشریف لے گئے۔ شاہ مصر نے آپ ؑ اور حضرت سارہ ؑ کی پاک بازی سے متاثر ہوکر اپنی بیٹی ہاجرہ کو بطور لونڈی خدمت کے لئے پیش کیا۔ اس وقت حضرت سارہ ؑ کی کوئی اولاد نہ تھی لہٰذا اُس نے خود حضرت ہاجرہ ؑ کا نکاح آپ ؑ کے ساتھ کروادیا۔ بڑھاپے میں حضرت ہاجرہ ؑ کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت سارہ ؑ کے بطن سے حضرت اسحاق ؑ پیدا ہوئے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش ابھی ختم نہ ہوئی تھی ۔ ﷲ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو مکہ مکرمہ کے چٹیل میدان میں چھوڑ آئے۔ ایک روز جب کھانے پینے کے لئے کچھ نہ رہا تو حضرت ہاجرہ ؑ بچے کو زمین پر لیٹا کر پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پردوڑیں ( اس عمل کو حج میں سعی کی صورت میں تا قیامت سنت بنا دیا گیا ) لیکن پانی نہ ملا۔ اسی پریشانی کے عالم میں جب واپس حضرت اسماعیل ؑ کی طرف آئیں تو اُن کے پاؤں رگڑنے سے پانی کا چشمہ اُبلا جو آب زم زم کے نام سے مشہور ہے۔ ایک رات حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کر رہے ہیں۔ چوں کہ نبی کا خواب سچا ہوتا ہے پس آپ ؑ فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنا خواب بیٹے کو سُنایاتو انہوں نے کہا۔ ابا جان ! آپ ﷲ تعالیٰ کے حکم پر عمل کریں ۔ مجھے آپ ثابت قدم پائیں گے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو مقام منیٰ لے گئے۔ لخت جگر کو زمین پر لیٹا دیا اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر پوری طاقت سے گردن پر چُھری چلائی۔ غیب سے صدا آئی کہ اے ابراہیم ! تو نے خواب سچ کر دکھایا ، ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ چنا ں چہ حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ قربانی کے لئے جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا۔ انبیاء کرام ؑ کی اس سنت پر ہم مسلمان آج بھی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔اس عظیم آزمائش کے بعد ﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ دنیا میں میری عبادت کے لئے خانہ کعبہ کو پھر سے تعمیر کرو۔چنا ں چہ باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور ﷲ تعالیٰ سے دُعا مانگی کہ اے ﷲ ! ہماری اس خدمت کو قبول فرما۔ آپ ؑ نے تقریباً دو سو برس کی عمر میں وفات پائی اور حبرون ( شہر خلیل) میں مدفون ہیں۔
 
آخری تدوین:
حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ کی بارگاہ میں نیک اولاد کا سوال کیا اور اللہ نے بھی اس کی آپ کو خوشخبری عطا فرمائی ۔
ہوا یوں کہ جب حضرت ابراہیم {ع} کو بیت المقدس کے علاقوں میں بیس سال بیت گئے تو سارہ {ع} نے حضرت ابراہیم {ع} سے عرض کیا
" پروردگار نے تو مجھے اولاد سے محروم فرما دیا لہذا آپ میری باندی کو رکھ لیں شاید اللہ اس سے مجھے اولاد مرحمت فرمادیں "
جب سارہ {ع} نے حضرت ابراہیم {ع} کو ہاجرہ تحفہ میں دے دیں اور ان کے ایک ہوجانے کے بعد کچھ ہی وقت میں ہاجرہ {ع} امید سے ہوگئیں ، تو اس پر لوگوں میں باتیں شروع ہوئیں کہ یہ باندی تو اپنی آقا یعنی سارہ {ع} سے زیادہ بلند و عظیم مرتبہ والی ہوگئیں ہیں ، اس سے سارہ {ع} کو فطری طور پر سخت غیرت اٹھی ۔ اور حضرت ابراہیم {ع} کو اس کا شکوہ کیا ۔ اس پر حضرت ابراہیم {ع} نے سارہ {ع} سے فرمایا " آپ اس کے ساتھ جو چاہیں کرلیں "
جب یہ بات ہاجرہ {ع} تک پہنچی تو وہ ڈر گئیں اور وہاں سے بھاگ پڑیں ۔ اور ایک چشمے کے پاس ٹھہریں ۔ تب ایک فرشتے نے ان کے پاس آکر عرض کیا " آپ خوف نہ کیجیے اور آپ جس بچے کے ساتھ باامید ہوئیں ہیں اللہ اس سے آپ کو بہت بھلائی عطا فرمائے گا ۔ " پھر فرشتے نے ہاجرہ {ع} کو واپسی کا کہا ۔ ساتھ میں یہ خوشخبری بھی دی کہ وہ ایک لڑکے کو جنم دیں گی " اس کا نام اسماعیل رکھنا ، وہ لوگوں میں تنہا ہوگا ، اس کا ہاتھ تمام پر ہوگا ، تمام کے ہاتھ اس کے ساتھ ہونگے ، اور وہ اپنے تمام بھائیوں کے ملکوں کا مالک ہوگا "
اس پر ہاجرہ {ع} نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ۔
واللہ اعلم
 
ہاجرہ {ع} نے جب اسماعیل {ع} کو جنم دیا اس وقت حضرت ابراہیم {ع} کی عمر اڑسٹھ سال تھی ، بعض کا کہنا ہے چھیاسی سال تھی ۔ اس کے تیرہ سال بعد سارہ {ع} کے یہاں حضرت اسحاق {ع} بھی پیدا ہوئے ۔
سورۃ ابراھیم میں آتا ہے کہ " اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اتنی بڑی عمر میں اسماعیل اور اسحاق بخشے ، بے شک میرا رب دعاؤں کا سننے والا ہے ( 52 ) "
اہل کتاب کہتے ہیں کہ جب ابراہیم {ع} کو اسماعیل {ع} کی خوشخبری دی گئی تھی اسی وقت اللہ تعالی نے اسحاق {ع} کی خوشخبری بھی مرحمت فرما دی تھی ۔ مزید یہ خوشخبری سن کو حضرت ابراہیم {ع} سجدے میں گر پڑے تھے ۔ اس وقت اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم {ع} پر مزید احسان کرتے ہوئے فرمایا " اسماعیل کے بارے میں میں نے تیری دعا و فریاد قبول کی ، اور اس پر مزید میں نے برکتیں نازل کیں اور اس کی اولاد کو کثیر کیا ، اور بہت ہی بابرکت بنایا ، اور آگے اس سے بارہ عظیم افراد پیدا ہونگے ، اور اس کو میں ایک عظیم جماعت کا رئیس و سردار بناؤں گا "
واللہ اعلم
 
خوشی ہوتی اگر آپ اپنی تحقیق میں قرآن کو بھی شامل کرتے. قرآن نے بہت سے مقامات پر شجروں کی نشاندھی کی ہے اور قرآن کی رو سے حضرت ابراہیم، آل نوح سے نہیں ہیں بلکہ وہ حضرت نوح پر ایمان لانے والوں میں سے کسی کی آل سے ہیں.
اسی طرح سوره بنی اسرائیل کی آیات ٢ اور ٣ میں ارشاد ہوتا ہے
ہم نے اِس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا ﴿۲﴾ تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا ﴿۳﴾

ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ آل یعقوب سے ہیں اور آل یعقوب، آل ابراہیم سے ہے. چنانچہ حضرت موسیٰ آل ابراہیم سے ہیں اور یہ آیات کہہ رہی ہیں کہ حضرت موسیٰ ان لوگوں کی اولاد میں سے ہیں جن کو حضرت نوح نے اپنے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا. تو حضرت ابراہیم حضرت نوح کے اولاد سے نہیں ہیں

اسی طرح سوره صفات کی آیات ٧٩ سے ٨٤ کہہ رہی ہیں کہ حضرت ابراہیم حضرت نوح پر ایمان لانے والوں کی اولاد سے تھے
تمام جہان میں (کہ) نوح پر سلام ﴿۷۹﴾ نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ﴿۸۰﴾ بےشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا ﴿۸۱﴾ پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا ﴿۸۲﴾ اور ان ہی کے پیرووں میں ابراہیم تھے ﴿۸۳﴾ جب وہ اپنے پروردگار کے پاس (عیب سے) پاک دل لے کر آئے ﴿۸۴﴾
یہ مضمون ہم نے تاریخ ابن کثیر سے دیکھ کر اتارا اور جس طرح اس میں نسب نامہ لکھا تھا ، ویسا ہی لکھ دیا
یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب میں زیادہ تر اسرائیلی روایات کا استعمال کیا گیا تھا کم از کم تاریخی معاملات میں
ہاجرہ {ع} کے بادشاہ کی کنیز یا بیٹی ہونے پر کافی بحث لکھی تھی اس کے علاوہ ابراہیم {ع} نے اپنے کونسے بیٹے کو قربانی کے لئے پیش کیا تھا ، وہ اسماعیل تھے یا اسحاق ۔ ۔ ۔ اور وہ تمام بحث جو لکھی تھی وہ کسی یہودی اور مسلمان کے درمیان کی نہیں تھی بلکہ وہ آپس میں اہل علم مسلمانوں کے درمیان تھی
نسب نامہ پر کسی قسم کا اختلافی نوٹس نہیں لکھا تھا ہاں البتہ ان کے والد کے نام پر دو طرح کے اقوال تھے ایک تارق اور دوسرا آزر ، اور وہ دونوں اقوال بھی مسلمانوں کے ہی لکھے تھے ، تھوڑا بہت یہاں بھی تحریر کیا تھا
ابراہیم {ع} نوح {ع} کی اولادوں میں سے تھے یا نہیں ، یہ الگ بحث ہے
تورات یا انجیل میں لکھا ہے کہ نوح {ع } کے ساتھ ان کے بیٹے ہی ساتھ تھے جن کے نام بھی لکھے ہیں اور اگر کوئی بات تورات یا انجیل کی قرآن سے نہ ٹکرائے ان روایات کو تاریخ دان استعمال کرلیتے ہیں ۔ ایسی ہی کوئی بات بھی اس کتاب میں لکھی تھی
اب آپ کے خیال سے ابراہیم {ع} کا نسب نامہ قرآن سے ٹکرا رہا ہے تو یہ بات غور طلب ہے
آپ نے قرآن کی دو جگہوں کا حوالہ دیا ہے
پہلا سوره بنی اسرائیل کی آیت 3
اور
دوسرا سوره صفات کی آیت 83 کا
میں اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ثابت کروں کہ ابراہیم نوح کی ہی اولادوں میں سے تھے ۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو سوره بنی اسرائیل کی آیت 3 کا ترجمہ لکھا ہے " تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا " وہ کیسے کیا
سوره بنی اسرائیل کی آیت
" ذُرِّيَّةَ مَنْ حَ۔مَلْنَا مَعَ نُ۔وْحٍ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَبْدًا شَكُ۔وْرًا "
اولاد _ جو ، جس _ ہم نے سوار کیا _ نوح کے ساتھ ۔ ۔ ۔ وہ _ تھا _ بندہ _ شکرگزار
اب نوح {ع} کے ساتھ جو سوار ہوئے تھے اس کی کوئی تفصیل نہیں لکھی وہ ان کے بیٹے بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ تورات یا انجیل میں لکھا ہوگا یا دوسرے بھی ہوسکتے ہیں { واللہ اعلم }
اب سوال یہ میرے ذہن میں آرہا ہے جب اللہ بنی اسرائیل کو نصیحت فرما رہا ہے تو ایک طرف تو وہ کہہ رہا کہ تم نوح کی اولاد میں سے نہیں مگر دوسری طرف نصیحت کر رہا ہے کہ تم نوح کی طرح شکرگزار بنو جیسے وہ تھے ۔ ۔ ۔ ایسا کیوں ؟
تفسیر احسن البیان جو دارالسلام والے چھاپتے ہیں اور حج کے بعد سعودی حکومت والے حاجیوں کو دیتے ہیں { کم از کم ہمیں ملی تھی } اس میں ان آیات کی تفسیر میں بھی لکھا ہے
" طوفان نوح کے بعد نسل انسانی نوح {ع} کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتی نوح میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ ، نوح {ع} اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا ۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد {ص} کو رسول بنا کر بھیجا ہے ، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو ۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوره صفات کی آیت 83
وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْ۔رَاهِ۔يْمَ
اور بےشک _ سے _ اس کے طریقے پر چلنے والے _ البتہ ابراہیم
صرف اتنا لکھا ہے ، اسے بھی دلیل نہیں بنایا جاسکتا کہ نوح کے نقش قدم پر چلنے والے ابراہیم ان کی اولاد میں سے نہیں ہوسکتے
واللہ اعلم
 

ابن آدم

محفلین
یہ مضمون ہم نے تاریخ ابن کثیر سے دیکھ کر اتارا اور جس طرح اس میں نسب نامہ لکھا تھا ، ویسا ہی لکھ دیا
یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب میں زیادہ تر اسرائیلی روایات کا استعمال کیا گیا تھا کم از کم تاریخی معاملات میں
ہاجرہ {ع} کے بادشاہ کی کنیز یا بیٹی ہونے پر کافی بحث لکھی تھی اس کے علاوہ ابراہیم {ع} نے اپنے کونسے بیٹے کو قربانی کے لئے پیش کیا تھا ، وہ اسماعیل تھے یا اسحاق ۔ ۔ ۔ اور وہ تمام بحث جو لکھی تھی وہ کسی یہودی اور مسلمان کے درمیان کی نہیں تھی بلکہ وہ آپس میں اہل علم مسلمانوں کے درمیان تھی
نسب نامہ پر کسی قسم کا اختلافی نوٹس نہیں لکھا تھا ہاں البتہ ان کے والد کے نام پر دو طرح کے اقوال تھے ایک تارق اور دوسرا آزر ، اور وہ دونوں اقوال بھی مسلمانوں کے ہی لکھے تھے ، تھوڑا بہت یہاں بھی تحریر کیا تھا
ابراہیم {ع} نوح {ع} کی اولادوں میں سے تھے یا نہیں ، یہ الگ بحث ہے
تورات یا انجیل میں لکھا ہے کہ نوح {ع } کے ساتھ ان کے بیٹے ہی ساتھ تھے جن کے نام بھی لکھے ہیں اور اگر کوئی بات تورات یا انجیل کی قرآن سے نہ ٹکرائے ان روایات کو تاریخ دان استعمال کرلیتے ہیں ۔ ایسی ہی کوئی بات بھی اس کتاب میں لکھی تھی
اب آپ کے خیال سے ابراہیم {ع} کا نسب نامہ قرآن سے ٹکرا رہا ہے تو یہ بات غور طلب ہے
آپ نے قرآن کی دو جگہوں کا حوالہ دیا ہے
پہلا سوره بنی اسرائیل کی آیت 3
اور
دوسرا سوره صفات کی آیت 83 کا
میں اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ثابت کروں کہ ابراہیم نوح کی ہی اولادوں میں سے تھے ۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو سوره بنی اسرائیل کی آیت 3 کا ترجمہ لکھا ہے " تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا " وہ کیسے کیا
سوره بنی اسرائیل کی آیت
" ذُرِّيَّةَ مَنْ حَ۔مَلْنَا مَعَ نُ۔وْحٍ ۚ اِنَّهٝ كَانَ عَبْدًا شَكُ۔وْرًا "
اولاد _ جو ، جس _ ہم نے سوار کیا _ نوح کے ساتھ ۔ ۔ ۔ وہ _ تھا _ بندہ _ شکرگزار
اب نوح {ع} کے ساتھ جو سوار ہوئے تھے اس کی کوئی تفصیل نہیں لکھی وہ ان کے بیٹے بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ تورات یا انجیل میں لکھا ہوگا یا دوسرے بھی ہوسکتے ہیں { واللہ اعلم }
اب سوال یہ میرے ذہن میں آرہا ہے جب اللہ بنی اسرائیل کو نصیحت فرما رہا ہے تو ایک طرف تو وہ کہہ رہا کہ تم نوح کی اولاد میں سے نہیں مگر دوسری طرف نصیحت کر رہا ہے کہ تم نوح کی طرح شکرگزار بنو جیسے وہ تھے ۔ ۔ ۔ ایسا کیوں ؟
تفسیر احسن البیان جو دارالسلام والے چھاپتے ہیں اور حج کے بعد سعودی حکومت والے حاجیوں کو دیتے ہیں { کم از کم ہمیں ملی تھی } اس میں ان آیات کی تفسیر میں بھی لکھا ہے
" طوفان نوح کے بعد نسل انسانی نوح {ع} کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتی نوح میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ ، نوح {ع} اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا ۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد {ص} کو رسول بنا کر بھیجا ہے ، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو ۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوره صفات کی آیت 83
وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْ۔رَاهِ۔يْمَ
اور بےشک _ سے _ اس کے طریقے پر چلنے والے _ البتہ ابراہیم
صرف اتنا لکھا ہے ، اسے بھی دلیل نہیں بنایا جاسکتا کہ نوح کے نقش قدم پر چلنے والے ابراہیم ان کی اولاد میں سے نہیں ہوسکتے
واللہ اعلم


پہلی بات کیونکہ ہم حضرت ابراہیم کو اسرائیلی روایات کے تحت حضرت نوح کی اولاد مانتے ہیں. جبکہ حضرت نوح کے بارے میں بھی الله نے کہا کہ ان کا ایک بیٹا فوت ہو گیا تھا، ان کے کتنے بیٹے ایمان لائے تھے اس کے بارے میں قرآن کچھ نہیں کہتا جبکہ اسرائیلی روایات تو کسی بیٹے کے فوت ہونے کا نہیں بتاتیں جس سے یہی تاثر ملتا ہے قرآن ان اسرائیلی روایات کی نفی کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں.
یہاں پر بھی اِنَّهٗ كَانَ عَبۡدًا شَكُوۡرًا‏ کے الفاظ ہیں. اور واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور یہ صیغہ اس سوار کے لئے استعمال ہوا ہے جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا ہے. نہ کہ حضرت نوح کے لئے.
اس کی مثال انگریزی میں ایسی دی جا سکتی ہے جیسے کہا جائے کہ
Nooh has a friend. He is a good cricket player
یہاں پر کرکٹ کا کھلاڑی نوح کو نہیں کہا گیا بلکہ نوح کے دوست کو کہا گیا ہے.

میں نے حضرت زکریا کی دعا پر جو مضمون لکھا ہے اس میں بھی اسی میں بھی شجروں پر تھوڑی سی بات کی ہے
 
Top