بند کلیاں کھلتے گلاب

بزم خیال

محفلین
گلشن میں جب بہار آئے ۔آسمان سے چھم چھم بادل برستا جائے ۔ہوائے گردو غبار تمازت آفتاب سے سمٹتی جائے۔آنکھوں میں بنتے موتی آنسو بن چھلکتے جائیں۔لفظ اپنی ہی زباں میں اجنبیت کا رنگ پائیں تو کہکشاں سے روشنیاں کھلی نگاہوں سے نہ نظریں چار کر پائیں۔
کون کس سے مخاطب ہے ؟لفظ کس سے آشنا ہیں؟قلم تو ندی ہے جس کے راستوں پر تحریر کی روانی میں خیالات کا پانی بہتا ہے۔چند پلوں پر کھڑے تکتے رہتے ہیں۔چند کشتیوں میں یہاں سے وہاں اتر جاتے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ یہاں ڈوبے تو وہاں نکلے وہاں ڈوبے تو یہاں نکلے۔
آبشاریں ندی نالے دریا و سمندر ایک قطرہ سے ہی موج و طلاطم برپا کرتے ہیں اور قلم سیاہی ایک نقطہ سے ہی علم و دانش کے گراں قدر کتب انبار میں ڈھل جاتے ہیں۔حسن عشق کے انتظار میں ڈھلنے سے پہلے سہما رہتا ہے۔ جوانی طاقت کے نشہ میں بڑھاپے کے خوف کے انتظار میں ڈری رہتی ہے۔علم بڑائی کے نشہ میں ناموری کی خواہش پر اٹکا رہتا ہے۔غربت امارت پانے کی تگ و دو میں بہکتی رہتی ہے۔امارت تکبر کے مینار پر جھکنے سے لرزاں رہتی ہے۔انسان قول و فعل کے تضادات کی گھتیاں سلجھاتے راہ حق و باطل کی پگڈنڈیوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔ کسی کو نظریں اپنا بنا لیتی ہیں۔کوئی نظر میں گر جاتا ہے۔کوئی سیدھا دل میں اُتر جاتا ہے تو کوئی وہاں انگار بھر دیتا ہے۔کوئی بندھن کے دھاگوں میں جکڑا ہے تو کوئی بندش کے رشتوں میں۔دیکھنے والے محرم ہو جاتے ہیں چھپنے والے بیگانے۔چیختی سسکیوں پر رنجیدہ ہو جاتے ہیں تو چنگھاڑتی آوازوں سے خوفزدہ۔دولت کے دیوتا پجاریوں کی تسکین انا سے اکڑ کر رہتے ہیں۔جو غلافوں میں لپٹے چڑھاوے پا کر من کے مندر کی گھنٹیاں بجاتے ہیں۔جہاں رعونت کے پہاڑوں کے نیچے سرفروشی کے کفن میں لپٹی اُمنگیں دفن ملتی ہیں۔
یہ پیاروں کی دنیا ہے جہاں صرف چاہت اقرار کافی نہیں۔لفظ کہنے سے نہیں مفہوم واضح ہونا شرط ہے۔سو صفحات پر دس ہزار س چ لکھنے سے کوئی سچ لکھنے والا نہیں کہلا سکتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
کوئی نظر میں گر جاتا ہے۔کوئی سیدھا دل میں اُتر جاتا ہے تو کوئی وہاں انگار بھر دیتا ہے۔کوئی بندھن کے دھاگوں میں جکڑا ہے تو کوئی بندش کے رشتوں میں۔دیکھنے والے محرم ہو جاتے ہیں
کیا بات ہے نین بھیا یہ ایسا سچ ہے جو محسوس کیا جاتاہے ۔کوئی لمحوں میں نظر سے گر جاتاہے اور اُسکے برعکس کوئی دل میں اُتر کے دل اُتر کر ایسا سماتا ہے کہ۔ جاتا ہی نہیں ہے۔۔کہیں رشتے سمجھوتوں کی بھینٹ چڑھ گئیے۔ اور کچھ ایسے مقدس کہ کوئی رشتہ نہیں ہوتے رشتہ تقدس پہ بال بھی نہیں آنے دیتے آپ اُن سے دنیا کہ ہر موضوع بات لرتے ہیں اور آنچ بھی نہیں آنے دیتے۔لیکن پھر وہی بات ہر ایک کے ساتھ نہیں یہ وہ بات ہے جو سمجھائی نہیں جاتی سمجھی جاتی ہے ۔۔بہت ساری دعائیں جیتے رہئیے یہ سب پڑھ کے یہ یاد آگیا؀

دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا!!
آج پھر اس کی روبکاری ہے
 
آخری تدوین:

بزم خیال

محفلین
کیا بات ہے نین بھیا یہ ایسا سچ ہے جو محسوس کیا جاتاہے ۔کوئی لمحوں میں نظر سے گر جاتاہے اور اُسکے برعکس کوئی دل میں اُتر کے دل اُتر کر ایسا سناتا ہے کہ۔ جاتا ہی نہیں ہے۔۔کہیں رشتے سمجھوتوں کی بھینٹ چڑھ گئیے۔ اور کچھ ایسے مقدس کہ کوئی رشتہ نہیں ہوتے رشتہ تقدس پہ بال بھی نہیں آنے دیتے آپ اُن سے دنیا کہ ہر موضوع بات لرتے ہیں اور آنچ بھی نہیں آنے دیتے۔لیکن پھر وہی بات ہر ایک کے ساتھ نہیں یہ وہ بات ہے جو سمجھائی نہیں جاتی سمجھی جاتی ہے ۔۔بہت ساری دعائیں جیتے رہئیے یہ سب پڑھ کے یہ یاد آگیا؀

دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا!!
آج پھر اس کی روبکاری ہے
بالکل سچ کچھ ایسا ہی ہے
دعاؤں کے سائے میں سلامت رہیں
 
Top