چائے کی پیالی کے پیچھے دردناک کہانی

سیما علی

لائبریرین
علی الصباح یہ پڑھ کے آپ دونوں یاد کیا پھر سوچا کہ آپ لوگوں سے شئیر کیا جائے

چائے کی پیالی کے پیچھے دردناک کہانی

8 ستمبر 2015
150727121123_cup_of_tea_624x351_getty.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY

،تصویر کا کیپشن
چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کے لیے نہ صرف سہولیات کا فقدان ہے بلکہ ان کی اجرتیں بھی کم ہیں

برطانیہ میں استعمال ہونے والی کئی بڑی چائے کی کمپنیوں کی جانب سے چائے کے باغات والے علاقوں کے حالات بہتر بنانے میں کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ چائے کی ان کمپنیوں میں بڑے بڑے نام جیسے پی جی ٹپس، ٹیٹلی، اور ٹواننگس شامل ہیں۔

اس بات کی یقین دہانی بی بی سی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد کرائی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد خطرناک اور غیر انسانی ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ہیرڈز نے چائے کی کچھ مصنوعات کی فروخت بند کر دی ہے، جبکہ ضابطہ اخلاق کی پیروی کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والی تنظیم ’رین فارسٹ‘ نے تسلیم کیا ہے کہ اس تحقیق کے ذریعے ان کے جانچ پڑتال کے طریقہ کار میں رہ جانے والے سقم سامنے آئے ہیں۔

بی بی سی کے ریڈیو فور کے دستاویزی پروگرام فائل آن فور اور بی بی سی نیوز کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں پتہ چلا کہ بھارت کے شمال مشرقی حصے آسام میں لوگ گندے اور ٹوٹے پھوٹے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ کئی خاندانوں کو بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں ہے اور وہ رفع حاجت کے لیے چائے کی جھاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کے لیے نہ صرف سہولیات کا فقدان ہے بلکہ ان کی اجرتیں بھی اتنی کم ہیں کہ وہ اور ان کے اہل خانہ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ ان ملازمین میں مہلک بیماریوں کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

اور پھر وہ کارکن جو کیمیائی مواد کا چھڑکاؤ کرتے ہیں ان کے لیے کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں ہوتے اور ان کی صحت کو درپیش خطرات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چند ریاستوں میں بچوں سے بھی مزدوری لی جاتی ہے۔

بیت الخلا کی ناکافی سہولت
150908082430_india_tea_assam_624x351_bbc_nocredit.jpg

،تصویر کا کیپشن


بھارت میں باغات کے مالکان قانون کے تحت ملازمین کے لیے بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت سے مزین ’مناسب‘ رہائشی انتظامات کرنے کے پابند ہیں۔

اس کے باوجود بھی چائے کے باغات میں گھروں کی حالت انتہائی بوسیدہ ہے، جن کے چھتیں ٹپکتی ہیں، جبکہ سیلن زدہ دیواروں میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ زیادہ تر بیت الخلا یا تو نکاسیِ آب نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں یا ٹوٹ چکے ہیں۔

وہااں کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ سے بار بار درخواست کے بعد بھی گھروں کی مرمت نہیں کی جاتی اور کبھی کبھی تو کئی سال لگ جاتے ہیں۔

نالیاں کھلی ہوئی ہونے اور گندگی بھر جانے کے باعث استعمال کے قابل نہیں ہیں۔ جبکہ کچھ بدرو ابل ابل کر بہہ رہی ہیں جن کی وجہ سے فضلے والا پانی ملازمین کی رہائش گاہوں تک پہنچ رہا ہے۔
زیادہ تر گھروں میں بجلی کی سہولت نہیں ہے جبکہ ایک جگہ تو حالات اتنے خراب ہو گئے کہ کارکن برساتی نالی کا پانی پینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

چائے کی پیداوار کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی میک لاؤڈ رسل کے باغات کے مینیجر نے تسلیم کیا کہ ’وسیع پیمانے پر مرمت کا کام‘ کرنے کی ضرورت ہے۔

مک لاؤڈ رسل کے آسام کے باغات سے چائے کی بڑی کمپنیوں جیسے پی جی ٹپس، لپٹن، ٹیٹلی اور ٹوائننگس کو چائے کی ترسیل کی جاتی ہے۔

کارکنوں کو درپیش صورت حال کو ’ناقابل قبول‘ گردانتے ہوئے مینیجرنے بتایا کہ وہاں 740 گھروں کے لیے صرف 464 بیت الخلا موجود ہیں۔

150908082324_india_tea_assam_624x351_bbc_nocredit.jpg

،تصویر کا کیپشن


بھارت میں چائے کی ایسوسی ایشن کے آسام کے سربراہ اور بھارت میں چائے کی کاشت کرنے والوں کے نمائندے نے بھی تسلیم کیا ہےکہ سہولیات معیار سے گری ہوئی ہیں۔

بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے سندیپ گھوش نے کہا کہ ’کھلی نالیوں میں فضلہ نہ میرے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی ایسوسی ایشن کے لیے۔ ان مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔‘

غذائیت کی کمی
زیادہ تر بھارتی مایوس کن صورت حال میں رہ رہے ہیں جبکہ بھارت کا قانون کہتا ہے کہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد کے لیے مناسب مکان اور صفائی ستھرائی ان کی اجرت میں شامل ہے۔

اس صنعت میں سب سے کم اجرت دینے کے لیے چائے کے باغات کے مالکان کی جانب سے یہی جواز دیا جاتا ہے۔ آسام کے چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کی روزانہ کی اجرت 115 روپے ہے جو ایک برطانوی پاؤنڈ کے برابر ہے۔ یہ رقم آسام میں کم سے کم اجرت کی حد 117 روپیہ سے بھی کم ہے۔

چائے کے باغات میں کم اجرت اور ابتر رہائشی صورت حال میں رہنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

مختلف تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں جو بھارت کے اپنے مایوس کن معیار سے بھی بہت کم ہے۔

علاقے میں کام کرنے والے بڑے جنرل ہسپتال آسام میڈیکل کالج کے میڈیکل ڈائریکٹر کے مطابق ان باغات میں کام کرنے والے دس مریضوں میں سے نو غذائیت کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔

پروفیسر اے کے داس کہتے ہیں کہ غذائیت میں کمی اور کمزوری کے باعث ان ملازمین اور ان کے اہل خانہ میں ناقص صفائی کے ماحول سے متاثرہ بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

150908082451_india_tea_assam_624x351_bbc_nocredit.jpg

،تصویر کا کیپشن


انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر مریض ’غریب علاقوں کی بیماریوں‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ جن میں دست، ناک اور گلے کا انفیکشن، جلدی بیماریاں، اور خطرناک بیماریاں، تپِ دق اور گردن توڑ بخار شامل ہیں۔

انھوں نے ایک بار بار دہرائی جانے والی المناک صورت حال بھی بیان کی کہ بچے کمزورحالت میں غذا کی کمی کا شکار ہو کر آتے ہیں اور قابل علاج بیماری سے ٹھیک ہونے کے لیے بھی انھیں جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اور جب وہ ہسپتال سے جاتے ہیں تو دوبارہ اسی حالت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

بچوں سے غیر قانونی مزدوری کروانا
اور پھر بی بی سی نے تکلیف دہ صورت حال دریافت کی۔

مشہور چائے کے باغات ڈومر ڈولنگ میں ایک 14 سالہ بچی چائے کے پتیاں چن رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ دو ماہ سے وہاں پورے دن کی ملازمت کر رہی ہیں۔

ڈومر ڈولنگ کے باغات کی مالک آسام کمپنی کا شمار دنیا کی چند سب سے پرانی کمپنیوں میں ہوتا ہے جو ٹوائن ننگس، یارک شائر ٹی، ہیرڈز اور فورٹنم اینڈ میسن کو چائے فراہم کرتی ہے۔

دو دیگر بچوں نے بھی بتایا کہ وہ آسام کمپنی ہی کے باغات میں نو عمری سے ہی پورے دن کی ملازمت کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بچوں سے مزدوری لینے کے بارے میں اقوام متحدہ کے قوانین میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں سے پورے دن کی مزدوری کی ممانعت ہے۔

نقصان دہ کیمیائی مواد سے بچاؤ کے ناکافی حفاظتی انتظامات
150908082410_india_tea_assam_624x351_bbc_nocredit.jpg

،تصویر کا کیپشن


چائے کے کچھ باغات میں صحت کے ناکافی حفاظتی انتظامات دیکھنے میں آئے۔

آسام کمپنی کے زیر انتظام چائے کے کچھ باغات میں کارکنوں کو کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤ کے وقت وہ حفاظتی آلات بھی مہیا نہیں کیے جاتے جو قانون کے تحت انھیں ملنے چاہییں۔

ان کارکنوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ سال میں ایک بار حفاظتی سامان مہیا کیا جاتا ہے لیکن تقریباً دو ماہ ہی میں بدلنے کے قابل ہوجانے کے باوجود انھیں تبدیل نہیں کیا جاتا۔

نقصان دہ کیمیائی مواد کے جو مضر صحت علامات سامنے آئی ہیں ان میں سانس لینے میں دشواری، چہرے اور ہاتھوں کا سُن ہو جانا، جلد پہ جلن کی شکایت اور بھوک کا نہ لگنا شامل ہیں۔

مک لاؤڈ رسل کے کچھ باغات میں کارکنوں نے کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کرتے وقت حفاظتی کوٹ تو پہن رکھے تھے لیکن اس کے علاوہ دیگر کوئی حفاظتی سامان ان کے پاس نہیں تھا۔

پروفیسر داس نے بتایا کہ روزانہ ہی ان کے پاس کیڑے مار ادویات کے شکار مریض آتے ہیں۔

ادھر آسام کمپنی نے بی بی سی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو ’بے بنیاد اور جھوٹا‘ قرار دیا ہے۔

مک لاؤڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ کارکنوں کے لیے مناسب رہائشی اورحفاظتی انتظامات ان کے ادارے کی اولین ترجیح ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو حفاظتی آلات مفت مہیا کرتے ہیں جنھیں استعمال کرنے کے لیے وہ تربیت یافتہ ہیں اور ان آلات کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اکثر معائنہ کیا جاتا ہے۔

150908082234_india_tea_assam_624x351_bbc_nocredit.jpg

،تصویر کا کیپشن


رہائشی حصوں تک رسائی پر پابندی
قانون کی طرف سے چائے کے باغات میں کام کرنے والے کارکنوں کے رہائشی حصوں تک یقینی رسائی کی اجازت کے باوجود باغات کی انتظامیہ کی جانب سے ان جگہوں پر سخت پہرہ ہوتا ہے۔

ان باغات میں کام کرنے والے کارکن ان پابندیوں کے آگے مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان باغات کی انتظامیہ ان کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر حاوی ہوتی ہے۔ رہائشی حصوں تک رسائی کے قانون کا مقصد یہی ہےکہ وہاں کا معائنہ کر کے ان افراد کی فلاج و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔

اس کے باوجود بھی بی بی سی کے عملے کو مک لاؤڈ رسل کے باغات میں ملازمین کے رہائشی حصوں میں داخل ہونے سے نہ صرف روک دیا گیا تھا بلکہ بی بی سی کے عملے کو فیکٹری کے اندر ہی کچھ دیر کی لیے قید بھی کر دیا گیا تھا۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ آسام میں چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد کو ضروریات زندگی کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔

گذشتہ سال جنوری میں کولمبیا لا سکول کے ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ نے ٹیٹلی ٹی بنانے والے ٹاٹا کے چائے کے باغات کے بارے میں ایک اہم تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی۔

اس تحقیق میں کہا گیا تھا کہ وہاں جو ’غیر انسانی‘ اور ’تکلیف دہ‘ صورت حال ہے، پوری صنعت اس کا شکار ہے۔

ٹاٹا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے باغات میں ’ کئی معاشرتی سطح کے سنگین مسائل‘ کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے ملازمین کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

150908082348_india_tea_assam_624x351_bbc_nocredit.jpg

،تصویر کا کیپشن


بی بی سی کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر مسائل پر بات کرتے ہوئے ٹاٹا نے کہا کہ وہ اپنی اس صنعت سے وابستہ تمام لوگوں کے ساتھ ’منصفانہ اور اخلاقی‘ سلوک کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایتھیکل ٹی پارٹنرشپ (ای ٹی پی ) کے ساتھ ان کی رکنیت چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے ان کے ارادےکا منھ بولتا ثبوت ہے۔

ایتھیکل ٹی پارٹنرشپ، چائے کی صنعت میں کام کرنے والے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے برطانیہ کی چائے کی کمپنیوں جانب سے قائم کی گئی ہے۔

اے ٹی پی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارا رابرٹس نے ٹوائننگس کی جانب سے بھی بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس ادارے کے اراکین چائے کی کاشت والے علاقوں ’ کو درپیش مسائل سے آگاہ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ایتھیکل ٹی پارٹنرشپ ان باغات میں کام کرنے والوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے اس صنعت کے ساتھ مل کر مشترکہ کوششیں کر رہی ہے۔ رابرٹس نے کہا کہ ہماری توجہ اس صنعت میں مجموعی طور پر بہتری لانے پر ہے تاکہ ’ہر ایک کی زندگی بہتر ہو جائے خواہ اس کا تعلق بھارت سے ہو یا کہیں اور سے۔‘

فورٹنم اینڈ میسن کا کہنا ہے کہ ان باغات میں کام کرنے والوں کی بہتری ’سب سےاہم‘ ہے۔ فورٹنم اینڈ میسن کے مطابق ان کی چائے کی تمام مصنوعات ایتھیکل ٹی پارٹنرشپ کے زیر سایہ تیار ہوتی ہیں۔

150730051938_tea.jpg

،تصویر کا ذریعہBBC WORLD SERVICE

،تصویر کا کیپشن
پی جی ٹپس اور لپٹن کی مالک کمپنی یونی لیور کا کہنا ہے کہ وہ بی بی سی کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں

پی جی ٹپس اور لپٹن کی مالک کمپنی یونی لیور کا کہنا ہے کہ وہ بی بی سی کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، لیکن ان پر تو پہلے ہی کام ہو چکا ہے۔

تاہم کمپنی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ’ابھی بھی وہاں معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ ’چائے فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ذمہ دارانہ اور پائیدارانتظامات کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

ہیرڈز کا کہنا ہے کہ بی بی سی کی تحقیقی رپورٹ سامنے آنے کے بعد انھوں نے ڈومر ڈلنگ کی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتایا کہ رواں سال انھوں نے چائے کے کسی باغ سے خریداری کی ہی نہیں۔

اسی دوران یارک شائر ٹی بنانے والے ٹیلرز آف ہیروگیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ادارے کو بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج پر ’شدید تشویش‘ ہے اور وہ ’اس معاملے کی ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

بی بی سی کی جانب سے جن چائے کے باغات کا دورہ کیا گیا ان تمام باغات کو رین فارسٹ الائنس کی جانب سے ’فراگ سیل‘ سے نوازا گیا ہے جو مشہور چائے کے ڈبوں پر لگی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔

رین فارسٹ الائنس ایک نجی ادارہ ہےجس کا دعویٰ ہے کہ وہ مختلف النوع حیاتیاتی نظام کو محفوظ بنانے اورلوگوں کے لیے محفوظ ذریعہ معاش کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی فراگ سیل یعنی مینڈک کی شکل کی مہر ثبت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کاروبار ان باغات میں کام کرنے والے ’ملازمین، ان کے اہل خانہ اور مقامی افراد کے تحفظ کے لیے‘ طے کیے گئے ’سخت معیار‘ کے مطابق ہے۔

150707153331_tea_plantation_workers_in_lanka_640x360_bbc_nocredit.jpg

،تصویر کا کیپشن


ایک مقامی نجی تنظیم پجھرا کے ایک کارکن سٹیفن ایکا چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد کی بہتر زندگی کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ رین فارسٹ الائنس کا فراگ کا نشان ’لوگوں کی بہبود سے زیادہ چائے کی فروخت‘ سے متعلق ہے۔

رین فارسٹ الائنس کے ڈائریکٹر ایڈورڈ ملارڈ نے سرٹیفیکٹوں کے اجرا سے متعلق مسائل کو تسلیم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کیونکہ یہ جانچ ایک سالانہ طریقہ کار پر مبنی ہے اس لیے یہ مکمل طور پر صحیح نہیں ہو سکتی۔‘

انھوں نے تسلیم کیا کہ آسام میں رہائشی انتظامات ’مخصوص مسئلہ‘ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’رہائشی علاقوں میں سنجیدہ بنیادوں پر طویل مدتی بہتری لانا‘ ضروری ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر جانچ کرنے والوں کو بچوں سے غیر قانونی طور پر کام لینے یا کارکنوں کے بغیر حفاظتی آلات کے کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کرنے کے شواہد ملے تو ان باغات کے سرٹیفیکیٹ منسوخ کر دیے جائیں گے۔۔۔

چائے کی پیالی کے پیچھے دردناک کہانی - BBC News اردو
 

شمشاد

لائبریرین
بڑا زبردست مضمون شیئر کیا ہے سیما آپی آپ نے۔

مجھے حیرت ہے اس میں بنگلہ دیش اور سری لنکا کا ذکر ہی نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں تو چائے کی خاصی زیادہ کاشت ہوتی ہے۔ اور وہاں کے حالات بھی بعینہ یہی ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
بڑا زبردست مضمون شیئر کیا ہے سیما آپی آپ نے۔

مجھے حیرت ہے اس میں بنگلہ دیش اور سری لنکا کا ذکر ہی نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں تو چائے کی خاصی زیادہ کاشت ہوتی ہے۔ اور وہاں کے حالات بھی بعینہ یہی ہیں۔
ہاں حالانکہ بھیا بی بی سی بہت ریسرچ کے بعد کچھ لکھتا ہے ۔ہم نے بھی یہی سوچا تھا ۔دیکھیے کے ہماری ایک پیالی چائے کے پیچھے لوگوں کو کیا کیا دکھ بھوگنے پڑتے ہیں ۔۔۔اسی چیز نے ہمیں بڑا دُکھی کیا۔۔بڑے بڑے نام جیسے پی جی ٹپس، ٹیٹلی، اور ٹواننگس شامل ہیں۔اور مزے کی Twinnings کے علاوہ کسی کی چائے ہمیں پسند ہی نہیں۔۔۔وہ بھی فلیورڈ ٹی باقی تو سب بیکار زندہ باد اپنی پاکستانی ٹی آپ حیران ہونگیں میں لندن جاؤں میرے ساتھ اپنی پاکستانی چائے سنگاپور انڈونیشیا جاؤں تو میر ے ساتھ میری پاکستانی چائے۔:):) ہیں نا آپکی آپی سنکی۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
سنکی کیوں آپی؟ اپنی اپنی پسند ہے۔
یہاں پر پچاس قسم کی چائے ملتی ہیں، لیکن ہمیں یہاں لپٹن کی ییلو لیبل پسند ہے۔ ٹی بیگ بھی لاتےہیں لیکن زیادہ کھلی پتی استعمال کرتے ہیں۔
 
بہنا! ہم عرض کریں کہ "آپ کے کالم" زمرہ کاپی پیسٹ کے لیے نہیں ہے۔ اگر آپ اپنا طبعزاد کالم اس زمرے میں پیش کریں تو بہتر ہوگا۔ آپ ک یہ تمام کاپی پیسٹ کسی موزوں زمرے میں پیش فرمائیے ۔ سرِ دست آپ کے یہ کاپی پیسٹ کسی دوسرے زمرے میں منتقل کردئیے جائیں گے لیکن اگلی بار غلط زمرے میں پیش کیے ہوئے مضامین بادلِ ناخواستہ حذف کرنے پڑیں گے۔
 

سیما علی

لائبریرین
بہنا! ہم عرض کریں کہ "آپ کے کالم" زمرہ کاپی پیسٹ کے لیے نہیں ہے۔ اگر آپ اپنا طبعزاد کالم اس زمرے میں پیش کریں تو بہتر ہوگا۔ آپ ک یہ تمام کاپی پیسٹ کسی موزوں زمرے میں پیش فرمائیے ۔ سرِ دست آپ کے یہ کاپی پیسٹ کسی دوسرے زمرے میں منتقل کردئیے جائیں گے لیکن انگلی بار غلط زمرے میں پیش کیے ہوئے مضامین بادلِ ناخواستہ حذف کرنے پڑیں گے۔
اچھا بھیا بجا فرمایا آپ نے لیکن ہم نے پہلے بھی ہم نے شئیرنگ کئیے ہوئے دیکھے تھے آپ سے اجازت بھی لی سب سے پہلی مرتبہ تو پسندیدہ کالم زمرے میں۔ہوسکتا ہے پوسٹ ہم سے ٹھیک نہیں ہوتے آئندہ احتیاط کریں گے۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
بہنا! ہم عرض کریں کہ "آپ کے کالم" زمرہ کاپی پیسٹ کے لیے نہیں ہے۔ اگر آپ اپنا طبعزاد کالم اس زمرے میں پیش کریں تو بہتر ہوگا۔ آپ ک یہ تمام کاپی پیسٹ کسی موزوں زمرے میں پیش فرمائیے ۔ سرِ دست آپ کے یہ کاپی پیسٹ کسی دوسرے زمرے میں منتقل کردئیے جائیں گے لیکن اگلی بار غلط زمرے میں پیش کیے ہوئے مضامین بادلِ ناخواستہ حذف کرنے پڑیں گے۔
میں بھی یہی دیکھ کر آیا تھا کہ دیکھوں سیمآ جی کالم کس طرح کا لکھتی ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
میں بھی یہی دیکھ کر آیا تھا کہ دیکھوں سیمآ جی کالم کس طرح کا لکھتی ہیں
اُستاد محترم کیوں شرمندہ کرتے ہیں ۔۔ہم تو نالائق ہیں لکھنا پڑھنا کہاں آتا ہے ہم تو اِس پڑھے لکھوں کی محفل میں آپ کو پڑھنے آتے ہیں
 
Top