کوئی ایک اچھی سی بات جو آج آپ نے پڑھی شئیر کیجیے

زنیرہ عقیل

محفلین
کوئی ایک اچھی سی بات جو آج آپ نے پڑھی شئیر کیجیے
----------------------------------------------------------
ﺟﺐ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﯿﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ
ﮐﯽ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ
ﮐﯿﺴﮯ
ﭘﺮ ﺁﮐﺮ ﺭﮎ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ
ﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯽ ﮐﻞ ﺷﺊ ﻗﺪﯾﺮ
ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ​
 

شمشاد خان

محفلین
جب آنسو نکل آتے ہیں ناں، تو ان میں صرف نمک اور پانی ہی نہیں ہوتا۔
ان میں ماضی کی تکلیفیں، حاک کا دکھ درد، اپنوح کے ستم، چاہنے والوں کے بے اعتباری، کبھی نہ لوٹ کر آنے ولاوں کا غم، وعدوں کی پامالی اور نہ جانے کیا کیا احساسات اور جذبات چھپے ہوتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
سرشارؔ وہ کیوں کر کہتے ہیں ہم قوم و وطن کے خادم ہیں
ڈالے نہ گئے جو زنداں میں جکڑے نہ گئے جو سلاسل میں
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی کی خوبیوں کے بارے میں سوچیں بجائے ان چیزوں کے بارے میں جو ہماری ہاتھ میں نہیں، اور جن کا ہمارے پاس کوئی حل بھی نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات رحمت للعالمین ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدحت و ثناء خوانی جہاں مسلمانوں کا شعار رہی ہے، وہیں کچھ ایسے غیر مسلم شعراء بھی ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں بہت عمدہ نعتیہ کلام لکھے۔ خصوصاً بھارتی شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے اس سلسلے میں لافانی اشعار حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں کہے،

ہم کسی دین سے ہوں صاحبِ کردار تو ہیں
ہم ثناء خوانِ شہء حیدرِ کرار تو ہیں
نام لیوا ہیں محمد کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبور پئے احمدِ مختار تو ہیں


عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہ اجارہ تو نہیں
 

سیما علی

لائبریرین
برگِ درختانِ سبز ، در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست ز معرفت کردگار (سعدیؒ)
اے خدا! میں اس بے سوزوگداز زندگی سے عاجز آگیا ہوں یا تو مجھے وہ آنکھ عطا کر جو تجھے دیکھ سکے یا پھر اس ''جانِ بے دیدار'' کو مجھ سے واپس لے لے۔ تو نے مجھے عقل دی ہے، تو عشق (جنون) کی دولت بھی عطا فرما تاکہ میں مقصدِ حیات میں کامیاب ہو سکوں۔
اقبالؒ ، علم اور عشق کا مختصر موازنہ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ علم کا مقام ذہن یا سوچ بچار ہے لیکن عشق کا مقام قلب ہے ، جو ہمیشہ بیدار رہتا ہے۔
''قلب لانیام'' وہ قلب جو کبھی نہ سوئے اس لئے اقبالؒ دل کی بیداری کی طرف اشارہ کرتے ہیں کیونکہ جب عاشق '' واذکرواللہ کثیراً'' پر عمل کرتا ہے تو ذکرِ الٰہی کی برکت بلکہ تاثیر سے اس کا دل جاری ہو جاتا ہے یعنی خواہ وہ کسی حال میں ہو، اس کا دل ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے۔ اس کو صوفیاء اپنی اصطلاح میں ''دل کا جاری ہو جانا'' کہتے ہیں اور اقبالؒ اس کو دل کے زندہ ہوجانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں:
دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
 

سیما علی

لائبریرین
اسلام کا تصور علم
علم کی تعریف
فنی اعتبار سے علم کا مادہ ’’ع ل م،، ہے جس کے معنی ’’جاننا،، کے ہیں گویا :

اَلْعِلْمُ اِدْرَاکُ الشَّيئِ بِحَقِيْقَتِه.

’’علم کسی شے کو اس کی حقیقت کے حوالے سے جان لینے کا نام ہے۔،،

یعنی علم ایک ایسا ذہنی قضیہ اور تصور ہے جو عالم خارج میں موجود کسی حقیقت کو جان لینے سے عبارت ہے۔ علم کا اطلاق ایسے قضیے پر ہوتا ہے جو محکوم اور محکوم بہ پر مشتمل ہو اور جس کے متوازی خارج میں ایسی ہی حقیقت موجود ہو جیسی قضیے میں بیان ہوئی ہو، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر قضیہ علم نہیں ہو سکتا، وہی قضیہ علم کہلائے گا جو کلی اور وجوبی ہو اور موجود خارج کے حوالے سے صحت کا مصداق ہو۔

ارکان علم
مندرجہ بالا تعریف کے مطابق علم کے ارکان کی تعداد چار ہے۔

1۔ ناظر (OBSERVER)
جو شخص علم کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ ناظر کہلاتا ہے۔ یہ امتیاز اور درجہ اشرف المخلوقات یعنی حضرت انسان کو حاصل ہے۔ اسے معروف اصطلاح میں طالب علم بھی کہتے ہیں، یعنی کچھ جاننے کی جستجو میں رہنے والا طالب علم کہلاتا ہے۔ علم ایک بحر بیکراں ہے۔ کوئی شخص کلی علم حاصل کر لینے کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ علم کا طالب جب کچھ نہ کچھ جان لے تو اسے عالم کہا جا سکتا ہے۔

2۔ منظور (OBJECT)[L : 3]
منظور وہ شے ہے جسے جانا جا رہا ہو۔ اس سے مراد کوئی حقیقت (Reality) ہوسکتی ہے، خواہ یہ عقلی وجود رکھتی ہو یا حسی۔ یہ کائنات رنگ و بو اور اس کے مادی اور غیر مادی موجودات و حقائق منظور کا درجہ رکھتے ہیں۔

3۔ استعداد نظر (OBSERVING CAPABILITY)
اس سے مراد یہ ہے کہ ناظر جو مشاہدہ (Observation) کر رہا ہے اس میں کسی چیز کو جاننے کی صلاحیت اور اور استعداد کس قدر موجود ہے۔ علم کا یہ تیسرا رکن ہے۔ اگر منظور (وہ حقیقت جس کے بارے میں جانا جا رہا ہو) حسی نوعیت کی ہو تو ناظر کو حواس خمسہ کی استعداد حاصل ہونی چاہئے تاکہ وہ حواس خمسہ سے اس چیز کو اپنے حیطہ ادراک میں لے سکے۔ اس کے برعکس اگر منظور (Object) عقلی نوعیت کا ہو تو ناظر میں استعداد عقلی کا ہونا ضروری ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اسلام میں حسن اخلاق کی اہمیت و فضیلت

حسن اخلاق کی قرآن و حدیث میں بڑی اہمیت و فضیلت وارد ہوئی ہے۔ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ بروز قیامت ترازو میں سب سے زیادہ وزنی بہتر اخلاق ہوگا۔ اچھے اخلاق کے حاملین کے لئے بشارت بھی ہے۔ اچھا اخلاق ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے انسان لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرسکتاہے۔ آپ ﷺ نے پورے دین کی خدمت اپنے اسی اخلاق کریمانہ سے کی ہے۔ آپﷺ پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ پتھر مار کرسر سے پاؤ ں تک لہو لہان کردیاگیا ، گلے میں رسی ڈال مارنے کی کوشش کی گئی لیکن آپ ﷺ نے اخلاق فاضلہ کا دامن نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ جس طرح امام الانبیاء و امام الرسل تھے، اسی طرح آپ ﷺ اخلاق وکردار کے سب سے افضل اور بلند معیار پر فائز تھے۔ آپ نے اپنے اخلاق کریمانہ کے ذریعہ پوری دنیا کو فتح کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے بتایاکہ نبی کریم ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ خادم رسول انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے بنی کریم ﷺ کی10برسوں تک خدمت کی آپ نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا۔اور نہ میرے کسی کام کے بارے میں کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہیں کیا اس کے بارے میں کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں نہیں کیا؟ عبداللہ بن عمروبن عاصؓکا بیان ہے کہ آپ نہ تو فحش گوئی کرنے والے تھے اور نہ فحش گوئی کو پسند کرتے تھے۔آپ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ شریفانہ اخلاق سے پیش آتے تھے اور نہایت بلند مقام ومرتبہ کے باوجود تواضع اور بردباری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب کسی سے ملتے تو خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے ملتے۔ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے، یتیموں اور غریبوں کے ساتھ مل کر بیٹھتے، گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے اور لوگوں کے ساتھ رحم دلی اور جود وسخا کا معاملہ فرماتے تھے۔
 

احسن جاوید

محفلین
وقت کی لہریں کبھی کبھی انسان کو اس جزیرے پر لا پھینکتی ہیں جہاں اس کے پاس سب کچھ موجود ہوتا ہے جس کی اس نے کبھی آرزو کی تھی مگر اپنا آپ نہیں ہوتا! اپنے آپ اور سب کچھ کا in phase ہونا کتنا ضروری ہے اس کی حقیقت اس جزیرے کے سوا کون کھول سکتا تھا. تبھی تو انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وقت میں کتنا پیچھے رہ گیا. وقت ہی تو وہ سب کچھ تھا جو اس کہانی میں اہم تھا، باقی سب کچھ وہم تھا! اہم کسی کے نام ہو گیا کہ یہ فیز کے چکر کے سوا کچھ نہ تھا، وہم ہمارے حصے میں آگیا!
 

سیما علی

لائبریرین
اپنے رب سے اپنی ضرورتوں یا خواہشوں کو مانگنا غلط نہیں ہے مگر اسکی عطا کردہ نعمتوں کا صدق دل سے شکر کرنا ہمیں اپنے خالق سے ایک زندہ تعلق و محبت فراہم کرتا ہے جو از خود ایک بہت بڑی عطا ہے...
یاد رکھیں ناشُکری کے سوراخ لالچ کے پیالے کو کبھی بھرنے نہیں دیتے ، یااللّہ ہر حال تیرا شُکر بجا لانے کی توفیق عطا فرما۔
الحمداللّہ
الحمداللّہ کثیرا
الحمداللّہ رب العالمین
الحمداللّہ علی کل حال
الحمداللّہ
آمین آمین آمین یا کریم
 

سیما علی

لائبریرین
قائد اعظم کا ہم پر احسان ہے

شکریہ جناب قائد بے حساب شکریہ آپکی سالگرہ کے موقعہ پہ اظہارِ تشکر


کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں اور ان میں سے اور بھی بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں، انہی میں سے قائداعظم محمد علی جناح بھی ہیں۔برصغیر کے مسلمانوں کو قائداعظم محمد علی جناح کی شکل میں ایسا رہبر میسر آیا جس نے اپنی عقل و دانشمندی سے مسلمانوں کو آزاد مملکت دی جس میں ہم الحمدللہ آزادی کی سانس لے رہے ہیں۔
ہمارا فرض ہے کہ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کے افکار کے مطابق عمل کرکے ترقی کے سفر پر گامزن ہوا جائے۔
 

تبسم

محفلین
ﺧﻠﻮﺹ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﻟﮍﺗﮯ ﻟﮍﺗﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺑﻘﺎ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﮧ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺩﻻﺳﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﺗﻮﮌ ﭘﮭﻮﮌ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﭼﭩﺎﻥ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﻟﻮﮔﻮ ۔۔ ! ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮮ ﮮ ۔۔۔
ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯽ ﺻﺪﺍ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﻟﻮﮔﻮ ۔۔ ! ﮨﻢ ﺍﺟﮍ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺟﮍ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ۔۔۔
ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﺷﺎﺥ ﺳﮯ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺮﺍ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﻭﺭﻧﮧ ﺧﺰﺍﮞ ﺳﺎﺭﺍ ﺷﺠﺮ ﺍﺟﺎﮌ ﺩﮮ ﮔﯽ ۔۔ !
ﺍﺯ ﻗﻠﻢ :: ﺑﯿﻨﺎ ﺑﻨﺖ ﺁﺩﻡ
ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ :: ﻋﻤﯿﺮﮦ ﺍﺣﻤﺪ
 

شمشاد

لائبریرین
یہ فیس بک سے کاپی کر کے یہاں لگا دیا ہے ناں۔

اس کا فونٹ تو تبدیل کر لیا کرو۔
 
آخری تدوین:
Top